سینیٹ الیکشن اور سندھ کا سیاسی مستقبل

ارباب نیک محمد
بروز پیر 5 مارچ 2018ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر معروف کالم نگار ارباب نیک محمد نے سندھ کے حالاتِ حاضرہ کی مناسبت سے جو کالم لکھا ہے اُس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
عمر کوٹ تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے ارباب نیک محمد المعروف ’’نیکن فقیر‘‘ سندھی (بلکہ اردو زبان کے بھی) ایک صاحبِ طرز کالم نگار اور ادیب ہیں۔ وہ استاد اور عالمِ دین ہونے کے ناتے عمدہ مقرر بھی ہیں۔ سندھی نیوز چینلز پر بھی گاہے شگفتہ انداز میں سیاست سمیت مختلف موضوعات پر تبصرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ارباب نیک محمد اردو، سندھی، عربی اور فارسی زبانوں پر دسترس رکھتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند اور سندھ کی تاریخی اور سیاسی تحاریک کی جزئیات تک انہیں ازبر ہیں۔ ان کا اندازِ تحریر دلچسپ، معلوماتی اور شگفتہ ہے، تاہم ان کی تحریر میں استعمال کردہ استعاروں، تشبیہات اور تلمیحات کو سمجھنے کے لیے قاری کا تاریخ اور علم و ادب سے شغف بھی ضروری ہے، اسی صورت میں ان کی تحریر سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوا جاسکتاہے۔
………٭٭٭………
’’حمزہ قائم خانی کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے ہم جب مسجدِ بلال کے پارک میں کھڑے تھے تو خبر ملی کہ ادی روبینہ قائم خانی نے اپنے لختِ جگر کی جدائی کے درد کو سینے میں سموئے ہوئے سینیٹ کے انتخابات کے لیے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد کراچی سے نیرون کوٹ (حیدرآباد) کے لیے رختِ سفر باندھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ زاہد بھرگڑی، جمن شر اور الطاف شاہ بھی نمازِ جنازہ میں شریک تھے، جبکہ سامارو، جھڈو، کھپرو، ٹنڈوالہ یار اور سندھ کے کونے کونے سے قائم خانی برادری سمیت سینکڑوں دیگر افراد بھی سوگوار خاندان کا غم بانٹنے کے لیے موجود تھے۔ پیپلز پارٹی کا ایک ووٹ بھی اگر اِدھر اُدھر ہوتا تو کسی ایک آدھ سیٹ کے حوالے سے اَپ سیٹ کا امکان موجود تھا۔ مجھے بہن روبینہ کی کیفیت کچھ اس طرح سے محسوس ہوئی گویا گھبرو جوان بچے کو مخاطب ہوتے ہوئے عالمِ بے بسی میں یہ کہہ رہی ہوں کہ:
تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
کیا سندھ کی سیاست پر سینیٹ کے انتخابات کے بعض مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ یہ سوال اپنے جوہر میں بے شمار ’’جواہرات‘‘ کی جھلک دکھلارہا ہے۔ آپ مبادا یہ سمجھیں کہ ہم محترم کامران ٹیسوری صاحب کی جانب کوئی غیر پارلیمانی رویہ اپنا رہے ہیں۔ ٹیسوری صاحب ’’سونارا‘‘ (صراف) ہیں جن کی لگائی گئی سو ضربیں رائیگاں گئیں اور انہیں ’’پوائنٹس‘‘ پر بیرسٹر فروغ نسیم چاروں خانے چت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ پہلے آتے ہیں کراچی کی جانب … ایم کیو ایم سے مصطفی کمال، فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی نے اپنی پارٹی کو ٹکڑوں کی صورت میں کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا‘‘ کے مصداق بناڈالا تھا۔ پردیسی پیر (مراد ہے الطاف حسین) کے تعویذ دھاگے بھی اب ان کے کسی کام کے نہیں رہے تھے۔ فروغ نسیم کے علاوہ سندھ سے ایم کیو ایم اپنے دو دیگر امیدواران کو بھی جتوا سکتی تھی، جن کے لیے حکمت عملی بنانے میں اُس کی ناکامی، اور پیپلز پارٹی کی جانب ارکانِ صوبائی اسمبلی کی اڑان سے مستقبل قریب کے سیاسی منظرنامے سے متعلق یہ کہنا ہرگز مبالغہ آرائی پر مبنی نہ ہوگا کہ شہری سندھ تو ٹھیرا ایک طرف، اب تو ہیرسوہو اور پونجو بھیل جیسے دیہی سندھ کے ڈومیسائل رکھنے والے بھی عزیز آباد کو الوداع کہہ چکے ہیں۔ اور گمان غالب یہ ہے کہ دوبارہ یہ جماعت ماضی کا عروج حاصل نہیں کرپائے گی۔ اس طرح سے شہری سندھ میں پیپلز پارٹی کی نئی انٹری توجہ طلب ہے۔ سینیٹ کے الیکشن کے عرصے میں کاری موری کالج (حیدرآباد) کو یونیورسٹی بنانے کے لیے کی جانے والی قانون سازی پر ’’روایتی‘‘ مخالفت بھی سامنے نہیں آسکی ہے (یہاں اس سے مراد قوم پرستوں کی جانب سے کی جانے والی مخالفت ہے)۔ نئے قانون میں یہ گنجائش بھی نکالی گئی ہے کہ رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق سے ماورا داخلے دیے جائیں گے۔ ایک سو سال قدیم اس کالج کا یونیورسٹی میں تبدیل کیا جانا عظیم تر سندھ کی قدیم تر فراخ دلی پر مبنی فیصلہ ہے جو پیپلز پارٹی کی آئندہ انتخابات کے لیے حکمت عملی کے حوالے سے ’’شہروں‘‘ کو سرخاب کے پر لگانے کی ترکیب پر مبنی ہے، اور جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو میرپور خاص، نواب شاہ اور سکھر سمیت حیدرآباد اور کراچی سے بعض امیر حیدر کاظمی، حکیم سعید شہید اور سوداگر درویش وغیرہ کی طرح کے مضبوط امیدوار پھر سے مل سکتے ہیں، جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہوکر آنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہوئے نئے سندھ کے لیے ایک نیا اندازِ فکر متعارف کرانے کا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
فنکشنل لیگ سے سائیں مظفر حسین شاہ کا سینیٹر بننے کا سوال بھی حیران کن ہے، بلکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ پی ٹی آئی عمر کوٹ نے الیکشن سے ایک ہفتہ قبل عمران خان اور مخدوم شاہ محمود قریشی کو یہ درخواست ارسال کی تھی کہ مہربانی فرماکر کیجراڑی کے سید صاحب کی حمایت نہ کی جائے کیونکہ کیجراڑی والوں نے گزشتہ انتخابات میں ’’کھاروڑی‘‘ والوں کے لیے نرم گوشہ فراہم کرنے کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہ درخواست اپنی جگہ پر، لیکن کھاروڑی میں زرداری صاحب نے چند ماہ پیشتر سید امیر علی شاہ کی تقریبِ شادی میں شرکت کی تھی۔ تب انہوں نے آکسفورڈ ڈکشنری میں سے نایاب انگلش الفاظ استعمال کرتے ہوئے مظفر حسین شاہ سے ’’رازدارانہ‘‘ طویل محفل بھی سجائی تھی۔ زرداری نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ شاہ صاحب، بابا (حاکم علی زرداری مرحوم مراد ہیں) کہا کرتے تھے کہ میں قانونی میدان میں اے کے بروہی، عبدالحفیظ پیرزادہ اور خالد اسحق کے بعد سب سے زیادہ مظفر حسین شاہ کو ’’بڑا وکیل‘‘ تسلیم کرتا ہوں۔ مظفر حسین شاہ کو رضا ربانی بھی گزشتہ ٹرم میں اسٹینڈنگ کمیٹی سے لے کر ڈیساور (بیرونی ممالک) کے دوروں میں ’’ترجیحی سلوک‘‘ سے نوازتے رہے ہیں۔ مظفرحسین شاہ کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کی ’’دعا‘‘ کو خارج کرنے کے لیے معقول دلائل نایاب دکھائی پڑتے ہیں۔ اسی طرح سے ضلع عمرکوٹ میں خاص طور سے پیپلز پارٹی نے اپنے طاقتور حریف کو گویا ایک طرح سے کنارے پر کھڑا کردیا ہے۔ کرشنا کماری کولہن بائی کو حالیہ الیکشن میں بیک وقت دو خوشیاں میسر آئی ہیں۔ ان کے ادا (بھائی) ویر جی کولہی ’’تُرم یاترا‘‘ کا پیریڈ مکمل کرکے اپنے بال بچوں سے آن ملے ہیں، تو اس کے ساتھ ساتھ اُن کی ہمشیرہ باوقار ایوان میں سندھ سے منتخب ہوئی ہیں۔ جب پریم پارکری ایم این اے منتخب ہوئے تھے تب اسلام آباد ایئرپورٹ پر اپنی رفیقۂ حیات کے ساتھ اترے تھے، اُس وقت میڈیا کا سارا دھیان پارکری کولہن بائی کے گھاگھرے والے لباس کی جانب مبذول تھا۔ اسی طرح سے اگر کرشنا بائی بھی جھبو، چنری، اوڈھن اور گھیردار گھاگھرہ پہن کر (تھرپارکر کے مخصوص لباس میں) تقریبِ حلف برداری میں شرکت کریں تو ان کا یہ نرالا تعارف انہیں مزید شہرت دلائے گا۔ ایک غریب گھرانے کی بیٹی کو ٹکٹ ملنے سے سندھ کا ہاری کسان کولہی تو خوش ہے ہی، غیر جانب دار حلقے اور مبصرین بھی اس فیصلے پر پی پی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ (کرشنا کولہی کا تعلق شیڈول کاسٹ سے ہے، مترجم)
قرۃ العین مری کے منتخب ہونے کے بعد لگتا ہے کہ ادی شازیہ مری کو کھپرو جام نواز والی قومی اسمبلی کی نشست پر شاید دوبارہ ٹکٹ نہ مل سکے اور بہن شاید دوبارہ کسی پارٹی عہدے کے لیے منتخب ہوجائیں۔ ایسے امکانی فیصلے سے جونیجو اور ڈیرو (ذات) امیدوار ایڈجسٹ کرنا آسان ہوجائے گا۔ ’’ہالا‘‘ کے لیے بھی یہ سیٹ الاٹ ہوسکتی ہے۔ کھپرو سے مخدوم جمیل سائیں کا روحانی کے ساتھ ساتھ ازدواجی رشتہ پہلے ہی سے ہے۔ شوقین (مراد ہے معروف سیاست دان اور بزنس مین امام الدین شوقین) بھی ’’پاپولر‘‘ ہوئے ہیں (پاپولر ان کی فوڈ اور بیوریج کمپنی کا نام ہے۔ موصوف کچھ عرصہ قبل فنکشنل لیگ سے اپنا دیرینہ تعلق ختم کرنے کے بعد پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں، مترجم)۔ اس فیصلے سے سانگھڑ میں پیپلز پارٹی کی روایتی مخالف پارٹی کے لیے اسپیس کم ہوسکتا ہے۔ نئے سندھیوں کو ’’نوازنے‘‘ سے پیپلز پارٹی کے لیے اردو اسپیکنگ آبادی میں مزید کشش پیدا ہوسکتی ہے، جس کا لامحالہ مثبت اثر آئندہ انتخابات میں مرتب ہوگا۔ اسد جونیجو بھی سانگھڑ سے پیپلز پارٹی مخالف امیدوار کے طور پر سامنے آنے کے لیے تیار تھے۔ انہیں نون لیگ نے دارالحکومت کے حلقے سے منتخب کراکے گویا ایک طرح سے محمد خان جونیجو مرحوم کے ساتھ روا رکھے گئے اپنے سابقہ نازیبا سلوک کا کفارہ ادا کیا ہے۔ انور لال دین کے منتخب ہونے سے عیسائی برادری کے ووٹ پہلے کے مقابلے میں اور زیادہ ملنے کا امکان موجود ہے۔ مصطفی نواز کھوکھر کو ’’نوازنے‘‘ سے مضبوط مرکز کے حامی حلقوں کا پیپلز پارٹی سے متعلق قائم روایتی تنگ نظری پر مبنی تاثر کم ہوگا۔ رخسانہ زبیری جیسی دلیر خاتون پارلیمانی روایات کو رضا ربانی کی طرح مزید مستحکم بنانے کے لیے سینیٹ کی ’’منفرد‘‘ آواز بن سکتی ہیں۔ رہے بھائی مولا بخش چانڈیو! ان محترم سے میری اُس وقت سے صاحب سلامت ہے جب موصوف خیر سے ’’پیغام‘‘ رسالہ کے نائب مدیر ہوا کرتے تھے۔ موصوف میڈیا پر بھائی عاجز دھامرہ (سینیٹر) کی طرح اپنے ’’معقول‘‘ اندازِ گفتگو کے لیے مشہور ہیں۔ سعید غنی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بھائی کو ابھی مزید محنت کی ضرورت ہے۔
سینیٹ انتخاب کے سندھ کے سیاسی مستقبل پر اثرانداز ہونے کے حوالے سے ہم کچھ کھٹی میٹھی باتیں کرچکے ہیں۔ مٹیاری کو بھی اس بارے میں ایک نوع کی خاص اہمیت حاصل ہے۔ سید محمد علی شاہ جاموٹ کا سینیٹ میں تشریف فرما ہونا اور سید علی حسین شاہ جاموٹ کو لوکل گورنمنٹ میں ایڈجسٹ کرنے کے بعد قومی اور صوبائی حلقوں پر مخدوم صاحبان کو ترجیحی بنیادوں پر اب ٹکٹ ملنے کا امکان ہے۔ سندھ میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس نے مورو والے پل پر کامیاب جلسۂ عام کا انعقاد کرکے یہ تاثر دیا ہے کہ ہم بھی ’’آر یا پار‘‘ کی طرح پیپلز پارٹی سے مقابلہ آرائی کی خاطر تہیہ طوفان کیے بیٹھے ہیں۔ یوں سندھ میں سیاسی ملاکھڑا سجانے کے لیے ایک اور پلیٹ فارم بھی موجود ہے۔ اس ’’رن وے‘‘ پر اب سیاسی کنکارڈ جہاز اتارنے کے لیے ایاز لطیف پلیجو والے اتحاد (مراد ہے جی ڈے اے، مترجم) کو اب نون لیگ کی طرف دیکھنا ہوگا۔ جس لیگ کو پنجاب اور کے پی کے میں اپنے ’’مضبوط جمہوری مؤقف‘‘ کی وجہ سے مان اور شان (پذیرائی) مل رہی ہے۔ گرینڈ الائنس کی جاتی امرا کی طرف اڑان کو اگر ’’اہلِ پنڈی‘‘ کنٹرول نہیں کرتے تو کامن سینس کے مطابق ان کی مشترکہ حکمت عملی انتخابی حوالے سے پیر سائیں پگارو کی زیر قیادت موجود (اور قائم) الائنس کے لیے ’’مہران ماتھری‘‘ (وادیٔ سندھ) میں انہیں کسی حد تک ’’کامیابی‘‘ دلاسکتی ہے۔ دوسری صورت میں 2018ء کے انتخابات سندھ میں ’’ون وے ٹریفک‘‘ کے آثار ہویدا کرتے ہوئے دکھائی پڑتے ہیں (یعنی حسب سابق اِس مرتبہ بھی سندھ سے پیپلز پارٹی ہی اکثریتی پارٹی کے طور پر انتخاب میں کامیاب ہوگی،مترجم)۔