پچھلے دو ہفتوں سے خیبر پختون خوا میں انجمن پٹواریان و قانون گویان کی جاری ہڑتال سے متعلقہ اعلیٰ حکام کی بے اعتنائی اور اس ہڑتال کے باعث خزانے کو پہنچنے والے کروڑوں روپے کے نقصان کے علاوہ انتقال، رجسٹری اور فرد کے حصول کے لیے پٹوار خانوں اور تحصیل جانے والوں کو پٹواریوں کی ہڑتال سے پہنچنے والی ذہنی اذیت اور مالی نقصان کی وجہ سے درپیش مشکلات کی جانب متعلقہ حکام اور خاص کر وزیراعلیٰ کو توجہ دلانے کے سلسلے میں باندھنی پڑی ہے۔ پٹواریوں کی اس ہڑتال کا حکومتی سطح پر نوٹس شاید اس لیے نہیں لیا جارہا ہے کیونکہ ایک تو پٹواریوں کی اجتماعی طاقت منتشر ہے، وہ کسی ایک جگہ پر یا کسی ایک چھت تلے خدمات انجام نہیں دے رہے ہیں۔ دوم، اس ہڑتال کا متعلقہ حکام پر شاید اس لیے بھی اثر نہیں ہورہا ہے کہ اس سے ہسپتالوں یا پھر تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں ہونے والی ہڑتالوں کی طرح عام آبادی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑرہا، اور نہ ہی اس ہڑتال کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے وہ نوٹس لیا ہے جو عموماً اس طرح کے مواقع پر لیا جاتا ہے۔ اس لیے اس ہڑتال کے خاتمے کے حوالے سے فی الحال راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اسی طرح پٹواریوں کے ساتھ چونکہ معاشرے کی عام آبادی کا کم ہی واسطہ پڑتا ہے، نیز عام طور پر معاشرے میں چونکہ ان کے بارے میں کوئی زیادہ اچھی رائے بھی نہیں پائی جاتی شاید اس وجہ سے بھی اس ہڑتال کا حکومتی سطح پر وہ اثر نہیں ہے جو کہ اس طرح کے مواقع پر حکومت پر ہوتا ہے۔ ہمارے تئیں حکومتی سطح پر اس کا نوٹس ضرور لیا جانا چاہیے کیونکہ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی طرح پٹواریوں کا بھی اپنے مسائل کے لیے آواز اٹھانا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ دیگر ملازمین کے اس حق کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
اس ضمن میں پٹواریوں کے اس اسٹینڈ میں بھی خاصا وزن نظر آتا ہے کہ یہ پٹواری، قانون گویان اور گرداوران ہی ہیں جو معاشرے پر پڑنے والی ہر قدرتی آفت اور حادثے کے موقع پر امداد اور بحالی کے کاموں میں سب سے آگے آگے ہوتے ہیں۔ پٹواریوں کا یہ کردار پوری قوم جہاں اکتوبر 2005ء کے تباہ کن زلزلے اور2010ء کے سیلاب سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کی نشاندہی، ازالے، تصدیق اور تخمینہ جات لگانے، اور متاثرہ خاندانوں کی بحالی اور امداد کی تقسیم کی صورت میں دیکھ چکی ہے وہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے بم دھماکوں اور تخریب کاری کے واقعات میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کے تعین اور تصدیق میں بھی پٹواریوں نے جو قومی کردار ادا کیا ہے وہ ناقابلِ فراموش ہے۔
واضح رہے کہ انجمنِ پٹواریان نے اپنے مطالبات کے ضمن میں جو چارٹر آف ڈیمانڈ حکومت کے روبرو پیش کیا ہے اُس میں بستہ الائونس دس روپے سے بڑھاکر دس ہزار روپے کرنے، سو روپے عدالتی الائونس میں اضافہ کرکے اسے دوہزار روپے مقرر کرنے، حد براری فیس تحصیل دار دس ہزار روپے تک بڑھانے، صوبہ پنجاب کی طرح محکمہ مال کے ٹیکس میں پانچ فیصد کمیشن دینے، فیلڈ اسٹاف کو دو فیصد اضافی الائونس دینے، ریونیو کلرک کی ترقی تحصیل دار کے ذریعے کرنے، پٹواری کو اسکیل 11،گرداور کو اسکیل 15، نائب تحصیل دار کو اسکیل 16 اور تحصیل دار کے اسکیل 17 کو اَپ گریڈ کرنے کے مطالبات قابل ذکرہیں۔ اُن کے ان مطالبات کی قانونی اور آئینی حیثیت کی بحث سے قطع نظر اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ان مطالبات میں بظاہر نہ تو کوئی قباحت نظر آتی ہے اور نہ ہی ان میںکوئی ایسا مطالبہ شامل ہے جس پر بات چیت کی گنجائش نہ ہو۔
ان مطالبات پر اگر حکومتِ وقت کے لیے سو فیصد عمل درآمد کسی بھی وجہ سے ممکن نہ ہو تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان سے بات چیت نہ کی جائے اور ان کے اِن مطالبات کو کوئی اہمیت نہ دی جائے جو بظاہر جائز اور فطری نظر آتے ہیں۔ لہٰذا اب جب یہ معاملہ صوبائی اسمبلی میں بھی تحریکِ التوا کی صورت میں پہنچ چکا ہے تو توقع کی جانی چاہیے کہ صوبائی حکومت اس ہڑتال اور ان مطالبات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر کسی قابلِ قبول سمجھوتے اور حل پر پہنچنے کی کوشش کرے گی۔ اسی طرح امید ہے کہ پٹواری برادری بھی اپنے مطالبات اور سخت مؤقف میں لچک کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہڑتال فی الفور ختم کرکے عام لوگوں کو انتقالات اور دیگر متعلقہ امور میں درپیش مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے انہیں ہر ممکن ریلیف فراہم کرنے میں کسی لیت ولعل سے کام نہیں لے گی۔