کردار سازی کو نظام تعلیم کا مر کز و محور بنائے بغیر تعمیر و ترقی ممکن نہیں،محمد طیب صدیقی

اچھا اسلوک تابناک مستقبل،خصوصی سپلیمنٹ
انٹرویو: عمر فاروق
سوال: کریکٹر ایجوکیشن فائونڈیشن کے بارے میں کچھ بتائیں؟
جواب: کیریکٹر ایجوکیشن فاؤنڈیشن Not-for-Profit ادارہ ہے۔یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جسے معاشرے کے بہترین تعلیمی ماہرین اور اسکالرز کا تعاون حاصل ہے۔.اس کا بنیادی مقصد اسکولوں کے طلبہ کردار سازی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ادارہ جہاں معیاری نصاب کی تشکیل اور اسکولز کو اس کی فراہمی کو یقینی بنا نے پر کام کر رہا ہے ۔وہاں اسکولز کے اساتذہ کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو اجاگر اور بلند کرنے لے لیے تربیتِ اساتذہ کا اہتمام بھی کر رہا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کی دینی ، سماجی، اخلاقی اور ذہنی تربیت تعلیم کے اہم ترین مقاصد میں شامل ہے. جیسا کہ تھورور روزویلٹ نے کہا:
“To educate a man in mind and not in morals is to educate a menace to society” اس ادارے میں ہمارے پیش ِ نظر شخصیت سازی کا ہمہ گیر اور مکمل تصور ہے کہ ہم کس طرح اپنی نوجوان نسل کو کردار سازی کے مختلف مراحل سے گزار کر معاشرے کے لیے مفید اور کامیاب انسان بنا سکیں۔ اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اس ادارے نے اب تک تین منصوبے شروع کیے ہیں۔
۱۔ قرآن ایجوکیشن پروگرام
۲۔ کریکٹر ایجوکیشن پروگرام
۳۔ کمیونٹی ایجوکیشن پروگرام
سوال: اس کام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
جواب: اللہ رب العالمین نے پاکستان کو بے پناہ مادی و قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ نوجوانوں کی تعداد 50فیصد سے زائد ہے، اسٹریٹجک لوکیشن ہونے کی وجہ سیپاکستان کو دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہے، اس ملک میں چاروں موسم ہیں، ہر طرح کی زمین و پہاڑ ہیں جن میں قدرت کے بے شمار خزانے دفن ہیں، اہم بندرگاہیں ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان تمام بیش بہا وسائل کے ہو تے ہوئے پاکستان صفِ اوّل کے ممالک میں شامل کیوں نہیں۔
جب ہم پاکستان کے اہم مسائل بدامنی، لاقانونیت، کرپشن اور فرقہ واریت کی بات کرتے ہیں تو درحقیقت ان تمام مسائل کا تعلق کردار کے بحران سے ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی تک ہم وہ مطلوبہ نظامِ تعلیم نہیں دے سکے جو معاشرے کے لیے با مقصد اور مفید شہری فراہم کر سکے۔کردار سازی کو نظام تعلیم کا مر کز و محور بنائے بغیر نہ تو ہم ان مذکورہ مسائل کو حل کر سکتے ہیں اور نہ ہی تعمیر و ترقی کا سفر ممکن ہے۔
اللہ تعالی نے جتنے بھی انبیا اس کرہ ارض پر بھیجے سب کے پیشِ نظر انسانوں کی زندگیوں کو سنوارنا اور ان کا تزکیہ نفس کرنا رہاہے۔ خود حضور نبی کریمﷺ کے فرائض منصبی کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں مختلف مقامات پر جو افعال بیان کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: کہ آپ ﷺ انسانوں پر اللہ کی آیات تلاوت کرتے ہیں، کتاب وحکمت (دانائی) کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں یعنی ان کی زندگیوں کو سنوارتے ہیں۔