خصوصی سپلیمنٹ
گرین فلیگ اسکول اینڈ کالج سسٹم کے اعزازی چیئرمین شیخ محمد کامل سے ہماری خوشگوار ملاقات ہیڈ آفس میں ہوئی۔ ملاقات کے دوران چیئرمین صاحب اور ان کے رفقائے کار کی بات چیت اور برتائو سے یہ تاثر قائم ہوا: ’’جن سے مل کر انسان پر اعتبار قائم ہوجائے وہ لوگ یہی تو ہیں۔‘‘
آئیے ہم آپ کا تعارف چیئرمین گرین فلیگ اسکول و کالج سسٹم، شیخ محمد کامل صاحب سے کراتے ہیں۔ آپ پیشے کے اعتبار سے ایک کامیاب بزنس مین ہیں، تاہم خانہ کعبہ پر اعلیٰ مقصدِ حیات عطا ہونے کی قبولیتِ دعا کے نتیجے میں تعلیم کے پیشۂ پیغمبری کے لیے چن لیے گئے۔ آپ 27 سال سے گرین فلیگ اسکول و کالج سسٹم میں فروغ تعلیم اور بچوں کی کردار سازی کے عظیم مشن سے بحیثیت چیئرمین وابستہ ہیں۔ آپ ہی کی چیئرمین شپ میں گرین فلیگ اسکول سسٹم کی 9 برانچیں اور ایک گرلز کالج بفضل تعالیٰ قائم کیے جاچکے ہیں اور آئندہ پانچ سات سال میں ان کی تعداد پچاس سے اوپر لے جانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ شیخ صاحب نے تعلیم و تدریس کے شعبے میں آکر ہمارے سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کو اپنا مشن بنا لیا ہے۔ اس سسٹم میں آپ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر 27 سال سے نئی نسل کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری بحسن و خوبی ادا کررہے ہیں ۔
اعزازی چیئرمین شیخ محمد کامل نے گرین فلیگ پبلک اسکول و کالج سسٹم کے اغراض و مقاصد پروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’گرین فلیگ‘‘ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے جو اس دورِ پُرآشوب میں ایک ایسی نسل کی تیاری کا فرض ادا کررہا ہے جو نہ صرف اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزار ہو، بلکہ ایسی گراں قدر صلاحیتوں کی حامل ہو جس کی بدولت عصرِ حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے دنیا میں ایک بار پھر امتِ مسلمہ کو اس کا کھویا ہوا مقام دلوا سکے۔ نئی نسل میں مقصدیت پیدا کرنا، اس نسل کو ذہنی آسودگی بہم پہنچانا اور انھیں نظریاتی سوچ و فکر سے ہم کنار کرنا… یہ سب ہمارے مشن کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔
قارئین کرام! ہم نے گرین فلیگ پبلک اسکول و کالج سسٹم کے اعزازی چیئرمین شیخ محمد کامل کا مختصر تعارف پیش کیا ہے۔ چیئرمین صاحب سے سوال و جواب کی صورت میں کیا گیا انٹرویو پیش خدمت ہے تاکہ وہ والدین اور سرپرست جو اپنے بچوں کو بہترین تعلیم کے ساتھ اعلیٰ تربیت دلانے کے خواہش مند ہیں اور اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے موزوں ترین تعلیمی ادارے کا انتخاب کرنا چاہیں تو گرین فلیگ پبلک اسکول سسٹم کی انفرادیت اور کارکردگی کی بھرپور معلومات ان کے پیش نظر رہیں، اور وہ جان سکیں کہ دوسرے اسکول سسٹمز کے مقابلے میں ’’گرین فلیگ‘‘ کو کیا منفرد مقام حاصل ہے۔ آئیے چیئرمین صاحب سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔
سوال: آپ نے اپنے تعارفی پیغام میں گرین فلیگ پبلک اسکول و کالج سسٹم کے اغراض و مقاصد جامع انداز میں واضح کردیئے ہیں۔ اب آپ بتائیں، اپنے اسکول سسٹم کے بچوں سے چاہتے کیا ہیں؟
