نئے سیاسی نظام کی تلاش

ملکی نظام کے بارے میں عام لوگوں سے پوچھا جائے تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ موجودہ سیاسی، سماجی، معاشی اور انصاف کا نظام اپنی مدت پوری کرچکا ہے اور ہمیں نیا نظام درکار ہے۔ اُن کے بقول موجودہ نظام عوام کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بجائے ان کے لیے زیادہ استحصال پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ ملکی سیاست میں بدقسمتی سے اچھے اہلِ سیاست کم ہیں، اور سیاسی بونے سیاست پر غالب ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر مظفر آباد میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی تقریر کو دیکھیں تو واقعی ہنسنے کو دل چاہتا ہے۔ اُن کے بقول اگر عدالت اُن کو وزیراعظم کے منصب سے نااہل نہ کرتی تو اس وقت تک وہ ملک سے بے روزگاری ختم کردیتے اور ملک میں لوگوں کو فوری اور سستا انصاف ملتا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ جناب اس وقت ملک میں کس کی حکومت ہے؟ کیا ان کی جماعت حکومت میں نہیں؟ کیوں وہ لوگوں کو بے وقوف سمجھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں؟ یہ مسئلہ محض نوازشریف تک محدود نہیں، بلکہ ہر وہ جماعت یا سیاست دان جو وفاقی یا صوبائی حکومتوں میں ہیں یا حصہ دار ہیں اُن کا لب ولہجہ کچھ اسی طرح کی سیاسی ڈرامے بازی پر مبنی ہے۔ اسی طرح جو کچھ لاہورکے جلسے میں پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے کہا اُس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری سیاسی منزل کہاں ہے، اور ہم کدھر جارہے ہیں۔

عملی طور پر پاکستان میں عمومی طور پر جو کچھ ہورہا ہے اس کا دائرۂ کار طاقتور مراکز کے درمیان جاری باہمی کشمکش، تلخی، عدم توازن اور طاقت کو اپنے مفادات کے تحت قائم کرنے کی جنگ سے جڑا نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے معاشرے میں جو بھی جنگ یا جدوجہد سیاسی، سماجی اور اہلِ دانش کی سطح پر ہورہی ہے اُس کا مقصد عام لوگوں یا محروم طبقات کو مضبوط کرنا نہیں بلکہ اپنے مخصوص مفادات یا من پسند افراد یا گروہ کو طاقت فراہم کرنا ہے۔ وہ طبقات، ادارے یا بااثر گروہ جو سماج کو بدلتے ہیں اور روایتی ترقی کے مقابلے میں متبادل ترقی کی جدوجہد کرتے ہیں وہ بھی ان بااثر اور طاقتور مراکز کے درمیان باہمی گٹھ جوڑ کا شکار ہوگئے ہیں۔

وہ طبقہ جو عمومی طور پر ریاست، حکومت اور اداروں سمیت معاشرے کے بالادست طبقات پر عوامی اور قومی مفادات کے تحت دباؤ بڑھانے کی سیاست کرتا ہے وہ بھی کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے۔ کچھ لوگ یا ادارے اپنی اپنی سطح پر آواز اٹھا رہے ہیں لیکن وہ اتنے بااثر نہیں یا ان کو ایسی پذیرائی نہیں ملی جو واقعی سماج میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکے۔ ہم عمومی طور پر جمہوریت کی حمایت اسلیے بھی کرتے ہیں کہ وہ عام آدمی کو فیصلہ سازی، اقتدار میں شراکت، وسائل کی منصفانہ تقسیم، عدم تفریق، انصاف، روزگار، تحفظ سمیت بنیادی نوعیت کے حقوق کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر یقین بھی رکھتے ہیں اور اس کو تحفظ دینے یا اسے مضبوط کرنے کی جدوجہد بھی کرتے ہیں۔
