اسلام آباد: نقیب اللہ محسود کی شہادت پر پختون جرگے کا احتجاجی دھرنا

نقیب اﷲ محسود کی ایک پولیس مقابلے میں شہادت اور اس قتل میں ملوث ایس ایس پی ملیر رائو انوار کی عدم گرفتاری کے خلاف قبائلی نوجوانوں کا نیشنل پریس کلب اسلام آبادکے سامنے دو ہفتوں تک جاری رہنے والا احتجاجی دھرنا ایک ایسے یک طرفہ معاہدے پر ختم ہوا ہے جس میں ایک درجن سے زائد تکنیکی اور گرائمر کی غلطیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اس معاہدے پر عمل درآمد کا کوئی میکنزم طے نہ ہونے کے باعث بھی مختلف حلقوں کی جانب سے شدید اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں۔ اسی طرح اس تاریخی دھرنے کو جس طرح راتوں رات اچانک ایک ایسے معاہدے کی بنیاد پر ختم کیا گیا ہے جس میں حکومت کی جانب سے فریق کے طور پر وزیراعظم کے سیاسی مشیر امیر مقام کے دستخط تو موجود ہیں لیکن اس پر نہ تو دھرنے کے نمائندگان نے دستخط کیے ہیں اور نہ ہی اس معاہدے کی ذمہ داری کسی تیسرے فریق نے بطور ضامن قبول کی ہے۔ دراصل جو لوگ وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کے دستخط سے جاری ہونے والے ایک تحریری مسودے کو معاہدے کا نام دے رہے ہیں وہ یہ بھول رہے ہیں کہ معاہدے کی بنیادی تعریف کے مطابق معاہدہ بنیادی طور پر دو یا دو سے زائد فریقین کے درمیان گواہان یا پھر ضامنوں کی موجودگی اور ان کی رضامندی و دستخطوں سے طے پاتا ہے، لیکن زیربحث معاہدے میں جس کی حقیقت ایک سرکلر سے زیادہ نہیں ہے، نہ تو پختون جرگے کو برابرکا فریق قرار دیا گیا ہے اور نہ ہی اس معاہدے سے یہ واضح ہے کہ نقیب اﷲ محسود کے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں قرار واقعی سزا دینے کی ذمہ دار کون سی حکومت ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ فریضہ وفاقی حکومت انجام دے گی یا پھر یہ کام صوبائی حکومت کرے گی۔ نقیب اﷲ محسود کی شہادت کا واقعہ چونکہ کراچی میں پیش آیا ہے اور پولیس گردی کی اس سفاکانہ کارروائی میں سندھ پولیس اور ایس ایس پی رینک کا ایک ایسا اعلیٰ پولیس افسر ملوث بتایا جاتا ہے جو نہ صرف ماورائے عدالت قتل کا ماہر اور عادی مجرم ہے اور جس کے ہاتھ پر اور بھی درجنوں بے گناہوں کا خون ہے بلکہ اسے مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے بعض دیگر سرکردہ راہنمائوں کی خفیہ اور عَلانیہ سرپرستی بھی حاصل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عدالتی حکم اور ایف آئی آر کے اندراج کے باوجود وہ نہ صرف روپوش ہے بلکہ اسے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تحفظ بھی فراہم کیا جارہا ہے۔ متذکرہ معاہدے میں نقیب اﷲ محسود شہید سمیت دیگر بے گناہ ماورائے عدالت قتل کیے جانے والے مقتولین کے قاتلوں کی گرفتاری کی بات تو کی گئی ہے لیکن یہ سب کچھ کون اور کب کرے گا، نیز ایسا نہ ہونے کی صورت میں کیا ہوگا، اس حوالے سے نہ تو اس معاہدے میں کوئی شق موجود ہے اور نہ ہی امیرمقام یا کسی دوسرے حکومتی اہلکار نے اس حوالے سے کوئی یقین دہانی کرانی ضروری سمجھی ہے۔
