’’سفرِشوق‘‘ طارق محمود مرزا صاحب کی تیسری کتاب ہے جو اشاعت کے مراحل مکمل کرنے کے بعد قارئین تک پہنچی ہے۔ قبل ازیں ان کا ایک سفرنامہ ’’خوشبو کا سفر‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے جو ان کے سفرِ یورپ کا تذکرہ ہے۔ ان کی دوسری کتاب ’’تلاشِ راہ‘‘ ہے جو ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ان کی یہ تیسری کتاب ’’سفرِ شوق‘‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ان کے حج کا سفرنامہ ہے۔ اس موضوع پر بیسیوں نہیں سینکڑوں کتب پہلے سے اردو اور دیگر زبانوں میں طبع شدہ موجود ہیں، ایسے میں ایک اور سفرنامے کی ضرورت اور افادیت کیا ہے؟ خود صاحبِ کتاب کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’’میں جب حج ادا کرنے گیا تھا تو اس بارے میں لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ نہ دورانِ حج اور نہ واپس آنے کے فوراً بعد میں نے ایسا سوچا تھا، دورانِ حج میں نے کوئی تصویر بنائی تھی نہ ڈائری لکھی، اور نہ نوٹ تحریر کیے تھے۔ میں فرض ادا کرنے گیا تھا، ادا کرکے واپس آگیا، مگر واپس آنے کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس عقیدت بھرے سفر کی یادیں میرے ذہن و دل کو اس درجہ گرمانے لگیں کہ میں نے بے اختیار قلم اُٹھا کر ان یادوں کو قلم بند کرنا شروع کردیا۔ اس تحریر کا مقصد صرف اپنے من کی تسکین تھی‘‘ …… ’’میرا منشا نہ تو کتاب لکھنا تھا نہ اپنی تحریر کی دھاک بٹھانا تھا۔ مجھے صرف اپنے اندر کی آگ کم کرنا تھی۔ اپنے اندر کی تپش، بے قراری اور جذبوں کی شدت کو اظہار کے ذریعے ٹھنڈا کرنا مقصود تھا‘‘… ’’یہ صرف اور صرف جذبوں کے رنگ ہیں جو پوری کتاب میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ان عقیدت اور محبت بھرے جذبات کا پیغام عام کرنے کے لیے اسے کتابی شکل دی جا رہی ہے۔ یہ دل سے لکھی ہوئی تحریر ہے اور مجھے امید ہے کہ قاری کے دل پر دستک دے گی‘‘۔
طارق محمود مرزا آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور وہیں سے اپنے اس مقدس سفر کا آغاز انہوں نے کیا، چنانچہ آسٹریلیا سے دبئی، دبئی سے سعودی عرب اور پھر وہاں سے پاکستان تک کے سفر کا احوال بھی ان کے اس سفرنامے کا حصہ ہے۔ ان کی اہلیہ محترمہ رفعت مرزا بھی اس سفر میں اُن کے ہمراہ تھیں، چنانچہ کتاب کا انتساب انہوں نے انہی کے نام ان الفاظ میں کیا ہے: ’’اپنی شریکِ حیات کے نام جو شریکِ سفر بھی تھی‘‘۔ ’’سفرِ شوق‘‘ کی تحریر کا مقصد اگرچہ مصنف نے ’’اپنے اندر کی تپش، بے قراری اور جذبوں کی شدت کو اظہار کے ذریعے ٹھنڈا کرنا‘‘ بتایا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محض تقدس سے بھرپور عقیدت اور محبت کے جذبات کی عکاس تحریر نہیں ہے بلکہ اس میں مصنف کے ہر طرح کے مشاہدات، اور تجربات سے متعلق ان کے خیالات شامل ہیں۔ اس میں دینی اور دنیاوی سبھی معاملات موضوعِ سخن ہیں۔ دورانِ سفر ملنے والے مختلف کرداروں کا تذکرہ اور حالات و واقعات کی تفصیل انہوں نے نہایت دل نشین پیرائے میں تحریر کی ہے جس سے موضوع کے تقدس کو مجروح کیے بغیر کتاب کی جاذبیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، اور قاری جب مطالعہ شروع کرتا ہے تو جابجا جہاں اسے عقیدت سے بھرپور جذبات کے اظہار سے واسطہ پڑتا ہے وہیں جگہ جگہ دلچسپ واقعات بلکہ بعض جگہ تو لطائف بھی پڑھنے کو ملتے ہیں، تاہم اس کے باوجود وہ کسی مرحلے پر بھی تحریر کے تقدس کو مجروح نہیں ہونے دیتے، البتہ قاری کو موضوع سے متعلق نہایت اہم اور قیمتی معلومات اور دلچسپ تجربات سے آگاہی ضرور ہوجاتی ہے۔
کتاب کا دیباچہ ادارہ معارف اسلامی لاہور کے ڈائریکٹر حافظ محمد ادریس نے تحریر کیا ہے، جب کہ ’’طارق مرزا کا روحانی سفر‘‘ سڈنی (آسٹریلیا) کے اشرف شاد اور ’’مکہ مدینہ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر باقر رضا کی تحریریں کتاب کے آغاز میں درج ہیں۔ ’’اپنی بات‘‘ کے عنوان سے خود مصنف نے جامع الفاظ میں کتاب کا تعارف کرایا ہے، جب کہ کتاب کے آخر میں ’’وجہ تصنیف‘‘ کے عنوان سے مصنف نے ایک بار پھر اپنی اس تحریر کے پس منظر اور پیش منظر پر روشنی ڈالی ہے۔ عالم گیر شہرت کے حامل ممتاز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نہایت خوبصورت، مختصر مگر بھرپور جامعیت لیے تبصرہ بھی کتاب کے آغاز میں شائع کیا گیا ہے جن کی یہ رائے ہے کہ ’’مرزا صاحب نے کتاب کیا لکھی ہے کہ عشقِ الٰہی اور عشقِ رسولؐ میں کلیجہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ آپ نے سفر کی ابتدا آسٹریلیا سے کی، اور نہ صرف راستے کے سفر کی تفصیلات قلم بند کی ہیں بلکہ مکہ شریف و مدینہ شریف میں دلی تاثرات پلیٹ میں رکھ کر آپ کو پیش کردیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طارق محمود مرزا صاحب جس طرح ہمیں اپنے ساتھ لے کر چلے ہیں تو بالکل یہی احساس ہوتا ہے کہ ہم خود بھی حج کررہے ہیں اور تمام مراحل سے گزر رہے ہیں۔ یہ کتاب دلی جذبات، عشقِ رسولؐ و عشقِ الٰہی کی نہایت اعلیٰ عکاسی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خانۂ کعبہ اور مسجدِ نبویؐ اور ارکانِ حج کی تفصیل وہی شخص لکھ سکتا ہے جو دل و جان سے اس فریضے کو ادا کررہا ہو۔ جب تک انسان اس عشق میں مدہوش نہ ہوجائے وہ یہ چیز کاغذ پر نہیں لا سکتا۔ میرا مشورہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو حج کا فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں، مرزا صاحب کی اس کتاب کا پہلے ضرور مطالعہ کریں اور پھر حج پر جائیں۔ اس سے ان کو فرائضِ حج ادا کرنے میں بہت سہولت رہے گی۔ ‘‘
nn