پاکستان میں موجودہ صورت حال اور سماجی مسائل اس نوعیت کے ہیں کہ ملک کی 20 کروڑ سے زائد آبادی میں لاکھوں لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ کیونکہ ملک کی بیشتر آبادی تعلیم، صحت، روزگار کے بنیادی مسائل میں پھنسی ہوئی ہے، لہٰذا یہ مسائل خود وجہ ہیں ذہنی امراض کی۔ اس کے علاوہ دہشت گردی اور کرپشن جیسی خبریں لوگوں کو مزید خوف، ذہنی تنائو اور عدم تحفظ کا شکار کرتی ہیں۔ اس صورتِ حال سے لوگوں کے مزاج اور رویّے میں منفی تبدیلی آتی ہے۔ گھروں کے اندر اہلِ خانہ آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں، میاں بیوی کے جھگڑوں میں اب طلاق کا تناسب بھی زیادہ ہوگیا ہے۔ ٹینشن، اسٹریس، غصہ، چیخ و پکارکرنا… لوگوں کا عمومی رویہ ہوگیا ہے۔ جھوٹ بولنا عوامی سطح پر رائج ہوچکا ہے۔ ٹریفک حادثات میں روزانہ لوگ زخمی اور ہلاک ہورہے ہیں۔ ذہنی صدمات اور پریشانیاں یقینا کسی بھی عام فرد کو نفسیاتی مریض بناسکتی ہیں۔ صبر و تحمل، خود احتسابی اور نیک بندوں، اولیاء کرام کی سوانح عمری کا مطالعہ ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے ہمدردی کا رویہ رکھیں، جھگڑوں سے گریز کریں۔ وہ لوگ جو اکیلے پن اور تنہائی کا شکار ہوتے ہیں وہ بھی نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ بڑی عمر کے لوگوں، بیماروں، معذوروں کو دوسروں کی، خصوصاً گھر والوں کی مدد اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ وہ معاشرے میں غیر فعال ہوکر ڈپریشن کے مریض بن جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ بھی جن کی کوئی مصروفیت نہ ہو، سستی اور یاسیت کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ طویل عرصہ روزمرہ کے ایک جیسے معمولات بھی بعض لوگوں کو شدید اکتاہٹ کی کیفیت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ جہاں تک طبی علاج کی بات ہے، ایک ماہر نفسیات کسی ذہنی مریض کو دوائیں دے سکتا ہے، اس سے تبادلہ خیال کرسکتا ہے، لیکن وہ اس کے گھریلو جھگڑے اور اس کے دیگر مسائل حل نہیں کرسکتا جن کی وجہ سے وہ مریض بنا ہوتا ہے۔ لہٰذا پاکستان میں نفسیاتی امراض کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ عوام کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے، سیمینارز اور تربیتی کورسز وغیرہ کے ذریعے آگاہی فراہم کی جائے۔ یہ علاج سے زیادہ ضروری ہے۔
(نوید خان… کراچی)