امریکی حکومت اور عوام کے نام

افغانستان امریکہ کے لیے بھی ایک ناسور بن چکا ہے۔ عالمی طاقت افغانستان پر قبضے کے گزرے ان 16 برسوں میں سوائے بدنامی اور ناکامیوں کے کچھ حاصل نہیں کرسکی ہے۔ قابض امریکہ کو اب سُبکی اٹھانی پڑرہی ہے۔ افغان طالبان (امارتِ اسلامیہ افغانستان) ایک بڑی سیاسی و مزاحمتی قوت کے طور پر سامراجی افواج کے سامنے کھڑے ہیں اور انہوں نے غیر ملکی اور کٹھ پتلی افواج کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ دارالحکومت کابل سیکورٹی کے خصوصی حصار میں ہے لیکن وہاں حکومتی اور سیکورٹی ادارے کی کوئی عمارت محفوظ نہیں ہے۔ طالبان مذاکرات کے حامی ہیں۔ ان کا پہلا اور بنیادی مطالبہ قابض غیر ملکی افواج کا انخلا ہے۔ افغان حکومت طالبان کو کبھی مذاکرات اور کبھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتی رہتی ہے۔ دیکھا جائے تو افغان حکومت کی سوائے طفیلی کے، کوئی اور حیثیت ہے ہی نہیں۔ افغانستان میں امن کے قیام سے انکار نہیں، جنگ سے محض تباہی پھیل رہی ہے، مگر افغانوں پر یہ جنگ امریکہ کی مسلط کی ہوئی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سامراجی افواج افغانستان سے نکلنے کی راہ اپنائیں۔ یقینا مذاکرات سے افغان طالبان نے کبھی انکار و گریز کا رویہ نہیں اپنایا، تاہم وہ معروضی حالات کے عین مطابق بامعنی مذاکرات چاہتے ہیں۔ امارتِ اسلامیہ (افغان طالبان) نے گزشتہ دنوں امریکی حکومت اور عوام کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے۔ یہ خط کو 14 فروری کو ذرائع ابلاغ میں جاری کیا گیا ہے۔ ایسے خطوط وہ پہلے بھی لکھ چکی ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ امریکی عوام افغانستان پر سے اپنی حکومت کا قبضہ ختم کرانے کی خاطر آواز بلند کریں۔ اس بارے میں امریکی سیاسی اور دفاعی حکام کو بھی زمینی حقائق کا ادراک کرنا چاہیے۔ اس کھلے خط میں افغان طالبان کی پالیسی عیاں ہوتی ہے۔ اس خط کا اردو ترجمہ ملاحظہ کیجیے۔
’’اے امریکی عوام! عوامی خودمختار تنظیموں کے غیر سرکاری حکام اور کانگریس کے امن پسند نمائندو!
امید ہے اس خط کا بغور مطالعہ کرکے اس میں درج حقائق کی روشنی میں افغانستان میں امریکی فوج کے مستقبل اور اپنے مفادات و نقصانات کا جائزہ لیا جائے گا۔
آپ جانتے ہیں کہ امریکہ کے سیاسی رہنماؤں نے سولہ سال قبل افغانستان پر جارحانہ طور پر فوجی شب خون مارا تھا۔ یہ جارحیت خودمختار افغانستان کے شرعی و ملّی قوانین اور عالمی قوانین کے خلاف انتہائی ناگوار عمل تھا۔ امریکی حکام نے جارحیت کو جواز دینے کی خاطر تین نعروں کو استعمال کیا:
1۔افغانستان میں امن و امان مستحکم کرنے کی خاطر (خودساختہ) دہشت گردی ختم کرنا
2۔ایک قانونی حکومت قائم کرکے قانون نافذ کرنا
3۔ منشیات کا خاتمہ کرنا
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ناجائزجنگ میں آپ کے حکمران ان تینوں نعروں میں کس قدر سچے تھے؟
بدامنی اور لڑائی میں شدت:
جب سابق صدر جارج ڈبلیو بش2001ء میں افغانستان پر جارحیت کا پروانہ جاری کررہے تھے تو ظالمانہ جنگ چھیڑنے کی خاطر یہاں صرف طالبان (امارتِ اسلامیہ) اور القاعدہ کی موجودگی اور ان کے خاتمے کو بہانہ بناتے رہے۔ 16 سال تک خونریز لڑائی جاری رکھنے اور اس میں جانی و مالی نقصانات تسلیم کرنے کے باوجود موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں اس ناجائز جنگ کو جاری رکھنے کے لیے ایک امارتِ اسلامیہ کے علاوہ مزید دیگر گروہوں کی موجودگی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا۔ ٹرمپ نے اس دعوے کا اظہار 26 اگست 2017ء کو افغانستان اور جنوبی ایشیا کے لیے اپنی جنگی پالیسی کے اعلان کے دوران کیا۔ 16 سال بعد ایک بار پھر افغان عوام کے خلاف ناجائزجارحیت اور جنگ جاری رکھنے کا انہوں نے فیصلہ کیا۔ امریکی حکمران افغانستان میں متعدد جنگی گروہوں کی موجودگی تسلیم کرتے ہیں۔ اس سے ہمارا دعویٰ ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر جارحیت کو دوام دینے اور انتشار پھیلانے کے لیے داعش جیسے گروہوں کو خود پیدا کیا ہے۔
امریکی حکام اس جنگ کو مختلف نام دیتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی فوج نے خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں نہتے افغانوں کو شہید کیا ہے۔ لاکھوں کو زخمی اور ہزاروں کو گوانتاناموبے، بگرام اور دیگر عقوبت خانوں میں قید کررکھا ہے۔ ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف امریکی فوجی حکام کے اعتراف کے مطابق 3546 امریکی اور نیٹو فوجی ہلاک، جبکہ بیس ہزار سے زائد امریکی فوجی زخمی اور ہزاروں نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوئے ہیں۔ اگرچہ زمینی حقائق کے مطابق امریکہ کا جانی نقصان اس سے زیادہ ہے، جسے حکام نے خفیہ رکھا ہے۔ اسی طرح اس جنگ میں آپ کے اربوں ڈالر خرچ ہوئے، نتیجتاً یہ جنگ امریکی تاریخ میں سب سے خونریز، طویل اور معاشی لحاظ سے کمرشکن لڑائی تصور کی گئی۔
لاقانونیت اور عالمی سطح پر بدعنوان نظام:
اگرچہ دیگر ممالک میں قوانین کی بات اور ان کے لیے نظاموں کا قیام امریکہ کی ذمہ داری نہیں ہے، مگر جارج ڈبلیو بش کے لیے افغانستان پر جارحیت کا دوسرا بہانہ یہاں ایک قانونی حکومت قائم کرنا تھا۔ امریکہ نے اس حوالے سے اپنے ہزاروں فوجی قتل کرا کر بھی ایک ایسی حکومت قائم کی، جس نے کرپشن اور لاقانونیت میں عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ افغان حکومت انتظامی اور مالی بدعنوانی میں عالمی سطح پر پہلا مقام حاصل کرچکی ہے۔ وہ انسانی حقوق کی پامالی میں عالمی سطح پر انتہائی بدنام ہے۔ عوامی املاک پر قبضے اور عالمی امداد میں غبن کی مد میں عالمی سطح پر پہلے نمبر پر ہے۔ عورتوں کے خلاف تشدد کے متعلق انتہا درجے کی ظالم ہے۔ امریکی جارحیت کے نتیجے میں قائم ہونے والی بدعنوان انتظامیہ کی تازہ ترین مثال افغانستان کا وہ نظام ہے، جس کے غیرمثالی طور پر دو سربراہ ہیں۔
منشیات کی پیداوار اور وسعت:
جارج ڈبلیو بش کا تیسرا بہانہ منشیات کی روک تھام کا تھا۔ اقوام متحدہ کے انسدادِ منشیات مہم کے ادارےUNODC کی معلومات کی بنیاد پر افغانستان پر امریکی جارحیت سے قبل یہاں صرف 185 ایکڑ زمین پر پوست کی کاشت کی جاتی۔ یہ وہ علاقے تھے، جہاں امارتِ اسلامیہ کے مخالف گروہوں کا کنٹرول تھا۔ افغانستان میں ہیروئن کے عادی افراد کی تعداد نہ ہونے کی برابر تھی۔ جبکہ افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد پوست کی کاشت کا رقبہ 185 ایکڑ سے بڑھ کر 328 ایکڑ ہوگیا۔ فی الوقت یہاں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تیس لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسداد منشیات کے ادارے نے 26 دسمبر 2017ء کو رپورٹ شائع کی کہ2017ء میں منشیات کی پیداوار میں 87 فیصد اور کاشت میں 63 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جس کی رُو سے منشیات کی پیداوار کا پیمانہ9000 میٹرک ٹن تک جا پہنچا ہے۔
اے امریکی عوام!