جواب: جی ہاں میں نے اپنے پیغام میں ہمارے تعلیمی سسٹم کے مقاصد کو مختصر الفاظ میں پیش کردیا ہے۔ مزید یہ بتانا چاہوں گا کہ اس اسکول سسٹم میں ہم سب کا مشرکہ مشن ہے کہ ہمارے ہاں تیار بچے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار بندے بن کر نکلیں۔ ساتھ ہی ہمارے بچے اللہ اور اس کے رسولؐ پر مکمل ایمان کی دولت سے مالامال ہوکر معاشرے کے پُراعتماد فرد بنیں۔ ہر موقع پر مثبت رویوں کا اظہار کر یں۔ قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہوں۔ وقت کی قدرکریں۔ اس کا بہتر استعمال کریں۔ بھرپور شخصیت کے مالک ہوں۔ ماں باپ کے فرماں بردار ہوں۔ چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی عزت کرنے کی تربیت لے کر ہمارے اسکول و کالج سسٹم سے فارغ ہوں۔ خدمت الناس کے جذبے سے سرشار ہوکر معاشرے میں تعمیری کردار ادا کریں۔ دوسرے بچوں کے لیے رول ماڈل ثابت ہوں۔ اپنے جذبات و خیالات کا بھرپور اور واضح انداز میں اظہار کرسکیں۔ تعلیم و تربیت کے عمل میں بھرپور دلچسپی لیں۔ مختصر یہ کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے خلیفہ ثابت ہوں۔
سوال : یہ سب کچھ یقینا زبردست ہے۔ ان اعلیٰ خوبیوں کو پروان چڑھانے کے لیے آپ لوگ کیا کچھ کررہے ہیں، ذرا تفصیل سے بتائیے۔
جواب : دیکھیں، ہمارے تعلیمی ادارے کا بنیادی کام ہی معیاری تعلیم و تدریس کے ساتھ بچوں کی اخلاقی، سماجی اور پیشہ ورانہ تربیت کرنا ہے۔ یہ سب قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے نویں دسویں کے بچوں کو پیشہ ورانہ تربیت بھی فراہم کرتے ہیں تاکہ آگے چل کوئی پیشہ اختیار کرنا چاہیں یا کسی شعبے کی باقاعدہ پیشہ ورانہ تعلیم وتربیت حاصل کرنا چاہیں تو ہمارے سسٹم سے حاصل کردہ بنیادی پیشہ ورانہ تربیت ان کے کام آئے اور انھیں اپنے لیے فنی شعبہ چننے میں بھی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ صرف یہی نہیں، آپ تربیت کی ہماری نظر میں اہمیت کا اندازہ یوں کرسکتے ہیں کہ ہم اپنے چوکیداروں اور آیائوں تک کو تعلیم و تربیت کے عمل سے گزارتے ہیں۔
سوال: طالب علم بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے تو آپ لوگوں کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہوگا؟
جواب: یہ سارا میلہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ہی تو سجایا گیا ہے۔ بچوں کی کردار سازی کا عمل اُن کے اسکول میں صبح پہلا قدم رکھتے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ اساتذہ، انتظامیہ اور دیگر اسٹاف بچوں کی چھوٹی چھوٹی حرکات و سکنات پر مہربان نظر رکھتے ہیں۔ بچوں کی معقول شکایات کا اسی وقت ازالہ کردیا جاتا ہے۔ بچوں کے کردار سنوارنے کے لیے قرآن و حدیث فہمی، مسنون دعائوں، اسلامی تاریخ کے موضوعات اور کردار سے واقف کرایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مواقع پر تقریری اور تخلیقی مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ سائنسی نمائش، پروجیکٹ ڈے اور ہفتہ طلبہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ہم بچوں کی کردارسازی کے لیے والدین اور ورثا کی بھی تعلیم وتربیت کو بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ورکشاپس کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں بچوں کے سرپرستوں کو بچوں کی نفسیاتی اور تعلیمی ضرورتوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے ان ورکشاپوں میں ماہرین تعلیم کو مدعو کیا جاتا ہے۔ فہم دین کے باقاعدہ پیریڈ ہوتے ہیں۔ اس دوران مطالعہ، مذاکرہ اور ملٹی میڈیا ورکشاپس ہوتی ہیں۔ بچوں کے ساتھ بچوں کے والدین یا ورثا کی کونسلنگ کی جاتی ہے۔ معاشرے سے لیے جانے والے غلط اثرات کے خلاف بچوں کے ذہنوں کی تطہیر کی جاتی ہے۔ یہ عمل پورا سال جاری رہتا ہے۔
