عبدالمتین منیری
جب ہمارے شعور کی کچھ آنکھیں کھلیں اور اردو پڑھنا آنے لگا تب جو چیزیں اُس وقت ہاتھ آئیں ان میں ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ کے پرانے پرچے بھی تھے، جو ہمارے اِس دنیا میں آنے سے پہلے شائع ہوئے تھے۔ ان پرچوں میں مختلف مضامین پر مولانا ابوالجلال ندوی کا نام نظر آتا۔ یہ مضامین غالباً اعلام القرآن پر ہوا کرتے تھے۔ انہیں پڑھ کر مولانا کی علمیت کا ایک رعب سا دل میں بیٹھ گیا۔ 1970ء میں جب اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے ہمارا الکلیۃ العربیۃ الجمالیۃ مدراس میں داخلہ ہوا جو جمالیہ عربک کالج کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے، تو وہاں اپنے مشفق استاد مولانا عبدالرافع نائطی باقوی مرحوم سے باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ مولانا ابوالجلال ندوی نے یہاں پر پرنسپل کی حیثیت سے خاصا عرصہ گزارا ہے، تب ہمارا سینہ جذبۂ تفخر سے بھر گیا کہ ایک ایسے تعلیمی ادارے سے ہماری نسبت ہے جہاں آپ جیسے عبقری عالم نے اپنی عمر کے بڑے قیمتی دن گزارے ہیں۔ ہمارے استاد، مولانا ابوالجلال کے علم و مطالعے میں غرق رہنے کے حالات بتاتے تھے، انہی سے ہم نے سنا کہ جب مولانا جمالیہ سے رخصت ہوکر گئے اور ان کا بستر صاف کیا گیا تو اس کے نیچے سانپ اور بچھو پائے گئے جو مدت سے اس میں سکونت اختیار کیے ہوئے تھے، لیکن انہوں نے آپ کو کبھی ایذا نہیں پہنچائی تھی۔ اسی زمانے میں مولانا کے ایک ملباری شاگرد اور عربی زبان کے ادیب و شاعر احمد فلکی جمالی کا قصیدہ نظر سے گزرا جس میں جمالیہ کے مفاخر میں علامہ فاروق چریاکوٹی کی روایتوں کے امین اپنے ان استاد گرامی قدر کا ذکر بڑے فخر سے کیا گیا تھا۔ لیکن پھر مولانا کے بقیدِ حیات ہونے یا نہ ہونے کی کوئی اطلاع عرصے تک نہیں ملی، یہاں تک کہ 1984ء میں جسارت کے ذریعے آپ کے اس دنیا سے دائمی سفر پر روانگی کی اطلاع ملی، اور رنج بھی ہوا کہ علامہ شبلی اور فراہی کے علوم کی امین یہ عظیم شخصیت اس دنیا سے اس خاموشی سے چلی گئی کہ ایک محدود حلقے کے سوا کسی کو پتا بھی نہ چلا کہ علم و تحقیق کا کتنا روشن سورج ہمیشہ کے لیے موت کی تاریکی میں چھپ گیا ہے۔ آخر پتا بھی کیسے چلتا، اتنے عظیم عالم کی تحقیقات میعادی مجلات کی فائلوں میں دب کر رہ گئی تھیں، ان کے نصیب میں دوبارہ کتابی شکل میں آنا نہیں لکھا تھا۔
مولانا کسی ادارے یا جماعت و تحریک سے وابستہ کہاں تھے؟ جو آپ کی پذیرائی کے اسباب ہوتے۔ اب مولانا کی رحلت پر بھی چونتیس سال کا عرصہ گزر گیا ہے، آپ کو جاننے والے بھی بھول بھال گئے ہیں، لیکن گزشتہ چند دنوں سے بعض تحریروں سے یہ بات معلوم ہونے لگی کہ اردو کے مایہ ادیب، کالم نگار و شاعر احمد حاطب صدیقی (ابونثر) آپ کے بھتیجے، اور فرائیڈے اسپیشل کے چیف ایڈیٹر یحییٰ بن زکریا صدیقی آپ کے بڑے نواسے ہیں۔ اور یہ دونوں اپنے بزرگوار کی زندگی کے نقوش اور آپ کے علمی ورثے کو منظرعام پر لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان پس ماندگان کی کوششیں مولانا کو علمی و تحقیقی دنیا میں زندہ و جاویداں کریں گی۔ مولانا کے ان عزیزوں کی کوششوں کا پہلا قطرہ احمد حاطب صدیقی کی کتاب ’’مولانا ابوالجلال ندوی۔ دیدہ و شنیدہ و خواندہ‘‘ کی شکل میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی سے منظرعام پر آئی ہے، جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔
مؤرخ ہند مولانا عبدالحئی حسنی علیہ الرحمۃ نے اپنے سفرنامہ گجرات (یادِ ایام) میں برصغیر میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ میں گزرنے والی عظیم ترین علمی شخصیت اور مقبول ترین بزرگ مخدوم فقیہ علاء الدین علی مہایمی نائطی کے بارے میں ان الفاظ میں تاثرات بیان کیے ہیں:
’’شیخ علاء الدین علی ابن احمد المہایمیؒ گجرات کے لیے سرمایۂ ناز ہیں اور میرے نزدیک ہندوستان کے ہزار سالہ دور میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے سوا حقائق نگاری میں ان کی کوئی نظیر نہیں، مگر ان کی نسبت یہ معلوم نہیں کہ وہ کس کے شاگرد تھے، کس کے مرید تھے، اور مراحلِ زندگی انہوں نے کیونکر طے کیے تھے۔ جو تصنیفات اُن کی پیشِ نظر ہیں ان کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایسا شخص جس کو ابنِ عربی ثانی کہنا زیبا ہے، وہ کسمپرسی کی حالت میں ہے، کہیں اور ان کا وجود ہوا ہوتا تو ان کی سیرت پر کتنی کتابیں لکھی جاچکی ہوتیں، اور کس پُرفخر لہجے میں مؤرخین ان کی داستانوں کو دہراتے۔‘‘ (یادِ ایام۔ ص :59)
احمد حاطب صدیقی کی کتاب دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ مولانا ابوالجلال مرحوم پر بھی ایسی ہی کوئی بات صادق آتی ہے۔
احمد حاطب کی کتاب احسان شناسی کا ایک مظہر ہے، یہ عام معنوں میں کوئی سوانح عمری نہیں ہے، لیکن اس کے مؤثر انداز نے مزید سوچنے اور تحقیق کرنے کی راہیں کھول دی ہیں، اس نے آئندہ اِس موضوع پر تحقیق کرنے والے کا کام آسان کردیا ہے۔ احمد حاطب نے معلومات کے جو موتی چُنے ہیں، انہیں پروکر قیمتی ہار تیار کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کو دیکھ کر یہ احساس ابھرتا ہے کہ مصنف کتاب علمی امانت کا ایک بھاری بوجھ گزشتہ چالیس برسوں سے اپنے کاندھوں پر لادے ہوئے تھے، اب انہوں نے امانت کا یہ بوجھ اپنے کندھوں سے ہٹاکر آنے والی نسلوں کے کاندھوں پر ڈال دیا ہے، مصنف کے یہ الفاظ اس کے مصداق ہیں:
’’یہ عاجز اب ان گنے چنے باقی ماندہ افراد میں سے ایک ہے، جنہوں نے مولانا ابوالجلال ندوی کو دیکھا، ان کو سنا، ان کے متعلق دوسروں سے سنا، خود انہیں پڑھا اور ان سے متعلق دوسروں کا لکھا ہوا بھی پڑھ لیا، بس یہی سبب اس کتاب کے نام کا سبب بھی بن گیا: مولانا ابوالجلال ندوی : دیدہ و شنیدہ و خواندہ‘‘
