خیبرپختونخوا: سینیٹ انتخابات 2018ء۔

۔ 3 مارچ کو سینیٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواران کی حتمی فہرست جاری ہونے کے بعد جہاں مذکورہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تمام خدشات اور تحفظات دم توڑ گئے ہیں، وہیں اس مرحلے کی تکمیل کے ساتھ ملک کے دیگر تین صوبوں کی طرح خیبر پختون خوا میں بھی جوڑ توڑ کا سلسلہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں ایک دلچسپ اور حیران کن صورتِ حال اس عدالتی فیصلے سے پیدا ہوگئی ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نوازشریف کو پارٹی صدارت سے نااہل قرار دیتے ہوئے اُن کے دستخط سے جاری ہونے والے سینیٹ کے ٹکٹوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ اس صورتِ حال کے بعد الیکشن کمیشن نے طویل غور و خوض اور مختلف آپشنز پر غور کرنے کے بعد جہاں انتخابات شیڈول کے مطابق منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے، وہیں انتخابات کے التوا اور کسی ممکنہ آئینی اور سیاسی بحران سے بچنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے تمام نامزد امیدواران کو آزاد قرار دے کر پاکستان میں ایک نئی سیاسی تاریخ رقم کردی ہے۔ یاد رہے کہ سینیٹ کے3 مارچ کو منعقد ہونے والے یہ وہی انتخابات ہیں جن کے متعلق ہمارے ہاں پچھلے کئی ماہ سے نہ صرف طویل بحث و مباحثہ جاری تھا۔ بعض حلقوں کا اب بھی یہ اصرار ہے کہ میاں نوازشریف کی عجلت میں پارٹی صدارت سے نااہلی اور اس فیصلے کے نتیجے میں پہلے سینیٹ انتخابات کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی گئی، لیکن چونکہ ایسے کسی اقدام سے مسلم لیگ (ن) کے خلاف لکھے جانے والے اسکرپٹ کے واضح طور پر طشت ازبام ہونے کا خدشہ تھا اس لیے دوسرے آپشن کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا جو نسبتاً زیادہ محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ کسی واضح ثبوت اور شک کا باعث بھی نہیں ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر چہارسو نہ صرف تبصرے جاری ہیں بلکہ اسی نکتے کو بنیاد بناکر مسلم لیگ (ن) عوامی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش بھی کررہی ہے۔
دراصل الیکشن کمیشن نے چاروں صوبوں میں مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدواران کو آزاد ڈکلیئر کرکے جہاں مسلم لیگ (ن) کی قیادت، امیدواران اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو نفسیاتی دبائو میں لانے کی کوشش کی ہے، وہیں مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ حاصل کرنے والے امیدواران کامیابی کی صورت میں بھی چونکہ آزاد سینیٹر قرار پائیں گے اس لیے کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) کی تاریخ اور خاص کر حال ہی میں بلوچستان میں اس کے اراکین اسمبلی کی جانب سے کھیلے جانے والے مذموم کھیل کے تناظر میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹوں سے کامیاب ہونے والے آزاد سینیٹرز کو قابو میں رکھ کر انہیں مسلم لیگ (ن) کے کھونٹے سے باندھے رکھنا، اور خاص کر انہیں شریف برادران کا اندھا، بہرا اور گونگا بن کر وفادار رہنا ایسے میں اور بھی مشکل اور آزمائش طلب کام ہوگا جب آزاد سینیٹرز پر کسی پارٹی میں شمولیت کا وہ قانون لاگو نہیں ہوگا جو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے آزاد منتخب ہونے والے اراکین پر دس دن کے اندر اندر کسی جماعت میں شمولیت کے سلسلے میں لاگو ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ سینیٹ کے آزاد اراکین کے حوالے سے نہ تو ایسا کوئی قانون موجود ہے اور نہ ہی کسی پارٹی میں شمولیت کے باوجود ایسے کسی سینیٹر کو پارٹی پالیسی یا فیصلے کی خلاف ورزی کی صورت میں ڈی سیٹ ہونے کا کوئی خطرہ ہوگا۔
