پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کی پسپائی

یہ امر عیاں ہے کہ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی چار سال حکومت میں رہنے کے باوجود کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ خصوصاً پشتون خوا میپ، کارکردگی کے لحاظ سے گراوٹ کا شکار رہی۔ پشتون خوا میپ کی اس کمزوری کا فائدہ اس کی حریف جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) اٹھا چکی ہے۔ نواب ایاز جوگیزئی پشتون خوا میپ کے انتہائی اہم رہنما ہیں۔ اُن کے پاس پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور واسا کی وزارت رہی۔ انھوں نے بڑے واشگاف الفاظ میں اپنی حکومت اور وزرا کی کارکردگی کی ناکامی کا اظہار کردیا ہے۔ نواب ایاز جوگیزئی کہتے ہیں:
’’سیاست میں غفلت اور کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں۔ عوام نے تبدیلی کے لیے ہمیں مینڈیٹ دیا، لیکن ہم تبدیلی نہ لاسکے۔ سابق حکومت کے دور میں عوام کی توقعات پوری نہ ہوسکیں۔ ہمارے وزرا یہ بھول گئے کہ ہمیں اس مقام تک پہنچانے میں کس کا کردار ہے۔ صوبائی حکومت کے دو ادوار رہے، ان دونوں ادوار میں ہم نے روایتی سیاست اور حکومت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اوّل تو ہمیں صوبے کے اندر حکومتی فیصلے کرنے چاہیے تھے، لیکن ہماری حکومت کے فیصلے رائے ونڈ اور مری میں ہوتے رہے۔ رابطے کے فقدان اور مشترکہ پارلیمانی ایجنڈا نہ ہونے کی وجہ سے ہماری کارکردگی بہتر نہ ہوسکی۔ نااہلی کی وجہ سے حکومت کے خلاف عدم اعتماد پیدا ہوا۔ ہم یہ بھول گئے کہ ایک دن ہماری حکومت ختم ہونی ہے اور عوام ہم سے سوال کریں گے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی حزبِ اختلاف کے پاس ہونی چاہیے تھی، لیکن ہم نے اسے حکومتی رکن کو دینے کی غلط روایت قائم کی۔‘‘ (23فروری2018ء)
جے یو آئی نواب ثنا اللہ زہری حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کا ساتھ دے کر اپنا اچھا خاصا حصہ بٹورنے میں کامیاب ہوئی۔ اس جماعت نے اپنے رکن اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران کے بیٹے میر اورنگزیب خان کھیتران کو وزیراعلیٰ کا معاونِ خصوصی مقرر کردیا۔ میر مجیب الرحمان محمد حسنی نے جن کا تعلق نیشنل پارٹی سے ہے، اپنے چھوٹے بھائی گل محمد حسنی کو وزیراعلیٰ کا معاونِ خصوصی برائے محکمہ کھیل و ثقافت، سیاحت اور آرکائیو بنایا۔ میر مجیب بھی اپنی جماعت کے فیصلوں اور ڈسپلن کو خاطر میں نہ لانے والوں میں شامل ہیں۔ تحریک عدم اعتماد اور پھر سینیٹ الیکشن میں پارٹی فیصلے کے برعکس منحرف گروپ کی حمایت کرنے والے نیشنل پارٹی کے گرفتار رکن اسمبلی خالد لانگو کے بھائی بھی وزیراعلیٰ بلوچستان کے مشیر برائے خوراک تعینات ہیں۔ البتہ جے یوآئی سے تعلق رکھنے والے وکیل رؤف عطا بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل نہ بن سکے، حالانکہ اُن کی سمری گورنر کو بھیج دی گئی تھی۔ رؤف عطا کی سیاسی بنیادوں پر تعیناتی کی مخالفت بلوچستان بار کونسل اور بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی کی کہ ’’رؤف عطا ایڈووکیٹ کی اہلیہ رکن بلوچستان اسمبلی شاہدہ رؤف نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی سابق وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کردیئے اور اس صلے میں ان کے خاوند رؤف عطا کو ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نامزد کیا گیا، اور اس شخص کا تعلق بلوچستان سے بھی نہیں ہے۔‘‘ چنانچہ گورنر نے بھی سمری واپس کردی اور جے یو آئی نامراد ہوگئی۔ منصوبہ بندی و ترقیات کا محکمہ بھی درپردہ جے یو آئی کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع چلارہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک اچکزئی نے قرار دیا کہ ان کی جماعت موجودہ اپوزیشن کے ساتھ نہیں جائے گی اور آزاد بینچوں پر بیٹھے گی (12فروری2018ء)۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ جے یو آئی نے اے این پی کو عدم اعتماد کی تحریک میں استعمال کیا۔ خود مراعات لے لیں اور اے این پی محروم رہ گئی۔ دوئم آئندہ حزب اختلاف کا قائد جے یو آئی (ف) کے بجائے نیشنل پارٹی اور پشتون خوا میپ کا ہوگا۔ اس لیے اے این پی کے اکلوتے رکن اسمبلی نے آزاد بینچ پر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا ہے، کیونکہ اے این پی اور پشتون خوا میپ میں رقابت اپنی انتہا پر ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے غیرمنتخب افراد پر نوازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے اور پھر جنرل نشست پر شکست کے بعد کراچی سے تعلق رکھنے والے حسین اسلام کو عبدالقدوس بزنجو نے اپنا مشیر برائے گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی مقرر کردیا ہے۔ انہیں نومنتخب سینیٹر کہدہ بابر کی جگہ یہ قلمدان دیا گیا۔
