آج کل پاکستان کیعدالت عظمیٰ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سرکاری اشتہارات میں حکمرانوں کی ذاتی تشہیر سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کررہی ہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران اخبارات میں اشتہارات اور ٹی وی چینلز پر غیر اشتہاری مہم جاری ہے، اور تصویر کا صرف ایک رخ عوام کے سامنے آتا رہا ہے۔
حالانکہ اس تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے، اور صرف سپریم کورٹ جیسا قومی اور آئینی ادارہ ہی تصویر کے تمام رخ سامنے رکھ کر اس معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے سکتا ہے۔ اس سلسلے میں نہایت ادب سے عدالت عظمیٰکو عام شہریوں، سول سوسائٹی اور عامل صحافیوں کی درج ذیل معروضات پیش خدمت ہیں:
-1 سرکاری اشتہارات اور ان میں حکمرانوں کی ذاتی تشہیر کے حساس معاملے کے اسٹیک ہولڈرز میں وفاقی و صوبائی حکومتیں، اخبارات، ٹی وی چینلز، اشتہاری ایجنسیاں، عامل صحافی، سول سوسائٹی، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور علم و دانش کے فروغ کے ادارے شامل ہیں۔ ان سب کی مشاورت ہی سے ایک قومی اشتہاری پالیسی وضع کی جانی چاہیے۔ یہاں علم و دانش کے فروغ کے اداروں سے مراد ہے ملکی جامعات کے شعبہ ہائے ابلاغِ عامہ اور سوشل سائنسز کے ماہرین… انصاف کا تقاضا ہے کہ ان تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جائے۔
-2 ازخود نوٹس کے فوری بعد مالکانِ اخبارات و جرائد کی طاقتور تنظیم اے پی این ایس نے ایک اشتہاری مہم شروع کردی جس سے یہ تاثر پھیلا کہ شاید اس معاملے کے واحد اسٹیک ہولڈر اے پی این ایس یا اخباری مالکان ہی ہیں۔ ان اشتہارات کے ذریعے یہ تاثر دیا گیا جیسے سپریم کورٹ نے سرکاری اشتہارات کی اشاعت اور انہیں نشر کرنے پر پابندی لگادی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا، جس کی وضاحت عدالت نے سماعت کے دوران کردی، لیکن کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کی اظہارِ تشکر کی خبر میں محض سرکاری اشتہارات کو بحال کرنے پر انتہائی مسرت کا اظہار ایسے کیا گیا جیسے سپریم کورٹ نے پہلے پابندی لگائی تھی اور جناب ضیاء شاہد کی معروضات کے بعد سرکاری اشتہارات کو بحال کردیاگیا۔
-3 سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس پر تمام اشتہاری مہم اے پی این ایس نے چلائی اور اسے آزادیٔ صحافت کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی۔
-4 دنیا بھر کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، ایڈیٹرز اور عامل صحافی لمحۂ موجود تک (آج کے دن تک) اشتہارات کو طاقت تسلیم نہیں کرتے، نہ ہی ذرائع ابلاغ کے شعبۂ اشتہارات کے عملے کو صحافی تسلیم کرتے ہیں۔ وہ اشتہارات کو کاروبار مانتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پیسے دے کر اشتہارات کے ذریعے کچھ بھی شائع کروا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ آزادیٔ صحافت کے منافی مواد کو بھی اشتہار کی شکل میں شائع کرایا جاسکتا ہے۔ پاکستانی اخبارات آج بھی جنسی اشتہارات سے بھرے ہوئے ہیں۔ پاکستانی اخبارات میں بھارتی مصنوعات کے اشتہارات شائع ہوسکتے ہیں۔ ہمارے بعض اخبارات میں بھارت کے کچھ حساس اشتہارات ماضی میں شائع ہوچکے ہیں، خود جناب ضیاء شاہد نے عدالت میں بیان ریکارڈ کراتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ سیل بنانے والی ایک کمپنی کے سیل انتہائی خراب ہیں لیکن اس کے خلاف اشتہارات کی بندش کے خوف سے کوئی خبر نہیں لگاتا۔ جنابِ والا، یہاں آزادیٔ صحافت کہاں گئی؟ آپ انتہائی خراب سیل ہونے کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور خبر بھی نہیں لگاتے۔ دوسری جانب اسی کمپنی کے اشتہارات دھڑا دھڑ شائع کررہے ہیں۔ گویا یہاں خود آپ نے صحافت اور اشتہارات کو الگ الگ کردیا۔ ماضیٔ قریب میں پی آئی اے کے ایک کیس میں سپریم کورٹ نے منرل واٹر سپلائی کرنے والی کئی معروف کمپنیوں کے پانی کو بعض بین الاقوامی لیبارٹریز کی رپورٹ کے بعد آلودہ قرار دیا، لیکن ان کمپنیوں کی اس دھمکی کے بعد کہ وہ اپنے اشتہارات بند کردیں گی پاکستان میں آزادیٔ صحافت کے علَم بردار کسی ایک اخبار یا ٹی وی چینل نے دو سطر کی خبر شائع اور دس سیکنڈ کی خبر تک نشر نہ کی۔ لاہور میں غیر ملکی مشروبات بنانے والی ایک معروف کمپنی کی اپنی فیکٹری سے اس برانڈ کے جعلی مشروبات پکڑے گئے۔ لاہور کی انتظامیہ اس خبر کی اشاعت کے لیے الٹی ہوگئی، صوبائی وزارتِ اطلاعات سے بھی مدد مانگی، مگر اشتہارات بند کرنے کی دھمکی کے باعث یہ خبر کسی اخبار یا چینل میں شائع اور نشر نہ ہوسکی۔ رنگ گورا کرنے والی مضرصحت ِجِلد کریموں کے اشتہارات ہر روز شائع ہوتے ہیں۔ یہاں صحافت اور اشتہارات کے معیار دوسرے ہیں، بلکہ کاروبار اور اشتہارات آزادیٔ صحافت پر حاوی نظر آتے ہیں۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ عملی طور پر اے پی این ایس اور سی پی این ای ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ دونوں مالکانِ اخبارات کی تنظیمیں ہیں۔ جو صاحب ایک سال اے پی این ایس کے صدر ہوتے ہیں وہ دوسرے یا تیسرے سال سی پی این ای کے صدر ہوجاتے ہیں۔ خود جناب ضیاء شاہد نے اعتراف کیا ہے کہ وہ سی پی این ای کے صدر کی حیثیت سے پیش ہورہے ہیں اور دوسال تک اے پی این ایس کے سینئر نائب صدر رہ چکے ہیں۔ اور چونکہ سی پی این ای میں تمام مالک ایڈیٹر شامل ہیں، شاید ہی کوئی ملازم پیشہ صحافی بطور ایڈیٹر سی پی این ای میں شامل ہو… نیز سی پی این ای کی پوری تاریخ میں کبھی کوئی ملازم پیشہ ایڈیٹر اس تنظیم کا صدر یا سیکرٹری نہیں رہا، یہی وجہ ہے کہ سی پی این ای ہمیشہ اے پی این ایس کی ڈھال بن کر سامنے آتی ہے۔ موجودہ ازخود نوٹس میں بھی یہی معاملہ ہے۔
اشتہاری مہم تو اے پی این ایس نے چلائی، لیکن چونکہ اشتہارات کو آزادیٔ صحافت سے جوڑنا مقصود تھا اس لیے سامنے سی پی این ای آگئی ضیاء شاہد صاحب کی شکل میں۔ انہوں نے اس موضوع پر کالم بھی لکھا اور عدالت میں بھی بیان ریکارڈ کرایا۔ اے پی این ایس جو اس مقدمے کی اصل فریق ہے، اُس کے صدر سرمد علی نے شاید حکمت عملی کے تحت عدالت میں بھی مختصر سا بیان دیا۔ سرمد صاحب نہ تو پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں اور نہ ایڈیٹر۔ وہ جنگ گروپ کے مارکیٹنگ ہیڈ یا اشتہارات کے شعبے کے سربراہ ہیں۔