لہذا قرآن وسنت کردار سازی کی تعلیم کی نہ صرف بنیاد فراہم کرتے ہیں بلکہ عملی رہنمائی بھی ہمیں وہیں سے ملتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان کو معاشرے میں قرآن و سنت کی تعلیمات کو کردار سازی کے نصاب کی بنیاد بنایا جائے۔ پاکستان میں 98 فیصد مسلمان ہیں اور قرآن حکیم پر ایمان رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے پیغام کو نہیں سمجھتے۔ علما نے ایمان لانے کے بعدقرآن کریم کے چار حقوق بیان کیے ہیں:
۱۔ قرآن کی درست تلاوت
۲۔ قرآن کا فہم
۳۔ قرآن پر عمل (انفرادی و اجتماعی)
۴۔ قرآن کا ابلاغ
ہم یہ چاہتے ہیں قرآن فہمی کے نصاب کے ذریعے ہم بچوں کو ان حقوق کی ادائیگی کے لیے تیار کر سکیں۔
سوال: قرآن ایجوکیشن پروگرام ہے کیا؟
جواب: قرآن ایجوکیشن پروگرام کے تحت ہم نے قرآن مجید کی تعلیم کے لیے ایسا نصاب ترتیب دیا ہے جو بچوں کی تعلیمی نفسیات سے مطابقت بھی رکھتا ہے اور جدید طریقہ ہائے تدریس کو سامنے رکھ کر تیارکیا گیا ہے۔ ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ بچہ اسکول میں رہتے ہوئے باقی مضامین کے ساتھ نہ صرف قرآن حکیم کو درست طور پر پڑھ سکے بلکہ اس کو سمجھنے کی استعداد بھی پیدا کرسکے۔ اس طریقہ تدریس کو ڈاکٹر عبدالعزیز عبدالرحیم صاحب نے متعارف کروایا جس میں ان کی کی 20 سالہ تحقیق شامل ہے۔ ڈاکٹر عبد العزیز عبد الرحیم کا ، تعلق حیدرآباد دکن سے ہے ، اور پیشے کے اعتبار سے جیالوجسٹ ہیں۔ انہوں نے قرآن کو آسان کرنے کے لیے زبان کو سیکنڈ لینگویج کے طور پر پڑھائے جانے والے اصولوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے ذخیرہ الفاظ کی ترکیب کو قرآن پڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ قرآن میں استعمال ہونے والے الفاظ کی تعداد 78000 ہے ، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن کے صرف 125 ایسے الفاظ ہیں جو قرآن میں تقریباً 40 ہزار مرتبہ استعمال ہوئے ہیں اور یہ الفاظ نماز اور اذکار نماز پر مشتمل ہیں۔ یعنی اگر ہم نماز سمجھ کر پڑھ رہے ہوں تو قرآن کے پچاس فیصد الفاظ کا مفہوم سمجھنے کی استعداد پیدا کر لیتے ہیں۔
اسی طرح قرآنی گرامر کو سمجھانے کے لیے ٹی پی آئی(Total Practical Interaction) کا استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی بچّہ دیکھ کر، سْن کر، سْوچ کر ، بول کر اور اشارہ کی مددسے سیکھ رہا ہے۔ قرآن کی تجوید اور ناظرہ کو آسان اور دلچسپ کرنے کے لیے ہم نے کورس کو Phonics کو استعمال کرتے ہوئے تیار کیا ہے یعنی حروف کی آوازوں کا تصور اور آوازوں کو ملا کر پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔دلچسپ اور آسان بنانے کے لیے حروف تہجی کی نظم بنائی ہے جو بچے دلچسپی اور آسانی سے یاد کر لیتے ہیں۔ مشکل قواعد کو آسان کہانیوں کی صورت میں ترتیب دیا ہے۔ اسکولوںمیں قرآن پڑھانے کے لیے ہم نے کے جی ٹو تا جماعت دوئم آئوقرآن پڑھیں کورس ، جماعت سوئم تا پنجم فہم القرآن کورس اور جماعت ششم تا دھم مکمل قرآن مع مختصر تشریح شکیل دیا ہے۔ فہم القرآن کورس میں طالب علم روز مرّہ معمولات یعنی نماز اور مسنون و قرآنی اذکارکے ذریعے قرآن کے 70فیصد ذخیرہ الفاظ سیکھ لیتا ہے۔
