مستقبل انسان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے، آنے والے لمحوں کا علم نہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے۔ ہم نے تاریخ میں بادشاہوں کو تخت سے اترتے دیکھا ہے، اور بعض دفعہ اُن کے سر بھی اترتے ہوئے دیکھے ہیں۔ ایران کے انقلاب میں شاہ کو مع اپنے خاندان کے دنیا نے فرار ہوتے، اور انقلاب کے امام کو آتے ہوئے دیکھا، یہ بھی تاریخ کا ایک خوبصورت لمحہ تھا۔ تاریخ نے عرب دنیا میں جس لمحے میں خلافتِ راشدہ کے بعد ملوکیت کو برسراقتدار دیکھا تو ملوکیت کے حکمرانوں کے سروں کی فصل کٹتے ہوئے بھی دیکھی۔ تاریخ میں یہ لمحہ کتنا المناک تھا کہ امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کے سروں کی فصل یزید کے دربار میں سجائی گئی تھی، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز ترین نواسے کا سر دربار میں رکھا ہوا تھا۔ ملوکیت کی پوری تاریخ میں علَمِ بغاوت بلند کرنے والوں کے سروں کی فصل کاٹی گئی۔ یہ اسلامی دنیا میں ملوکیت کے جبر و استبداد کی تاریخ ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کے فرزندوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور تختۂ دار پر ان کے رہبروں کو چڑھتے ہوئے دیکھا، اور فاشسٹ حکومتوں میں بھی ایسا ہی کھیل کھیلا گیا۔ بنگلہ دیش میں ہم نے اس منظر کو دیکھا کہ جب جمہوری حکومت فاشزم کی طرف گئی تو عوامی ابھار اٹھا، اور بنگلہ دیش کے بانی، بنگلہ بندھو اور اُس کے ساتھیوں کو گولیوں کی باڑ مارکر موت کی نیند سلادیا گیا، آزادی کے اس رہنما کی لاش کو تین دن تک اٹھانے والا کوئی نہ تھا۔ ایسا ہی منظر ہم نے افغانستان کے انقلابِ ثور میں برپا ہوتے ہوئے دیکھا، جنرل دائود کو مع اس کے خاندان کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس کے بعد نور محمد ترہ کئی صدرِ افغانستان جو ایک عمر رسیدہ شخص تھے اپنے شاگردوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے گئے، پھر نجیب کو چوراہے پر لٹکے ہوئے دنیا نے دیکھا۔ مشرق وسطیٰ کی سرزمین خون آشام بن گئی ہے، جس موضوع پر لکھنا چاہتا ہوں اس سے پہلے ایک طائرانہ نگاہ اپنے ہمسایہ ممالک اور مشرق وسطیٰ پر ڈالی ہے۔ پاکستان میں سیاسی حکمران بھٹو کے خلاف عوامی ابھار کے نتیجے میں فوجی جنرل نے اسے تختۂ دار پر کھینچا۔ پاکستان میں عوامی ابھار کے نتیجے میں کوئی مثبت نتائج ابھی تک نہیں آئے ہیں۔ وقفے وقفے سے جمہوریت پر شب خون مارا گیا ہے، جمہوریت ہمیشہ خطرے میں نظر آئی ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو جمہوری بنیاد پر وجود میں آیا۔ ووٹ کی بدولت اس کی تخلیق ہوئی۔ اس لیے عوام مسلسل جمہوریت کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ اس تجزیے کا مقصد عوام کو یہ احساس دلانا اور جمہوریت کے فوائد کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس کا ایک دستور ہے، پیپلزپارٹی کو تاریخی طور پر یہ کریڈٹ حاصل رہے گا کہ بھٹو کے دورِ حکومت میں ایک اسلامی دستور تشکیل دیا گیا۔ عرب دنیا اس نعمت سے محروم ہے۔ عرب دنیا یا تو بادشاہوں کی گرفت میں ہے یا فوجی ڈکٹیٹروں کے تسلط میں پھڑپھڑا رہی ہے۔ پاکستان خوش قسمت ملک ہے جو دستور کے تحت مستقبل کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس پس منظر میں بلوچستان میں ایک جمہوری عمل کے ذریعے بڑی آسانی سے تبدیلی آگئی ہے، اور یہ تبدیلی نوجوان ارکانِ اسمبلی کا کارنامہ نظر آتا ہے۔ ہوسکتا ہے پس پردہ کوئی سایہ حرکت پذیر رہا ہو، لیکن وہ نگاہوں سے پوشیدہ ہی رہا۔ اس جمہوری عمل میں بلوچستان دھیرے دھیرے اور غیر محسوس طریقے سے سیاسی اور تاریخی سفر پر رواں دواں نظر آرہا ہے۔ اس سفر کو طے کرنے میں ایک وقت لگا ہے اور تاریخ میں پہلی بار اقتدار پر ایک عام شخص جلوہ گر ہوا، اور وہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تھا۔ تاریخ میں پہلی بار وزیراعلیٰ کی اہم نشست پر نہ نواب تھا، نہ کوئی جاگیردار نظر آیا۔ اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا یہ سفر نصف مرحلے کے لیے تھا جو طے ہوگیا۔ وہ کامیاب رہا، یا ناکام… تاریخ اس کا فیصلہ ضرور کرے گی۔ اُس کے بعد اقتدار پر ایک نواب نظر آیا جو اپنا دورِ اقتدار پورا نہ کرسکا۔ یہ المیہ بھی ہے اور نااہلی بھی۔ نااہلی اس حوالے سے کہ جناح روڈ چھے ماہ سے زائد عرصہ تک مکمل نہ ہوسکی۔ جبکہ اس عرصے میں پنجاب کے وزیراعلیٰ نے سات ماہ میں لاہور کے اندر دو کلومیٹر کے قریب انڈر پاس مکمل کرلیا جبکہ بلوچستان میں حکومت اخبارات میں منصوبے مکمل کرتی رہی اور محکمہ اطلاعات کے ذریعے اشتہارات میں بلوچستان جنت نگاہ بنا دکھائی دے رہا تھا۔ موجودہ وزیراعلیٰ ان گزشتہ اشتہارات کا بھی جائزہ لے لیں تو بہتر ہے تاکہ انہیں محکمہ اطلاعات کا کوئی آفیسر مغالطے میں نہ رکھ سکے۔ اور صحافیوں کے اس گروہ سے بھی نوجوان یا جوان وزیراعلیٰ کو دامن بچانا چاہیے جو نئے وزیراعلیٰ کو شیشے میں اتارنے کا فن جانتا ہے، اور یہ گروہ لیلیٰ اقتدار کے گرد مکھیوں کی مانند بھنبھناتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ اقتدار کے پجاریوں کا ایک گروہ ہے۔ ایک ایسا ہی دلچسپ اور عبرت ناک منظر مجھے نواب رئیسانی کے دورِ حکومت میں نظر آیا۔ یہ ٹولہ اُن کے گرد بھی جمع تھا۔ وہ مطمئن تھے اور لطیفے سناتے تھے۔ اور جب اقتدار سے محروم ہوئے تو ان کا کوچہ ویران نظر آیا، اورکسی صحافی کو اس کوچۂ اقتدار میں جاتے ہوئے نہ دیکھا۔ وہاں سے گزرتا ہوں تو اس کی ویرانی پر ملال اور افسوس ہوتا ہے۔ اقتدار کا نشہ ایسا چڑھتا ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا، اور جب انسان اقتدار سے اترتا ہے تو خلا میں گھورتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہم نے ڈاکٹر عبدالمالک کو بھی اسی رنگ میں دیکھا ہے۔ اب عبدالقدوس بزنجو کا دورِ حکومت ہے۔ کیا وہ اس مفاد پرست گروہ سے جان چھڑا سکیں گے؟ یہ ایک سیاسی سفر ہے جس کا آغاز ہوگیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس عمل کا ایک پہلو پُرکشش اور جاذب نظر آتا ہے کہ اقتدار کی کرسی پر ایک عام شخص براجمان نظر آرہا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو سے عام لوگ مل سکتے ہیں، جبکہ کسی نواب یا سردار سے ملنے کے لیے ایک عام شخص کو کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