صحافتی اخلاقیات اور ضابطوں کے مطابق ایڈیٹر کا اشتہارات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اشتہار، اخبار یا چینل کا شعبۂ اشتہارات اکٹھے کرتا اور انہیں شائع یا نشر کرتا ہے، اس شعبے میں ایڈیٹر کی کوئی مداخلت نہیں ہوتی اور نہ ہونی چاہیے۔ ایڈیٹر کو بھی بعض اوقات اپنے ادارتی مواد کی اشاعت کے لیے اخبار میں جگہ درکار ہوتی ہے تو وہ بعض اشتہارات ڈراپ کرنے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ شعبۂ اشتہارات کی خواہش ہوتی ہے کہ سارے اخبار پر اشتہارات ہی اشتہارات ہوں۔
صحافتی اخلاقیات ہیں کہ اشتہار واضح ہو اور اس پر لکھا گیا ہو کہ یہ اشتہار ہے، مگر اخبارات اس کا اہتمام نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ قبل صحافتی اخلاقیات یہ بھی تھیں کہ اشتہار خبروں کے نیچے شائع ہوں گے۔ آج کل اشتہارات خبروں کے درمیان اور بعض اوقات پیشانی کے متوازن شائع ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں صحافتی ضابطہ ہے کہ اشتہار کو خبر بناکر نہ شائع کیا جائے، لیکن پاکستانی اخبارات نہ صرف اشتہار کو باقاعدہ خبر کے انداز میں کریڈٹ لائن کے ساتھ شائع کررہے ہیں بلکہ معاوضہ لے کر پورے پورے ایڈیشن بھی شائع کررہے ہیں جس سے عام قاری کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی معلوماتی مواد ہے یا اشتہاری مواد۔ بعض مواقع پر ایسے ایڈیشنز پر غیرنمایاں انداز میں وضاحت کر بھی دی جاتی ہے، لیکن اس طرح کہ قاری کی نظر اس پر کم ہی پڑتی ہے۔
سرکاری اشتہارات کی ایک اسٹیک ہولڈر اشتہاری ایجنسیاں ہیں، جن کے بارے میں جناب ضیاء شاہد نے لکھا ہے کہ جو اخبار کو دس ہزار دیتے تھے اور سرکاری محکموں سے پچاس ہزار وصول کرتے تھے۔ ان ایجنسیوں کا المیہ یہ ہے کہ اگر اے پی این ایس یا حکومت کسی بے ضابطگی پر کسی اشتہاری کمپنی پر پابندی لگاتی ہے تو اس اشتہاری کمپنی کے مالکان دوسرے ناموں سے اشتہاری کمپنیاں لے کر آجاتے ہیں اور حکومت اور اخبارات و چینلز جانتے بوجھتے ان کے ساتھ بزنس کررہے ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے سابق وزیر اطلاعات و نشریات جناب پرویز رشید وزارت کا حلف لے کر جب پہلی بار لاہور آئے تو غالباً اے پی این ایس نے جناب فصیح اقبال مرحوم کی یاد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا، جس میں جناب ضیاء شاہد، جناب مجیب الرحمن شامی اور جناب عارف نظامی نے مرحوم فصیح اقبال پر تو کم بات کی البتہ پرویز رشید کے سامنے اشتہارات کی عدم ادائیگی کا مسئلہ اٹھایا۔ اس موقع پر پرویز رشید نے انکشاف کیا کہ سابقہ دور (زرداری حکومت) میں حکومت نے اربوں روپے کے اشتہارات جاری کیے جن میں بہت سے شائع یا نشر بھی نہیں ہوئے۔ اس لیے اصولی طور پر ان کی ادائیگی نہیں ہونی چاہیے، لیکن اس تقریب میں انہوں نے یہ ادائیگی بھی کرنے کا وعدہ کرلیا جو بعد میں وفا بھی ہوگیا۔