سوال: اس پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے آپ نے کتنے تربیت یافتہ افراد تیار کیے؟
جواب: جو ادارے ہمارا نصاب اختیار کرتے ہیں ہم ان کے اساتذہ کی تربیت کا مستقل اہتمام بھی کرتے ہیں۔ ابتدائی طور پر ہم نے 104 ماسٹر ٹرینرز تیار کیے، جن کی تعداد 300 تک بڑھانے کا ارادہ ہے۔
سوال: مستقبل کے کیا منصوبے ہیں؟
جواب: اگلے مرحلے میں ہم ٹیکنالوجی کے استعمال پر جانا چاہتے ہیں۔دنیا بھر میں لرننگ ٹیکنالوجیز کے ذریعے تعلیمی دنیا میں بے شمار مواقع پیدا کیے گئے ہیں اور ہم ان شاء اللہ ان سے بھی استفادہ کریں گے۔ نئے سیشن سے ان شائاللہ کریکٹر ایجوکیشن فاونڈیشن (CEF) کے یو ٹیوب چینل پر تمام مواد دستیاب ہوگا۔
سوال: مزید کوئی خاص بات جو آپ کہنا یا بتانا چاہیں؟
جواب: ہم سمجھتے ہیں کہ امت مسلمہ کا مستقبل پاکستان سے اور پاکستان کا مستقبل اس کے نوجوانوں سے وابستہ ہے۔ نوجوان نسل کی کردار سازی کو قومی سطح پر ترجیح اول قرار دیا جانا چاہیے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کو سمجھے اور ان پر عمل کیے بغیر کردار سازی ممکن نہیں۔ لہذا نوجوانوں کو قرآن سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جو بھی ادارے کام کر رہے ہیں ان سے مشاورت اور اشتراک ہماری خواہش ہے۔
ہم نے سلطانہ فائونڈیشن کے تحت چلنے والے ایک کالج جس میں 1800 طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں کو نماز کا کورس کروایا۔ آپ حیران ہوں گے کہ ان طلبہنے 36 قرآن کے حلقے قائم کیے اور تقریباً 90 فیصد طلبہ و طالبات نماز کی پابندی کررہے ہیں ان کا احساس ہے کہ ہماری نماز مؤثر ہو گئی ہے کیونکہ جو کچھ ہم نماز میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں تو ہمیں سمجھ میں آرہا ہوتا ہے کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں۔

اے ۔ ایچ۔ ایس۔ایس فطری ماحول میں تربیت کا ایک شاندار معیار

خیرکم من تعلم القرآن و علمہ
کوئی ذی روح اس دنیا میں ایسا نہیں ہے کہ جس “سیکھنے “اور “سکھانے” کے عمل سے گزر نہ ہو۔ نسلِ انسانی کا آغازحضرت آدم علیہ السلام کے وجود سے شروع ہوا اور اگر ہم اس وقت رب رحیم اور فرشتوں کے درمیان ہونے والے مکالمے پر غور کریں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتوں کے علم میں انسان کا وجود کوئی خاص اہمیت کا حامل نہ تھا۔مگر اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوںوہ تم نہیں جانتے۔اور پھر آدم علیہ السلام کو تمام اشیا کے ناموں کی تعلعم دے کر ان کو ممتاز اور معتبر ٹہرا دیاجس سے فرشتے بھی لا علم رکھے گئے تھے۔
غرض علم کی اہمیت انسان کے وجود کے ساتھ ہی اجاگر کر دی گئی تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسا علم ہےجو اس کے لئے منفعت کا باعث کا باعث ہو ہم دنیا میں مختلف علوم سیکھتے ہیں۔صرف اس لیئے کہ اس کے جاننے کے بعد بہتر ذریعہء معاش حاصل ہو۔جب کہ دنیا میں صرف ایک علم ہے جو کہ انسان کی دنیا میں آنے کے حقیقی مقصد سے آگاہ کرکے اس کی دنیا وی اوراخروی زندگی کےلئے اجر و ثواب کا باعث بنتا ہے ۔اور علم صرف اور صرف قرآن کا علم ہے۔