بلوچ معاشرہ اب تک سرداری، نوابی اور جاگیرداری نظام سے مکمل طور پر نہیں نکل سکا ہے، البتہ پشتون معاشرہ نکل گیا ہے لیکن وہ ملاّئوں کی گرفت میں چلا گیا ہے، اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے اس گرفت کو توڑنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب رہی ہے۔ تاریخ میں پشتون خوا اور نیشنل پارٹی نے کوشش کی کہ جمعیت علماء اسلام کو اقتدار سے دور رکھیں جس میں وہ کامیاب رہیں، لیکن اب اقتدار کے آخری مرحلے میں جمعیت (ف) نے نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کامیاب رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان مرکز میں نوازشریف کے ساتھ ہیں اور بلوچستان میں اُن کے مخالف گروہ کے حمایتی بنے ہوئے ہیں۔ جمعیت (ف) نے حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب وہ حزبِ اختلاف کے قائد کا کردار بھی سنبھالنا چاہتی ہے، مگر وہ تو حکومتی مفادات کے ساتھ ہے، اس لیے حقیقی حزبِ اختلاف کے قائد کا انتخاب دستوری تقاضا بن گیا ہے۔ جمعیت(ف) نے ووٹ دیا ہے اس لیے اس کی قیمت وصول کرنا چاہتی ہے۔ پہلے مرحلے پر اس نے ایڈووکیٹ جنرل کا عہدہ طلب کرلیا ہے اور اب اس کی نظر ڈپٹی اسپیکر کی نشست پر ہے، اور جان جمالی کی نگاہیں بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر شپ پر جمی ہوئی ہیں۔ جمالی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔
تاریخ ٹیپو سلطان شہید، نواب سراج الدولہ شہید اور جھانسی کی رانی کو سنہرے الفاظ اور احترام سے یاد رکھ رہی ہے۔ یہ عظیم لوگ اپنی آن پر قربان ہوگئے، اور برطانوی سامراج کے سامنے نہیں جھکے، نہ وطن فروشی کی، نہ اپنے قول سے پھرے۔ تاریخ نواب محمد اکبرخان بگٹی شہید، نواب نوروز خان، نواب خیربخش مری، مولوی شمس الدین شہید اور بالاچ مری کو یاد رکھے گی۔ تاریخ سردار عطاء اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو کو بھی بھلا نہ سکے گی۔ عبدالصمد خان شہید کی لازوال سیاسی جدوجہد اور صادق شہید کو بھی بھلا نہ سکے گی۔
تجزیہ نئے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے حوالے سے ہورہا ہے تو ایک طائرانہ نگاہ گزرے لمحات پر بھی ڈال لیتے ہیں تاکہ نوجوان نسل اپنی تاریخ سے کچھ کچھ آگاہی حاصل کرسکے۔ عبدالمالک کے بعد عوامی سیاست کا تسلسل ٹوٹ گیا تھا، لیکن اب عبدالقدوس بزنجو کے سر پر وزارتِ علیا کا تاج سجادیا گیا ہے۔ اچھا لگ رہا ہے کہ اقتدار نوابوں، سرداروں، جاگیرداروں کے بجائے ایک عام آدمی کو ملا ہے۔ نوابوں، سرداروں اور جاگیرداروں نے اسے ووٹ دیا ہے۔ یہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ایوب خان کے دور سے سرداروں اور نوابوں کے خلاف جدوجہد کرتی چلی آرہی ہے لیکن وہ بھی ان سرداروں اور نوابوں کی گرفت سے نکل نہیں پائی ہے، لیکن ایک دن تاریخ اس کی جدوجہد کو بار آور ضرور دیکھے گی۔ بی ایس او کے لیڈر ڈاکٹر عبدالمالک کا وزیراعلیٰ بننا تو بی ایس او کی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ مختصر عرصہ کے لیے سہی لیکن اقتدار کی دہلیز بی ایس او نے پار کی ہے جو قابلِ تعریف اور قابلِ تحسین عمل ہے۔ یہ بھی ایک تاریخ کا لمحہ ہے جو تاریخ میں ثبت ہوگیا ہے۔
nn