خیبرپختونخوا، پی ٹی آئی میں بغاوت

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق اور جماعت اسلامی کے نومنتخب سینیٹر مشتاق احمد خان کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، میاں نوازشریف اور اے این پی کے صوبائی صدر امیر حیدر خان ہوتی نے بھی سینیٹ انتخابات میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہارس ٹریڈنگ پر نہ صرف لب کشائی کی ہے بلکہ اس کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ووٹوں کی خرید وفروخت گو کہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، لیکن سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں چند گھوڑوں کے بجائے پورے کے پورے اصطبل جس ڈھٹائی اور بے شرمی سے بیچے اور خریدے گئے ہیں اس کی مثال شاید ماضی کے کسی بھی الیکشن میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔ حالیہ الیکشن کو جہاں بولیوں کے حوالے سے تاریخ ساز قرار دیا جارہا ہے، وہیں اِس مرتبہ ووٹوں کی خرید وفروخت کے مظاہر صرف فاٹا اور ایک دو صوبوں تک ہی محدود نہیں رہے ہیں، بلکہ یہ مظاہر چاروں صوبوں میں بہ چشمِ سر دیکھے جا سکتے ہیں، جن پر ہر جانب سے تنقید اور مذمت کا ملا جلا رجحان پوری قوم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ اس معاملے کو اگر اپنی اپنی جماعتوں سے بے وفائی کی بنیاد پر دیکھا جائے تو اس ضمن میں سب سے بڑا ہاتھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا ہے جس کی جانب ہم انھی صفحات پر الیکشن سے پہلے بھی اشارہ کرچکے تھے۔ واضح رہے کہ اگر ایک جانب پی ٹی آئی کے خیبر پختون خوا میں بیس کے لگ بھگ ارکانِ صوبائی اسمبلی کے چمک کا شکار ہونے کی اطلاعات ہیں تو دوسری جانب پنجاب سے کامیاب ہونے والے اُس کے اکلوتے سینیٹر چودھری سرور بھی ان اعتراضات کی زد میں ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 30 ارکان کے برعکس ان کو جو 44 ووٹ ملے ہیں ان میں 14 ووٹ کہاں سے آئے ہیں؟ اس بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہوں نے یہ اضافی ووٹ مسلم لیگ(ن) کے بعض ناراض ارکان کے ضمیروں کا سودا کرکے حاصل کیے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بعد جو جماعت سینیٹ الیکشن میں زیادہ خسارے بلکہ مکمل خسارے سے دوچار رہی ہے وہ ایم کیوایم ہے، جو اگر گردشِ ایام کا شکار نہ ہوتی تو اُس کے کم از کم چار سینیٹرز کا انتخاب یقینی تھا۔ جب کہ اب اُس کے حصے میں صرف ایک نشست آئی ہے۔ مسلم لیگ(ن) شاید وہ تیسری جماعت ہے جو بلوچستان میں تو بہت پہلے اُس وقت ڈھیر ہوچکی تھی جب اُس کے ارکانِ اسمبلی اپنے وزیراعلیٰ کے خلاف میدان میں نکل کر کھلی بغاوت پر اتر آئے تھے اور مسلم لیگ(ن) کے اندر وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے مطالبے کے بجائے اپنی مخالف ترین جماعت مسلم لیگ(ق) کے پانچ ارکان کے ہاتھوں یرغمال بن کر سستے داموں بکنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اب رہی سہی کسر یہاں سے مسلم لیگ(ن) کے کسی بھی امیدوار کی عدم کامیابی کے علاوہ اس کے ارکان کی بڑے پیمانے پر مبینہ خرید وفروخت کے نتیجے میں بلوچستان سے دس سینیٹرز کا بطور آزاد امیدوار انتخاب ہے۔ دراصل یہی وہ دس سینیٹر ہیں جن کی حمایت اور عدم حمایت کی بنیاد پر سینیٹ کے اگلے اہم ترین مرحلے یعنی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا دارومدار ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اگر مسلم لیگ(ن) کی قیادت کوشش کرتی تو وہ نہ صرف بلوچستان سے سینیٹ انتخابات میں بہترنتائج حاصل کرسکتی تھی بلکہ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی ایک نشست پرکامیابی کا راستہ روک کر کم از کم پنجاب کی تمام بارہ سیٹیں اپنے نام کرسکتی تھی۔ اسی طرح یہ امر بھی افسوس اور تشویش کا باعث ہے کہ بلوچستان کی تقریباً ساری اسمبلی پر فروخت ہونے کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، جو اگر ایک طرف جمہوری سیاست سے سنگین مذاق کے مترادف ہے تو دوسری جانب یہ منفی کلچر بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے عوام کے حقوق غصب کرنے اور انہیں ظلم و زیادتی کا شکار بنانے کے بھی مماثل ہے۔ البتہ جہاں تک خیبر پختون خوا اسمبلی اور فاٹا میں سینیٹ انتخابات کا تعلق ہے، اس سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے کہ یہاں نہ صرف ملک بھر میں ہونے والی خرید وفروخت کے ریکارڈ قائم کیے گئے ہیں بلکہ جماعت اسلامی کے سوا کوئی بھی جماعت، حتیٰ کہ جمعیت(ف) بھی ووٹوں کی خرید وفروخت سے اپنا دامن نہیں بچا سکی ہے، اور نہ ہی وہ اپنی صفوں میں مروجہ پارٹی ڈسپلن برقرار رکھ سکی ہے جس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ مرکزی قیادت کی شہہ اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ہوا ہے۔ واضح رہے کہ جمعیت(ف) صوبائی اسمبلی میں 15 ارکان کے ساتھ ایک جنرل نشست پر تو کامیابی کی حق دار تھی، لیکن اس کی جانب سے جنرل نشستوں پر دو ہیوی ویٹ امیدواران مولانا گل نصیب خان اور طلحہ محمود کو نامزد کرنے کا واضح مقصد اس کے سوا اور کیا تھا کہ وہ بھی کسی بڑی بارگیننگ کی کو شش میں تھی! اسی طرح جمعیت (ف) نے ٹیکنوکریٹ پر شیخ یعقوب اور خواتین نشست پر نعیمہ کشور کو نامزد کرکے اپنے حجم سے زیادہ امیدواران شاید اس بنیاد پر کھڑے کیے تھے کہ اس طرح وہ الیکشن کے موقع پر بارگیننگ کی زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوگی۔ لیکن اس کی یہ چال خود اس کے خلاف اس کے ارکانِ اسمبلی کے پھسلنے کی صورت میں الٹی چل گئی ہے۔ یہ بات مایوس کن ہی نہیں حیران کن بھی ہے کہ جمعیت(ف) اپنے صوبائی امیر گل نصیب خان کو تو منتخب نہیں کروا سکی البتہ اس کے ارکان پارٹی کی دوسری ترجیح قرار دیئے جانے والے ارب پتی طلحہ محمود کو پہلی ترجیح میں ووٹ دے کر نہ صرف پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں بلکہ اس سے پارٹی کے اندر ووٹوں کی مبینہ خرید وفروخت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جمعیت(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جو اب تک سینیٹ الیکشن میں آصف زرداری کی طرح ہارس ٹریڈنگ کے شور پر خاموش تھے، انہیں بھی اپنے صوبائی امیر کی شکست کے اسباب اور جمعیت(ف) کے ارکانِ صوبائی اسمبلی کا احتساب کرنے کا خیال آیا ہے۔ خیبر پختون خوا کی حد تک پی ٹی آئی سے بھی بڑھ کر اگر کسی جماعت کو حالیہ سینیٹ انتخابات میں شدید ترین جھٹکے کا سامنا کرنا پڑا ہے تو وہ قومی وطن پارٹی ہے جو اپنے دس ارکان (جن میں سے تین پہلے ہی پارٹی سے بغاوت کرتے ہوئے دوسری پارٹیوں میں شامل ہوچکے ہیں) کے باوجود سینیٹ کی کوئی بھی نشست حاصل نہیں کرسکی ہے جس سے اس کا سینیٹ سے مکمل طور پر صفایا ہوگیا ہے۔ یاد رہے کہ قومی وطن پارٹی نے پی ٹی آئی اور خاص کر وزیراعلیٰ پرویزخٹک پر تیسری دفعہ اعتبار کرتے ہوئے جنرل نشست سے اپنے امیدوار غفران خان کو دستبردار کرکے خواتین نشست پر اپنی امیدوار انیسہ زیب طاہر خیلی کی کامیابی کی امید پر پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کیا تھا جو بظاہر ایک محفوظ فیصلہ نظر آرہا تھا، کیوں کہ اگر انیسہ زیب کو قومی وطن پارٹی کے اپنے ارکان سمیت پی ٹی آئی کے طے شدہ ارکان پہلی اور دوسری ترجیح کے تحت ووٹ دیتے تو پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد کے مقابلے میں ان کی کامیابی یقینی تھی، لیکن چونکہ ان کی اپنی پارٹی کے علاوہ پی ٹی آئی کے طے شدہ ارکان بھی چمک کا شکار ہوگئے اس لیے قومی وطن پارٹی کو اپنی اکلوتی امیدوار کی شکست کا شدید صدمہ سہنا پڑا ہے۔
ووٹوں کی خرید وفروخت اور فتح وشکست کی داستان لکھتے ہوئے جہاں مسلم لیگ(ن) کی 2 اور جماعت اسلامی کی ایک نشست پر کامیابی کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی وہیں پیپلز پارٹی کی صوبائی اسمبلی کی 6 نشستوں کے ساتھ سینیٹ کی 2 سیٹوں پر کامیابی بھی اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئی ہے۔واضح رہے کہ متذکرہ سینیٹ انتخابات میں صوبائی اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی سات جماعتوں کے تین اتحاد برسرپیکار تھے جن میں ایک دو جماعتی اتحاد حکمران پی ٹی آئی اور اپوزیشن کی جماعت قومی وطن پارٹی، اور دوسرا اتحاد مرکز میں شریکِ اقتدار اور صوبے میں اپوزیشن کی جماعت جمعیت(ف) اور پیپلز پارٹی، جب کہ تیسرا اتحاد صوبے میں شریکِ اقتدار جماعت اسلامی، وفاق میں حکمران مسلم لیگ(ن) اور صوبے و مرکز میں اپوزیشن کی جماعت اور ان دونوں جماعتوں کی کٹر نظریاتی مخالف جماعت اے این پی کے درمیان تھا۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن کی پانچ جماعتوں میں سے تین جماعتوں جمعیت(ف)، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو بالترتیب ایک، دو اور دو نشستوں پر کامیابی ملی ہے، اور شریکِ اقتدار دو جماعتوں پی ٹی آئی کے حصے میں پانچ اور جماعت اسلامی کے حصے میں ایک نشست آئی ہے۔ جب کہ قومی وطن پارٹی اور اے این پی ایک بھی نشست حاصل نہیں کرسکی ہیں۔
اس ساری بحث میں اگر کوئی جماعت اپنا دامن ہارس ٹریڈنگ کی غلاظت سے بچانے میں بہت حد تک کامیاب رہی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے، جس کا اعتراف اپنوں کے ساتھ پرائے بھی کررہے ہیں۔ اس ساری صورت حال کے تناظر میں جو حلقے دن رات سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں، نہ صرف اُن کی باتوں میں وزن نظر آنے لگتا ہے بلکہ اس سے انسان کا جمہوریت اور ہمارے ہاں مروجہ جمہوری نطام سے بھی اعتماد اٹھنے لگتا ہے۔ لہٰذا توقع کی جانی چاہیے کہ نہ صرف الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ اس تمام پیسہ پھونک تماشے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں گے بلکہ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو اس شرمناک خرید وفروخت پر سراپا احتجاج ہیں، دو قدم آ گے بڑھاتے ہوئے جہاں اپنی صفوں سے ایسے گندے انڈوں کو باہر پھینکنے سے دریغ نہیں کریں گی جو ووٹوں کی خرید وفروخت میں ملوث ہیں وہیں سینیٹ کے انتخابات کے مروجہ نظام کی اصلاح کرتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات کے براہِ راست انعقاد کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں سے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر سینیٹ کے ارکان کے انتخاب کے طریقہ کار پر بھی ہمدردانہ غور فرمائیں گی۔ ووٹوں کی خرید وفروخت اور ارکانِ اسمبلی کی منڈیاں لگنے کی روک تھام کا یہی حل مفید اور کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