(گزشتہ سے پیوستہ)
ہم تجزیہ کررہے ہیں کہ اقتدار کا ہما گردش کرتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو کے سر پر آکر بیٹھ گیا، اور اس کے ساتھ ہی سیاسی گرد و غبار بھی بیٹھ گیا۔ اب ایک نئے مرحلے میں بلوچستان مستقبل کی طرف محوِ سفر ہے۔
عبدالقدوس بزنجو سے ایک بار اتفاقاً پریس کلب میں ملاقات ہوئی تھی اور وہ2013ء کے عام انتخابات کا ذکر کررہے تھے کہ کس طرح ان کے ساتھیوں اور ہم نوائوں نے خطرناک صورتِ حال میں ان کے حلقے میں ووٹ ڈالے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ تصور کرلیا تھا کہ جو ووٹ دینے جائے گا اس کو شاید ہم واپس زندہ نہ دیکھ سکیں۔ ہم نے ہر گھر کے ایک فرد کو اس قربانی کے لیے تیار کرلیا تھا۔ میرے پانچ سو ووٹ کو نہ دیکھو، جن حالات میں ہم نے ووٹ دیا ہے ان میں انتخابات کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ سردار اختر مینگل کی پارٹی مستونگ میں جلسہ نہ کرسکی تھی اور باقی پارٹیوں سے معذرت کرلی تھی کہ ہم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ اس کا کریڈٹ تمام پارٹیوں کو دینا چاہیے کہ حالات کیسے تھے اور کس طرح تبدیل ہوگئے۔ اس کا کریڈٹ عبدالمالک بلوچ کے ساتھ ساتھ نواب ثناء اللہ زہری کو بھی جاتا ہے کہ اس راہِ جمہوریت اور بلوچستان کی ترقی میں ان کے عزیز و اقارب کا خون بھی شامل ہے۔
اس کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ عبدالقدس بزنجو کے دادا کے بھائی عبدالکریم بزنجو سے میری ملاقات اُس وقت ہوئی جب وہ کوئٹہ آئے۔ وہ بالکل ایک عام دیہاتی شخص تھے اور بہت سادہ انسان تھے۔ ان کی جدوجہد سرداروں اور نوابوں کے خلاف ششک کی صورت میں تھی۔ انہوں نے نوابوں اور سرداروں کے خلاف علَم بغاوت ایسے وقت میں بلند کیا جبکہ اختیارات عام بلوچوں کی گرفت میں نہ تھے۔ اختیارات تو بلوچستان میں انتخابات کے مرحلے میں آئے۔ عبدالکریم بزنجو کی جدوجہد بڑی تاریخی اور عوامی تھی۔ اُن کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوگا کہ ان کا پوتا بلوچستان کے سرداروں اور نوابوں کے درمیان سے گزرتا ہوا وزیراعلیٰ کی مسند پر جلوہ گر ہوگا اور اسے سردار اختر مینگل، جان جمالی، نواب جنگیز مری ووٹ دیں گے۔ اس سے دلچسپ اور عبرتناک مرحلہ تو یہ تھا کہ سردار اختر مینگل کی پارٹی نے قاف لیگ کے شخص کو ووٹ دیا، جبکہ قاف لیگ تو جنرل پرویزمشرف کی تخلیق تھی، پشتون خواہ کا بھی ایک ووٹ اور نیشنل پارٹی کے تین ووٹ عبدالقدوس بزنجو کو گئے۔ عبدالقدوس بزنجو کتنے خوش قسمت ہیں کہ انہیں سردار اختر مینگل، نواب جنگیز، جان جمالی اور مگسی خاندان کے معتبرین کا ووٹ ملا ۔گورنر ہائوس کی تقریب کا ایک تاریخی پہلو یہ تھا کہ عبدالمجید بزنجو اپنے جوان بیٹے کو وزیراعلیٰ کا حلف اٹھاتے ہوئے دیکھ رہے تھے جبکہ انہوں نے ووٹ ہمیشہ نوابوں اور سرداروں کو دیا۔ کامریڈ عبدالکریم بزنجو کو بھی تاریخ فراموش نہیں کرسکے گی جنہوں نے عمر بھر اس قبائلی نظام کا مقابلہ کیا اور ان کے خاندان کے فرد کو ان لوگوں نے ووٹ دیا جو عبدالکریم بزنجو کے سخت مخالف تھے۔ عبدالکریم بزنجو نے پیپلزپٖارٹی کے ٹکٹ پر 1977ء میں صوبائی الیکشن میںحصہ لیا اور خضدار پی بی 32 سے انتخاب جیتا۔ حزب اختلاف کی پارٹیوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا، اور اُس وقت سردار محمد خان باروزئی بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے۔ ان کا دورِ حکومت صرف تین ماہ پر محیط تھا۔ یہ اسمبلی 3 اپریل 1977ء کو وجود میں آئی اور 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لا لگادیا۔ اس اسمبلی میں جام غلام قادر اسپیکر محمد رحیم کاکڑ ڈپٹی اسپیکر تھے۔ اُس وقت بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی کُل تعداد 45 تھی۔ اُس سے پہلے جام غلام قادر 1973تا1975ء وزیراعلیٰ رہے، جبکہ محمد خان باروزئی اسپیکر تھے۔ عبدالقدوس بزنجو کے والد عبدالمجید بزنجو نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیا اور وہ خضدار پی بی 32 سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اور پھر 1988ء میں پی بی 33 اور 1990ء میں پی بی 31 سے آئی جے آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے جبکہ 1993ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر خضدار پی بی 32 سے منتخب ہوئے۔ عبدالمجید بزنجو 1988ء تا1990ء بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہے۔
عبدالقدوس بزنجو کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے ہے، وہ پی بی 41 سے منتخب ہوئے ہیں۔ پہلی بار وہ 2002ء میں منتخب ہوئے اور جام یوسف کی حکومت میں 2002ء سے 2007ء تک ڈپٹی اسپیکر رہے۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی جیت گئے اور ڈپپی اسپیکر بنے۔ یہ عبدالمالک بلوچ کا دور تھا۔ اب وہ ڈپٹی اسپیکر سے ہوتے ہوئے بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے منصب پر پہنچ گئے ہیں یا پہنچادیئے گئے ہیں۔ کامریڈ عبدالکریم بزنجو مرحوم جس اسمبلی کے ممبر بنے تھے اس کی مدت صرف تین ماہ تھی اور جنرل ضیاء الحق نے تختہ الٹ کر حکومت کی بساط لپیٹ دی تھی، اور اب مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا گیا، اور عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کی مدت بھی کامریڈ عبدالکریم بزنجو کی طرح صرف جولائی تک ہے۔ دیکھتے ہیں کامریڈ عبدالقدوس بزنجو باقی ماندہ مدت کیسے پوری کرتے ہیں۔ اُن کے لیے کامریڈ کا لفظ استعمال کیا، اس لحاظ سے کہ وہ جوان ہیں اور کچھ کرنے کا جذبہ دل میں موجزن ہے۔ عبدالقدوس بزنجو کے لیے کامریڈ کا لفظ اس لیے بھی استعمال کیا کہ انہوںنے کامریڈ اللہ نذر کی راجدھانی سے انتخاب میںحصہ لیا۔ یہ جرأت اور حوصلہ بھی ایک کامریڈ ہی کرسکتا ہے۔ ان کا علاقہ مسلح تنظیموں کے سرمچاروں کا گڑھ ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر نے ایک بار بلوچوں کے خان کو زبردست للکارا تھا، اُن کا یہ بیان جنرل پرویزمشرف کو بلوچی تلوار حوالے کرنے سے متعلق تھا۔
اب مستقبل کے تاریخی لمحات گواہ ہوں گے کہ آئندہ تاریخ وزارتِ عُلیا کا تاج عبدالقدوس بزنجو کے سر پر سجاتی ہے یا پھر کسی سردار، نواب یا جاگیردار کے سر پر رکھ دیا جائے گا؟