سوال : آپ نے بچوں کی تربیت، والدین کی تربیت اور اپنے جنرل اسٹاف کی تربیت کی بات کی۔ آپ اساتذہ کے تعلیمی معیارکو مزید بہتر بنانے اور اُن کی اخلاقی اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے کیا کرتے ہیں؟
جواب: معلمی تو کارِ پیغمبری ہے۔ اسے کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ نئی نسل کی بہترین تعلیم و تربیت کی بنیاد ہی اساتذہ ہیں۔ ہم اوّل تو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بااخلاق و کردار اساتذہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ ادارے سے منسلک ہونے کے بعد بھی اساتذہ کو اپنا معیارِ تعلیم بہتر سے بہتر بنانے کے لیے مختلف سہولیات اور مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ ہم الحمدللہ اساتذہ کی دینی و دنیاوی لحاظ سے تربیت کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں۔ اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ ان کے لیے تربیتی ورکشاپس منعقد کی جاتی ہیں، قرآن فہمی کی کلاسیں کرائی جاتی ہیں، جمعہ کے روز قرآن و حدیث کے درس کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے، آئوٹ ڈور ہونے والی ورکشاپس اور سیمینارز میں اساتذہ کی شرکت کرائی جاتی ہے۔
جامعہ دارالاسلام جوہرآباد،جامع اسلامی نظام تعلیم و تربیت کی طرف ایک قدم
محکمہ انہار کے انجینئر چودھری نیاز علی خان نے اپنی زمین اللہ کی راہ میں وقف کرنے کی ٹھانی تو مفکرِ ملت علامہ اقبالؒ سے وقف کے اہداف و مقاصد متعین کرنے کے لیے مشورہ چاہا۔ علامہ اقبالؒ نے نہ صرف نظری رہنمائی (وژن) فراہم کی بلکہ ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ اور صاحبِ ’’ترجمان القرآن‘‘ کو درخواست لکھ بھیجنے کا بھی کہا کہ وہ حیدرآباد دکن کو چھوڑ کر آئیں اور اس وقف کی سربراہی سنبھالیں۔
چنانچہ سید مودودیؒ پٹھان کوٹ مشرقی پنجاب تشریف لے آئے۔ وقف کا نام دارالاسلام تجویز ہوا اورسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی سربراہی میں کام کا آغاز ہوگیا۔ ترجمان القرآن اسی دارالاسلام سے شائع ہوتا رہا۔ جماعت اسلامی کا تاسیسی کام یہیں سے ہوتا رہا۔ 1947ء میں جب ملّتِ اسلامیہ ہندکو اپنا علیحدہ آزاد وطن پاکستان ملا تو ہجرت کے قافلے بھی یہیں دارالاسلام ہی سے چلے۔
قیام پاکستان کے بعد سید مودودیؒ لاہور میں فروکش ہوئے تو چودھری نیاز علی خان صاحب نے خوشاب میں ڈیرے ڈالے۔ خوشاب کے نواح میں نیا دارالحکومت پلان ہوا تو چودھری نیاز علی صاحب نے مولانا محمد علی جوہر کے نام پر بسے اس نئے شہر جوہرآباد میں1963ء میں دارالاسلام کے موجودہ کیمپس کی بنیاد رکھی۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے بھائی جناب اظہار احمد قریشی صاحب ان کے دستِ راست بلکہ تعمیرات کی نگرانی میں براہِ راست شریک تھے۔ جامع مسجد اس کیمپس کا مرکز و محور اور دارالاسلام اسکول، دستکاری سینٹر اور یوتھ ہاسٹل اس کے شعبے تھے۔ چودھری نیاز علی صاحب کی وفات کے بعد اُن کے فرزندِ ارجمند چودھری اسلم صاحب، مرحوم کے مشن کو آگے بڑھاتے رہے، تاہم انہوں نے مشن کو اس کی روح کے مطابق آگے بڑھانے کے لیے اسے براہِ راست جماعت اسلامی پاکستان کے حوالے کرنا مناسب سمجھا۔
