تعلیمی اداروں میں عریانی و فحاشی اور معاشرتی بے حسی

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلمانانِ برصغیر نے اس لیے حاصل کیا تھا کہ وہ اپنے دینِ مبین کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی بسر کرسکیں اور یہاں اسلام کے بتائے ہوئے قوانین کو نافذ کرسکیں۔ ابھی چند سال پہلے تک پاکستان میں اسلامی اقدار و روایات کا اس حد تک احترام کیا جاتا تھا کہ پاکستانی مرد حکمران بیرونی دوروں کے دوران، یا پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی خواتین سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے، حتیٰ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی بیرونی سربراہوں سے ملاقاتوں میں ہمیشہ اس دینی حکم کا احترام کیا اور کبھی مرد حکمرانوں سے مصافحہ نہیں کیا… مگر جب سے ملک میں ذرائع ابلاغ خصوصاً برقی ذرائع ابلاغ کی بہتات ہوئی ہے، ان پر چھائے ہوئے سیکولر اور مغربی لادینی تہذیب کے دلدادہ و پروردہ عناصر معاشرے سے دینی اقدار و روایات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، اور ان کی پوری کوشش ہے کہ دین کا نام لینے والوں کو دفاعی پوزیشن پر اور نکو بنا کر رکھا جائے۔ صورتِ حال اگر اس کے برعکس ہوتی تو اب تک اس کی مذمت میں تمام چینلوں پر کئی کئی پروگرام اور مذاکرے نشر ہوچکے ہوتے، اور یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ابھی گزشتہ برس کی بات ہے کہ خواتین کے ایک تعلیمی ادارے میں منعقدہ ایک تقریب میں پنجاب کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم علی رضا گیلانی نے دوپٹہ اوڑھنے اور باپردہ رہنے والی طالبات کی حوصلہ افزائی کی محض تجویز پیش کی، کوئی عملی اقدام اس ضمن میں نہیں کیا… پھر بھی اس پر ذرائع ابلاغ نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ پردہ کرنے کی بناء پر طالبات میں امتیاز کی بات ہی وزیر موصوف نے زبان سے کیوں نکالی؟
سابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم تک موقع بے موقع اس بات پر مطعون کیے جاتے رہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور میں ٹیلی ویژن پر خبریں پڑھنے والی خواتین کے لیے دوپٹہ اوڑھنا لازمی قرار دیا تھا۔ یہ لوگ اس حد تک بے باک ہوچکے ہیں کہ انہیں حیاء اور پردے کے بارے میں قرآن و حدیث کی تعلیمات کا حوالہ دے کر اپنے طرزِعمل پر نظرثانی کے لیے کہا جائے تو نہایت ڈھٹائی سے یہ رٹا رٹایا جملہ بول کر اپنے مؤقف پر اصرار کرتے ہیں کہ ’’ہمیں اپنے مسلمان ہونے کے لیے کسی سے فتویٰ لینے کی ضرورت نہیں…‘‘گویا وہ دین کے منافی اپنی من مانی روش کو ترک کرنے پر بھی تیار نہیں اور اسلام کا دامن بھی پکڑے رکھنا چاہتے ہیں۔ رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی…!!!
آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ صحافت کے نام پر ہمارے ذرائع ابلاغ پاکستانی معاشرے کو شرم و حیا سے دور کرنے اور یہاں بے حیائی، بے پردگی اور بے لباسی کو فروغ دینے کے لیے اپنا پورا زور صرف کررہے ہیں، جس کے اثرات بھی ہمارے ماحول اور خصوصاً تعلیمی اداروں کے تیزی سے تبدیل ہوتے ماحول پر واضح محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ اس طرح انسانی آزادی اور نام نہاد بنیادی انسانی حقوق کی آڑ میں والدین، شوہر اور بیوی سے بے وفائی کی بھی پوری شدت سے حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جس سے معاشرتی بگاڑ نہایت سرعت سے عام ہورہا ہے، خاندان کی اکائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور بزرگوں خصوصاً والدین اور بہن بھائیوں کے قابلِ احترام رشتوں کی نفی کا رجحان فروغ پذیر ہے۔
’’کیٹ واک‘‘ اور ’’فیشن شو‘‘ جو کل تک مغربی ثقافت کا حصہ تھے مگر ہمارے یہاں شجرِ ممنوعہ سمجھے جاتے تھے کیونکہ یہ کھلے کھلے فحاشی و عریانی اور بے حیائی کے مظاہر ہیں جن کا اہتمام کرنے والوں کے بارے میں قرآن حکیم فرقان حمید کی سورۂ نور کی آیت نمبر 19 میں واضح الفاظ میں ارشادِ ربانی ہے ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے، وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔ اس قدر سخت قرآنی وعید کے باوجود آج کل یہ ’’فیشن شو‘‘ پاک لوگوں کے رہنے کے لیے حاصل کیے گئے ملک میں معمول کی سرگرمی بن چکے ہیں، خاص طور پر موسم بہار میں شہر شہر میں ’’ہفتۂ فیشن‘‘ اور ’’کیٹ واک‘‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اخبارات خبروں کے علاوہ میگزین کے صفحات کے صفحات اس برائی کے فروغ کے لیے وقف کرتے ہیں اور تقریباً بے لباس دوشیزائوں کی مختلف زاویوں سے اتاری گئی بڑی بڑی رنگین تصاویر کسی ہچکچاہٹ اور تذبذب کے بغیر شائع کی جاتی ہیں۔ اسی طرح برقی ذرائع ابلاغ بھی ایسی سرگرمیوں کی بھرپور کوریج کے ذریعے اپنے ناظرین کو ’’تفریح طبع‘‘ کا زبردست سامان فراہم کرتے ہیں۔
تیزی سے پھیلتی ہوئی بے حیائی، فحاشی و عریانی، بے پردگی اور بے وفائی کی ان خوفناک معاشرتی برائیوں کا ایک انتہائی افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ معاشرے میں ان کی مزاحمت کی کوئی کوشش کہیں نظر نہیں آتی۔ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں موجود دینی و سیاسی جماعتیں اور سماجی و معاشرتی تنظیمیں دین بیزاری کی آخری انتہائوں کو چھوتی ہوئی ان برائیوں پر مکمل طور پر خاموش ہیں، وہ یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیے چلی جا رہی ہیں۔ کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند ہوتی سنائی نہیں دیتی۔ معاشرتی اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ جانے والی اس بیماری کے خلاف کوئی مظاہرہ، جلسہ نہ جلوس، کسی رہنما کا بیان نہ مراسلہ… سب چپ سادھے بیٹھے ہیں، جیسے سانپ سونگھ گیا ہو… ٹک ٹک دیدم… دم نہ کشیدم ؎
دینی و سماجی طبقات کی اسی خاموشی اور بے حسی کا نتیجہ ہے کہ یہ زہر معاشرے کی رگوں میں تیزی سے پھیلتا چلا جا رہا ہے، کیونکہ اسے کسی طرف سے کسی مزاحمت کا کوئی خوف لاحق نہیں۔ چنانچہ اس وبا نے اب نئی نسل کے معمار تعلیمی اداروں خصوصاً خواتین کے تعلیمی اداروں کا رخ کرلیا ہے، جہاں مینا بازاروں، فینسی ڈریس شوز، تقریباًتِ تقسیم انعامات، یومِ والدین، یومِ خواتین اور یومِ اساتذہ وغیرہ کے مواقع پر منعقدہ تقریبات میں ’’پرفارمنس‘‘ کا خوشنما نام دے کر بچوں سے ڈانس کروایا جاتا ہے، اور لغویات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ملک کے، دینی و معاشرتی اقدار سے، محبت کرنے والے طبقات کو اس ضمن میں محکمہ تعلیم حکومتِ پنجاب کا ممنون ہونا چاہیے جس نے بے راہ روی کے اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے کی بروقت کوشش کی ہے اور ایک حکم نامہ کے ذریعے صوبے کے تمام سرکاری ہی نہیں، نجی اسکولوں میں بھی ہر قسم کی تقریبات میں بچوں سے ڈانس کرانے پر پابندی عائد کردی ہے۔ کسی تقریب میں بچوں کو ڈانس کی اجازت دینے یا زبردستی ڈانس کرانے پر اس اسکول کا لائسنس معطل کردیا جائے گا۔ اس طرح اسکولوں میں اساتذہ کے جینز پہننے اور موبائل فون کے استعمال کی بھی ممانعت کردی گئی ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ پنجاب کے محکمہ تعلیم نے مثبت جانب قدم اٹھایا ہے جس کی حوصلہ افزائی اور خیر مقدم بھی کیا جانا چاہیے اور تعاون بھی۔