اِس وقت پاک بھارت کشیدگی محض ان دو ملکوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے خطے کی سیاست اس نکتے پر کھڑی ہے کہ کیسے یہ دونوں ملک تعلقات کی بہتری کے لیے آگے بڑھ سکیں گے۔ کیونکہ جو حالات ہیں وہ آگے بڑھنے کا راستہ فراہم کرنے کے بجائے دونوں ملکوں کو بند گلی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت جو ایک بڑا ملک ہے، خود آگے بڑھ کر پہل کرتا، لیکن وہ کسی بھی طور پر پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے راستہ دینے کو تیار نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں جو سردمہری یا بداعتمادی ہے وہ دونوں ملکوں کو تعلقات کی بہتری کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید خرابیوں نے جنم لیا ہے۔ دونوں ممالک میں وہ طبقات جو تعلقات میں بہتری کے خواہش مند ہیں، اس صورت حال سے خاصے مایوس اور نالاں نظر آتے ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے معاملات میں اور زیادہ شدت پسندی پیدا کرکے آگے بڑھنے کے امکانات کو مزید محدود کردیا ہے۔ بنیادی مسئلہ مذاکرات کے عمل میں تعطل کا ہے، جو کسی بھی صورت میں مناسب حکمت عملی کی نشاندہی نہیں کرتا۔ اس سے کیسے باہر نکلا جائے، یہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے اور اس پر زیادہ سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔
اہلِ دانش اور فکری ماہرین پر مشتمل ’’پاکستان فورم‘‘ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی سربراہی میں کام کرتا ہے۔ اس فورم کے تحت پچھلے دنوں لاہور میں ’’پاکستان بھارت تعلقات…آگے بڑھنے کا راستہ‘‘ کے اہم اور حساس موضوع پر ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی بھارت سے آئے ہوئے مہمان مقرر او پی شاہ تھے۔ وہ ادارہ برائے امن و ترقی کے سربراہ ہیں اورکئی دہائیوں سے امن، سماجی انصاف، رواداری اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔ او پی شاہ خورشید محمود قصوری کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے تھے، اور یہ ایسا موقع ہے کہ دونوں ممالک میں مکمل طور پر بداعتمادی پائی جاتی ہے۔ ایسے میں او پی شاہ کا آنا اور امن کے تناظر میں ایک متبادل نکتہ نظر پیش کرنا اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔کیونکہ یہ سمجھنا کہ پورا بھارت پاکستان سے جنگ چاہتا ہے، غلط ہوگا۔ یقینی طور پر وہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرکے خطے کی سیاست میں حقیقی معنوں میں استحکام پیدا کریں۔
سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری پاک بھارت تعلقات میں بہتری سمیت خطے میں امن اور ترقی کی سیاست کے حوالے سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں جب وہ وزیر خارجہ تھے، پاک بھارت تعلقات کی بہتری اور بیک ڈور ڈپلومیسی میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے تناظر میں فارمولا بھی پیش کردیا تھا جس کی قبولیت خود بھارت میں بھی ہوئی تھی ، مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ اس فکری نشست میں خورشید محمود قصوری نے جو ابتدائی کلمات ادا کیے وہ قابلِ توجہ ہیں۔ اُن کے بقول بھارت سے اس وقت جو سخت اور تلخ بیانات آرہے ہیں وہ تعلقات کو بہتر بنانے کے بجائے بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔ خورشید محمود قصوری کے بقول پاکستان میں یہ عمومی تصور موجود ہے کہ جو کچھ مودی سرکار کہہ رہی ہے، یا بھارت سے جو کچھ آرہا ہے، وہی بھارت کا مجموعی چہرہ ہے، جو دونوں ملکوں میں جنگی ماحول پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ایسے میں بھارت سے او پی شاہ کا آنا اور صورت حال کی دوسری تصویر پیش کرنا اہمیت رکھتا ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے جنگ مسائل کا حل نہیں، اور اگر کوئی ملک کرنا بھی چاہے تو نہیں کرسکتا۔ کنونشن جنگ بھی لمبی ہوکر دونوں ملکو ں کو برباد کرسکتی ہے۔ البتہ جنگ کے برعکس دونوں ملک ایک دوسرے کو غیر مستحکم کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ دونوں ملکوں میں ایسے عناصر اور عوامل ہیں جو تعلقات کی بہتری میں رکاوٹ بن کر جنگ کا ماحول قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان امن دشمن قوتوں سے کیسے نمٹا جائے اور ان کے لیے کیا حکمت عملی وضع کی جائے، اس پر ہمیں مل کر بہتر حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ اگرچہ دونوں ملکوں میں اس پر کام بھی ہورہا ہے لیکن وہ قوتیں جو امن کے خلاف ہیں، ہمیں زیادہ سرگرم نظر آتی ہیں۔
خورشید محمود قصوری کے بقول بھارت میں یہ تصور بھی غلط ہے کہ ہماری فوج دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہتری نہیں چاہتی، کیونکہ جنرل پرویزمشرف کے دور میں ہم مسئلے کے حل کی طرف پہنچ گئے تھے۔ اپنی وزارتِ خارجہ کے دور میں ہم نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری اور تنازعات کے خاتمے میں جو کردار ادا کیا، یا کامیابیاں حاصل کیں وہ فوج کی حمایت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ان کے بقول مودی سرکار کا سخت گیر بیانیہ بھارتی عوام میں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا، کیونکہ بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اُس کی ترقی سیکولرازم میں ہے، وگرنہ ہندوتوا کی بنیاد پر اس کی سیاست بھارت کو اور زیادہ غیر مستحکم کرنے کا سبب بنے گی۔ یہ سوچ محض پاکستان تک محدود نہیں بلکہ اس طرز کی سوچ خود بھارت میں بھی پائی جاتی ہے۔ خورشید محمود قصوری نے برملا کہا کہ بھارت میں یا تو بی جے پی اور مودی کو پالیسی بدلنی ہوگی، یا وہ اگلے انتخابات میں اپنی برتری ثابت نہیں کرسکیں گے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش، یوپی اور بہار میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں مودی حکومت کی ناکامی ظاہر کرتی ہے کہ خود بھارت میں بھی مودی سرکار کی پالیسیوں پر سخت ردعمل پایا جاتا ہے۔ لیکن کیا بھارت کی حکومت اور بی جے پی کی قیادت بھارت میں انتخابی سیاست کے تناظر میں ہونے والی ان تبدیلیوں کو بنیاد بناکر کچھ مثبت تبدیلی لاسکے گی؟ اگر ایسا نہیں ہوتا تو مذاکرات کا راستہ کھلنے کے امکانات مزید محدود ہوجائیں گے، جو خوش آئند پہلو نہیں ہوگا۔ اس لیے دونوں ملکوں میں وہ لوگ جو امن چاہتے ہیں، انھیں مل کر مشترکہ کوششوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔
بھارت کے معروف دانشور او پی شاہ نے کہا کہ بھارت کے سنجیدہ لوگ، جو تعداد میں کم نہیں ہیں، ہر صورت میںچاہتے ہیں کہ ہم کسی بھی طور پر اپنے سیکولر تشخص کو قائم کریں۔ یہ سوچ کسی بھی صورت میں آگے نہیں بڑھنی چاہیے کہ بھارت سیکولر سیاست سے ہندوتوا کی سیاست کی طرف بڑھ رہا ہے۔کیونکہ بھارت کی ترقی اور خوشحالی سمیت سب فریقین کی بہتری سیکولرازم سے ہی جڑی ہوئی ہے۔ ان کے بقول دونوں ملکوں کو یہ بنیادی بات سمجھنی ہوگی کہ تعلقات کی بہتری دونوں کے مفاد میں ہے، ہمسائے لڑ نہیں سکتے بلکہ ان کو مل کر رہنے کا راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اوپی شاہ نے اعتراف کیا کہ اس وقت اگرچہ حالات خراب ہیں لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ ان ہی بر ے حالات میں امن اور ترقی کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ او پی شاہ نے چار نکاتی بنیادی فریم ورک دیا جو آگے بڑھنے میں مدد دے سکتا ہے:
(1) دونوں ملکوں کو یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ وہ تعلقات کی بہتری کے حوالے سے مضبوط سیاسی کمٹمنٹ رکھتے ہیں۔
(2) دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے مسائل و مشکلات کو سمجھ کر حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔
(3) دونوں ملک پہلے سازگار ماحول پیدا کریں، ایک دوسرے پر بھروسا کریں، تاکہ ابتدائی طور پر اعتماد بحال ہو۔
