مسجد میں آنے کی اجازت اور اس کی حدود: یہ معلوم ہے کہ اسلام میں سب سے اہم فرض نماز ہے، اور نماز میں حضورِ مسجد اور شرکتِ جماعت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ مگر نماز باجماعت کے باب میں جو احکام مردوں کے کے لیے ہیں، ان کے بالکل برعکس احکام عورتوں کے لیے ہیں۔ مَردوں کے لیے وہ نماز افضل ہے جو مسجد میں جماعت کے ساتھ ہو، اور عورتوں کے لیے وہ نماز افضل ہے جو گھر میں انتہائی خلوت کی حالت میں ہو۔ امام احمد اور طبرانی نے اُم حُمید ساعِدیہ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ ’’انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرا جی چاہتا ہے کہ آپؐ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے معلوم ہے، مگر تیرا ایک گوشے میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تُو اپنے حجرے میں نماز پڑھے۔ اور حجرے میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تُو اپنے گھر کے دالان میں نماز پڑھے۔ اور تیرا دالان میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تُو اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھے۔ اور تیرا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ مسجدِ جامع میں نماز پڑھے۔‘‘
اسی مضمون کی حدیث ابودائود میں ابن مسعودؓ سے منقول ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عورت کا اپنی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے کمرے میں نماز پڑھے۔ اور اس کا اپنے چور خانہ میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنی کوٹھڑی میں نماز پڑھے۔‘‘ (باب ماجاء فی خروج النساء الی المساجد)
دیکھیے یہاں ترتیب بالکل الٹ گئی ہے۔ مرد کے لیے سب سے ادنیٰ درجے کی نماز یہ ہے کہ وہ ایک گوشۂ تنہائی میں پڑھے، اور سب سے افضل یہ کہ وہ بڑی سے بڑی جماعت میں شریک ہو، مگر عورت کے لیے اس کے برعکس انتہائی خلوت کی نماز میں فضیلت ہے، اور اس خفیہ نماز کو نہ صرف نماز باجماعت پر ترجیح دی گئی ہے بلکہ اس نماز سے بھی افضل کہا گیا ہے جس سے بڑھ کر کوئی نعمت مسلمان کے لیے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ یعنی مسجدِ نبوی کی جماعت، جس کے امام خود امام الانبیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ آخر اس فرق و امتیاز کی وجہ کیا ہے؟ یہی ناں کہ شارع نے عورت کے باہر نکلنے کو پسند نہیں کیا اور جماعت میں ذکور و اناث کے خلط ملط ہونے کو روکنا چاہا۔
مگر نماز ایک مقدس عبادت ہے اور مسجد ایک پاک مقام ہے۔ شارع حکیم نے اختلاطِ صنفین کو روکنے کے لیے اپنے منشا کا اظہار تو فضیلت اور عدمِ فضیلت کی تفریق سے کردیا۔ مگر ایسے پاکیزہ کام کے لیے ایسی پاک جگہ آنے سے عورتوں کو منع نہیں کیا۔ حدیث میں یہ اجازت جن الفاظ کے ساتھ آئی ہے وہ شارع کی بے نظیر حکیمانہ شان پر دلالت کرتے ہیں، فرمایا:
’’خدا کی لونڈیوں کو خدا کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو۔ جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کی اجازت مانگے تو وہ اس کو منع نہ کرے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
’’اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو مگر اُن کے گھر اُن کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘ (ابودائود)