لیکن اب اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہاں جمہوریت، انصاف، قانون کی حکمرانی، عوامی مفادات کی سیاست، نعروں، دعووں سمیت ساری جدوجہد لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔ کمزور طبقات میں غصہ، نفرت، تعصب اور لاتعلقی کا عمل بھی مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ حکمران طبقات اس طرزعمل پر لوگوں سے نالاں ہوتے ہیں کہ وہ قوم، ریاست اور ملک کے وفادار نہیں ہوتے، یا لوگوں کی حب الوطنی پر شبہ کرتے ہیں۔ لیکن ہماری ریاست اور حکمران طبقات یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ یہ ناکامی لوگوں کی نہیں بلکہ اس نظام کی ہے جس کی باگ ڈور طاقتور طبقے کے پاس ہے۔ حکمرانی کا نظام غیر منصفانہ، ظالمانہ اور استحصال پر مبنی ہے۔
ہماری علمی اور فکری صلاحیتیں یا دانش کا عمل محرومیوں کو ختم کرنے کے بجائے اس کو اور زیادہ طاقت فراہم کررہا ہے۔ اگر معاشرے میں اہلِ دانش کا طرزعمل طاقتور طبقات کے تابع بن کر ان کی سیاست کو مستحکم کرنا ہے تو یہ عوام اور ملک دشمنی کے بھی مترادف ہوگا۔ کیونکہ اگر وہ بھی اپنے علم، صلاحیت یا قابلیت کو افراد کی طاقت کے لیے استعمال کریں گے تو اس کا نقصان عوام سے زیادہ اداروں، ریاست اور ملک کے نظام کو ہوگا۔ یہ جو طاقت کے مراکز میں مختلف طبقات کا گٹھ جوڑ بن گیا ہے اس کو کیسے توڑا یا کمزور کیا جائے، یہی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہماری ریاست، حکومت، اداروں اور سیاسی جماعتوں سمیت جمہوری طبقات کی ترجیحات، اور عوامی ضروریات یا ترجیحات میں ایک واضح خلیج نظر آتی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس میں ٹکراؤ بھی ہے اور ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت بھی کمزور ہے۔
مسئلہ کسی ایک جماعت یا قیادت کا نہیں، بلکہ مجموعی طور پر سب طاقتور اور بااثر افراد اس ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔ یہ جو ہمارے سیاسی، انتظامی ادارے ہیں ان میں جس انداز سے عوام دشمنی پر مبنی طرزِ حکمرانی کو تقویت دی جاتی ہے وہی سب سے بڑی خرابی پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ کوئی بھی مہذب معاشرہ یا سماج جو واقعی عوام کو ساتھ لے کر چلتا ہے اُس کی پہلی اور آخری ترجیح انسانوں اور بالخصوص کمزور لوگوں پر بڑی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری سے مراد محض پیسہ ہی نہیں ہوتا، بلکہ اپنی سیاسی ترجیحات اور ادارہ جاتی پالیسی میں انسانوں کو زیادہ اہمیت دینا ہوتی ہے۔
لیکن یہاں جو ترقی اور خوشحالی ہورہی ہے وہ ناہموار اور غیر منصفانہ ہے۔ اور اس میں انسان کہیں دور گم ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ عمل انسانوں اور ریاست کے درمیان باہمی تعلق کو بھی کمزور کرتا ہے۔ اس لیے جب اس سیاسی اور انتظامی نظام کو بنیاد بناکر مجھ جیسے کچھ لوگ کڑی تنقید کرتے ہیں یا اسے بوسیدہ سمجھتے ہیں تو ہمیں جمہوریت دشمن اور غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ حالانکہ جمہوری عمل ہمیں بولنے، چیلنج کرنے اور ایک متبادل آواز اٹھانے کا حق دیتا ہے۔ اس لیے ہمیں ان آوازوں سے نالاں ہونے کے بجائے سنجیدگی سے اس نظام کو سمجھنا ہوگا کہ یہ کیا ہے اورکیوں اسے تحفظ دیا جاتا ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت محض کسی خوش نما نعرے کی بنیاد پر اپنی ساکھ نہیں بناتی، بلکہ نظام اور لوگوں کے درمیان جو خلیج یا عدم اعتماد ہے اس کو دور کرکے ہی ہم جمہوری مقدمے کو مضبوط بناسکتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ عملی اقدامات سے زیادہ جذباتی اور خوشنما نعروں کے ساتھ لوگوں کو جعلی ترقی کے عمل میں شامل کرکے اُن کی زندگیوں کو مزید مشکل میں ڈالنا ہماری سیاست کا عملی کام رہ گیا ہے۔
