حاکمِ اعلیٰ کی سزا سے نجات کا راستہ

’’خوشخبری ہے اُن لوگوں کے لیے جو باتوں پر غور کرتے ہیں، پھر جو اچھی بات ہو اُس پر عمل کرتے ہیں۔‘‘ (القرآن)
دین ِاسلام، پاکستان، جماعت اسلامی خدا کی نعمت، اسلاف کی امانت ہیں۔ اسلامی نظام نافذ کرنا ان کا مقصد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں سلطانِ کائنات کا نازل کردہ اسلامی نظامِ زندگی نافذ فرمایا۔ مدینہ کو اسلامی ریاست، خوش حال ریاست بناکر امت کے سپرد کیا۔ ارشاد فرمایا: ’’اگر میری سنت مُردہ ہوجائے، دوبارہ زندہ کرنے والوں کو سو شہیدوں کے برابر ثواب کی بشارت ہے‘‘۔
سلطانِ کائنات نے ہمیں پاکستان قائدینِ آزادیؒ کے دین اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے وعدے پر بخشا تھا۔ یہ وعدہ پورا کرنے کے لیے دستور ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد پاکستان منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں سلطانِ کائنات کو حاکمِ اعلیٰ تسلیم کیا گیا۔ یہ قرارداد پاکستان کے دستور کی بنیاد بنی۔ زندگی نے قائدین کو اسلامی نظام نافذ کرنے کی مہلت نہ دی، وہ اپنی امانت پاکستان اور وعدے کی پاسداری ہم وطنوں کو دے گئے۔ بااختیار ہم وطنوں نے دستور پر عمل کرنے کا حلف اٹھایا ہے مگر اسلامی نظام نافذ نہیں کیا، حق کو دبا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو امین نہیں اُن میں ایمان نہیں، جو وعدہ پورا نہیں کرتے اُن میں دین نہیں، عہد شکنی کرنے والوں میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی، دشمن مسلط ہوجائے گا، وہ سب کچھ برباد کردے گا۔ حاکمِ اعلیٰ نے دستور سے بغاوت کے جرم کی سزا خانہ جنگی کی صورت میں پہلے مشرقی پاکستان میں دی، وہ بنگلہ دیش بن گیا۔ اب مختلف صورتوں میں مل رہی ہے۔ آزادی کے تحفظ کی فیصلہ کن جنگ جاری ہے۔ آزادی کے تحفظ، سزا سے نجات، ردالفساد، حوضِ کوثر پر اسلاف کے سامنے سرخرو ہونے کی راہِ راست قائدینؒ کا وعدہ قرض ہے جو دھن، دھونس، دھاندلی سے منتخب جمہوری اور محترم سپریم کورٹ سے پاس حکمرانوں نے ادا نہیں کیا۔ مومن ایک بار دھوکا کھاتا ہے… آزمائے ہوئے کو آزمانا خطا ہے۔ ہم تو بار بار آزمائے ہوئے، دستور کے باغی ارکانِ اسمبلی کو اپنی غرض کے لیے قوم کی امانت ’ووٹ‘ بیچتے ہیں، جس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ حاکمِ اعلیٰ سے معافی مانگیں، متفق ہوکر دستور کی محافظ محترم سپریم کورٹ آف پاکستان سے پاکستان کی تکمیل کے لیے استدعا کریں۔ محسن قائدینِؒ آزادی کا وعدہ قراردادِ مقاصد کے مطابق ملک خدا کا، قانون شریعت کا، حکومت نیک بندوں کی، اسلامی پاکستان، خوش حال پاکستان بنانے کے لیے ازخود نوٹس لے کر ہم وطنوں کی اجتماعی غلطیوں کا کفارہ دیں۔
دعا ہے کہ حاکمِ اعلیٰ اپنی رعایا کو معاف فرمائیں، سپریم کورٹ کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت زندہ کرنے کی توفیق بخشیں۔ یہی ضربِ عضب ہے۔
’’انسانی تاریخ میں کسی نے کوئی نقش چھوڑا ہے تو یہ وہی لوگ تھے جن کے ارادے پختہ اور عزم مضبوط تھے۔ جو نفس کے غلام نہیں، آقا بن کر رہے۔ وقت پر اسلامی کردار ادا کرنا اصل کارنامہ ہے۔‘‘
(مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ… بانی جماعت اسلامی)
بصورت ِدیگر تاریخ گواہ ہے
فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
(علامہ اقبالؒ)
تاج محمد تاجوانی۔جام پور