1997ء میں ذمہ دارانِ جماعت نے فیصلہ کیا کہ سید مودودیؒ اور ان کے رفقاء کے پیش نظر وژن (تعلیمات) کے مطابق ادارے کو ڈھالا جائے۔ شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک کے مشورے سے نئے انتظام کے تحت ادارے کا نام جامعہ دارالاسلام رکھا گیا اور درجہ چہارم میں داخلے سے باقاعدہ تعلیمی سلسلے کا آغاز ہوگیا۔ درجہ بدرجہ ادارہ ترقی کرتا گیا اور چھے برس بعد جب پہلا بیج میٹرک کا امتحان پاس کرکے نکلا تو اپنی مثال آپ تھا۔
اسی بیج کی کارکردگی کی بدولت گورنمنٹ ڈگری کالج جوہرآباد کے استاد صاحب حکومت پنجاب کے Best Teacher Award کے مستحق قرار پائے۔ کلاس میں سبھی کے نمبر 90فیصد سے زیادہ تھے۔
جامعہ دارالاسلام کے 20 سالہ تعلیمی سفر میں کچھ ایسے نمایاں سنگ ہائے میل بھی آئے جو یاد گار بن گئے۔ اس دوران جامعہ کے دو طلبہ اسکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے ترکی گئے۔
2010ء میں اسامہ حمید نے سرگودھا بورڈ کے امتحان میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔
2014ء میں حافظ عمر عدنان نے سرگودھا بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔
2016ء میں عمیر فاروق ساہی نے سرگودھا بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔
جامعہ کے سابق طالب علم مدثر حبیب بچوں کے ماہانہ رسالہ ’’پیغام اقبال‘‘ اسلام آباد کے مدیر مقرر ہوئے۔
جامعہ کے ایک اور ہونہار طالب علم حسن البناء مجلہ مشکوٰۃ المصباح کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔
عبدالغفور حکومتِ پنجاب کے مقابلہ مضمون نویسی میں صوبے بھر میں دوسری پوزیشن کے مستحق قرار پائے۔
جگ مگ کرتے تاروں کی اس کہکشاں کی تخلیق میں جس نظام تعلیم و تربیت کا اصل کردار رہا ہے اُس کی بات نہ ہو تو تشنگی رہ جائے گی۔ یہاں کے طلبہ فجر کے لیے بیداری سے دن بھر کی مصروفیات کا آغاز کرتے ہیں۔ نمازِ فجر باجماعت اور پھر پروفیسر عطاء اللہ چودھری صاحب اور اب حافظ عبداللہ صاحب تذکیر بالقرآن کرتے ہیں۔ ایک گھنٹے کے لیے ترجمہ و فہمِ قرآن کلاس ہوتی ہے جس میں طلبہ درجہ وار اپنی اپنی کلاسوں میں بیٹھ کر عربی قواعد کے اجراء کے ساتھ ترجمہ و تفسیر سیکھتے ہیں۔ غسل، تیاری اور ناشتے کا وقفہ، اور پھر صبوحی اسمبلی۔ اس منفرد اسمبلی میں طلبہ باقاعدہ تیاری کے ساتھ درسِ قرآن و حدیث، حاصلِ مطالعہ ترنم یا تحت اللفظ کے ساتھ کلام اقبال پیش کرتے ہیں اور اساتذہ میں سے کوئی ان اشعار کی باقاعدہ تشریح و توضیح کرتا ہے۔
