ابوسعدی
٭… جاہل کا دنیا میں پڑجانا برا، اور عالم کا دنیا میں پڑجانا بہت برا ہے۔ عام لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سستی کرنا برا، اور عالم کا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سستی کرنا بہت برا ہے۔
٭… خوف الٰہی بقدر علم ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ سے بے خوفی بقدر جہالت۔
یعنی جو جتنا علم والا ہوگا، اسی قدر اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے اس کی نافرمانی سے خوف بھی ہوگا، اور جو علم سے عاری وخالی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اس کی نافرمانی سے بچنے کا بھی زیادہ اہتمام نہیں کرے گا، اور نہ اس نافرمانی کے انجام کا اسے ڈر ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں فرمایا ہے: اللہ کے بندوں میں سے اہلِ علم اللہ سے زیادہ ڈرتے ہیں۔
٭…علم کے سبب کسی نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا بخلاف مال کے، یعنی مال والوں نے ایسے دعوے کیے، جیسے فرعون، ہامان، قارون وغیرہ۔
٭…علم انبیائے کرام علیہم السلام کی میراث ہے، اور مال کفار و اشرار کی میراث ہے۔
٭…شریف آدمی جب علم حاصل کرتا ہے تو اس میں مزید تواضع و انکساری آجاتی ہے، اور کمینہ و بد خصلت آدمی جب علم حاصل کرتا ہے تو اور زیادہ بڑائی وتکبر کرنے لگتا ہے۔
٭…عمل بغیر علم کے سقیم و بیمارہے، اور علم بغیر عمل کے عقیم یعنی بانجھ و بے کار ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے حسان کیا تم نے ابوبکر کے لیے بھی کوئی شعر کہا ہے؟ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: جی ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ تو میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سناؤ تاکہ میں بھی سنوں (تم نے ابوبکر کے لیے کیا شعر کہا ہے)، تو حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے شعر سنایا:
و ثانی اثنین فی الغار المنیف و قد
طاف العدو بہ اذ یصعد الجبلا
و کان ردف رسول اللہ قد علموا
من البریۃ لم یعدل بہ رجلا
ترجمہ: دو میں وہ دوسرا تھا جب دونوں غار ثور میں تھے اور دشمنوں نے ان پر چکر لگایا تھا جب وہ پہاڑ پر چڑھے ہوئے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے، ان کو معلوم تھا کہ مرتبے میں مخلوق میں سے کوئی اُن کے برابر نہیں ہے۔
(یعنی وہ جانتے تھے کہ مخلوق میںسے کوئی شخص بھی پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ردیف یعنی ساتھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر نہیں ہے۔)
اردو
اردو کے ان تمام ادیبوں، عالموں، محققوں اور ماہرینِ لسانیات کے خیالات و نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو ایک مخلوط یا ’’ملواں‘‘ زبان ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد شمالی ہندوستان میں معرضِِ وجود میں آئی، اور اس پر دہلی اور اس کے آس پاس کی بولیوں کے نمایاں اثرات پڑے۔ ان میں سے مسعود حسین خاں اردو کی پیدائش کو ’’دہلی اور نواحِ دہلی‘‘ سے، حافظ محمود خاں شیرانی ’’پنجاب‘‘ سے، سید سلیمان ندوی ’’وادیِ سندھ‘‘ سے، اور سہیل بخاری ’’مشرقی مہاراشٹر‘‘ سے منسوب کرتے ہیں۔ اسی طرح محمد حسین آزاد کے خیال کے مطابق ’’اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے‘‘۔ گیان چند جین کے نظریے کے مطابق ’’اردو کی اصل، کھڑی بولی اور صرف کھڑی بولی ہے‘‘۔ اور مسعود حسین خاں کی تحقیق کی رو سے’’قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست دو آبہ کی کھڑی اور جمنا پار کی ہریانوی کے زیر اثر ہوئی ہے‘‘۔ علاوہ ازیں شوکت سبزواری اس نظریے کے حامل ہیں کہ اردو کا سرچشمہ ’’پالی‘‘ ہے۔ ان تمام عالموں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اردو ایک خالص ہندوستانی زبان ہے۔ اس کا ڈھانچا یا کینڈا یہیں کی بولیوں کے خمیر سے تیار ہوا ہے۔ اس کے ذخیرۂ الفاظ کا معتدبہ حصّہ ہند آریائی ہے، لیکن عربی اور فارسی کے بھی اس پر نمایاں اثرات پڑے ہیں۔ یہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے، کیوں کہ اس کی پیدائش کے دونوں ذمہ دار ہیں۔
(مرزا خلیل احمد بیگاردو۔ زبان کا تاریخی تناظر)
ہنگامۂ ہستی سے گزر کیوں نہیں جاتے
اسلم فرخی
ہنگامۂ ہستی سے گزر کیوں نہیں جاتے
رستے میں کھڑے ہو گئے گھر کیوں نہیں جاتے
مے خانے میں شکوہ ہے بہت تیرہ شبی کا
مے خانے میں با دیدۂ تر کیوں نہیں جاتے
اب جبہ و دستار کی وقعت نہیں باقی
رندوں میں بہ اندازِ دگر کیوں نہیں جاتے
جس شہر میں گمراہی عزیزِ دل و جاں ہو
اس شہرِ ملامت میں خضر کیوں نہیں جاتے
توشہ نہیں کوئی نسیم سحری کا
بے راحلہ و زادِ سفر کیوں نہیں جاتے
شاید کہ شناسا ہو کوئی بے ہنری کا
کیوں ڈرتے ہو بازارِ ہنر کیوں نہیں جاتے
ہر لحظہ ہے جو سر کے لیے اک نئی ٹھوکر
اس ذلتِ ہر روز سے مر کیوں نہیں جاتے
ہم جس کے لیے زندہ ہیں با حال پریشاں
اب وہ بھی یہ کہتا ہے کہ مر کیوں نہیں جاتے
کیوں گوشۂ خلوت سے نکلتے نہیں اسلمؔ
بیٹھے ہیں جدھر لوگ ادھر کیوں نہیں جاتے