موجودہ قومی اسمبلی کی پارلیمانی مدت کے آخری ضمنی انتخاب کے قطعی غیر متوقع نتائج نے سیاسی مبصرین، ذرائع ابلاغ کے تجزیہ کاروں اور خود انتخاب میں کامیاب اور ناکام ہونے والے تمام فریقوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 کی یہ نشست تحریک انصاف کے ممتاز ترین رہنما جہانگیر ترین کو گزشتہ ماہ عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے کے باعث خالی ہوئی تھی، اور یہ ضمنی انتخاب اس لحاظ سے منفرد تھا کہ موجودہ قومی اسمبلی کا یہ آخری ضمنی انتخاب تھا۔ انتخابی قواعد کی رو سے اگر اب قومی یا کسی صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست کسی بھی وجہ سے خالی ہوتی ہے تو اس پر ضمنی انتخاب نہیں کرایا جائے گا اور یہ آئندہ عام انتخابات تک خالی ہی رہے گی۔
تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین اپنی مضبوط مالی حیثیت کے باعث تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے سب سے بڑے فنانسر ہیں اور کھلے دل سے خرچ کرنے کے باعث عمران خان کے لیے اے ٹی ایم کی شہرت رکھتے ہیں۔ این اے 154 کا حلقہ جہانگیر ترین کا ذاتی انتخابی حلقہ شمار کیا جاتا ہے، تاہم 2013ء کے عام انتخابات میں یہاں سے صدیق بلوچ نے آزاد حیثیت میں کامیابی حاصل کی تھی جو بعد ازاں حکمران نواز لیگ میں شامل ہوگئے تھے، تاہم جہانگیر ترین کی انتخابی عذرداری کے نتیجے میں 2015ء میں یہ نشست خالی قرار پائی اور 23 دسمبر 2015ء کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں اس حلقے سے جہانگیر ترین حکمران نواز لیگ کے امیدوار صدیق بلوچ کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ مگر شومئی قسمت سے عدالتِ عظمیٰ میں دائر ریفرنس کے فیصلے کی رو سے جہانگیر ترین عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار پائے، اور یوں یہ حلقہ ایک بار پھر خالی قرار پایا، اور یہاں 12 فروری 2018ء کو موجودہ قومی اسمبلی کا آخری ضمنی انتخاب ہوا۔ عمران خان، جو عام طور پر خاندانی اور موروثی سیاست کو بہ آوازِ بلند ہدفِ تنقید بناتے رہتے ہیں اور دیگر شعبوں کی طرح سیاست میں بھی میرٹ کے علَم بردار ہیں، مگر جہانگیر ترین کی خالی کردہ نشست پر اُن کے اکلوتے فرزند علی خان ترین کو تحریک انصاف کا امیدوار نامزد کرنے پر عمران خان مجبور پائے گئے۔ علی خان ترین، جو آکسفرڈ کے طالب علم بتائے جاتے ہیں اور سیاست میں نو وارد سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے، عملی سیاست میں ان کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے، چنانچہ 12 فروری کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے ٹکٹ کے لیے اُن کی واحد اہلیت جہانگیر ترین کا فرزند ہونا تھا، چنانچہ ان کی یہی اہلیت دیگر تمام امیدواروں کی تمام صلاحیتوں پر غالب آئی اور انہیں ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کا امیدوار نامزد کردیا گیا۔
حکمران نواز لیگ نے اس حلقے سے اپنے سابق امیدوار صدیق بلوچ اور پھر اُن کے بیٹے کو اپنا امیدوار بنانا چاہا، مگر ان دونوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ عام انتخابات میں محض چند ماہ باقی ہیں اور وہ صرف چند ماہ کی خاطر بھاری انتخابی اخراجات کی سرمایہ کاری نہیں کرسکتے، جب کہ صرف چار پانچ ماہ بعد عام انتخابات کے موقع پر انہیں پھر سے بھاری انتخابی اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔ یوں یہ سودا انہیں خاصا مہنگا معلوم ہوا کہ مدمقابل ملک کے چند سب سے بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک کا سامنا تھا، جو انتخابی مہم میں پیسہ پانی کی طرح بہانے کی شہرت بھی رکھتا تھا، چنانچہ انہوں نے عافیت اسی میں جانی کہ دونوں باپ بیٹوںنے انتخابات سے دست برداری کا اعلان کردیا اور اپنے کاغذاتِ نامزدگی واپس لے لیے۔ اس نازک صورتِ حال میں حکمران لیگ نے محض خانہ پُری کی خاطر اقبال شاہ کو اس حلقے سے ضمنی انتخاب کے لیے اپنا امیدوار نامزد کردیا، مگر عملاً اوّل روز ہی سے حکمران لیگ نے اس حلقے سے اپنی کامیابی کی امید نہیں لگائی تھی اور نہ اس حوالے سے اس ضمنی انتخاب کو کوئی اہمیت لیگی قیادت نے دی تھی، جس کا عملی اظہار اس طرح ہوا کہ پوری انتخابی مہم کے دوران میاں نوازشریف تو ایک طرف، کسی مرکزی رہنما نے بھی اس حلقے کا دورہ کرنا مناسب نہیں سمجھا، نہ کوئی انتخابی وعدے کیے گئے اور نہ ہی ترقیاتی منصوبوں کا اعلان … حتیٰ کہ کوئی قابلِ ذکر بڑا انتخابی جلسہ بھی اس حلقے میں کرنا ضروری خیال نہیں کیا گیا۔ میاں نوازشریف، شہبازشریف، مریم نواز، یا حمزہ شہباز وغیرہ میں سے کوئی ایک بھی پوری انتخابی مہم میں اس حلقے میں گیا، نہ کسی انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔ ہاں البتہ یہ ضرور کیا گیا کہ گزشتہ ضمنی انتخاب کے موقع پر اور بعد میں حکمران لیگ کی قیادت خصوصاً شہبازشریف نے جو وعدے اس حلقے کے لوگوں سے کیے تھے ان کی تکمیل کے لیے حتی الوسع کوشش کی گئی۔ شہبازشریف نے لودھراں کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا چنانچہ ضمنی انتخاب کی برکت سے لاہور کے بعد لودھراں شاید واحد شہر ہوگا جہاں بیس عدد اسپیڈو بسیں فوری طور پر پہنچا دی گئیں اور انہوں نے شہر کی سڑکوں پر دوڑنا بھی شروع کردیا۔ اسی طرح یونیورسٹی کیمپس کے وعدے کی عملی شکل بھی لوگوں کو دکھائی دینے لگی اور 20 فروری سے اس کیمپس میں باقاعدہ کلاسوں کے آغاز کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ لودھراں خانیوال روڈ، جو حادثات کی بھرمار کے باعث، خونیں سڑک کے نام سے مشہور ہے، شہبازشریف نے اس کی تعمیرِنو کا اعلان کیا تھا، اس پر بھی کام تیزی سے جاری ہے اور یہ بھی جلد پایۂ تکمیل کو پہنچتی دکھائی دیتی ہے۔ یوں شہبازشریف کا طرۂ امتیاز، یعنی ترقیاتی سرگرمیاں تو اس حلقے میں غیر معمولی یعنی انتخابی مہم کے انداز میں کی گئیں، تاہم کوئی جارحانہ سیاسی انتخابی مہم اس حلقے میں حکمران جماعت کی طرف سے نہیں چلائی گئی۔ نواز لیگ کے امیدوار اقبال شاہ نے بھی ہنگامہ خیز جلسے جلوسوں کے بجائے اپنی انتخابی مہم میں خاموشی سے گھر گھر جاکر رائے دہندگان سے رابطے کی حکمت عملی اپنائی… اور شاید یہی نتیجہ خیز رہی۔
اس کے برعکس تحریک انصاف نے ہر ہر انداز میں اپنا پورا زور اس ضمنی انتخاب میں صرف کیا۔ جہانگیر ترین اپنے بیٹے کی انتخابی مہم کی خود نگرانی کرتے رہے اور اپنی روایات کے عین مطابق پیسہ خرچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حلقے میں ہر سطح پر ہر طرح کے اخراجات کے علاوہ، کروڑوں روپے ذرائع ابلاغ کو اشتہارات کی مد میں دیئے گئے۔ پولنگ سے صرف دو روز قبل حلقے میں بہت بڑا اور زوردار انتخابی جلسہ منعقد کیا گیا، جس میں الیکشن کمیشن کے منع کرنے کے باوجود عمران خان نے خود تقریر کی، جب کہ جہانگیر ترین کے علاوہ شیخ رشید احمد، شاہ محمود قریشی اور مراد سعید وغیرہ نے بھی اس انتخابی جلسہ عام میں تقاریر کیں، جن کو ملک بھر کے ذرائع ابلاغ نے بھرپور کوریج دی۔ یوں 12 فروری کی صبح تک تمام ذرائع ابلاغ، سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار این اے 154 کے ضمنی انتخاب کو تحریک انصاف کے حق میں یک طرفہ قرار دے رہے تھے، جس میں علی خان ترین کی کامیابی یقینی قرار دی جارہی تھی… مگر رات کو جب نتائج آنا شروع ہوئے تو سبھی حیرت میں غرق دکھائی دیئے۔