اسمبلی کے معاً بعد معمول کی اسکولنگ شروع ہوتی ہے۔ طلبہ اپنی اپنی کلاسوں میں ریاضی، انگلش، سائنس کے علاوہ جامعہ کے اپنے خاص مضامین عربی و فارسی اور خوش نویسی سیکھتے ہیں۔ عربی سکھانے کے لیے عربی کے طرح دار ادیب، ندوۃ العلماء کے فاضل جناب مولانا مسعود عالم ندویؒ اور ان کے شاگردِ رشید جناب عاصم الحداد صاحب کی کتب مبادی الترجمہ العربیہ اور الترجمۃ العربیۃ کو بنیادی نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ایک اور اہم پیریڈ فہمِ دین کا ہے جس میں خطبات و دینیات اور فقہ اسلامی کو بنیاد بنا کر دین کا اصل شعور دیا جاتا ہے۔ حدیث کے باقاعدہ پیریڈ کے ساتھ ساتھ سیرت النبیؐ اور تاریخ اسلام و المسلمین بھی شاملِ کورس ہے۔
جامعہ کی علاقہ بھر میں سب سے وسیع اور وقیع لائبریری ہے۔ طلبہ پڑھنے کے شائق ہیں، بلکہ یوں کہیں کہ کتب بینی ان کا مشغلہ ہے۔
جامعہ کے پاس وسیع گرائونڈ ہے جہاں عصر کے بعد طلبہ کوچ کی زیر نگرانی فٹ بال کھیلتے ہیں۔
مغرب کے بعد قراء کرام کی زیر نگرانی باقاعدہ تجوید و ناظرہ اور حفظِ کتاب اللہ کا اہتمام ہے۔ نماز عشاء باجماعت پڑھ کر ہوم ورک کیا جاتا ہے اور پھر رات کے آرام کا وقفہ۔
بزم ادب اور قرآن سرکلز کے ذریعے طلبہ مختلف اصنافِ سخن تقریر و بیت بازی، درسِ قرآن و حدیث کی مشق بہم پہنچاتے ہیں۔
دارالاقامہ (ہاسٹل) میں باقاعدہ اسرہ جات قائم ہیں جن کی نگرانی ایک ایک استاد کے ذمے ہے۔ نگران استاد اسرہ کا منٹور ہے اور روم میں رہائش پذیر طلبہ میں سے ایک اس کا معاون۔ منٹور اسرہ کے ہر طالب علم کے جملہ تعلیمی، تربیتی و نفسیاتی مسائل سے آگاہ رہتا ہے اور مناسب مشاورت اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
اسرہ اپنے منٹور کی نگرانی اور رہنمائی میں نظم و ضبط، جسمانی و قلبی پاکیزگی و طہارت اور ارکانِ اسرہ باہم ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی غمی میں شرکت سیکھتے ہیں۔ اسلامی ماحول میں طالب علم کی تعلیم و تربیت پر انفرادی توجہ جامعہ کا امتیاز ہے جس سے اسلامی معاشرے کے احیاء کے لیے درکار، کارفرما، کارگر رجالِ کار تیار ہوسکتے ہیں۔
اس مرحلے پر اب دارالاسلام اپنے 20 برس کے حاصلات کے ساتھ مستقبل کے لیے دو اہم پراجیکٹس لانچ کرنے جارہا ہے۔
مسجد مکتب پروجیکٹ
اس کا مقصد اسلام کے بنیادی اور مرکزی ادارے مسجد کو معاشرے کی تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں کا مرکز و محور بنانا ہے۔ جہاں تیسری کلاس تک بچہ اپنے گھر کے پاس اورمسجد کے پاکیزہ ماحول میں قابل اور تربیت یافتہ اساتذہ سے قرآن مجید، اردو، اور ریاضی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرے گا۔ دوسری جانب یہی تربیت یافتہ اساتذہ خطبہ جمعہ، دروسِ قرآن و حدیث، تربیت گاہوں، شب بیداریوں، اعتکاف اور شبینہ محافل اور بچوں کے لیے تعلیمی و تربیتی کلاسز کو بروئے کار لاکر نہ صرف مسجد کو آباد ر کھیں گے بلکہ اسے معاشرے کا زندہ و سرگرم مرکز بھی بنائیں گے۔ ان کی ذات مرجع خلائق ہوگی اور معاشرہ ان سے دین کی حیات آفریں تعلیمات اور اخلاق و اطوار لے گا۔
انٹرمیڈیٹ کلاسز کا اجراء
اس پراجیکٹ کا مقصد موجودہ تعلیمی سہولیات میں اضافہ کرتے ہوئے انٹرمیڈیٹ کلاسز کا اجراء ہے، تاکہ جامعہ کے فارغ التحصیل طلبہ یونیورسٹی (دانش گاہ) کو جوائن کرنے سے پہلے کے مراحل بھی اسی تعلیمی وتربیتی ماحول میں مکمل کرسکیں۔ تربیتِ فکر و نظر کے وہ مراحل جو چھوٹی عمر کی وجہ سے مکمل نہیں ہوپائے تھے، ان سے ہو گزریں۔تحریک، راست فکری اوردین سے خوب آراستہ ہوکر یونیورسٹی جائیں اور اعلیٰ تعلیمی مدارج احسن طریقے سے مکمل کرسکیں۔