قومی اور صوبائی اسمبلی کی نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کا سلسلہ محکمۂ شماریات کی جانب سے پہلے مردم شماری کے نتائج کے اجراء میں تاخیر اور بعد ازاں مردم شماری پر سامنے آنے والے اعتراضات کے ساتھ ہی سامنے آنا شروع ہوگیا تھا۔ اس ضمن میں اب جہاں نئی حلقہ بندیوں کی تقسیم پر تنقید کی جارہی ہے وہیں اس کی ٹائمنگ بھی پورے ملک کی سطح پر زیربحث ہے۔ الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کا کام ایسے موقع پر شروع کیا ہے جب عام انتخابات سر پر کھڑے ہیں اور الیکشن کی عمومی تیاریوں کے لیے بھی بھاری وسائل اور صبر آزما وقت درکار ہے، ایسے میں حلقہ بندیوں میں آبادی کے تناسب سے معمولی ردوبدل کے بجائے حلقوں کا پورا ڈھانچہ تبدیل کرنا، حتیٰ کہ چالیس سال پرانی حلقہ بندیوں کو چھیڑنے اور ان کی ترتیب میں ردوبدل سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوگا، کیونکہ اب تک ملک کی شاید ہی کسی سیاسی جماعت نے حلقہ بندیوں کی نئی ترتیب کا خیرمقدم کیا ہے، اس کے برعکس تمام جماعتیں نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات اٹھائے ہوئے مسلسل تنقید کررہی ہیں۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے جو نئی حلقہ بندیاں کی ہیں اُن میں جہاں آبادی کے تناسب میں موجود واضح فرق پر اعتراضات کیے جارہے ہیں وہیں بعض ضلعوں سے نشستوں کی کمی پر بھی متعلقہ اضلاع کی سیاسی جماعتیں معترض ہیں، اور ان اضلاع کی نشستوں میں کمی پر نہ صرف احتجاج کیا جارہا ہے بلکہ اس ایشو کو الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ عدالتی سطح پر بھی اٹھانے کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں، جبکہ تیسری جانب کم از کم خیبر پختون خوا کی حد تک حلقوں کی ضلع وار ترتیب میں کی جانے والی بڑی تبدیلی کو بھی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ 1970ء سے قومی اسمبلی کے حلقوں کا آغاز پشاور سے ہوتا آیا ہے، اور ماضی کے چالیس برسوں میں کسی بھی موقع پر حلقوں کی اس ترتیب کو کسی نے بھی چھیڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ الیکشن کمیشن نے کوئی ٹھوس وجہ بتائے بغیر اچانک قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کا آغاز پشاور کے بجائے چترال سے کرکے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عام حلقوں کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ یاد رہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی نئی ترتیب کے مطابق این اے ون اور پی کے ون کا آغاز اب پشاور کے بجائے چترال سے ہوگا، جس سے صوبے کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے تمام حلقوں کی ترتیب مکمل طور پر بدل گئی ہے، جس نے سیاسی حلقوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے اور عام لو گ بھی اس اچانک تبدیلی اور خاص کر اکثر حلقوں میں ہونے والی کانٹ چھانٹ سے خاصے پریشان نظر آتے ہیں، اور اس حوالے سے تمام متعلقہ حلقوں میں ایک اضطراب کی کیفیت واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ نئے حلقوں کی ترتیب کے مطابق پشاور کو قومی اسمبلی کی ایک اضافی نشست کے ساتھ این اے 27، این اے 28، این اے 29، این اے 30 اور این اے 31 کے پانچ حلقے دئیے گئے ہیں، جبکہ صوبائی اسمبلی کی تین اضافی نشستوں کے ساتھ پشاور میں صوبائی حلقوں کی مجموعی تعداد 14 ہوگئی ہے، جن کا آغاز پی کے 66 سے ہوگا، اور اختتام پی کے 79 پر ہوگا۔