ہمیں دور نہیں جانا چاہیے اور نہ ہی اس بحث کو کسی جذباتی نکتہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ ہم اپنے سرکاری، سماجی، سیاسی، معاشی اور انصاف پر مبنی اعداد و شمار دیکھ لیں، اور اُن اعداد و شمار کو بھی پرکھ لیں جو عالمی اداروں کی تحقیقی رپورٹوں میں پیش کیے جاتے ہیں تو ہمیں اپنا تجزیہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ، انصاف سے متعلق حقائق خاصے سنگین ہیں اور ہمیں جھنجھوڑتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ یہ جو فلاحی ریاست سے ہم سیکورٹی ریاست کی جانب بڑھ رہے ہیں وہ انسانوں کو کمزور اور بری طرح استحصال پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ یاد رکھیں معاشرے اداروں کی بنیاد پر بنتے ہیں، جب کہ ہم ادارہ سازی کے مقابلے افراد کی حکمرانی پر مبنی نظام کو تقویت دیتے ہیں۔ نوازشریف اور آصف زرداری سمیت اکثر سیاست دانوں کی سیاست کا محور یا تو ان کی ذات ہے، یا ان کا خاندان۔ وہ خاندانی اور موروثی سیاست سے باہر نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ معاشرے میں فردِ واحد کی حکمرانی اور سارے معاملات کو خود کنٹرول کرنے کے عمل نے ہماری سیاست کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ لیکن اس فرسودہ اور بگاڑ پر مبنی سیاست کے سامنے کون بند باندھے گا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ہمیں تلاش کرنا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں اچھے دماغ نہیں، یا اچھے کام کرنے والے ختم ہوگئے ہیں۔ اصل المیہ یہ ہے کہ اچھے ذہن، اچھے کردار کے لوگوں کو جو واقعی مختلف شعبوں میں بڑی نوعیت کے کام کررہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں، دیوار سے لگادیا گیا ہے۔ ان کے مقابلے میں من پسند افراد جو چاپلوس بھی ہوں حکمرانوں کی ترجیحات کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کی سمت کسی بڑے دباؤ کی سیاست کے بغیر درست نہیں ہوتی۔ جبکہ ہماری دباؤ کی سیاست اختیارات اور وسائل کو اپنی ذات اور خاندان تک محدود کرنے سے جڑی ہوئی ہے۔
ہماری ریاست، حکومتوں، سیاست دانوں، پالیسی ساز اداروں، انتظامی افسران، اہلِ دانش اور میڈیا یا رائے عامہ بنانے والے افراد اور اداروں کو اپنی موجودہ روش سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا، کیونکہ موجودہ طرزِ حکمرانی اپنی افادیت کھوچکی ہے۔18ویں ترمیم کے بعد ہمیں جو لولی پاپ دیا گیا کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوں گے اور لوگ خوشحالی کے ثمرات سے مستفید ہوں گے، محض نعرہ ہی ثابت ہوا۔ اصل جنگ اس ملک کے اہل دانش کی سطح پر نہیں، فکری محاذ پر لڑ کر معاشرے کے دیگر طبقات میں ایک متبادل ترقی، نظام کی سوچ اور فکر کو بیدار کرنا ہوگا۔ یہی وہ عمل ہے جو اس وقت ہماری سیاست کو درکار ہے، اور اسی پر توجہ دے کر ہم اپنے لیے کچھ آسانیاں پیدا کرسکتے ہیں۔
اسی طرح عوامی سطح پر بھی لوگوں کو حکمران اور بااثر طبقات سے گٹھ جوڑ کرنے کے بجائے ایک پُرامن، منظم سیاسی اور سماجی جدوجہد کے لیے خود کو پیش کرنا ہوگا۔ اس وقت اصل مسئلہ سماجی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کا ہے۔ اس وقت کے جو برے حالات ہیں اُن سے نمٹنے کے لیے مضبوط اعصاب کے ساتھ آواز اٹھانا ہوگی۔ ایسا نہیں کہ حالات بدل نہیں سکتے، سب کچھ بدل سکتا ہے اگر ہم لوگوں کو سیاسی و سماجی طور پر اس بات پر قائل کرلیں کہ یہ نظام عام آدمی کے مقابلے میں طاقتوروں کا ہے، اور ان کی طاقت کو توڑے بغیر ہم عام آدمی کا مقدمہ نہیں جیت سکیں گے، تو ایک بہتر سماج کی تشکیل کی طرف پیش قدمی کا آغاز ہوسکتا ہے۔