اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین

تبصرہ کتب
تبصرہ کتب

نام : اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین
مرتب : ڈاکٹر آصف حمید
صفحات : 558 قیمت 1000 روپے
ناشر : مثال پبلشرز۔ رحیم سینٹر، پریس مارکیٹ امین پور بازار، فیصل آباد
فون نمبر : 041-2615359,2643841
موبائل : 0300-6668284
ای میل : misaalpb@gmail.com
شو روم : مثال کتاب گھر۔ صابریہ پلازہ، گلی نمبر 8، منشی محلہ، امین پور بازار فیصل آباد
جناب علم الدین غازی کی زیرِ ادارت ’’سروش‘‘ اور ’’سیماب‘‘ شائع ہوئے، جن کو غازی صاحب نے پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی اہلِ علم و ادب اصحاب کو بھجوایا، جس کے جواب میں انہوں نے یہ خطوط لکھے، جن میں رسائل کے ملنے کی رسید اور شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کے مطالعے سے قاری کو شکریہ ادا کرنے کا اسلوب اور طریقہ حاصل ہوتا ہے۔ بہت عمدہ کتاب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے من لم یشکرالناس لم یشکر اللّٰہ جو لوگوں کا شکر گزار نہیں، وہ اللہ کا شکر گزار نہیں، جس میں شکر گزاری کا مادہ ہی نہ ہو وہ شکر گزاری کر نہیں سکتا۔ غازی صاحب خوش نصیب ہیں کہ ان کو اتنے اصحابِ علم و فضل نے خط لکھ کر ان کی اور ان کے رسائل کی تعریف کی۔
ایک مرتبہ جناب ضمیر نیازی مرحوم نے مجھے بلایا۔ میں اُن کے ہاں حاضر ہوا۔ دورانِ گفتگو میں انہوں نے بڑے افسوس سے یہ فرمایا ’’میں نے اپنی کتاب ایک سو تین حضرات کو بھیجی، صرف ایک نے کتاب ملنے کی رسید دی‘‘۔
کتاب کے مرتب ڈاکٹر آصف حمید شعبہ اردو گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن افضل پور میرپور آزاد کشمیر تحریر فرماتے ہیں:
’’اردوکا مکتوباتی ادب اپنے دائرے میں انشاء و معلومات کے بیش بہا خزینے سموئے ہوئے ہے، جس سے فیض یاب ہوئے بغیر تاریخِ ادبِ اردو کے متعدد پہلو ہی تاریک نہیں رہتے، بلکہ کئی شخصیات کے حقیقی مزاج اور باہم رشتے بھی واضح نہیں ہوتے، کیونکہ خطوط، مکتوب نگاروں کے باطنی افکار، خیالات، مسائل، اطوار، حالات اور آرا سامنے لانے کے ساتھ ان کی جذباتی و ازدواجی زندگی کے تلخ و شیریں لمحات بھی محفوظ کرلیتے ہیں۔ نیز بعض ایسے رازوں سے پردے ہٹا دیتے ہیں جن کا کسی اور ذریعے سے ظاہر ہونا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ بلاشبہ خطوں میں اپنی نجی زندگی اور نازک خیالات کو پُرتکلف اسلوب یا کسی اور طریقے سے چھپانے والا مکتوب نویس بلند تر مقام و مرتبے کا حامل تصور نہیں ہوتا۔ وہ جس قدر بے باکی سے اپنا دل چاک کرتا ہے، اسی قدر اس میدان میں قابلِ فخر ٹھیرتا ہے۔
اگرچہ موجودہ دور میں پیغام رسانی کے جدید ترین ذرائع نے پیغام رسانوں سے قلم اور کاغذ کا سہارا ہی نہیں چھینا، بیان کی رعنائی سے بھی دور کردیا ہے۔ لیکن ابھی یہ طاقت مکمل طور پر زائل نہیں ہوئی۔ کچھ مکتوب نگاروں کا اپنے جذبات، افکار، مسائل اور آرا بیان کرنے کا منفرد انداز مضطرب دلوں کو تقویت دینے کے لیے کافی ہے۔ ایسے خطوط نویس جدید ذرائع سے وہی کام لیتے ہیں جو پہلے پہل کبوتر اور بعد ازاں قاصد یا ڈاکیے نے انجام دیے۔ امیدِ واثق ہے کہ ایسے لوگوں کی موجودگی میں خطوط نگاری کی نائو کبھی نہیں ڈوبے گی اور یہ فن ذرائع مواصلات کے بدل جانے کے باوجود رہتی دنیا تک اپنا اگلا سفر طے کرتا رہے گا۔
اردو میں کتابی صورت میں خطوں کی اشاعت کا سنہری دور بیسویں صدی عیسوی کے آخری عشرے سے شروع ہوتا ہے جو پوری آب و تاب کے ساتھ اب تک جاری ہے۔ اس دور میں خطوں کو کتابی صورت میں چھاپنے کے مختلف محرکات میں بنیادی محرک وہ حالات ہیں جنہوں نے خطوط نویسی کی ایک اہم ترین روایت کا گلا دبانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ مرتبین اس روایت کے مٹتے دور میں مختلف مجموعہ ہائے خطوط شائع کرواکر جہاں خطوں کی اہمیت واضح کرتے ہیں، وہیں نئی نسل کو ان سے وابستہ رہنے کا غیر اعلانیہ پیغام بھی دیتے ہیں۔