مصنف نے مشرقی یوپی کے مردم خیز علاقوں جونپور، چریا کوٹ، محی الدین پور، اعظم گڑھ وغیرہ میں آج سے ایک صدی قبل کے علمی منظرنامے پر خوب روشنی ڈالی ہے، آپ نے خاندانی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اُس فرزند کی نسل سے ہیں جو ہجرتِ مدینہ کے دوران غارِ ثور میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پناہ لینے اور یہاں پر ایک سانپ کے ڈسنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لعابِ دہن سے شفایابی کے مشہور واقعہ کے بعد پیدا ہوئے، اور یہ بعدالغاری صدیقی کہلاتے ہیں، اور ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ان پر سانپ کے ڈسے کا اثر نہیں ہوتا، اس کا چشم دید واقعہ نصف صدی پیشتر مولانا عبدالرفع باقوی مرحوم نے ہمیں بتایا تھا۔
مصنف نے اُس وقت کے دارالمصنفین کے ذکر میں بعض تلخ حقیقتوں کی نشاندہی کی ہے، جن تنگ دستیوں میں اس ادارے سے وابستہ محققین اور مصنفین نے اپنا خون جلایا ہے اس کی جانب اشارے بھی کیے ہیں، انہیں جان کر دکھ ہوتا ہے۔ ہمارے محدود علم کی حد تک ان حالات میں بہت زیادہ فرق اب بھی نہیں آیا ہے، دارالمصنفین کے مادی حالات اب بھی وہی ہیں جن کا تذکرہ مصنف نے کیا ہے۔ مولانا کوثر نیازی کی کوششوں سے اگر پاکستان سے رائلٹی کی مد میں پندرہ لاکھ روپئے مل بھی گئے تھے تو ادارے میں کتابوں کی چھپائی اور اس پر آنے والے اخراجات کے سامنے یہ مبلغ اونٹ کے منہ میں زیرہ کی حیثیت رکھتا ہے، باوجود اس کے اس میں دو رائے نہیں کہ نیازی مرحوم کی کوششیں ان شاء اللہ آپ کے لیے توشۂ آخرت بنیں گی۔
یہ خواہش ظاہر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کتاب کو اور مفصل ہونا چاہیے تھا، بعض مزید ضروری معلومات اس میں ہونی چاہیے تھیں، لیکن پھول نہیں تو پنکھڑی ہی سہی۔ ہمیں مولانا کے نواسے یحییٰ بن زکریا صدیقی کی محنتوں کے نتیجے میں منظرعام پرآنے والے مولانا کے علمی آثار کے مجموعے کا انتظار ہے۔
ہماری ناقص رائے ہے کہ مخدوم مہایمی علیہ الرحمۃ کے تعلق سے تاریخ میں جو کوتاہی ہوئی، اس کی بنیادی وجہ آپ کا جنوبی ہند سے ہونا ہے، اور مولانا ابوالجلال صاحب سے بھی بے اعتنائی کا بنیادی سبب آپ کی زندگی کے زیادہ تر ایام کا مدراس (چنئی) میں گزرنا ہے، جس کی ایک وجہ یہاں کے علمی پس منظر کے بارے میں معلومات کی کمی بھی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا جس طرح مشرقی یورپ کے علمی منظرنامے کا تذکرہ ہوا، آپ کے مدراس کے احباب سے مصنف سرسری گزر گئے ہیں۔ کچھ یہی حال مولانا پر شاہ محی الحق فاروقی کے خاکے کا بھی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ تفصیلات سامنے آنی چاہیے تھیں، تاکہ معلوم ہوسکے کہ مولانا ابوالجلال صاحب نے جب مدراس کو منتخب کیا تھا، تو سامنے صرف کشادگیٔ معاش نہیں تھی، بلکہ مدراس کا علمی ماحول آپ کے مزاج کے لیے کتنا سازگار تھا؟ چونکہ اس ناچیز نے مدراس (چنئی) کی اس تلچھٹ کو پایا ہے جو مولانا ابوالجلال مرحوم ہمارے وہاں جانے سے بیس پچیس سال پہلے چھوڑ گئے تھے، اور وہ شخصیات جنہیں آپ نے عنفوانِ شباب میں برتا تھا اُن میں سے کئی ایک ہمارے زمانۂ طالب علمی میں پیرانہ سالی کے دور سے گزر رہی تھیں، برسبیل تذکرہ سرسری طور پر ان کا بھی کچھ تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
