تحریکِ آزادی کے 88 سالہ راہنما سید علی گیلانی اس وقت وادیٔ کشمیر کے مقبول ترین لیڈر شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی مقبولیت کا گراف 2000ء کی دہائی میں اُس وقت اچانک بلند ہونا شروع ہوا جب انہوں نے امریکی دبائو پر پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہونے والے ’’پیس پروسس‘‘ میں پیشگی ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے بغیر شامل ہونے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ بھارت اشارتاً ہی سہی جب تک کشمیر کو متنازع تسلیم نہیں کرتا، حالات اور زمینی حقائق میں تبدیلی ممکن نہیں۔ حریت کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ان کے قدآور ساتھیوں کی اکثریت ’’پیس پروسس‘‘ کے نام سے اس مشق کا حصہ بن گئی، اور یوں سید علی گیلانی بظاہر تنہا رہ گئے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب وادیٔ کشمیر میں سیاسی قیادت اور دانشور حلقوں میں جنرل پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کا چرچا تھا، اور اس فارمولے کو امید کی ایک کرن کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ سید علی گیلانی رجائیت کے اس طوفان کی لہروں کے اُلٹے رخ تیر رہے تھے۔ اسی معاملے پر جنرل پرویزمشرف کے ساتھ دہلی میں اُن کی ایک ملاقات بہت ناخوش گوار انجام کو پہنچی تھی۔ سید علی گیلانی کا خیال صحیح ثابت ہوا۔ اسلام آباد، دہلی، لاہور اور امرتسر کے ہوٹلوں میں سیمیناروں اور مشترکہ محفلوں کی حد تک پیس پروسس پورے عروج پر رہا مگر جس سرزمین کے نام پر امن کا یہ کھیل شروع کیا گیا تھا اور جسے امن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، وہ اس کے حقیقی ثمرات سے محروم رہی۔ امن عمل شروع ہونے کے باوجود وادی میں بھارتی فوج کا جبر، جمائو اور دبائو کسی طور کم نہیں ہوا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پوری رفتار سے جاری رہیں اور وادی کے طول و عرض میں روز لاشے اُٹھتے رہے، جس سے نوجوان طبقے کا اس پیس پروسس سے اعتماد اُٹھتا چلا گیا۔ سید علی گیلانی نے امن کے عالمی کارواں کا حصہ بننے کے بجائے وادی کے زخمی دل اور پُرنم آنکھوں کے حامل لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا راستہ اپنایا۔ وہ شہد ا کے جنازوں میں شریک ہوکر لوگوں کا غم بانٹنے لگے اور پیس پروسس کو ہدفِ تنقید بناتے رہے۔ وادی کے آمادۂ بغاوت نوجوان، علی گیلانی کی آواز کو اپنا سمجھ کر اس کا ساتھ دینے لگے، اور یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ نوجوانوں میں ان کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ وادی میں نبضِ زندگی پر ان کا ہاتھ آگیا، ان کی اپیل پر زندگی بند بھی ہوتی رہی اور رواں بھی۔ ان کے گھر کے باہر ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوکر ان کا خطاب سنتے رہے، اور ان میں ننانوے فیصد شرکاء نوجوان ہوتے۔ سید علی گیلانی کی مقبولیت درحقیقت ان کے مؤقف کی پذیرائی تھی۔ یہ وادی میں نسل در نسل منتقل ہونے والا مؤقف ہے۔ پیرانہ سالی اور عارضوں نے سید علی گیلانی کو مضمحل کرنا شروع کررکھا تھا مگر ان کے لہجے کی گھن گرج کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جارہی تھی۔ بعد میں یہی حالات وادی میں مقبول مزاحمانہ تحریکوں کی بنیاد بنتے چلے گئے۔
بھارت نے آٹھ برس قبل سید علی گیلانی کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کرکے انہیں گھر میں نظربند کردیا۔ انہیں قریبی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی تھی۔ ان کی بے پناہ عوامی مقبولیت، ڈھلتی ہوئی عمر اورگرتی ہوئی صحت کے تناظر میں یہ سوال برسوں سے سوشل میڈیا میں موضوعِ بحث رہا کہ سید علی گیلانی کا جانشین کون ہوگا؟ اس حوالے سے کئی نام زیر بحث رہے جن میں کچھ سرگرم سیاسی کارکنوں اور خود سید علی گیلانی کے قریبی عزیزوں کے نام بھی شامل تھے۔ آخرکار سید علی گیلانی نے برسوں سے قائم تجسس کی اس دبیر تہ میں پہلا چھید یوں کیا کہ اپنی جماعت تحریک حریت کشمیر کی مجلس شوریٰ کے اہم اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پارٹی کی سربراہی سے مستعفی ہونے اور اپنے دستِ راست 72سالہ محمد اشرف خان صحرائی کو قائم مقام صدر مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ یوں کشمیر کی تحریکِ آزادی میں صفِ اوّل کے کسی راہنما نے پہلی بار قیادت چھوڑ کر اپنے جانشین کے حوالے کی۔ سید علی گیلانی نے اعلان کیا کہ مسلسل نظربندی کی وجہ سے وہ عوام اور پارٹی کارکنوں سے رابطہ قائم نہیں کرسکتے جس کا اثر پارٹی کی کارکردگی پر بھی پڑتا ہے۔ پارٹی میں عملی شرکت کے بغیر اتنا بڑا عہدہ اپنے پاس رکھنا بددیانتی ہوتا، کیونکہ یہ محض عہدہ نہیں بلکہ ضمیر بھی ہے۔ آج میں نے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے، پارٹی کو متبادل قیادت کا بندوبست کرنا ہوگا۔
کشمیر کے حسین نظاروں کی وادیٔ لولاب ٹکی پورہ سے تعلق رکھنے والے اشرف صحرائی کے آباو اجداد کا تعلق خیبرپختون خوا سے ہے، وہ کشمیر کی سیاست میں ایک شعلہ بیان اور پُرعزم سیاسی راہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اشرف صحرائی 2004ء سے تحریک حریت کشمیر کے سیکرٹری جنرل چلے آرہے ہیں۔ سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی تحریک حریت کشمیر کے قیام تک جماعت اسلامی کی صفِ اوّل اور عقابی صفت قیادت میں شمار ہوتے رہے ہیں۔ اشرف صحرائی1965ء میں بائیس سال کی عمر میں پہلی بار جیل گئے اور چھے ماہ تک سری نگر سینٹرل جیل میں قید رہے۔ اُس کے بعد سے جیل آنا جانا اُن کا معمول بن گیا۔ اشرف صحرائی نے 1975ء میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کشمیر کے مقبول سیاسی راہنما شیخ عبداللہ کے مقابلے میں اس مؤقف کے ساتھ الیکشن لڑا کہ وہ یہ تاثر دور کرنا چاہتے ہیں کہ شیخ عبداللہ کو چیلنج کرنے کی ہمت کسی میں نہیں۔
سید علی گیلانی کے جانشین کا فیصلہ تو انتخاب کے بعد ہوگا، مگر گمان غالب ہے کہ اشرف صحرائی ہی اُن کے مستقل جانشین ہوں گے۔ اشرف صحرائی کی صورت میں سید علی گیلانی نے قیادت کی باگیں ایک جرأت مند اور پُرعزم راہنما کو منتقل کی ہیں۔ بھارت کے اخبارات’’دی اکنامک ٹائمز‘‘ اور ’’انڈین ایکسپریس‘‘کے مطابق اشرف صحرائی بعض معاملات میں سید علی گیلانی سے زیادہ سخت گیر ہیں۔