مریضوں کی جان بچانے والی دوائیں بے اثر ہوکر مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہورہی ہیں۔ دوائوں کی قیمتوں میں ہولناک اضافے نے بھی نادار مریضوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ موت کا یہ کھیل بھیڑ نما بھیڑیے، خیر خواہی کا دم بھرنے والے ہمارے قومی رہزن جو اپنے آپ کو قومی رہنما کہلاتے ہیں، کھیل رہے ہیں۔ یہ انسانیت سوز کھیل سرکاری اداروں میں موجود عوام دشمن مافیا کو ساتھ ملا کر کھیلا جارہا ہے۔ بالخصوص دوائوں کے شعبے میں یہ مریض کُش کھیل ڈریپ میں بیٹھے اعلیٰ افسران اور ڈرگ فارما مافیا کے ایجنٹوں کے ذریعے ہورہا ہے۔ فرائیڈے اسپیشل کے گزشتہ شمارے میں ہم نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں ادویہ کی قیمتوں میں دس گنا تک اضافے کی بھیانک کرپشن کہانی پیش کی تھی جس میں دستاویزی ثبوت کے ساتھ ڈریپ میں ہونے والی مالی بدعنوانیوں کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی تھی۔ایک اور سنگین مسئلہ وہ اکثر دوائوں کے بے اثر ہوجانے، معیار گرجانے اور ناقص دوائوں کی فروخت سے متعلق ہے جومریضوں کی جان کو درپیش خطرات کی نشاندہی کررہے ہیں، جنھیں جان کر قوم کو شدید افسوس اور مایوسی ہوگی کہ دنیا کی ساتویں قابلِ فخر ایٹمی طاقت پاکستان کے شہری میڈیسن مافیا کے ہاتھوں کس قدر ناقص، غیر معیاری اور مہنگی ترین دوائیں خریدنے پر مجبور ہیں، ساتھ ہی پاکستان کی فارما انڈسٹری اور ڈرگ ریگولیٹری کے حوالے سے دنیا کی نظر میں پاکستانی دواؤں کی کیا حیثیت رہ گئی ہے۔ پاکستان میں کس طرح نادار و لاچار مریضوں کی جانوں سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ غم یہ ہے کہ ہم کس کس کے ہاتھوں پر اپنا لہو تلاش کریں، سارے ہی طاقت ور ہاتھ غریبوں کے خون سے آلودہ نظر آتے ہیں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں تیار کردہ اکثر دوائیں غیر محفوظ اور غیر معیاری کیوں ہوتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے پاس دوائوں کے معیار کو جانچنے کے لیے دستیاب قابلِ بھروسہ سائنٹفک اسٹڈیز موجود نہیں ہیں، اسی بنا پر ترقی یافتہ ممالک ہماری دوائوں کو دوائیں نہیں مانتے۔ ہمارے ہاں ناقص اسٹڈی رپورٹوں کی بنیاد پر ہی ناقص طریقے سے دواؤں کے معیار کو پرکھنے کی سند جاری کردی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں بنی ایک آدھ کے سوا تمام دوائیں آج تک عالمی معیار پر پوری نہیں اتری ہیں۔ اسی لیے ہماری ایک بھی دوا کو کسی ترقی یافتہ ملک میں فروخت کی اجازت نہیں۔ لیکن ہمارے مجبور مریض عالمی معیار پر پورا نہ اترنے والی دوائیں کھا کر اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔
ہماری کوکھ سے جنم لینے والے بنگلہ دیش کو ہی دیکھ لیں، اس کی پانچ دوائیں اور انڈیا کی دو سو دوائیں امریکی ریگولیٹری ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن میں رجسٹر ہیں، اور دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر فروخت ہورہی ہیں جس سے بھارت ہر سال اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کما رہا ہے۔ جبکہ اس شعبے سے ہمارے پاس ڈالر تو کیا، سنگل پینی بھی نہیں آرہی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کے ڈرگ سیل شیلف پر بہتر معیار کے باعث پچاس فیصد دوائیاں انڈین میڈ ہوتی ہیں۔ پاکستان میڈ دوائوں کا دنیا بھر میں کوئی شیلف نہیں ہے، اور نہ ہی پاکستانی دوائوں کو کسی ملک میں سندِ اعتبار حاصل ہے۔ المیے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا ہے کہ حکومتی جانچ پڑتال سے محروم یہ غیر ملکی درآمدشدہ دوائیں اپنی لاگت سے کئی کئی گنا مہنگی فروخت کی جارہی ہیں جس کی اجازت کوئی اور نہیں، ہماری وزارتِ قومی صحت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے بدعنوان افسران دے رہے ہیں، اور مریضوں سے ان کی جانوں کا خراج وصول کررہے ہیں۔ اس تلخ حقیقت کا جواب کون دے گا کہ اسپتالوں کو ایک روپے کی دوا پانچ گنا زیادہ میں فروخت کرنے کا کھلا سرٹیفکیٹ کن کن اداروں کے گٹھ جوڑ سے جاری کیا جاتا ہے؟ اسپتالوں کو خدمت کے ادارے مان کر بنیادی قیمت پر دوائیں فراہم کی جاتی ہیں، پھر انھیں اس قدر زیادہ لوٹ مار کی اجازت کیوں دی جاتی ہے؟ احتساب کرنے والے اداروں کی پُراسرار خاموشی پر بھی اس کرپشن کے حوالے سے بڑا سا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ ان سوالات کا صرف ایک ہی جواب ہے، وہ یہ کہ ہمارے عوامی نمائندے ہوں یا شاہی افسران… سبھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں بلکہ ڈبکیاں لگا رہے ہیں۔