جمالیہ عربک کالج کو 1898ء میں ترچناپلی کے ایک صاحبِ خیر تاجر جمال محی الدین نے قائم کیا تھا، اور انہی کے قائم کردہ وقف سے یہ ادارہ چلتا تھا۔ اس کے لیے چندہ نہیں ہوتا تھا۔ جمالیہ کے علاوہ مدراس کی سب سے بڑی جامع مسجد پیریمیٹ آپ کی یادگار ہے۔
آپ کے فرزند جمال محمد نے ملّی خدمت میں بڑا نام کمایا۔ مدراس میں جمال محمد ہائی اسکول اور ترچناپلی میں جمال محمد کالج آپ کی یادگاریں ہیں۔
حکیم اجمل خان آپ کے خاص دوستوں میں تھے، جامعہ ملیہ کے کام سے ڈاکٹر ذاکرحسین کو خاص طور پر انہوں نے آپ کے پاس بھیجا تھا، علامہ سید سلیمان ندوی اور علامہ اقبال کے مدراس کے خطبات کے اصل محرک آپ ہی تھے، دارالعلوم ندوۃ العلماء میں آپ کا تعمیر کردہ جمالیہ ہال آج بھی موجود ہے۔ اس خاندان کی 1918ء سے مسلم لیگ سے وابستگی رہی، تقسیم ہند کے بعد قائم شدہ انڈین یونین مسلم لیگ کے پہلے صدر قائدِ ملّت محمد اسماعیل مرحوم آپ کے داماد تھے، اسی طرح آپ کے فرزند جمال محی الدین آزادی کے بعد مسلم لیگ سے رکن پارلمنٹ رہے، اول الذکر کے احترام کا یہ عالم تھا کہ پارلیمانی الیکشن کے موقع پر وہ کبھی اپنے حلقے میں ووٹ مانگنے نہیں جاتے تھے، اس کا تذکرہ آصف جیلانی نے جسارت کے اپنے ایک کالم میں بھی تفصیل سے کیا ہے۔ آپ کے ایک فرزند جمال احمد انگریزی زبان کے شاعر، چوتھے فرزند جمال حسین مدراس ہائی کورٹ کے جج تھے۔ جمال محمد کا شمار مدراس کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔ آپ کے زمانے میں جمالیہ کو وسعت ملی۔ یہ گزشتہ تیس سال قبل تک برصغیر کی واحد دینی درسگاہ تھی جہاں پر ذریعہ تعلیم عربی تھا۔ دیکھا گیا ہے کہ اس قسم کے خاندانی ادارے ان کے قائم کرنے والوں کے معاشی حالات بدلنے کے بعد زیادہ دیر اپنی حالت میں نہیں رہتے، جمالیہ کے ساتھ بھی یہی ہوا، جب ہمارا یہاں پر داخلہ ہوا تھا تو اس کا دورِ زوال شروع ہوچکا تھا، لیکن اس کا بھرم ابھی باقی تھا۔ ہندوستان سے مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کی تیاری سے قبل عمر آباد وغیرہ بڑے تعلیمی اداروں کے فارغین یہاں عربی زبان کا معیار بہتر کرنے کے لیے آتے تھے۔ ہمارے زمانے میں یہاں پر اکثریت ملائشیا، انڈونیشیا، سری لنکا، تھائی لینڈ کے طلبہ کی تھی، چند ایک طالب علم بوسنہ (بوسنیا ہرزیگووینا) کے بھی تھے جو اُس وقت یوگوسلاویہ کا حصہ تھا۔ اول الذکر ممالک میں جمالیہ کی سند کو بڑے وقار کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ جمال محمد ساتھ ساتھ اچھا علمی ذوق بھی رکھتے تھے، امپورٹ ایکسپورٹ کی سہولت اور مدراس کی بندرگاہ کی اہمیت کے پیش نظر آپ کو لبنان اور مصر سے کتابیں منگوانے کی جو سہولت حاصل تھی اُس زمانے میں ایسی سہولت کم ہی لوگوں کو رہی ہوگی۔ جمال محمد مرحوم نے بیرونی ممالک سے خوب نئی نئی کتابیں منگوائیں۔ مدتِ دراز کے بعد وہاں پر ہمیں بھی جو کتابیں ملیں ویسی کتابیں بعد میں کہیں اور پڑھنے کو نہیں مل سکیں۔ ہمارا خیال ہے کہ سرسید احمد خان نے جس طرح علامہ شبلی پر باہر کی نادر کتابوں تک رسائی آسان کی تھی، کچھ یہی کیفیت جمال محمد کی مولانا ابوالجلال کے ساتھ رہی ہوگی۔ جمالیہ اسی وجہ سے مولانا کے پاؤں کی بیڑی بنا رہا۔
ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے ساتھ شہر مدراس علمِ جدید کا گہوارہ رہا ہے۔ انگریزی زبان کا چلن یہاں پر سب سے زیادہ عام تھا۔ 1970ء کی دہائی تک جب کہ یہاں ہندی اور تامل کا جھگڑا شروع نہیں ہوا تھا، اور تامل قوم پرست تحریک حاوی نہیں ہوئی تھی، مشہور تھا کہ یہاں کا تانگہ اور رکشا چلانے والا بھی انگریزی فرفر بولتا ہے، لہٰذا یہاں کی یہ خصوصیت رہی کہ دوسرے علاقوں کے مقابلے میں جدید و قدیم پر یکساں عبور رکھنے والے علماء یہاں پر بہ نسبت دوسرے شہروں کے، زیادہ پائے گئے۔ جمالیہ کو ساٹھ ستّر سال تک مسلسل یہ شرف حاصل رہا کہ اسے ایک ساتھ فصیح انگریزی اور عربی بولنے والے پرنسپل نصیب ہوئے۔ یہاں کے مشہور پرنسپلوں میں ہمارے استاد مولانا عبدالوہاب بخاری تھے جو مدراس کے باوقار پریسیڈنسی کالج میں شعبۂ تاریخ کے صدر رہے، آپ کا شمار مسلمانوں کے بڑے عصری تعلیمی اداروں میں سے ایک ’نیو کالج مدراس‘ کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ مولانا ابوالجلال صاحب کے جانے کے بعد یہی یہاں کے پرنسپل بنے تھے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے آپ کے بارے میں لکھا تھا کہ آپ مسلمانوں میں انگریزی زبان کے سب سے بڑے مقرر ہیں، اور یہ بھی لکھا کہ ڈاکٹر عبدالحق کرنولی جنوب کے سرسید ہیں تو مولانا بخاری محسن الملک۔ یہ دونوں یارِ غار تھے، ڈاکٹر عبدالحق علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ آکسفورڈ کے سند یافتہ تھے۔ عربی، اردو، انگریزی پر یکساں عبور تھا۔ فسانہ آزاد کی پوری جلدیں پڑھ ڈالی تھیں۔ زیر تبصرہ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا مولانا ابوالجلال کے علم پر بڑا اعتماد تھا۔ یہاں کے ایک اور پرنسپل ہمارے استاد مولانا محمد حسین بنگلوری مرحوم بھی تھے، دینی علوم میں فضیلت کے بعد آزادی سے قبل پریسیڈنسی کالج سے قانون میں ماسٹر ڈگری ایل ایل ایم حاصل کی تھی۔ اسلامیہ کالج کرنول میں عرصے تک پرنسپل رہے۔ فقہ اور اصول کے امام تھے۔ پروفیسر یوسف کوکن عمری کے بعد جمالیہ بجھ سا گیا۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ مرحوم کا شمار بھی ایک لحاظ سے مدراس والوں میں ہونا چاہیے، ان کے والد مولانا خلیل اللہ مدراس ہی سے حیدرآباد گئے تھے، آپ کے تایا زاد مولانا قاضی حبیب اللہ مرحوم کا تذکرہ مصنف نے کیا ہے، یہ مدراس کے چیف قاضی تھے، آپ اردو کے اوّلین سیرت نگار قاضی بدر الدولہ کے پوتے اور ڈاکٹر صاحب کے تایا زاد بھائی تھے، زہد و تقویٰ کی ایسی مثالیں اب شاید ہی دیکھنے کو ملیں۔ اس خانوادے میں گزشتہ پچیس پشتوں سے علم و قضاء چلا آرہا ہے، شہنشاہ جہانگیر سے اب تک کے بادشاہوں اور فرماں رواؤں کے فرامین اس خاندان میں محفوظ چلے آرہے ہیں۔ اس خانوادے کا کتب خانہ سعیدیہ حیدرآباد، اور کتب خانہ محمدیہ مدراس دنیا کے بڑے قلمی کتب خانوں میں شمار ہوتے ہیں، اور اتنی نسلوں تک جاری ایسے کسی اور علمی خانوادے کی دوسری مثال برصغیر میں شاید ہی ملے۔
مولانا ابوالجلال صاحب نے سید سلطان بہمنی اور نذیر احمد شاکر کے ساتھ روزنامہ ’’مسلمان‘‘ 1927ء میں جاری کیا تھا، اس پر نوّے سال گزر چکے ہیں، اور آج بھی جاری و ساری ہے۔ یہ اِس وقت اردو زبان کا سب سے قدیم اخبار ہے، اور پوری دنیا میں ہاتھ کی کتابت سے جاری واحد اخبار۔ مصنف نے مونٹ روڈ پر واقع دربار ہوٹل کا تذکرہ کیا ہے، اس زمانے میں ہمارے بھٹکل کے تاجروں کی ہوٹل اور مدراسی لنگیوں کے کاروبار میں بڑی دھاک تھی۔ چونکہ یہ حضرات اردو سلاست سے بولتے تھے، تو مدراس،کیرالا، آندھرا وغیرہ میں شمالی ہند سے آنے والے اہلِ علم اِن سے جلد مانوس ہوتے اور اپنائیت محسوس کرتے تھے، اِن کے ہوٹل اُن کے بیٹھنے اٹھنے کے مرکز ہوا کرتے تھے۔ دربار ہوٹل جہاں واقع تھا، یہاں سے مدراس میں اردو بولنے والوں کا علاقہ ٹریپلیکن شروع ہوتا تھا، مسلمان اخبار کا دفتر قریب ہی میں واقع تھا، ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے خانوادے کا دیوان باغ، شاہی والاجاہی مسجد، شاہی محل وغیرہ یہیں اڑوس پڑوس میں واقع تھے، لہذا ہمارا گمان غالب ہے کہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ سے آپ کا تعارف ابتدائی زمانے ہی کا ہے۔
سیٹھ یعقوب حسن جن کا ذکر کتاب میں آیا ہے، اصل ناگپور کے تھے، لیکن مدراس میں ان کا کاروبار تھا۔ مسلم لیگ کے ابتدائی لوگوں میں تھے۔ آزادی سے قبل پہلی مقامی کیبنٹ میں راج گوپال اچاریہ جی کی وزارتِ عُلیا کے دور میں وزیر بھی رہے۔ اپنی ’’کتاب الہدیٰ‘‘ کی وجہ سے بھی پڑھے لکھے حلقے میں معروف رہے۔ جمالیہ کے پڑوس ہی میں ان کی کوٹھی تھی۔ ’’کتاب الہدیٰ‘‘ کی تصنیف میں مولانا ابوالجلال صاحب کی کاوش ہی زیادہ کارفرما تھی، اس کا بہت ہی اعلیٰ اور بھاری بھرکم ایڈیشن آج بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے۔
ٓآخر میں یہ تذکرہ کہ جمالیہ اور جمال محمد کی اولاد جمال محی الدین وغیرہ کے مکانات کی قطار کے درمیان جو میدان تھا وہیں پر متحدہ ہندوستان میں جماعت اسلامی کا آخری اجتماع ہوا تھا، بانی جماعت کا آخری دردمندانہ اور تاریخی خطاب یہیں ہوا تھا۔
احمد حاطب صدیقی نے اپنی اس کتاب کے ذریعے بھولی بسری اپنے دور کی ایک عبقری شخصیت کو نئی زندگی دی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے قلم میں اور برکت دے، ان کی تر و تازہ تحریروں سے اسی طرح فراموش شدہ شخصیات زندگی پاتی رہیں تو اس سے فرضِ کفایہ تو ضرور ادا ہوگا۔