لودھراں کے حلقہ این اے 154 کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے علی خان ترین، نواز لیگ کے پیر اقبال شاہ کے علاوہ تحریک لبیک کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ملک اظہر اور پیپلز پارٹی کے محمد علی بیگ سمیت کُل دس امیدوار میدان میں تھے۔ حلقے میں رائے دہندگان کی مجموعی تعداد 4 لاکھ 31 ہزار تھی جن میں 2 لاکھ 36 ہزار سے زائد مرد، اور ایک لاکھ 95 ہزار خواتین شامل تھیں۔ نواز لیگ کے امیدوار اقبال شاہ نے ایک لاکھ 13 ہزار 452، دوسرے نمبر پر رہنے والے تحریک انصاف کے امیدوار علی خان ترین نے 85 ہزار 933 ووٹ لیے، جب کہ تحریک لبیک کے حمایت یافتہ ملک اظہر نے 10 ہزار 275، اور پیپلز پارٹی نے 3 ہزار 189 ووٹ حاصل کیے۔ ان نتائج کو دیکھتے ہوئے شاید یہ کہنا نامناسب نہیں ہوگا کہ لودھراں کے عوام نے دولت کی سیاست کو مسترد کردیا ہے، جب کہ کامیاب ہونے والے اقبال شاہ کے اپنے بقول لودھراں کے عوام نے نواز لیگ کے ترقیاتی کاموں کو ووٹ دیئے ہیں۔ پیر اقبال شاہ نے کامیابی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کارکنوں کو کامیابی کی خوشی میں نوافل ادا کرنے کی ہدایت کی اور ساتھ ہی نہایت معنی خیز انداز میں کہا کہ ’’میں اپنے قائدین سے کہتا ہوں کہ وہ کرپشن کو نچلی سطح پر ختم کرنے کی کوشش کریں، اسی طرح ہماری پارٹی کی عزت میں اضافہ ہوگا۔‘‘ یوں مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے نومنتخب رکن قومی اسمبلی پیر اقبال شاہ نے جہاں اپنی قیادت کو یہ احساس دلایا کہ اُن کے دورِ اقتدار میں کرپشن بہرحال جاری ہے اور اُن کی عزت میں اضافہ اس طرح ممکن ہے کہ وہ کرپشن کو نچلی سطح سے ختم کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیر اقبال شاہ یہ نصیحت یا گزارش اُس قیادت سے کررہے ہیں جو خود کرپشن کے الزامات میں نیب اور اعلیٰ عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہی ہے اور اس پر بلند آواز میں خوب شور بھی مچا رہی ہے۔ اقبال شاہ صاحب کا مطلب ہوگا ’’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات…‘‘
انتخابی نتائج پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ لاہور کے حلقہ این اے 120 کی طرح لودھراں کے ضمنی انتخاب میں بھی تحریک لبیک کے امیدوار نے تیسری پوزیشن حاصل کرکے یہ بات ثابت کردی ہے کہ ملکی سیاست میں یہ ایک ابھرتی ہوئی قوت ہے۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی کے امیدوار محمد علی بیگ 3189 ووٹ حاصل کرکے اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھے، جس سے پیپلز پارٹی کی قیادت کے ان دعووں کی قلعی بھی کھل گئی ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کی بحالی کی جانب نہایت تیزی سے گامزن ہے۔
لودھراں کے ضمنی انتخاب کے نتائج سامنے آنے کے بعد ایک خوشگوار تبدیلی یہ سامنے آئی ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے نتائج کو خوش دلی سے قبول کرلیا ہے۔ انہوں نے دھاندلی کا الزام لگایا ہے اور نہ اپنی شکست کو ریٹرننگ افسروں کی کارستانی قرار دیا ہے، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے نہایت مثبت انداز میں نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے مایوس کارکنوں کے نام پیغام میں کہا ہے کہ ’’کامیاب لوگ، ادارے اور قومیں اپنی ناکامیوں سے سیکھتی ہیں… ہر شکست اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، اور ان پر قابو پاکر ہی مضبوطی آتی ہے، شکستہ دل لوگ اپنی طاقت کبھی حاصل نہیں کرسکتے… پارٹی 2018ء کے انتخابات میں ضرور کامیاب ہوگی۔‘‘ یہ ایک نہایت خوش آئند، مثبت اور امید افزا طرزِ فکر و عمل ہے جس کا اظہار ناقابلِ یقین انتخابی ناکامی کے بعد عمران خان کی طرف سے کیا گیا ہے۔ اللہ کرے ہمارے ملک میں آئندہ تمام انتخابات اس قدر صاف، شفاف اور بے داغ ہوں کہ سب ان کے نتائج کو نہ صرف خوش دلی سے تسلیم کرلیں بلکہ آگے بڑھ کر کامیاب ہونے والے مخالفین کو ہار پہنانے اور مبارک باد دینے میں بھی عار محسوس نہ کریں۔