ابوسعدی
ایک بیوہ رئیس زادی کی دو کنیزیں تھیں جن سے وہ گھر کا کام لیتی تھی۔ یہ دونوں کنیزیں سست، کاہل اور کام چور تھیں۔ انہیں کام کرنے سے سخت نفرت تھی۔ خاص طور پر صبح سویرے اٹھنا تو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔
ان کی مالکہ انہیں مرغ کی اذان پر جگا دیتی کہ اٹھو صبح ہوگئی ہے، گھر کا کام کرو۔ ادھر مرغ کی اذان کا کیا، وہ تو آدھی رات گئے ہی اذان دینے لگتا۔
دونوں کنیزوں نے تنگ آکر مرغ کو جان سے مار دینے کا فیصلہ کیا، کہ نہ یہ ہوگا نہ اذان دے گا اور وہ دن چڑھے تک مزے کی نیند سوئیں گی۔ ایک دن دونوں کنیزوں نے مالکہ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرغ کو پکڑ کر مار ڈالا اور ایک جگہ دبا دیا۔ اب ہوا یہ کہ مرغ کے نہ ہونے سے بیوہ کو وقت کا اندازہ ہی نہ رہا۔ وہ کنیزوں کی جان کھانے لگی اور انہیں نصف شب کو جگانے لگی۔
حاصل کلام
غیر ضروری چالاکی اور ہوشیاری کا نتیجہ ہمیشہ تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ (حکایتِ سعدی)
اکبر کے تعلیمی افکار:
1857ء کی جنگ آزادی نے مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کو اس فیصلے کی طرف بھی متوجہ کیا کہ ایسا تعلیمی نصاب بناکر ہندوستان میں رائج کیا جائے جو مسلمانوں کو دوبارہ حکومت اور انگریزی سرکار کے خلاف سوچنے سے باز رکھے۔ اس لیے انگریزوں نے تمام ہندوستانیوں کو تعلیم دینے کی ذمے داری بھی لی۔ اس کے پس پردہ درج ذیل اہم مقاصد تھے:
1۔ جدید فلسفہ اور سائنسی علوم کی اتنی ترویج کریں کہ لوگ پرانی روایات خصوصاً مذہبی روایات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔
2۔ہندوستان میں انگریزی طرزِ معاشرت کی تقلید پر کٹ مرنے والا ایک گروہ خود مسلمانوں کے درمیان پیدا کیا جائے۔
3۔ انگریز حکومت کے لیے کم تنخواہ پر کام کرنے والے افراد پیدا ہوں تاکہ انگلستان سے ملازمین زیادہ تنخواہ دے کر نہ منگوانے پڑیں۔
4۔ برطانوی تہذیب اور معاشرت کو شعوری طور پر فروغ دینے اور اس کو ترقی و خوشحالی کی علامت قرار دینے والا ایک گروہ پیدا ہو۔
بشکریہ: سہ ماہی ’’پیغام آشنا‘‘ اسلام آباد۔ شمارہ: جولائی تا ستمبر2006ء
بازو کٹ گیا
نظام الملک آصف جاہ میر قمر الدین خاں کے دادا خواجہ عابد قلیج خاں بیدر (دکن) کے صوبے دار (گورنر) تھے۔ 1687ء میں جب قلعہ گول کنڈہ کا محاصرہ کیا گیا تو قلیج خاں کے شانے پر تیر لگا اور ہاتھ الگ ہوگیا، قلیج خاں ایسی سخت چوٹ اور ہاتھ کٹ جانے کے باوجود گھوڑے پر ہی بیٹھے رہے اور اسی حالت میں فرودگاہ پر آئے، وزیراعظم (حجۃ الملک اسد خاں) کو خبر ہوئی۔ آپ ان کی عیادت کو پہنچے، دیکھا کہ جراح ان کے کٹے ہوئے بازو سے ہڈی کی کرچیاں چن رہا ہے اور وہ اطمینان سے بیٹھے ہوئے لوگوں سے باتیں کررہے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے قہوہ پی رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ’’جراح خوب ملا ہے۔‘‘ (مآثر المراء، ص 107۔ بحوالہ کشکول برکاتی صفحہ 71)
تشکیلِ جماعت اور مولانا مودودیؒ کی تاریخی تقریر
’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے حصہ سوم اور پھر ترجمان القرآن کی اشاعتوں میں جس جماعت کی ضرورت ظاہر کی گئی تھی اور پھر عامۃ الناس کو دعوت دی گئی تھی کہ جو لوگ اس نظریے کو قبول کرکے اس طرز پر عمل کرنا چاہتے ہوں، دفتر کو مطلع کریں۔ پرچہ چھپنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد اطلاعات آنی شروع ہوگئیں اور معلوم ہوا کہ ملک میں ایسے آدمیوں کی خاصی تعداد موجود ہے جو جماعت ِ اسلامی کی تشکیل اور اس کے قیام و بقا کے لیے جدوجہد کرنے پر تیار ہیں۔ اس غرض کے لیے یکم شعبان 1360ھ (25 اگست 1941ء) اجتماع کی تاریخ مقرر ہوئی۔ شرکائے اجتماع کی کُل تعداد 75 تھی۔ 2 شعبان آٹھ بجے صبح دفتر کے ایوان میں پہلا اجتماع ہوا۔ مولانا مودودیؒ نے فرمایا:
’’ایک وقت تھا کہ میں روایتی اور نسلی مسلمانیت کا قائل اور اس پر عمل پیرا تھا۔ جب ہوش آیا تو محسوس ہوا کہ اس طرح کی پیروی ایک بے معنی چیز ہے۔ آخرکار کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا، اور اسلام کو ازسرنو سمجھا اور اس پر ایمان لایا۔ پھر آہستہ آہستہ اسلام کے مجموعی اور تفصیلی نظام کو سمجھنے اور معلوم کرنے کی کوشش کی۔ جب اللہ تعالیٰ نے قلب کو اس طرف سے مطمئن کردیا تو جس پر میں خود ایمان لایا تھا، اس کی طرف دوسروں کو دعوت دینے کا سلسلہ شروع کیا اور اس مقصد کے لیے ترجمان القرآن جاری کیا۔ ابتدائی چند سال الجھنوں کو صاف کرنے اور دین کا ایک واضح تصور پیش کرنے میں صرف ہوئے۔ اس کے بعد دین کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کرنے کے لیے پیش قدمی شروع کی۔ ادارہ ’دارالاسلام‘ کا قیام اس سلسلے کا پہلا قدم تھا۔ اُس وقت صرف چار رفیقِ کار بنے۔ اس چھوٹی سی ابتدا کو اُس وقت حقیر سمجھا گیا مگر الحمدللہ کہ ہم بددل نہ ہوئے اور اسلامی تحریک کی طرف دعوت دینے اور اس تحریک کے لیے نظری حیثیت سے ذہن ہموار کرنے کا کام لگاتار کرتے چلے گئے۔ اس دوران میں ایک ایک دو دو کرکے رفقا کی تعداد بڑھتی رہی، ملک کے مختلف حصوں میں ہم خیال لوگوں کے چھوٹے چھوٹے حلقے بھی بنتے رہے، اور لٹریچر کی اشاعت کے ساتھ ساتھ زبانی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ آخرکار تحریک کے اثرات کا گہرا جائز لینے کے بعد محسوس ہوا کہ اب جماعت اسلامی کی تاسیس اور تحریک اسلامی کو منظم طور پر اٹھانے کے لیے زمین تیار ہوچکی ہے اور یہ وقت دوسرا قدم اٹھانے کے لیے موزوں ترین وقت ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر یہ اجتماع منعقد کیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی کے لیے دنیا میں کرنے کا جو کام ہے اس کا کوئی محدود تصور اپنے ذہن میں قائم نہ کیجیے۔ دراصل اس کے لیے کام کا کوئی ایک ہی میدان نہیں ہے بلکہ پوری انسانی زندگی اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے دائرۂ عمل میں آتی ہے۔ اسلام تمام انسانوں کے لیے ہے اور ہر چیز جس کا انسان سے کوئی تعلق ہے اس کا اسلام سے بھی تعلق ہے۔ یہاں ہر انسان کے لیے کام موجود ہے، کوئی انسان بیکار نہیں ہے۔ عورت، مرد، بوڑھا، جوان، دیہاتی، شہری، کسان، مزدور، تاجر، ملازم، مقرر، محرر، ادیب، اَن پڑھ اور فاضلِ اجل سب یکساں کارآمد اور یکساں مفید ہوسکتے ہیں بشرطیکہ وہ جان بوجھ کر اسلام کے عقیدے کو اختیار کرلیں اور اس کے مطابق عمل کرنے کا فیصلہ کرلیں اور اس مقصد کو، جسے اسلام نے مسلمان کا نصب العین قرار دیا ہے، اپنی زندگی کا مقصد بناکر کام کرنے پر تیار ہوجائیں۔ البتہ یہ بات ہر اُس شخص کو جو جماعت اسلامی میں آئے، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیش نظر ہے وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظامِ زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت ہر چیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظامِ حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے، اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے اور اس کام پر تمام شیطانی قوتوں سے اس کی جنگ ہے۔ اس کو اگر کوئی ہلکا کام سمجھ کر آئے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔ اس لیے ہر شخص کو قدم آگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خارزار میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں۔ جو قدم بڑھائو، اس عزم کے ساتھ بڑھائو کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنے اندر ذرا بھی کمزوری محسوس کرتا ہے، بہتر ہے کہ وہ اسی وقت رک جائے۔‘‘
[تحریک اسلامی: ایک تاریخ ایک داستان۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی نگارشات پر مبنی تحریکی رپورتاژ]