جس طرح زندہ رہنے کے لیئے پانی ہوا اور غذا اور انسان کوتن ڈھاپنےکےلیےلباس کی اشدضرورت ہےاسی طرح انسان کی دنیا میں بقا اور آخرت کی فلاح اور روح کی غذا کے لیے اللہ تعالیٰ کاعطا کردہ علم قرآن کریم ہی ہے لہذا جس نے اس کو سیکھ کر عمل کیا وہ ایک کامیاب انسان ٹھرا،اس لیے دیگر بے شمار تعلیمی اداروں کی خدمات کے اعلیٰ الرغم ہم نے شعوری طور ایسا تعلیمی ادارہ بنانے کے عزم کیا جس سے ہمارے بچوں کو دین و دنیا سے ایسی آگاہی ہو کہ ان کو دنیا میں آنے زندگی گزارنے اور کوچ کر جانے کے تمام معاملات کی نہ صرف نشاندہی کرے بلکہ اس پر چلنے کے لیے صراط المسطقیم سے آگاہ کرے۔
لہذا ہم نے اپنے ادارے کے سلیبس سے لے کر اساتذہ کی تدریس اور نونہالانِ قوم کو ایک فطری ماحول میں تربیت کا ایک شاندار میعار قائم کیا ہے۔
مونٹیسوری:-A.H.S.S
مونٹیسوری،اسلامی اقدار ،جدید اور کامیاب طریقہ تعلیم کا ایک حسینA.H.S.S امتزاج ہے۔جس میں بچوں کو سیکھنے کے لیے ایک فطری ماحول مہیا کرنے کی کوشش کی گئ ہے تاکہ وہ اسلامی اقدار کے ساتھ ساتھ بنیادی تعلیم حاصل کریں جو بعد میں ان کی کردار سازی میں معاون ہو سکے۔
عربی زبان کو ابتدا میں متعارف کروایا گیا ہےتاکہ قرآن کی زبان سے مانوس ہو سکیں اور قرآن سےان کی وابستگی کی بنیاد مضبوط ہو سکے۔
ACTIVITY BASED LEARNING
جس میں طالب علم کی مرکزیت اوراہمیت کو مد نظر رکھا جاتا ہے،جس کے ذریعے طلبہ میں غوروفکر کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
طلبہ خود اپنے تجربات کے ذریعے سیکھیں اور اسی سیکھنے کے عمل کے دوران ان کی رہنما ئی کی جا ئے۔
حفظ پروگرام:-A.H.S.S
م حفظ پروگرام کو چار سال میں تقسیم کیا گیا ہے،جس میں حفظ کے ساتھ ساتھ بنیادی عصری تعلیم کی تدریس جاری رہتی ہے اور بچے اپنی عمر کے حساب سے اپنے گریڈ کی بنیادی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں ، اس کےعلاوہ غیر نصابی سرگرمیاں ،کھیل وغیرہ بھی حفظ پروگرام میں شامل ہےتاکہ بچے ایک صحت مند ماحول میں اپنی تعلیم حاصل کریں اور ان کی ذہنی نشوونماپر کوئی بوجھ نہ ہو۔
حفظ کلاس میں پڑھائےجانے والے بنیادی مضامین یہ ہیں۔
۱۔قرآن :مع تجوید
۲۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم:حفظ کلاس کا لازمی مضمون ہےاور بنیادی اسلامیات بھی اس کا حصہ ہے۔دعائیں اور احادیث بھی شامل ہیں۔
۳۔ عربی: بنیادی عربی قواعدجو قرآن کی زبان سمجھنے میں مدد گار ہوں۔
۴۔ ریاضی {ان مضامین کو ہر بچے کی عمر ،کلاس اور ذہنی استعداد کے مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے۔}
۵۔ انگلش
۶۔ معلومات عامہ+کمپیوٹر

تعبیراسکولنگ سسٹم اور صفہ پبلک اسکول معیاری تعلیم کے فروغ میں مصروفِ عمل

تعبیر اسکولنگ سسٹم اور صفہ پبلک اسکول ضلع بن قاسم کا تعلیمی پروجیکٹ ہے۔ مجموعی طور پر چار کیمپس لانڈھی اور کورنگی اور شیر پاو میں میعاری تعلیم عمل کے فروغ میں مصروف عمل ہیں ۔ تعلیمی عمل کی جدو جہد واضع نصب العین یعنی “ایسے افراد کی تیاری جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اطاعت گزار ہوں اور عہد حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کرسکے‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے کی کی جارہی ہے ۔ جملہ کارکنان خدمت اور مشنری جذبے سے سرشار خدمت میں مصروف عمل ہیں۔
