واصف علی واصف
لائوڈ اسپیکر کا شور ہے۔ تبلیغ کا زور ہے۔ مسلمان، مسلمانوں کو مسلمان ہونے کی تبلیغ کررہے ہیں۔ جس کی طبیعت چاہے، اٹھ کر کھڑا ہوجائے اور رٹی رٹائی ایک تقریر دے مارے۔ بے بسی ہے۔ وقتِ قیام بھی سجدے میں گزارا جاتا ہے۔ زندگی کسی رخ پر جارہی ہے اور تبلیغ کسی اور رخ پر۔ ہم لوگ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سادہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی چٹائی کا بستر بنایا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباسِ مبارک میں پیوند تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے معزز انسان بنائے گئے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر چلنے کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں جبکہ ہماری زندگی اس زندگی یکسر مختلف ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی تقریبات کو سادہ ترین رکھنے کا حکم فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں، لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ لڑکی والے بارات کے استقبال اور طعام پر بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ یہی نہیں، بارات سے پہلے رسم حنا بندی ادا کی جاتی ہے۔ راتوںکو ایک گھر سے دوسرے گھر جانے والے مہندی کی رسم ادا کرنے کے لیے سرِعام گانا بجانا کرتے ہیں۔ ویڈیو فلمیں بنائی جاتی ہیں اور اپنے مسلمان ہونے کا سرعام مذاق اڑایا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں شادیوں کی دعوت ہوتی ہے اور بارات میں کسی بڑے سیاسی جلسے کا رنگ نظر آتا ہے۔ کیا بنے گا؟ امیر پیسے کی نمائش کرکے غریب کو مزید غریب کردیتا ہے، اور غریب کی بیٹیاں، ہمیشہ بیٹیاں ہی بنی رہتی ہیں۔ انہیں دلہن بننے کا موقع اس لیے نہیں ملتا کہ ان کے پاس وسائل نہیں۔
یہ عجیب باتیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر شعبہ اپنے اصل سے باہر ہوگیا۔ ہر ترتیب ٹوٹ گئی۔ کسی زمانے میں استاد کردار ساز ہوتے تھے۔ بچوں میں عظمتِ کردار پیدا کرتے تھے۔ روحانیت کا درس دیتے تھے۔ زندگی کی حقیقتوں سے آشنا کرتے تھے… اور آج کچھ اور ہی ماحول پیدا ہوگیا۔ درس گاہیں کچھ اور قسم کے انسان پیدا کررہی ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہر طرف اسلام پھیل جائے۔ لیکن ہم نے خود جو اسلامی معاشرہ بنایا ہے، اس کی حالت بے ترتیب سی ہے۔ ہم بچوں کو انگریزی اسکولوں میں داخل کراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلامی روحانی معاشرہ پیدا ہو۔ ہم کیا بورہے ہیں اور کیا کاٹنا چاہتے ہیں!
ہم عجیب قوم ہیں۔ عبادت عربی میں کرتے ہیں، دفتروں میں انگریزی لکھتے ہیں، انگریزی بولتے ہیں۔ ہم عام طور پر گفتگو اردو میں کرتے ہیں، گھروں میں اور بے تکلف ماحول میں مادری زبان استعمال کرتے ہیں۔ ہم اقبالؒ کے کلام کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی زندگی پر اعتراض کرنے سے بھی باز نہیں رہتے۔ قائداعظمؒ کو بابائے قوم مانا جاتا ہے اور ان کے دیے ہوئے پاکستان کی وہ عزت نہیں کرتے، جو اس کا حق ہے۔
ہم رحم دلی کا سبق دیتے رہتے ہیں، اس کے فوائد اور محاسن بیان کرتے ہیں۔ لیکن کسی پر رحم نہیں کرتے۔ لوگ اتنے امیر ہیں کہ بس بے حساب۔ امیروں کا مال بڑھتا جارہا ہے اور غریبوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ یہ کیا ترتیب بنے گی؟ کیا رحم دلی ہوگی؟ کیا بھائی چارہ ہوگا؟ کنارے پر آجائیں تو امدادی کیمپ آپ کے استقبال کے لیے موجود ہوں گے۔ لیکن ڈوبنے والے کے پاس تو کوئی امدادی نہ پہنچا۔ یہ وسائل کی بات نہیں، یہ احساس اور جذبات کی بات ہے۔
(حرف حرف حقیقت۔ واصف علی واصف)
بیابہ مجلسِ اِقبال
شریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط اُن کا جوہرِ ادراک
اس شعر میں علامہ مغربی سامراجی چالوں اور ہتھکنڈوں سے قوم کو آگاہ کرتے ہیں کہ وہ غلام قوموں کو کبھی بھی اتنا اونچا مقام دلانا برداشت نہیں کرتے کہ ان غلاموں کو حکمرانی میں شریک کرلیں، بلکہ وہ انہیں بدستور غلامی کی پستیوں میں غرق رکھنے کے لیے قسم قسم کے فریب میں مبتلا رکھتے ہیں تاکہ ان کی عقل و سمجھ تباہ و برباد ہوجائے اور وہ کبھی آزادی کا مرتبہ حاصل نہ کرسکیں۔ یہی وہ حقیقت ہے کہ گزشتہ صدی میں سامراجی طاقتوں نے اقوام متحدہ کے قیام کا ڈھونگ رچایا۔ پھر دنیا کے ملکوں کو برابری کی اہمیت کا جھوٹا تاثر دیا، جبکہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس نے اپنے آپ کو ویٹو پاور کا وہ طاقتور رتبہ دے دیا کہ برطانیہ و فرانس جیسے چھوٹے چھوٹے ملک پوری دنیا کی رائے کو ویٹو کے بھاری بھرکم ہتھوڑے سے کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ ویٹو طاقت کا تصور اصل میں سامراجی تصور کا جدید ترین ایڈیشن اور عالمی سطح پر ظلم و جبر کا نام ہے۔
(چین تو بعد میں اقوام متحدہ کا رکن بنا)
ض ض ض
وہ قوم نہیں لائقِ ہنگامۂ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے
اس شعر میں علامہ فرماتے ہیں کہ زندہ قوموں کا یہ انداز ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف لمحۂ موجود کے احوال سے باخبر رہ کر فعال کردار ادا کرتی، بلکہ مستقبل کی صورت گری میں بھی محو ِ جدوجہد رہتی ہیں۔ علامہ یہ بتاتے ہیں کہ آنے والے وقت اور اس کے حالات و مسائل کا تصور کرکے اس کے لیے آج تیاری کرنا اور اپنے اہداف و مقاصد حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ہی زندہ قوموں کی شان ہوتی ہے، اور جو قومیں آنے والے وقتوں کی مشکلات کا بروقت اندازہ نہیں کرسکتیں اُن کے لیے مستقبل میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سمجھدار اور ہوش مند طالب علم آنے والے امتحان کی تیاری میں آج مگن رہتا ہے تو کل کی کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔ آنے والے کل کی فکر سے لاتعلق اور بے خبر ہوکر آج حالِ مست رہنے والے کے لیے ناکامی کے سوا کل کچھ ملنے والا نہیں ہوتا۔
لمحہِ موجود….. اور تعلیمات ِ اقبال۔ پروفیسر رشید احمد انگوی