یہ الفاظ خود ظاہر کررہے ہیں کہ شارع عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکتا تو نہیں ہے، کیونکہ مسجد میں نماز کے لیے جانا کوئی برا فعل نہیں جس کو ناجائز قرار دیا جا سکے۔ مگر مصالح اس کے بھی مقتضی نہیں کہ مساجد میں ذکور و اناث کی جماعت مخلوط ہوجائے۔ لہٰذا ان کو آنے کی اجازت تو دے دی، مگر یہ نہیں فرمایا کہ اپنی عورتوں کو مسجدوں میں بھیجو، یا اپنے ساتھ لایا کرو، بلکہ صرف یہ کہا کہ اگر وہ افضل نماز کو چھوڑ کر ادنیٰ درجہ کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آنا ہی چاہیں اور اجازت مانگیں تو منع نہ کرو۔ حضرت عمرؓ جو روحِ اسلام کے بڑے رازداں تھے، شارع کے اس حکم کو خوب سمجھتے تھے۔ چنانچہ مؤطا میں مذکور ہے کہ ان کی بیوی عاتکہ بنتِ زید سے ہمیشہ اس معاملے میں ان کی کشمکش رہا کرتی تھی۔ حضرت عمرؓ نہیں چاہتے تھے کہ وہ مسجد میں جائیں۔ مگر انہیں جانے پر اصرار تھا۔ وہ اجازت مانگتیں تو آپؓ ٹھیک ٹھیک حکمِ نبوی پر عمل کرکے بس خاموش ہوجاتے۔ مطلب یہ تھا کہ ہم تمہیں روکتے نہیں ہیں، مگر صاف صاف اجازت بھی نہ دیں گے۔ وہ بھی اپنی بات کی پکی تھیں۔ کہا کرتی تھیں کہ خدا کی قسم میں جاتی رہوں گی جب تک کہ صاف الفاظ میں منع نہ کریں گے۔
مسجد میں آنے کی شرائط: حضورِ مساجد کی اجازت دینے کے ساتھ چند شرائط بھی مقرر کردی گئیں۔ ان میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ دن کے اوقات میں مسجد نہ جائیں، بلکہ صرف اُن نمازوں میں شریک ہوں جو اندھیرے میں پڑھی جاتی ہیں۔ یعنی عشاء اور فجر۔
حضرت ابن عمرؓ کے شاگردِ خاص حضرت نافع کہتے ہیں کہ رات کی تخصیص اس لیے کہ رات کی تاریکی میں اچھی طرح پردہ داری ہوسکتی ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ جب عورتیں نماز کے بعد اپنی اوڑھنیوں میں لپٹی ہوئی مسجد سے پلٹتیں تو تاریکی کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔
دوسری شرط یہ ہے کہ مسجد میں زینت کے ساتھ نہ آئیں اور نہ خوشبو لگا کر آئیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ قبیلۂ مُزَینَہ کی ایک بہت بنی سنوری عورت بڑے نازو تبختر کے ساتھ چلتی ہوئی آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی عورتوں کو زینت اور تبختر کے ساتھ مسجد میں آنے سے روکو (ابن ماجہ، باب فتنۃ النساء)۔ خوشبو کے متعلق فرمایا کہ جس رات تم کو نماز میں شریک ہونا ہو اس رات کو کسی قسم کا عطر لگا کر نہ آئو۔ نہ بخور استعمال کرو۔ بالکل سادہ لباس میں آئو۔ جو عورت خوشبو لگا کر آئے گی اس کی نماز نہ ہوگی۔ (مؤطا باب خروج النسآء الی المساجد مسلم، باب خروج النسآء الی المسجد ابن ماجہ، باب فتنۃ النسآء)
تیسری یہ ہے کہ عورتیں جماعت میں مردوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہوں اور نہ آگے کی صفوں میں آئیں۔ انہیں مردوں کی صفوں کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔ فرمایا کہ: مردوں کے لیے بہترین مقام آگے کی صفوں میں ہے اور بدترین مقام پیچھے کی صفوں میں، اور عورتوں کے لیے بہترین مقام پیچھے کی صفوں میں ہے اور بدترین مقام آگے کی صفوں میں۔ جماعت کے باب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قاعدہ ہی مقرر کردیا تھا کہ عورت اور مرد پاس پاس کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھیں، خواہ وہ شوہر اور بیوی، یا ماں اور بیٹے ہی کیوں نہ ہوں۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ عورتیں نماز میں آواز بلند نہ کریں۔ قاعدہ یہ مقرر کیا گیا کہ اگر نماز میں امام کو کسی چیز پر متنبہ کرنا ہو تو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں دستک دیں۔ (بخاری، باب التصفیق للنساء ابو دائود، باب التصفیق فی الصلوٰۃ)
ان تمام حدود و قیود کے باوجود جب حضرت عمرؓ کو جماعت میں ذکور و اناث کے خلط ملط ہونے کا اندیشہ ہوا تو آپ نے مسجد میں عورتوں کے لیے ایک دروازہ مختص فرما دیا اور مردوں کو اس دروازے سے آنے جانے کی ممانعت کردی۔
۔(ابودائود ، باب اعتزال النساء فی المساجد عن الرجال) زیارت ِ قبور و شرکتِ جنازات:۔
(تفہیم احکام القرآن، جلدسوئم… اسلامی نظام معاشرت)