آپ دنیا میں خود کے حوالے سے ترقی یافتہ اور مہذب عوام کا دعویٰ کرتے ہیں۔ افغانستان میں جنگ کی آگ آپ ہی کی رضامندی سے لگائی گئی ہے۔ ہم اس حوالے سے فیصلہ بھی آپ کے حوالے کرتے ہیں۔ کیا آپ زندہ ضمیر کی رُو سے افغانستان میں قائم کیے گئے نظام اور اس سے منسلک تغیرات، بدامنی، لاقانونیت اور منشیات کی پیداوار میں 87 فیصد اضافے کو اصلاحات سمجھتے ہیں یا انسانیت کے خلاف جرائم؟ آپ کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے افغانستان میں اربوں ڈالر تعمیرنو کے مختلف شعبوں میں خرچ کیے ہیں۔ جبکہ یہ اربوں ڈالر آپ کی وہ رقم ہے، جو سرکاری ٹیکس کے نام پر آپ سے وصول کی گئی ہے۔ آپ کا دیا ہوا ٹیکس افغانستان کے ڈاکوؤں اور قاتلوں کی جیبوں میں چلا گیا ہے۔ کیا آپ اس پر راضی ہیں کہ آپ کی محنت و مشقت کی رقم افغانستان میں ایک ایسے بدعنوان نظام پر خرچ کی جائے، جسے چلانے والوں کے خلاف عدالت میں کابل بینک سے 900 ملین ڈالر چوری کرنے پر مقدمہ چل رہا ہو؟ کیا آپ کی ثقافت میں قانون لاگو کرنا اِسے کہا جاتا ہے کہ نائب صدر ایسا شخص ہو، جو درجنوں دیگر جرائم کے ساتھ ستّر سالہ شخص پر جنسی تشدد کے جرم میں ملوث ہو؟کیا وہ تہذیب، ترقی اور قانونیت ہے، جس کی علَم برداری کا آپ نے دعویٰ کر رکھا ہے!کیا آپ کے 2ہزار 783 فوجی اسی قانون کے نفاذ کی خاطر افغانستان میں مارے گئے؟ کیا آپ کے دانش وروں، سیاست دانوں اور منصف تجزیہ نگاروں کے پاس ہمارے ان سوالات کے جوابات ہیں؟
سمجھنا چاہیے کہ ہمارے عوام ان تمام مصائب و مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ امریکی سرپرستی میں اُن پر مسلط اشرف غنی انتظامیہ کو حکومت نہیں، بلکہ ڈاکوؤں، مافیائی عناصر اور منشیات کے کاروبار میں ملوث گروہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ ان کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کو اپنا شرعی، اخلاقی اور ملّی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جو افراد اس نظام کو قائم کرنے کی خاطر آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ افغان عوام کی نگاہ میں قوم اور قومی مفادات کے غدار ہیں۔ اس کے برعکس جو افراد آپ کے اس بدعنوان نظام کے خلاف مسلح جدوجہد کررہے ہیں، وہ اپنے ملک، قومی مفادات، ملّی استقلال، عزت کے حصول اور دفاع کی راہ کے سپاہی ہیں۔ امریکی میڈیا افغان مزاحمت کے خلاف پروپیگنڈا کررہا ہے کہ یہاں لڑنے والے افراد باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ امریکہ یہ نامعقول پروپیگنڈا اپنی شکست چھپانے کی خاطر کرتا ہے۔
اے امریکی عوام!