بلوچستان اسمبلی کے 27 فروری کے اجلاس میں ضلع سبی میں قائم کی جانے والی یونیورسٹی کے نام پر پشتون خوا میپ اور دیگر ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ قصہ یوں ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کی کابینہ کے پہلے اجلاس منعقدہ24 جنوری میں سبی میں چاکر خان رند کے نام سے یونیورسٹی کے قیام کی منظوری دی گئی۔ پشتون خوا میپ کا مطالبہ ہے کہ اس درسگاہ کا نام سبی یونیورسٹی رکھا جائے۔ کابینہ کے اس اجلاس کے فیصلے پر بھی پشتون خوا میپ نے گویا احتجاج کیا۔ مابعد اسمبلی کے مذکورہ اجلاس میں وزیر تعلیم طاہر محمود خان نے میر چاکر رند یونیورسٹی سبی کا مسودۂ قانون ایوان میں پیش کیا۔ اسپیکر نے اس مسودۂ قانون کو متعلقہ کمیٹی کے سپردکرنے کی رولنگ دی۔ پشتون خوا میپ کے پارلیمانی لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے فلور پر کہا کہ سبی یونیورسٹی وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبہ ہے جو آن 2014ء میں منظور ہونے والا یہ منصوبہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل ہے لہٰذا اس کے نام کی تبدیلی کا اختیار وفاقی کابینہ اور حکومت کو ہی ہے۔ سابق صوبائی حکومت کے دور میں صوبائی کابینہ کے اجلاسوں میں اس پر بار بار غور کیا جاتا رہا ہے۔ چار سال قبل بلوچستان میں چار یونیورسٹیوں کی وفاقی پی ایس ڈی پی میں منظوری دی گئی تھی جن میں تربت، خضدار اور لورالائی یونیورسٹی کے نام سے تین یونیورسٹیاں قائم ہیں، جبکہ چوتھی یونیورسٹی سبی یونیورسٹی کے نام سے تھی، مگر اب اس کا نام تبدیل کرکے متنازع نہ بنایا جائے۔ سردار عبدالرحمان کھیتران اور پشتون خوا میپ کے ارکان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ پشتون خوا میپ کے ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ مجلس وحدت المسلمین سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی صوبائی وزیر قانون سید رضا نے قواعد و ضوابط کی متعلقہ شق پڑھ کر سنائی جس کے تحت اسمبلی کو یونیورسٹی کا نام تبدیل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ نیشنل پارٹی کے خالد لانگو کا کہنا تھا کہ ’’میر چاکر رند کے نام پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہمیں آئندہ آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔ سبی ہمارا تھا، ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا۔‘‘
دراصل بات نام کی نہیں، علاقے کی شناخت اور تاریخی قومی ملکیت کے تنازعے کی ہے،پشتون خوا میپ سمجھتی ہے کہ سبی تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ رہا ہے۔ اور 26 مئی1879ء کے معاہدۂ گندمک کے ذریعے اسے افغانستان سے جدا کیا گیا، اور سبی انگریز دور میں بھی برٹش بلوچستان کا حصہ تھا۔ بلوچ جماعتوں کا مؤقف ہے کہ سبی تاریخی طور پر ان کی ریاست کا حصہ رہا ہے اور میر چاکر رند نے جن کا تعلق سبی سے تھا، پندرہویں صدی میں طویل حکمرانی کی ہے۔
ایک افسوسناک یا دلچسپ واقعہ 20 فروری 2018ء کو وزیراعلیٰ ہائوس میں وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے درمیان پیش آیا۔ سرفراز بگٹی مشتعل تھے کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں بیٹھا ایک آفیسر اُن کے کام میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اُن کی طرف سے کوئی فائل جاتی ہے تو اسے دباکر رکھ دیتا ہے۔ اس پر سرفراز بگٹی کی عبدالقدوس بزنجو سے زبردست تلخ کلامی ہوئی، سرفراز بگٹی نے احتجاجاً استعفیٰ بھی لکھ دیا۔ لیکن وہاں موجود اراکین اسمبلی نے تنازعہ ختم کرایا۔ یہ احوال بعض اراکین اسمبلی نے آف دی ریکارڈ بتایا ہے۔