خیبر پختون خوا کی حد تک یہ بات تو خوش آئند ہے کہ گزشتہ سال ہونے والی مردم شماری کے نتیجے میں یہاں آبادی میں ہونے والے اضافے کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی میں خیبر پختون خوا کی نمائندگی چار نشستوں کے اضافے کے ساتھ اب 39 اراکین کریں گے، اور اگر اس تعداد میں فاٹا کے 12 اراکین بھی شامل کرلیے جائیں تو یہ تعداد 51 تک پہنچتی ہے۔ اس طرح الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے باوجود صوبائی حلقوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ صوبائی حلقوں کی پرانی 99 عام نشستوں کو برقرار رکھا گیا، جہاں صوبائی حلقوں کی تعداد میں اضافہ نہ کرنا ناقابلِ فہم ہے وہیں بعض حلقوں میں آبادی کا جو واضح تفاوت پایا جاتا ہے اس پر بھی اکثر حلقے نہ صرف پر یشان ہیں بلکہ ان میں کسی حد تک غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں اس امر کی نشاندہی کرنا مناسب ہوگا کہ خیبر پختون خوا کے قومی اسمبلی کے 39 حلقوں میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا حلقہ این اے 35 بنوں ہے جہاں کی آبادی 11 لاکھ 67 ہزار نفوس پر مشتمل ہے، جبکہ اس کے برعکس ہنگو کے حلقہ این اے 33 کی آبادی محض 3 لاکھ 18 ہزار ہے جو این اے 35 کی نسبت چار گنا چھوٹا حلقہ ہے۔ اسی طرح صوبائی حلقوں میں بھی آبادی کے تناسب سے واضح فرق پایا جاتا ہے جس پر بحث مباحثے کے ساتھ ساتھ تحریری اعتراضات بھی الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائے جارہے ہیں۔ صوبائی حلقوں کی نئی ترتیب کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پشاور 14 حلقوں کے ساتھ سرفہرست ہے، جبکہ مردان اور سوات آٹھ آٹھ نشستوں کے ساتھ دوسرے، اور نوشہرہ، چارسدہ، صوابی، دیر پائین اور مانسہرہ پانچ پانچ حلقوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔ البتہ صوبے کے چھے اضلاع چترال، ٹانک، کوہستان، تورغر، اپر کوہستان اور کولئی پالس کوہستان ایسے حلقے ہیں جو صوبائی اسمبلی کے صرف ایک ایک حلقے پر مشتمل ہیں۔ دوسری جانب صوبائی حلقوں کے حوالے سے یہ بات قدرے باعثِ اطمینان ہے کہ بعض حلقوں میں آبادی کے لحاظ سے اوسطاً ایک لاکھ تک فرق کے باوجود بحیثیتِ مجموعی تمام 99 حلقوں میں آبادی کا معیار اور تناسب پونے تین لاکھ سے لے کر سواتین لاکھ تک رکھا گیا ہے۔ دریں اثناء اس تمام صورت حال کا نوٹس جہاں قومی اسمبلی نے ایک خصوصی کمیٹی بناکر لیا ہے وہیں بعض جماعتیں ازخود بھی ان ایشوز کو الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ ہائی کورٹ کی سطح پر اٹھانے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ قومی وطن پارٹی عنقریب تمام پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر ایک آل پارٹیز کانفرنس کے انعقادکا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مرحلے پر جب عام انتخابات میں صرف چار پانچ مہینے رہ گئے ہیں جن میں رمضان المبارک کا مہینہ بھی آتا ہے، اعتراضات کا پنڈورا باکس کھولنے کے بجائے آئندہ عام انتخابات کو قومی اسمبلی کے حلقوں میں 4 نشستوں کے اضافے کی ترمیم کے ساتھ پرانی حلقہ بندیوں اور طریقہ کارکے تحت منعقد کراتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ زیادہ سے زیادہ ووٹوں کی پولنگ اور شفاف انتخابات کے انعقاد پر مرکوز کرنی چاہیے۔