ہم خط کے اس حصے میں اپنا پیغام دینا چاہتے ہیں:
آج افغان باشندے آپ کی فوج اور ہر جابر و ظالم کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ ان کی شرعی، نظریاتی اور ملک و ملت کے تحفظ کی ذمہ داری ہے۔ اگر اس مزاحمت میں آپ کی فوج جتنی بھی طاقت ور اور جدید اسلحہ سے لیس ہوجائے، ہم اپنی اس دینی، شرعی اور ملّی ذمہ داری کو انجام دیتے رہیں گے۔ اس ذمہ داری سے دست بردار ہونے پر کوئی بھی غیرت مند مسلمان آمادہ نہیں ہے۔ افغان باشندے گزشتہ چار دہائیوں سے مسلط جنگوں کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔ وہ امن اور عادلانہ نظام کے پیاسے ہیں۔ وہ آپ کی جنگ پسند حکومت کے مقابلے میں شرعی، دینی، دفاعی اور ملّی مزاحمت سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے تاریخ میں کبھی بھی اپنی دینی اقدار اور آزادی کے تحفظ سے کنارہ کشی نہیں اختیار کی۔
افغانستان وہ ملک ہے، جو اپنی تاریخ کے ہر دور میں ہمیشہ خودمختار رہا ہے۔ حتیٰ کہ انیسویں اور بیسویں صدیوں کے دوران، جب عالم اسلام کے بیشتر ممالک یورپی استعمار کے قبضے میں تھے، افغانستان واحد ملک تھا جس نے اپنی خودمختاری محفوظ رکھی۔ انگریز 80 سالہ کوشش کے باوجود افغانوں سے اپنا لوہا منوانے پر قادر نہ ہوسکا۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ تمام دنیا جانتی ہے کہ کئی افغان باشندے امریکی و نیٹو فوج کے خلاف فدائی حملے کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اُن کا مقصد افغانستان میں اسلامی نظام کا قیام اور غیر ملکی قبضے کا خاتمہ ہے۔
اس جہاد میں آئے روز پیش رفت ہورہی ہے۔ کئی علاقے امریکہ کی غلام حکومت سے واپس لے لیے گئے ہیں۔ اس وقت ’سیگار‘ کے سربراہ اعتراف کررہے ہیں کہ ’’افغانستان کے 60 فیصد رقبے پر امارتِ اسلامیہ کا کنٹرول ہے‘‘۔ 2001ء میں افغانستان پر امریکی جارحیت کے دوران دنیا کے بعض ممالک امریکی حکمرانوں کے جنگی پروپیگنڈوں کے زیراثر صدر بش کے حمایتی بن گئے تھے۔ اب ہم عملاً دیکھ رہے ہیں کہ امریکی حکومت عالمی حمایت کھو چکی ہے۔ حتیٰ کہ آپ کے جنگی اتحاد میں شامل بیشتر ممالک نے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے افغانستان سے اپنی فوج نکال کر سیاسی افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا ہے۔ عالمی برادری امریکی جارحیت کے خلاف افغان عوام کے برحق مطالبے کی حمایت کررہی ہے۔ اگر امریکی حکومت مزید خودساختہ بہانے تراشتے ہوئے افغانستان میں جنگ کو طول دینے پر اصرار کرتی ہے تو اس سے امریکہ کی عالمی ساکھ کو مزید نقصان پہنچے گا۔
اے امریکی عوام!
جیسا کہ مشہور ہے امریکی حکام کو منتخب کرنے کا اختیار عوام کے پاس ہے۔ اس لیے امارتِ اسلامیہ، افغانستان کے عوام کا مطالبہ امریکی عوام کے سامنے رکھتی ہے کہ ڈونلڈٹرمپ انتظامیہ کو دبائو میں لے کر افغانستان سے قبضہ ختم کیا جائے۔ افغانستان میں جنگ کو طول دینے اور یہاں بدعنوان اور بے اختیار نظام کی حکمرانی خطے اور مجموعی طور پر امریکی امن و سلامتی کے لیے خطرناک نتائج کی حامل ہے۔ افغان باشندے اس پر افسوس کررہے ہیں کہ امریکی عوام کے بااختیار لوگ چند جنگ پسند افراد کی خاطر اپنا مال اور جان کیوں قربان کررہے ہیں؟ آپ کے ماہرین، امریکی کانگریس میں امن پسند نمائندے اور عوامی تنظیموں کے خودمختار ذمہ دار حضرات اپنی حکومت کے عہدے داروں سے پوچھیں کہ امریکی عوام اپنے تمام رعب کے باوجود اپنے گھر اور بیرونی ممالک میں غیرمحفوظ اور نفرت زدہ کیوں ہیں؟ آپ کا ملک اور آپ کی اولادیں کب تک شرپسند حکمرانوں کے مفادات کے لیے قربانی دیتے رہیں گے؟ اس جنگ پسند سیاست کا کوئی فائدہ ہے؟
اے امریکی عوام!