(4) دونوں ملکوں کے میڈیا کو تعلقات کی بہتری کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے، نہ کہ وہ بگاڑ پیدا کریں۔
او پی شاہ نے اس بنیادی نکتے پر زور دیا کہ جو جنگی ماحول بن رہا ہے اس میں عام آدمی کا نکتہ نظر سمجھنا ہوگا جو اس ماحول سے سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جہاں عام آدمی کی سیاست ہی نہ ہورہی ہو وہاں امن کی بات کرنا اور زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن اس عام آدمی کی سیاست کیسے آگے بڑھے گی، یہ خود ایک بڑا چیلنج ہے۔
او پی شاہ نے تجویز دی کہ دونوں ملکوں کے میڈیا کے درمیان مکالمے کا آغاز ہونا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو شدت پسندی ہمیں بھارت کے میڈیا میں بالادست نظر آتی ہے اُس کا کیا علاج کیا جائے؟ کیونکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ میڈیا کی دنیا کو میڈیا نہیں چلارہا بلکہ اس کے پیچھے ایسے لوگ غالب ہوگئے ہیں جن کا ایجنڈا ترقی نہیں بلکہ ریٹنگ کی بنیاد پر بڑا بگاڑ یا بحران پیدا کرنا ہے۔ اس طرز کا میڈیا عمومی طور پر سچ کو پیچھے چھوڑ کر الزام تراشی اور بہتان تراشی پر اپنے کام کو بڑھاتا ہے جو پہلے سے موجود بداعتمادی کو اور زیادہ طاقت فراہم کرتا ہے۔ سابق سفارت کار شاہد ملک نے بنیادی بات یہ اٹھائی کہ ممبئی واقعے کے بعد سے معاملات میں بداعتمادی اس حد تک غالب آگئی ہے کہ یہ سوچا جاتا ہے کہ بات چیت کہاں سے شروع ہو اورکیسے ہو، یہی اہم مسئلہ ہے۔ اُن کے بقول یہ جو دونوں ملکوں میں تواتر سے چھیڑخانی کا عمل جاری ہے اسے روکنا ہوگا۔ اگر واقعی ہم تعلقات کی بہتری کے لیے پہلا قدم اٹھانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان آنے جانے کے لیے راستے کھولے جائیں، ویزہ پالیسی میں نرمی کی جائے تاکہ ایک مثبت پہلو سے دونوں ملک آگے بڑھنے کی ابتدا کرسکیں۔ بنیادی طور پر نریندر مودی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے گجرات ماڈل کی بنیاد پر پورے بھارت کی ترقی کو آگے لے جانا چاہتے تھے۔ اس مودی سرکار کے لیے بھارت کے بڑے بڑے سرمایہ داروں نے انتخابی مہم میں جو پیسہ لگایا اُس کے پیچھے ترقی کا ایجنڈا تھا، مگر مودی سخت گیر لوگوں میں قید ہوکر ہندوتوا پر مبنی سیاست میں گم ہوچکے ہیں، جو کاروباری طبقے کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہے۔ اس وقت بھارت میں جو کچھ غیر مسلموں کے ساتھ ہورہا ہے اُس پر وہاں کے سنجیدہ فکر لوگوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔
دونوں ملکوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ تعلقات کی بہتری کا عمل سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا۔ اس کے لیے دونوں ملکوں کو ہر صورت میں بامقصد مذاکرات کا عمل آگے بڑھانا ہوگا، اس کے سوا کوئی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ یہ جو کنٹرول لائن پر شدت پسندی ہے اور سفارت کاروں سمیت آنے جانے والے لوگوں کو ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے، اس سے گریز کرنا ہوگا۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ دونوں ملکوں کی دوستی محض ان کے لیے ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے کے لیے ترقی اور خوشحالی کا باعث ہوگی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب تک بھارت اپنے رویّے میں لچک پیدا نہیں کرے گا بات چیت کا عمل آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ کیونکہ پاکستان نے پچھلے چند برسوں میں تعلقات کی بہتری کے حوالے سے جتنی بھی کوششیں کی ہیں ان کا بھارت نے مثبت جواب دینے کے بجائے مزید اشتعال پر مبنی رویہ اپنایا ہے جو تعلقات کی بہتری میں رکاوٹ ہے۔ عالمی قوتیں بھی بھارت پر وہ دبائو نہیں ڈال سکیں جو اسے جنگی جنون سے باہر نکال کر امن کے راستے پر ڈال سکے، یہی بڑا المیہ ہے۔