قارئین کرام! ہم نے اس اسٹوری میں جو حقائق پیش کیے ہیں، یا پیش کردہ حقائق کی بنیاد پر جو تشویش ناک نکات اٹھائے ہیں وہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ڈپٹی ڈرگز کنٹرولر پی ایچ ڈی ڈاکٹر عبید علی فارماسیوٹیکل سائنٹسٹ کی جانب سے حال ہی میں وزیراعظم پاکستان کو لکھے گئے خط سے لیے گئے ہیں (خط کا عکس شاملِ اشاعت ہے)، جس میں ڈاکٹر صاحب نے ایک عام شہری کی حیثیت میں وزیراعظم پر دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ واضح کیا ہے کہ مریض کی جان کو تحفظ کی فراہمی اور دوائوں کا معیار قائم رکھنا انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے جس کی ذمے داری وزارتِ قومی صحت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ ایک شہری کی حیثیت سے ڈاکٹر عبید علی نے وزیراعظم کو لکھے گئے اپنے خط میں پاکستان میں بنی دواؤں کے معیار، مریضوں کو تحفظ دینے، ترقی یافتہ ممالک میں ان دوائوں کو رسائی نہ ملنے اور پاکستان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی حیثیت اور اس کے فیصلوں کو عالمی سطح پر قبول نہ کرنے کے حوالے سے جو انکشافات کیے ہیں، ان کے علم و یقین کے مطابق درست ہونے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے وزیراعظم کو یقین دلایا ہے کہ وہ وزیراعظم کے تشکیل کردہ کسی بھی”INDEPENDENT TRUTH FINDING COMMISSION ON DRUGS AND ITS REGULATIONS” میں متعلقہ ثبوتوں کے ساتھ پیش ہونے کے لیے تیار ہیں۔ دوسری جانب ڈریپ میں موجود ہمارے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ جسارت میں جنوری کے پہلے ہفتے اور فرائیڈے اسپیشل کے گزشتہ شمارے میں وزارتِ قومی صحت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں ہونے والی مالی بدعنوانیوں کے حوالے سے ایکسکلیوسو رپورٹ اور سپریم کورٹ میں ان اداروں میں کرپشن کے حوالے سے جلد ہونے والی سماعت کے دباؤ میں آکر وفاقی حکومت نے ہنگامی بنیاد پر 22 فروری کو 59 دوائوں کی قیمتوں میں 10 فیصد کمی کردی ہے۔ میڈیسن مارکیٹ میں موجود 70 ہزار سے زائد ادویہ میں سے صرف 59 ادویہ کی قیمتوں میں محض 10 فیصد کمی ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ کے مترادف ہے جو قوم سے کھلا مذاق ہے، جبکہ دوائوں کی قیمتوں میں دس گنا تک اضافے کو ختم کرنے پر وزارتِ صحت اور ڈریپ نے پُراسرار چپ سادھ لی ہے۔ ادھر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی دعویٰ کررہی ہے کہ حکومت دوائوں کی قیمتوں میں کمی کرکے ڈرگ پرائسنگ پالیسی متعارف کرا رہی ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ ڈوکسی ٹیکسل انجکشنوں اور ٹیموسائیڈ کیپسول جیسی سینکڑوں ادویہ کی کئی گنا زیادہ قیمتیں مقرر کرنے کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی گئی اور ان کی قیمتوں میں کمی کیوں نہیں کی جارہی؟ یاد رہے کہ ڈاکٹر عبید علی نے گزشتہ ماہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں ہونے والی بدعنوانیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں دوائوں کی قیمتوں میں غیر منصفانہ اور غیر معمولی اضافوں اور دوائوں کے پست معیار کے حوالے سے متوجہ کیا تھا۔ موصول ہونے والے خطوط کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اس شعبے میں کرپش کا حال جان کر وہ حیران رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوائوں کی قیمت اتنی ہونی چاہیے کہ ایک بیوہ بھی بآسانی خرید سکے۔