صدر ڈونلڈٹرمپ اور ان کے جنگی مشیر اب بھی افغانستان میں طاقت کی زبان بول رہے ہیں۔ حتیٰ کہ جنگ سے متعلق اپنے مفاد میں جھوٹے اور من گھڑت اعدادوشمار نشر کرتے رہتے ہیں۔ وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں کامیابی کے لیے طاقت کے بجائے سیاست اور افہام و تفہیم کا راستہ اپنانا چاہیے۔ صرف گزشتہ ستمبر میں ٹرمپ کی نئی پالیسی کی رُو سے امریکی فوج نے افغانستان میں اپنی تمام قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے 751 فضائی حملے کیے۔ آپ کو امریکی حکام سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اتنی طاقت کے استعمال کے بعد اب تک کتنے فیصد رقبے پر قبضہ قائم کرسکے ہیں؟ اگر آپ کو صدر ٹرمپ اور ان کے جنگجو مشیروں کی بے تجربہ سیاست کا علم نہیں ہے تو صرف ایک بیت المقدس سے متعلق فیصلہ دیکھ لیں، جس نے امریکہ کو دنیا بھر کی نظر میں مطعون کیا ہے۔ یہ امریکہ کے لیے انتہائی شرم کی بات ہے۔ امارتِ اسلامیہ نے ابتدا سے امریکہ کو بتایا تھا کہ اپنے مسائل کو امارتِ اسلامیہ کے ساتھ گفتگو کے ذریعے حل کیا جائے۔ طاقت آزمائی کے نتائج برے ہوتے ہیں۔ آپ نے افغانستان پر امریکی تجاوز کے برے نتائج کو دیکھ لیا ہوگا۔ اگر مزید سو سال تک قوت آزمائی کا تجربہ جاری رہا تو بھی نتیجہ یہی رہے گا۔ ہمارے خیال میں اب بھی وقت ہے، امریکی عوام کو ادراک کرنا چاہیے کہ امارتِ اسلامیہ اپنے مسلم عوام کی نمائندگی کے حوالے سے ہر متنازع پہلو کو سیاست اور گفتگو کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔ غیرمعقول طاقت کا استعمال مسئلے کو مزید پیچیدہ کرتا ہے۔ امارتِ اسلامیہ علاقے میں وہ قوت ہے، جسے طاقت کے ذریعے کمزور نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی پختہ جڑیں ہیں۔ البتہ بات چیت کے مواقع موجود ہیں۔ امارتِ اسلامیہ کی طرف سے گفتگو کا راستہ اختیار کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کمزور ہیں یا ہمارا عزم کمزور پڑ چکا ہے۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ جنگ سے قبل عقل و منطق کو بروئے کار لانا چاہیے۔ جو کچھ بات چیت کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے، اس کے لیے طاقت کا استعمال مناسب نہیں ہے۔ امارتِ اسلامیہ نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے امریکی عوام کے سامنے حقائق کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ واضح رہے کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کی خودمختاری کے لیے جائز جدوجہد کررہی ہے۔ ظلم و جبر سے پاک افغانستان ہمارا حق ہے۔ افغانستان کی آزادی اور اسلامی نظام کا قیام کسی قانون میں دہشت گردی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ قابلِ ذکر ہے کہ ہم دیگر ممالک میں تخریبی کارروائیوں کا ایجنڈا نہیں رکھتے۔ ہم نے گزشتہ 16 برسوں کے دوران عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ دیگر ممالک میں ہم نے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی ہے۔ اسی طرح کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ افغان سرزمین کو دیگر ممالک کے خلاف استعمال کرے۔ جنگ ہمارا انتخاب نہیں ہے، بلکہ وہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ ہماری ترجیح یہ ہے کہ افغان مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کیا جائے۔ امریکہ کو چاہیے کہ جارحیت ختم کرے اور افغان عوام کو اپنے عقیدے کے مطابق حکومت سازی کرنے دے۔ ہم اپنی آزادی اور خودمختاری کے بعد پڑوسیوں سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات چاہتے ہیں۔ افغانستان کی تعمیرِنو اور ترقی میں اُن کی امداد کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم خطے اور دنیا کے امن و امان کے لیے بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے عوام کے لیے اعلیٰ، معیاری تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔ ہم اپنے مردوں، خواتین اور بچوں کو انسانی اور شرعی حقوق دے سکتے ہیں۔ ہماری عمل داری میں افغان نوجوان منشیات اور اخلاقی فساد سے بچ جائیں گے۔ ہمارا دستور یہ ہے کہ ہر کسی کو اپنے ملک میں روزگار کے ایسے مواقع میسر ہوں کہ اسے اپنا وطن چھوڑ کر دیگر ممالک کی جانب نہ دیکھنا پڑے۔
اے امریکی عوام!
افغانستان میں جنگ کو طول دینے پر اصرار اور یہاں امریکی فوج کی موجودگی امریکہ سمیت کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ عمل دنیا کے امن کو خطرے سے دوچار کرتا ہے۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ صرف امریکی مغرور حکمرانوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اگر آپ افغانوں اور مجموعی طور پر عالمی برادری سے پُرامن افہام وتفہیم کے خواہاں ہیں تو اپنے صدر، کانگریس اور پینٹاگون کے جنگجو حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھانی چاہیے۔ انہیں افغانستان سے متعلق معروضی سیاست اپنانے پر مجبور کیا جائے۔ یہ بجائے خود آپ، افغانوں اور دنیا کی سلامتی کے لیے سب سے بہترین اقدام ہے۔
nn