اس معاہدے کی ایک اور اہم شق جنوبی وزیرستان میں بارودی سرنگوں کی صفائی اور ان سرنگوں کے باعث جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کو معاوضے کی ادائیگی سے متعلق ہے۔ اس معاہدے سے یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان بارودی سرنگوں کو کون کب تک صاف کرے گا، اور ان سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی نشاندہی اور ان کی تصدیق کا طریقہ کار کیا ہوگا، نیز ہلاک شدگان اور زخمیوں کو کتنا اور کس شرح سے معاوضہ ادا کیا جائے گا، اور معاہدے کی اس شق پر عمل درآمد کا ذمہ دار کون سا ادارہ ہوگا۔ اس معاہدے میں قبائلی علاقوں سے لاپتا افراد کے متعلق کہا گیا ہے کہ سیکورٹی اداروں کے پاس موجودگی کی صورت میں انہیں عدلیہ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہوگا۔ اس حوالے سے معروف کالم نگار اور اینکر سلیم صافی کا یہ سوال انتہائی اہمیت اور توجہ کا حامل ہے کہ حکومت معاہدے کی اس شق پر عمل درآمد کس قانون اور ضابطے کے تحت کرے گی؟ بقول اُن کے، جب قبائلی علاقوں میں فی الحال مروجہ ملکی قوانین نافذ ہی نہیں ہیں اور قبائلی علاقے تادم تحریر سرے سے اعلیٰ عدالتوں کے دائرۂ کار ہی میں نہیں آتے، تو پھر آخر کس قانون کے تحت زیر حراست سینکڑوں قبائلی نوجوانوں کو عدالتوں کے سامنے انصاف کی فراہمی کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اس معاہدے میں بظاہر جو ایک قابل عمل شق نظر آتی ہے وہ نقیب اﷲ محسود کے نام سے منسوب اس کے آبائی علاقے مکین میں ایک انٹرمیڈیٹ کالج کا قیام ہے جس کی ذمہ داری گورنر خیبر پختون خوا کے سپرد کی گئی ہے، جس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ زیربحث معاہدے میں شاید یہی ایک شق ایسی ہے جو بے ضرر ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ عمل بھی ہے، کیونکہ گورنر خیبر پختون خوا کے لیے قبائلی علاقوں میں نہ تو کوئی انٹرمیڈیٹ کالج کھولنا کوئی اتنا بڑا مسئلہ ہے، اور نہ ہی پہلے سے موجود کسی کالج کو نقیب اﷲ محسود کے نام سے منسوب کرنا کوئی مشکل کام ہے۔ یہ وہ کام ہے جو ان کے معتمد ان کے نام سے جاری کیے گئے ایک سرکاری مراسلے کے ذریعے بھی کرسکتے ہیں۔
پختون جرگے اور حکومت کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کے نکات اور اس کی روح پر بحث سے قطع نظر اگر اس دھرنے، اس کے پس منظر اور خاص کر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو اس سے ہمارے سامنے ایسے کئی توجہ طلب نکات آئیں گے جو ہر لحاظ سے اہمیت کے حامل قرار پائیں گے۔ اس ضمن میں سب سے بنیادی بات تو یقینا نقیب اﷲ محسود کا بہیمانہ ریاستی قتل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، وہ کم ہوگی۔ کیونکہ اس طرح کے واقعات کی اجازت نہ تو آئینِ پاکستان دیتا ہے اور نہ ہی دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے اور ریاست میں اس طرح کے واقعات کی گنجائش ہے۔یہ شاید نقیب اﷲ محسود کے خون کے تقدس اور بے گناہی کا اثر تھا کہ جس نے اگر ایک طرف پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے تو دوسری جانب یہ اندوہناک واقعہ دور دراز قبائلی علاقوں میں ریاستی ظلم و زیادتی کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے یا پھر غائب کردیئے جانے والے سینکڑوں ہزاروں بے گناہ نوجوانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ریاستی ظلم و جبر سے بھی پردہ اٹھانے کا باعث بنا ہے۔ اسی طرح نقیب اﷲ محسود کے قتل پر ہونے والے احتجاج نے جہاں قبائلی نوجوانوں کو پہلی دفعہ ان کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف متحد ہونے کا موقع فراہم کیا ہے وہیں قبائلی نوجوانوں کے اس پُرامن اور منظم احتجاج نے دنیا پر بھی یہ بات عیاں کردی ہے کہ گنوار اور وحشی سمجھے جانے والے قبائل دنیا کے کسی بھی مہذب خطے کے لوگوں سے زیادہ مہذب، منظم اور پُرامن احتجاج پر یقین رکھنے والے ہیں۔ واضح رہے کہ دو ہفتے تک کھلے آسمان تلے بے سرو سامانی کی حالت میں احتجاج کرنے والے یہ ہزاروں قبائلی نوجوان نہ تو کسی سیاسی جماعت کے پروردہ تھے اور نہ ہی انہیں ورغلا اور بہلا پھسلا کر کسی دنیاوی غرض و لالچ کے تحت یہاں لاکر بٹھایا گیا تھا، بلکہ یہ سب نوجوان اپنی مرضی اور اپنے خرچے پر یہاں موجود تھے۔ پختون قبائلی نوجوانوں کے اس دھرنے کو ہر لحاظ سے ایک مثالی، پُرامن اور منظم احتجاج قرار دیا جا سکتا ہے، جس میں نہ تو کسی کی نکسیر تک پھوٹی، اور نہ ہی کوئی ایک گملا تک ٹوٹا، جس پر یہ ہزاروں نوجوان یقینا مبارک باد اور تعریف کے مستحق ہیں۔ البتہ اس دھرنے کو بعض سیاسی جماعتوں اور ان کے راہنمائوں نے جس بے دردی اور بے رحمی سے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی اُس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہوگی۔ حیرت ہے کہ اس سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں وہ جماعتیں سب سے زیادہ پیش پیش اور آگے تھیں جن کی وجہ سے قبائل کے ساتھ پچھلی سات دہائیوں سے بالعموم اور پچھلے دس پندرہ برسوں سے بالخصوص امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے، اور جن کے باعث قبائل اکیسویں صدی میں بھی ایف سی آر جیسے سیاہ اور ظالمانہ قانون کے تحت زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح جن لبرل فاشسٹ قوتوں نے اس احتجاجی دھرنے کو پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے اور اسے بدنام کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی وہ بھی قابلِ مذمت ہے۔ شاید انھی قوتوں کی شہہ پر افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو بھی تمام تر سفارتی، اخلاقی اور ہمسائیگی کے آداب پسِ پشت ڈال کر پاکستان کے ایک خالصتاً اندرونی مسئلے پر اپنی سیاست چمکانے کا موقع ہاتھ آیا۔ اس تمام تر بحث کے تناظر میں توقع کی جانی چاہیے کہ قبائلی نوجوان بیداری کی اس لہر کو اسی جذبے سے جاری رکھیں گے اور اپنی صفوں کو منظم رکھ کر کسی مخصوص سیاسی گروہ یا طبقے کے ہاتھوں اس منظم اور پُرامن احتجاجی تحریک کو نہ تو ہائی جیک ہونے دیں گے اور نہ ہی کسی وقتی جھانسے میں آکر نقیب اﷲ محسود شہید سمیت دیگر قبائلی شہدا کے قاتلوں کو قرار واقعی اور عبرت ناک سزائیں دینے اور اپنے دیگر مطالبات سے اُس وقت تک پیچھے ہٹیں گے جب تک ان تمام مطالبات پر کیے گئے معاہدے اور حکومتی یقین دہانی کے تحت عمل درآمد نہیں ہوجاتا۔