سرکاری اشتہارات کا دھندا بڑا عجیب ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والے پرائیویٹ اشتہارات کے نرخ زیادہ ہیں جبکہ سرکاری اشتہارات کے نرخ نسبتاً خاصے کم ہیں۔ لیکن اس کے برخلاف ٹی وی چینلز پر پرائیویٹ اشتہارات سستے ہیں اور سرکاری اشتہارات خاصے مہنگے ہیں۔ یہ کام چینلز نے ازخود کردیا ہے۔ جبکہ اخبارات کے سرکاری اشتہارات کے نرخ حکومتی ادارے اُن کی اشاعت کی بنیاد پر طے کرتے ہیں۔ لیکن یہاں حکومتی عملہ مالکانِِ ٹی وی کے ساتھ مل کر سرکاری اشتہارات کے انتہائی مہنگے نرخ مقرر کردیتا ہے، اور یہ ساری رقم عوام کے ٹیکسوں سے ادا کی جاتی ہے۔
ازخود نوٹس کیس کا ایک بڑا فریق عامل صحافی اور صحافتی کارکن ہیں۔ یہ ایک استحصال زدہ طبقہ ہے۔ ان میں سے ہزاروں کے پا س کوئی تقررنامہ نہیں۔ اخباری ادارے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت بنائے گئے ویج ایوارڈ پر عمل نہیں کررہے۔ انگلیوں پر گنے جانے والے اخبارات صرف اپنے ریگولر صحافیوں اور کارکنوں کو ویج ایوارڈ دیتے ہیں، جبکہ ان اداروں میں ریگولر ملازمین کی تعداد 50 کے قریب ہے۔ مثلاً جنگ لاہور ویج ایوارڈ ریگولر ملازمین کو دیتا ہے۔ یہاں 500 سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں مگر ویج ایوارڈ کے مستحق ریگولر ملازمین کی تعداد اس وقت صرف 43 ہے۔ یہی حال دوسرے اداروں کا ہے۔ جبکہ ٹی وی چینلز کے ملازمین کے لیے تاحال کوئی اجرتی بورڈ نہیں بن سکا۔ مالکان جس کو جتنی تنخواہ دینا چاہیں اُس پر کسی تحفظ کے بغیر رکھ لیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں نکال دیتے ہیں۔
چھوٹے اخبارات اپنے صحافیوں سے اشتہارات اکٹھے کرنے کا بھی کام لیتے ہیں۔ وہ یہ کام اپنے اصل کام کے علاوہ کرتے ہیں۔ ایسے اخبارات بھی ہیں جن میں تنخواہ کا کوئی تصور نہیں۔ ان کے ملازمین اشتہارات کے کمیشن پر ہی زندہ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اشتہارات کا کھیل مالکان اور حکومتوں کے درمیان ایک دوسرے کو پاس دینے کا ایک کھیل ہے۔ اس میں کہیں ایڈیٹر، سول سوسائٹی، عامل صحافی اور دانشور شریک نہیں۔ ایک زندہ قوم کے لیے ایسی اشتہاری پالیسی بنائی جانی ضروری ہے جس میں سارے ضوابط طے ہوں۔ حکومت کس طرح کے اشتہارات دے سکتی ہے۔ حکومتی ادارے کس کو اور کیوں اشتہار دینا چاہتے ہیں۔ اشتہار میں کیسا مواد شائع ہوسکتا ہے اور کس قسم کے اشتہارات شائع نہیں ہوسکتے… اس پر غور کی ضرورت ہے، اور ہمیں امید ہے کہ جناب کی سربراہی میں سپریم کورٹ ایسی پالیسی وضع کروا سکے گی جس میں نہ حکومت طاقت کو دبا سکے اور نہ اخبارات و چینلز حکومت کو بلیک میل کرسکیں۔ معاشرے کے کسی طبقے کو کسی اشتہار کی زبان اور مواد پر اعتراض ہو تو اس کی شنوائی کہاں ہو؟ اور یہ بھی طے ہو کہ ایسے اخبارات جن کی اشاعت دوچار ہزار سے زائد نہ ہو اور وہاں کارکنوں کو چار چار ماہ سے تنخواہیں نہ ملتی ہوں اُن اخبارات میں کروڑوں کے ایسے سرکاری اشتہارات کس طرح شائع ہوتے ہیں اورکون شائع کراتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکشن کمیشن سرکاری اشتہارات کے ذریعے افراد یا کسی پارٹی کی تشہیر کا نوٹس لے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ امید ہے جناب ان معروضات پر غور ضرور فرمائیں گے کہ ہم بھی اس دھندے کے بے آواز فریق ہیں۔