خسرہ کا حفاظتی ٹیکہ موت بن گیا

محمد عامر شیخ
نواب شاہ میں خسرے کے ٹیکے لگنے سے تین بچوں کی اموات اور آٹھ بچوں کے موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہونے کے واقعے نے ویکسین سے معلق کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں، سانحہ اس وقت ہوا جب لیڈی ہیلتھ ورکر مسمات تحسین عرف صبیحہ راہو پرانا نواب شاہ کے علاقے سید آباد میں جام صاحب روڈ پر واقع نادر شاہ ڈسپنسری سے خسرہ سے بچائو کے ٹیکے لے کر گھروں پر پہنچی اور سب سے پہلے اپنی بھتیجی کو خسرہ سے بچائو کا ٹیکہ لگایا۔ اس کے بعد وہ ڈھائی سالہ حسنین بروہی کے گھر گئی۔ اُس وقت بچہ گلی میں کھیل رہا تھا۔ مسمات تحسین نے بچے کی دادی سے ٹیکہ لگوانے کی اجازت مانگی، تاہم اس کی دادی نے منع کردیا، جس پر حسنین کی دادی کے بقول لیڈی ہیلتھ ورکر نے کہا کہ اگر اس کو ٹیکہ نہ لگایا تو بچے کا حفاظتی ٹیکے کا کارڈ نہیں بنے گا۔ اس کے اصرار پر حسنین کو ٹیکہ لگادیا گیا۔ اس کے بعد قمر اور ہانیہ کو ٹیکہ لگایا گیا، اور ساتھ ہی دیگر آٹھ بچوں کو بھی ٹیکہ لگایا گیا۔ تاہم کچھ بچوں کو اُن کے گھروں پر، جبکہ چند ایک کو نادر شاہ سینٹر پر ٹیکے لگائے گئے۔ اس اثناء میں سب سے پہلے ڈھائی سالہ حسنین کی حالت خراب ہونا شروع ہوئی، اور اُس کے والد مراد بروہی کے بقول اُس کے گھر والوں نے اُسے فون پر کراچی میں بتایا جہاں وہ مزدوری کے لیے گیا تھا کہ حسنین کی ٹیکے سے حالت خراب ہوگئی ہے اور اسی طرح دیگر بچوں کی الٹی، دست اور تیز بخار کے بعد تشویشناک حالت ہو گئی اُن کے اہلِ خانہ پیپلز میڈیکل اسپتال لے کر انہیں پہنچے، لیکن بچوں کے والدین کے بقول اسپتال میں انہیں بتایا گیا کہ بچوں کو معمولی الٹی، دست اور بخار ہے اور یہ ٹھیک ہیں۔ یہ کہہ کر انہیں واپس کردیا گیا۔ اس طرح ایک رات اور نصف دن تک بچوں کو اُن کے والدین اسپتال لے جاتے اور انہیں تسلی دے کر واپس کردیا جاتا۔ چونکہ رات میں بچوں کے وارڈ اور دیگر شعبوں میں ایمرجنسی میں بھی سینئر ڈاکٹروں کے بجائے جونیئر ڈاکٹروں اور پوسٹ گریجویٹ کرنے والوں سے کام چلایا جاتا ہے اور اس لیے وہ اپنی بساط کے مطابق کام کرنے کے عادی ہیں۔ بچوں کی تشویشناک حالت کے باوجود بقول والدین، کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اتوار کی دوپہر جب یہ قیامت برپا تھی حسنین کی دادی نے فرائیڈے اسپیشل کو بتایا کہ وہ اپنے پوتے کو اپنی بہو کے ساتھ چھے مرتبہ اسپتال لائی لیکن اسے واپس کردیا گیا، اور ساتویں مرتبہ جب بچہ فوت ہوگیا تو میں نے اس کی لاش ڈاکٹر کے اوپر پھینک دی اور کہا کہ اب اس کو دیکھ لو، تو ڈھائی سالہ حسنین کی والدہ کے مطابق ڈاکٹر نے مرے ہوئے بچے کی ناک میں نلکی لگائی، لیکن وہ لاش بن چکا تھا۔ اسی طرح کا معاملہ دو سالہ ہانیہ اور قمرکے ساتھ ہوا، اور یہ پھول جیسے بچے آسودۂ خاک ہوگئے۔ اس سانحہ کے موقع پر جب میڈیا اسپتال پہنچا تو مرنے والے بچوں کے ماں باپ حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے تھے، جبکہ زندہ بچوں کے والدین اور اہل خانہ روتے چلاّتے ٹراما سینٹرکے عملے سے اپنے بچوں کی زندگی بچانے کی بھیک مانگ رہے تھے۔ اور اس وقت کی کیفیت کا اندازہ صرف وہی لگاسکتے ہیں جن کے لختِ جگر اس کیفیت سے گزر رہے تھے۔ تاہم بچوں کے والدین کے مطابق ان کے بچوں کو اس حالت سے نکالنے اور ان کی زندگیاں بچانے کے لیے سینئر ڈاکٹر تو نہیں پہنچے تاہم اسپتال کے عملے نے ہنگامے کے خطرے کے پیش نظر پولیس ضرور بلالی، اور پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی کا یہ اثر ہوا کہ فوت ہونے والے بچوں کے والدین ان کی لاشیں رکشہ میں ڈال کر روتے پیٹتے گھروں کو چلے گئے، اور جو بچے موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا تھے اُن کے والدین اپنے بچوں کی سانسوں کی ڈوری کو برقرار رکھنے کے لیے دعائیں کرتے دکھائی دیے۔ بچوں کی ہلاکت کی اطلاع ملنے پر سانگھڑ روڈ پر اہلِ علاقہ نے ٹائر جلا کر احتجاج کیا تو انتظامیہ کو ہوش آیا اور پولیس کی بھاری نفری نے احتجاج کرنے والوں کو جو کہ پیپلز پارٹی کے ووٹر اور سپورٹر تھے اپنی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے سے منع کرکے اور سمجھا بجھا کر احتجاج ختم کرایا۔ بچوں کی ہلاکت کی خبریں چینلوں پر چلنے اور شہر میں کہرام مچنے کے باوجود پی پی کے رہنما تو سرے سے اسپتال ہی نہیں پہنچے، جبکہ ضلعی انتظامیہ کا حال بھی کچھ ایسا ہی رہا، جب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اس واقعہ کا نوٹس لیا اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو فوت ہونے والے بچوں کے گھروں پر پہنچیں۔ تو ضلعی انتظامیہ حرکت میں آئی اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواب شاہ کے ڈاکٹروں پر سے میرا اعتبار اٹھ گیا ہے، اسپتال میں جس طرح بچے لے جائے اور واپس کیے گئے یہ بات انتہائی تشویشناک اور قابلِ افسوس ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ کلینک اور میڈیکل سینٹر آباد اور سرکاری اسپتال ویران ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کی سب سے بڑی ذمہ داری ویکسین پروگرام کے ذمہ داروں اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیڈی ہیلتھ ورکر نے پرس سے نکال کر ٹیکے بچوں کو لگائے، وہ اسے آئس بکس میں لے کر کیوں نہیں آئی؟ انہوں نے کہا کہ بحیثیت ڈاکٹر میرا علم یہ کہتا ہے کہ خسرہ کی ویکسین تجربہ کار ویکسی نیٹر ڈاکٹروں کی موجودگی میں سینٹر پر بچوں کو جمع کرکے لگائی جائے تاکہ کسی قسم کے ری ایکشن کی صورت میں فوری تدارک کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ نواب شاہ میں تین سو بستر پر مشتمل نوتعمیر شدہ مدر اینڈ چائلڈ کیئر اسپتال کو ہم ان بے حس ڈاکٹروں کے حوالے نہیں کریں گے اور اس کو ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چائلڈکیئر انسٹی ٹیوشن کے حوالے کریں گے جو کہ چوبیس گھنٹے سروس مہیا کریں گے۔ ادھر فوت ہونے والے بچے حسنین کی والدہ نے صحافیوں کو بتایا کہ میرے بچے کو تڑپا تڑپا کر مارا گیا اور ہمارا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ ہمیں پندرہ لاکھ روپے امداد دی گئی۔ میں کہتی ہوں کہ ہمیں کوئی پیسہ نہیں ملا اور نہ ہی ہمیں چاہیے۔ میں بیس لاکھ روپیہ دیتی ہوں، میرے بچے میں سانس ڈال دیں۔
ادھر ان سطور کی اشاعت کے وقت بی سیکشن تھانے میں فوت ہونے والے بچے حسنین کے چچا کی مدعیت میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر مجتبیٰ میمن، انچارج نیشنل پروگرام ڈاکٹر سکندر راہو، لیڈی ہیلتھ ورکر سپروائزر عابدہ بٹ، لیڈی ہیلتھ ورکر مسمات تحسین اور ویکسی نیٹر محمد رمضان کے خلاف زہریلی اشیاء کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارنے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز میڈیکل اسپتال کے بچوں کے ڈاکٹروں، جن کے خلاف لواحقین سراپا احتجاج ہیں کہ ان کی غفلت سے بچے مرے ہیں، کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔ جبکہ صورت حال یہ ہے کہ جب بچے تڑپ رہے تھے اسپتال کے بچوں کے ڈاکٹر عیدگاہ کی زمین پر قبضہ کرکے بنائے گئے اپنے میڈیکل سینٹروں میں پرائیویٹ مریضوں کے علاج میں مصروف تھے۔