مذہبی و دینی سیاسی جماعتوں کے انتخابی سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا عمل مکمل ہوگیا۔ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن مرکزی صدر اور جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ مرکزی جنرل سیکرٹری مقرر کردیے گئے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، جمعیت علمائے پاکستان کے صدر پیر اعجاز ہاشمی، اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد نقوی اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے صدر پروفیسر ساجد میر مرکزی نائب صدور مقرر ہوئے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا اعلان کراچی میں سربراہی اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا گیا۔ اس طرح مرکزی سطح پر تنظیم سازی کا عمل مکمل ہوگیا۔ اگلے مرحلے میں صوبائی اور ضلعی تنظیم سازی کا عمل بھی مکمل ہوجائے گا۔ سربراہی اجلاس کے بعد متحدہ مجلس عمل کے رہنمائوں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ایم ایم اے کے نومنتخب صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارا مقصد عالمی جبر کو سپورٹ کرنے والی قوتوں کو شکست دینا اور مظلوموں کی آواز بننا ہے۔ ملک کو کئی مسائل درپیش ہیں، ایک طرف لوگوں میں بے چینی ہے تو دوسری طرف چھوٹی چھوٹی بغاوتیں سر اٹھارہی ہیں۔ ہم اس تصور کے ساتھ ایک نئے سفر کا آغاز کررہے ہیں کہ ملک میں امن ہو، معاشی بدحالی کا خاتمہ ہو، سود کی لعنت سے نجات ملے اور بلاامتیاز تمام پاکستانیوں کے مسائل حل ہوں۔ ہم عالمی سطح پر بھی امتِ مسلمہ کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان اور ایم ایم اے کے مرکزی نائب صدر سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ مدینے کی ریاست ہمارے لیے رول ماڈل ہے اور نظامِ خلافت ہمارا مشن ہے۔ ہم ایک خوشحال پاکستان چاہتے ہیں۔ ہم اعلیٰ اداروں میں عام لوگوں کے لیے دروازے کھولنا چاہتے ہیں۔ ملکی سیاست پر قابض سازشی قوتیں مذہبی قوتوں کو سامنے آتا ہوا نہیں دیکھ سکتیں۔ سراج الحق نے اپیل کی کہ تمام امن پسند اور جمہوری لوگ متحدہ مجلس عمل کے ساتھ کھڑے ہوں اور تعاون کریں۔ ہم قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے اور انتشار کی ہرکوشش کو ناکام بنائیں گے۔
متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب عام انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کی صورت میں مذہبی سیاسی قوتوں کا انتخابی اتحاد سیاسی عمل پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ متحدہ مجلس عمل کی بحالی اور انتخابات کی سرگرمیاں ایسے تناظر میں ہورہی ہیں جب پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں اسلام اور مغربی الحاد و کفر کے درمیان فکری، نظریاتی اور عملی کشمکش جاری ہے۔ اسلام کی جنگ لڑنے کے راستے میں امتِ مسلمہ کا انتشار اور فساد کی کوشش طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن علماء، مذہبی جماعتوں اور پاکستانی مسلمانوں نے اس سازش کو بڑی قیمت دے کر ناکام بنایا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے خاتمے کے لیے 1995ء میں ملّی یکجہتی کونسل کے نام سے مذہبی جماعتوں کا ایک اتحاد قائم ہوا اور اس نے فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے میں کامیاب اور مؤثر کردار ادا کیا۔ 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے نام سے انتخابی اور سیاسی اتحاد کی تشکیل کا سبب بھی امریکہ کی قیادت میں عالمِ کفر کی متحدہ یلغار تھی جس کا پہلا نشانہ افغانستان بنا، امریکہ ناٹو کے ہمراہ اعلیٰ جنگی ٹیکنالوجی کے ساتھ افغانستان پر قابض ہوگیا۔ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ کارپٹ بمباری، ڈیزی کٹر بموں اور ڈرون طیاروں کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کرکے مسلمانوں کے وجود کو مٹادے گا، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اپنے ابلیسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے پاکستان میں علمائے کرام کی ٹارگٹ کلنگ کرائی، مساجد، مدارس اور امام بارگاہوں میں دھماکے کرائے، عاشورہ محرم اور چہلم کے اجتماعات میں خودکش دھماکے کرائے۔ اس پس منظر میں پاکستان میں متحدہ مجلس عمل کی صورت میں مذہبی جماعتوں نے متبادل سیاسی قوت کی حیثیت سے کامیاب مزاحمت کی۔ لیکن مختلف وجوہ و اسباب کی بنا پر یہ مزاحمتی قوت منتشر ہوگئی۔ لیکن اسلام اور پاکستان کو جو خطرات درپیش ہیں وہ کم نہیں ہوئے۔ داخلی سطح پر ایک منظرنامہ یہ ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بدعنوانی اورکرپشن کی غلاظت میں لتھڑی ہوئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی جبر کی قوتوں کو اپنے اسلام دشمن ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بدعنوان، مفاد پرست اور ہر طاقت کے آگے جھک جانے والی عوامی نمائندگی کی ضرورت ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ’’این آر او‘‘ کا سیاہ معاہدہ ہے جو عالمی جبر کی سب سے بڑی قوت امریکہ نے فوجی آمر اور بدعنوان سیاست دانوں کے درمیان کرایا۔ اس معاہدے کے زیراثر ملک واپس آنے والی سیاسی قوتوں نے اپنی باریاں لگاکر ملک کے امن و امان کو تباہ کردیا۔ اقتصادی تباہی نے غریب اور متوسط طبقے کے افراد کے لیے زندگی مشکل کردی۔ اسی کے ساتھ ملک میں ایک نئی نظریاتی یلغار بھی جاری ہے۔ لبرلزم اور سیکولرزم کے نام پر ملک کی نظریاتی بنیادوں پر حملے زیادہ شدت سے جاری ہیں۔ دہشت گردی اور قتل و غارت گری نے کھلے میدان میں سیاسی جدوجہد کے راستوں میں رکاوٹ پیدا کردی ہے۔ جبکہ پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام کے بغیر پاکستان کے وجود، بقا اور استحکام کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسدادِ توہینِ رسالت اور ختمِ نبوت کے قوانین کے خاتمے کی منظم سازشیں ایوانِ اقتدار کے اندر بیرونی قوتوں کی سرپرستی میں کی جارہی ہیں۔ یہ کوششیں بہت عرصے سے جاری ہیں۔ عالم کفر اپنے آلۂ کاروں کے ذریعے ہر مسلمان ملک سے دینِ اسلام کو دیس نکالا دینے کی کوشش کررہا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحادِ بین المسلمین لازمی شرط ہے۔ اسی کے ساتھ اس جدوجہد کے تقاضے بہت وسیع ہیں۔ اس کے لیے دینی جماعتوں کو انتخابی صف بندی کے ساتھ وسیع تر منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