اس مجموعۂ مکاتیب کو ترتیب دیتے ہوئے میرے ذہن کے نہاں خانوں میں یقینا یہ احساس بھی کارفرما رہا ہوگا، لیکن شعوری سطح پر مدت سے انگڑائیاں لیتی یہ آرزو پوری ہورہی ہے کہ استادِ مکرم جناب پروفیسر غازی علم الدیم کے نام لکھے گئے نامور اہلِ قلم کے خطوط مرتب کیے جائیں۔
یہ میری خوش نصیبی ہے کہ جس مؤقر ادارے (گورنمنٹ کالج میرپور) میں، مَیں ان کا شاگرد رہا، بعد ازاں وہیں تقریباً ایک عشرے تک اُن کا رفیقِ کار رہا… چنانچہ کالج کی علمی و ادبی سرگرمیوں کے فروغ میں اُن کی سرپرستی ہی میسر نہ رہی بلکہ اُن کی علم و ادب شناسی کا پہلے سے زیادہ ادراک بھی ہوا۔ پروفیسر موصوف تیس برس تک تدریسی امور انجام دینے کے بعد گزشتہ چار سال سے گورنمنٹ ڈگری کالج افضل پور میں بطور پرنسپل انتظامی فرائض پورے کررہے ہیں، لیکن ان کی ادارت کا جو سفر ’’سروش۔ میرپور‘‘ سے شروع ہوا تھا اُس کی واضح جھلک ’’سیماب۔ افضل پور‘‘ میں دکھائی دیتی ہے۔ جب یہ مجلے یکے بعد دیگرے آزاد کشیر کی محدود علمی و ادبی فضا سے نکل کر پاکستان کے مختلف صوبوں، ہندوستان اور یورپ کے معتبر علمی و ادبی حلقوں میں پہنچے تو ان کو زبردست پذیرائی ملی، جس کا ثبوت ان خطوں میں محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں ان کی تین کتب ’’لسانی مطالعے‘‘،’’میثاقِ عمرانی‘‘ اور ’’تنقیدی و تجزیاتی زاویے‘‘ کے مباحث کی گونج بھی اس کتاب میں جابہ جا سنائی دیتی ہے۔
آخر میں، مَیں پروفیسر غازی علم الدین کا بہت ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے خطوط کا یہ وقیع ذخیرہ ترتیب دینے کے قابل سمجھا۔ میں استادِ مکرم پروفیسر ڈاکٹر فخرالحق نوری، محترم ڈاکٹر رئوف خیر اور ڈاکٹر ماجد دیوبندی کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے انتہائی مصروفیات کے باوجود اپنی دل کش نگارشات سے اس کتاب کی قدروقیمت میں اضافہ کیا۔‘‘
جن مؤقر اصحابِ علم و ادب کے خطوط اس مجموعے میں شامل ہیں ان میں سے کچھ کے اسمائِ گرامی درج ذیل ہیں:
ڈاکٹر ظہور احمد اظہر، میرزا ادیب، خورشید احمد گیلانی، حکیم محمد موسیٰ امرتسری، محمد علی چراغ، ڈاکٹر صدیقہ ارمان، ڈاکٹر محمد مسعود احمد، ڈاکٹر انعام الحق کوثر، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر شیر محمد زماں، ڈاکٹر سید عارف نوشاہی، افتخار عارف، ڈاکٹر سفیر اختر، ڈاکٹر جاوید اقبال، محمد یعقوب ہاشمی، ڈاکٹر صابر آفاقی، پروفیسر سیف اللہ خالد، خواجہ غلام ربانی مجال، ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، ڈاکٹر حسر کاسگنجوی، ڈاکٹر خواجہ محمد سعید، ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان، ڈاکٹر طاہر سعید ہارون، ڈاکٹر ریاض مجید، ڈاکٹر عاصی کرنالی، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر نذیر تبسم، ڈاکٹر ایوب صابر، ڈاکٹر یونس جاوید، ڈاکٹر راشد حمید، انور مسعود، محمود احمد سروسہارنپوری، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، حفیظ الرحمن احسن، محترمہ بانو قدسیہ، انتظار حسین، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، شکیل عثمانی، ڈاکٹر محمد محمود حسین اعوان، پروفیسر ظفر حجازی، امین راحت چغتائی، سید معراج جامی، پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی، ڈاکٹر ممتاز احمد خان، ڈاکٹر شمیم حنفی، ڈاکٹر رئوف خیر، ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی، شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹر خلیل طوق اُر، انجینئر راشد اشرف، ڈاکٹر محمد سہیل شفیق، ڈاکٹر سکندر حیات میکن، بریگیڈیئر حامد سعید اختر، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر سید محمد اکرم اکرام، سید جمیل احمد رضوی، ڈاکٹر یحییٰ نشیط، پروفیسر محمد اقبال مجددی، پروفیسر سلیم الرحمن، امجد سلیم علوی، کرشن کمار طور، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، ڈاکٹر سید خورشید رضوی، ڈاکٹر طیب منیر، ڈاکٹر اسلم انصاری، پروفیسر ڈاکٹر رشید امجد، پروفیسر ڈاکٹر سحر انصاری ۔
مکتوب نگاروں کی تعداد ایک سو اکانوے اور خطوط کی تعداد تین سو پچانوے ہے۔
کتاب نہایت خوبصورت طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے اور خوبصورت سرورق سے آراستہ ہے۔