سالانہ تعلیمی کلینڈر:
نئے تعلیمی سال کے آغاز سے قبل ہی جامع سالانہ تعلیمی کلینڈر تشکیل پاجاتا ہے ۔ اس تعلیمی کلینڈر میں پورے سال کا تعلیمی عمل، ہم نصابی سرگرمیاں ( کھیلوں کی سرگرمیاں، تعلیمی دورے، سائنسی نمائش، سیرت کانفرنس، مختلف سطح کے مقابلہ جات مثلاً حسن قرآت کا مقابلہ ، تقریری مقابلہ وغیرہ) کی جملہ پلاننگ مرتب کر لی جاتی ہے۔ اور اسی کے مطابق پورے سال عمل درآمد کیا جاتا ہے ۔ اسکول اسمبلی میں خصوصی ایام کے حوالے سے تواتر کے ساتھ پیش کش کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور بچوں کو تیاری کروائی جاتی ہے اور بچے اسکول اسمبلی میں اپنی صلاحیت کو جلا بخشتے ہیں۔

تر بیتِ اسا تذہ :
ماہ جولائی میں خصوصی طور پر تربیت اساتذہ کے پروگرامات مرتب کیے جاتے ہیں لیکن دوران سال بھی تواتر کے ساتھ تربیت اساتذہ کے پروگرامات کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ تربیتی ورکشاپس کے ذریعے ان کو ہر طرح سے فنی ، نظریا تی اور نفسیا تی تر بیت سے گزا ر کر قابلیت و اہلیت میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
تربیت والدین:
دوران تعلیمی سال والدین کے لیے بھی تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ان پروگرامات کو بہت سراہا جاتا ہے ۔ صحت مند بچے اور صحت مند خاندان کے نام سے کیے جانے والے پروگرام کو بہت پذیرائی ملتی ہے ۔
والدین کے کاونسلنگ کی خدمات :
ضلع بن قاسم کے اسکولوں کو یہ امیتاز حاصل ہے کہ ان کے پاس والدین کے لیے کاونسلنگ کی خدمات بھی دستیاب ہیں۔ والدین اپنے ذاتی ، گھریلوں اور بچوں کی تعلیمی کمزوریوں کے حوالے سے پیشہ وارانہ طرز کی کاونسلنگ کی خدمات سے مستفید ہوتے ہیں۔ کثیر تعداد میں والدین اس حوالے سے استفادہ حاصل کرچکے ہیں۔
فزیکل ٹریننگ :-
تعبیر اسکولنگ سسٹم میں کیوکیشن کراٹے کلاسز اسکول نظام میں نصاب کی طرح شامل ہے ۔ ماہر ٹرینر کے زیر نگرانی طالب علم تربیت حاصل کرتے ہیں ۔ ان شاء اللہ عنقریب صفہ کے کیمپسز میں بھی اس کا انعقاد کیا جائے گا۔
خصوصی تدریس برائے ناظرہ قرآن اور احادیث:-
ضلع بن قاسم کے اسکولوں میں بچوں کے لیے ناظرہ قرآن لازمی ہے ۔ اس مقصد کے لیے مستند استاد کی تقرری کی جاتی ہے ۔ حال ہی میں بین الاقوامی سطح پر پڑھایا جانےوالے کورس کو اسکول نصاب میں شامل کیا گیا ہے ۔ جس کی مدد سے ان شاء بچے آغاز سے ہی قرآن فہمی سے روشناس ہوسکیں گے ۔ اسی طرح سے احادیث کا نصاب بھی بچوں کے تعلیمی عمل شامل ہے ۔
رسمی جائزہ :-
اسکول کے تعلیمی عمل میں رسمی جائزہ صرف تحریر کے ذریعے نہیں لیا جاتا ۔ بلکہ تحریری عمل کے ساتھ ساتھ زبانی، اسائنمٹ /پروجیکٹ، پیش کش (پریزنٹیشن) سال بھر کاپی پر کیے گئے کام کا معیار بھی جائزے کا عمل کا حصہ ہوتا ہے۔
تعلیمی کا میا بیا ں : الحمد اللہ ضلع بن قاسم کے طالب علم وقتً فوقتاً انٹر اسکول مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں اور اور نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تقریری مقابلوں میں اور کھیلوں کے مقابلوں میں طالب علموں نے نمایاں پوزیشنز حاصل کرچکے ہیں۔