اس بحث کے تناظر میں خیبر پختون خوا میں سینیٹ الیکشن کی صورتِ حال اور بھی زیادہ دلچسپ اور سنسنی خیز ہوگئی ہے، کیونکہ یہاں مسلم لیگ (ن) جو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ چونکہ پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے کی حکمت عملی پر کاربند ہے، اس لیے اُس کی جانب سے پی ٹی آئی کی صفوں میں نقب لگانے اور اس کے اراکین کی وفاداریاں خریدنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ واضح رہے کہ کاغذاتِ نامزدگی واپس لینے کے مرحلے میں پانچ امیدواران کی جانب سے اپنے کاغذات واپس لینے کے بعد خیبر پختون خوا کی 11 نشستوں پر 3 مارچ کو ہونے والے انتخابات کی تین کیٹگریوں جنرل، ٹیکنوکر یٹ اور خو اتین کے لیے اس وقت کُل 27 امیدواران میدان میں ہیں، جن میں جنرل نشستوں پر جمعیت العلماء اسلام (ف) کے مولانا گل نصیب خان اور طلحہ محمود… پی ٹی آئی کے ایوب آفریدی، خیال زمان، فیصل جاوید، عبداللطیف یوسف زئی اور فدا محمد… پیپلز پارٹی کے سخی سلیم بٹ اور بہرہ مند خان تنگی… مسلم لیگ (ن) کے پیر صابر شاہ اور علی افضل جدون… اے این پی کے مسعود عباس… جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان اور قومی وطن پارٹی کے محمد غفران شامل ہیں۔ جبکہ ٹیکنو کریٹس کی 2 نشستوں پر جمعیت العلماء اسلا م (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے بطور آزاد امیدوار کے علاوہ جمعیت العلماء اسلام (ف) کے شیخ یعقوب، پی ٹی آئی کے اعظم سواتی، نون لیگ کے دلاور خان اور آزاد امیدوار نثار خان، اور خواتین کی 2 نشستوں کے لیے پی ٹی آئی کی ڈاکٹر مہر تاج روغانی اور نورین فاروق، جمعیت (ف) کی نعیمہ کشور، اے این پی کی شگفتہ ملک، پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد، قومی وطن پارٹی کی انیسہ زیب طاہر خیلی، نون لیگ کی رئیسہ دائود اور ثوبیہ شاہد میدان میں ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے امیدواران کو آزاد قرار دئیے جانے کے بعد خیبر پختون خوا میں سینیٹ الیکشن کے لیے میدان میں موجود آزاد امیدواران کی تعداد دو سے بڑھ کر سات ہوگئی ہے، جو اب تک سینیٹ کے ہونے والے تمام انتخابات میں سب سے زیادہ ہے۔ آزاد امیدواران کے حوالے سے جہاں مسلم لیگ (ن) کے امیدواران کو آزاد قرار دینے سے سینیٹ کے انتخابات دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں، وہیں اس ضمن میں مولانا سمیع الحق کا ایک نامی گرامی پارٹی کا سربراہ ہونے کے باوجود آزاد حیثیت میں کاغذاتِ نامزدگی ایسی حالت میں جمع کرانا ہے کہ صوبائی اسمبلی میں اُن کا ایک بھی رکن نہیں ہے لیکن انھوں نے پھر بھی قسمت آزمائی کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ واضح رہے کہ انہیں اس قسمت آزمائی کا موقع پی ٹی آئی نے اس امید پر فراہم کیا ہے کہ وہ انہیں اپنے اتحادی کے طور پر سینیٹ کے اپنے اضافی ووٹ دے گی۔ یہاں یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ جب ایک جانب پی ٹی آئی کو خود اپنے امیدواران کے انتخاب کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور اُس کی جانب سے کبھی گورنر خیبر پختون خوا سے رابطے کرکے متوقع ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے، اور کبھی اپوزیشن جماعتوں کو اتفاقِ رائے سے بلامقابلہ انتخاب کی پیشکش اور اس ضمن میں پی ٹی آئی کی طرف سے ہر ممکن تعاون، حتیٰ کہ پانچ نشستوں کی کھلی پیشکش تک کی جارہی ہے تو اس صورتِ حال میں پی ٹی آئی کس دلیل اور منظق کی بنیاد پر مولانا سمیع الحق کو کامیاب کرا سکے گی؟
کچھ اسی طرح کی صورتِ حال سے پی ٹی آئی نے جماعت اسلامی کو بھی دوچار کررکھا ہے جو ایک طرف تو پی ٹی آئی کی اتحادی بن کر صوبائی حکومت میں شریکِ اقتدار ہے لیکن دوسری جانب پی ٹی آئی اُس کے ساتھ سینیٹ الیکشن میں اتحاد اور اس کے اکلوتے امیدوار جو جماعت کے صوبائی امیر بھی ہیں، کی کامیابی میں نہ تو اتحادی بننے پر آمادہ ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ اتحاد توڑنے کے لیے تیار ہے، اس صورتِ حال نے خود جماعت اسلامی اور اس کی قیادت کو بھی ایک عجیب گومگو کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے جماعت اسلامی کے ساتھ اس بے اعتنائی کی ایک وجہ جہاں جماعت اسلامی کا ایم ایم اے کی بحالی میں فعال کردار ادا کرکے آئندہ عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمن کے ہمراہ پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے کے لیے سامنے آنا ہے، وہیں پی ٹی آئی اپنی اس حکمت عملی کے ذریعے جماعت کو دبائو میں رکھ کر یہ پیغام بھی دینا چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی جو سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق کی کامیابی میں کردار ادا کرچکی ہے اب اس مرحلے پر جماعت کی صوبائی قیادت کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ اس کی سپورٹ کے بغیر جماعت اسلامی کے امیدوار کی کامیابی کوئی آسان کام نہیں ہوگا، جبکہ اس حکمت عملی کے ذریعے پی ٹی آئی جماعت اسلامی کے امیدوار مشتاق احمد خان پر مولانا سمیع الحق کو ترجیح دے کر جماعت اسلامی کو سیاسی تنہائی کا شکار کرکے ایم ایم اے کو بحال کرنے پر اُسے سزا بھی دینا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی اس صورتِ حال پر مایوس ہونے یا بے بسی کا اظہار کرنے کے بجائے اپوزیشن سے رابطوں کے ذریعے جہاں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے درمیان اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے، وہیں اس نے پی ٹی آئی کے ساتھ بھی اپنے رابطوں کو بحال رکھا ہوا ہے اور تاحال کسی ایسی صورتِ حال پر پہنچنے کی کوشش کررہی ہے جس کے ذریعے اگر وہ ایک جانب اپنے امیدوار کو کم ووٹوں کے باوجود بہتر بارگیننگ کے ذریعے کامیا ب کرانا چاہتی ہے تو دوسری جانب وہ ارکان کی ممکنہ خرید و فروخت کا راستہ بھی ایک بہتر حکمت عملی کے ذریعے روکنے کی متمنی ہے۔ یہاں ہمیں اس حقیقت کو بھی نظراندار نہیں کرنا چاہیے کہ پوری صوبائی اسمبلی میں اس وقت اگر کسی جماعت کے اراکین کی پارٹی وفاداری کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے، اس لیے سیاسی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ جو بھی پارٹی جماعت اسلامی سے سودے بازی میں کامیاب ہوگی اُس کو جماعت اسلامی کے آٹھ ووٹوں کا بغیرخرید وفروخت کے ملنا یقینی ہے۔ جماعت اسلامی کے یہ آٹھ ووٹ جہاں ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی نشستوں کے حوالے سے پہلی ترجیح کے طور پر اہمیت کے حامل ہیں، وہیں جنرل نشستوں پر بھی دوسری اور تیسری ترجیح کی کیٹگری میں ان آٹھ ووٹوں کو انتہائی اہم اور فیصلہ کن اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے۔ زیرنظر سینیٹ انتخابات میں تادم تحریر اگر کسی جماعت کو سب سے زیادہ مشکلات اور اراکین کے پھسلنے کے خدشات لاحق ہیں تو وہ زیادہ اراکین ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی ہے، جبکہ پی ٹی آئی کو یہ چیلنج ان اطلاعات کے بعد اور بھی زیادہ درپیش ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں موجودہ اراکین صوبائی اسمبلی میں سے کم از کم آدھے اراکین کو دوبارہ ٹکٹ جاری ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں جن کی تعداد بیس اور پچیس کے درمیان بتائی جاتی ہے، جن کی طرف قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپائو بھی حال ہی میں اشارہ کرچکے ہیں۔ ان اطلاعات کے بعد کسی بھی رکن صوبائی اسمبلی کے لیے اختیار اور اقتدار کے ان آخری ایام میں سینیٹ امیدواران کی جانب سے بڑی بڑی پیشکشوں کے ہاتھ آئے ہوئے اس سنہری موقع سے فائدہ نہ اٹھانا یقینا دل گردے کا کام ہوگا۔ شا ید یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے سب سے زیادہ تشویش پی ٹی آئی کی صفوں ہی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتوں نے چونکہ اپنے حجم اور تعداد سے زیادہ امیدواران میدان میں اتار رکھے ہیں اس لیے ان کی صفوں میں بھی تاحال وہ یکسوئی نظر نہیں آرہی ہے جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ فلاں جماعت کے امیدواران کی کامیابی یقینی ہے۔ اس تمام تر بحث کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ سینیٹ الیکشن شاید پاکستان کی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ثابت ہوں گے جسے ہمارے سیاسی انتخابی نظام کے لیے نیک شگون ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