گزشتہ صدی کی سرد جنگ کی واپسی کا اعلان

صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے پر اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب محترمہ نکی ہیلی نے کہا تھا: لوگو! اب شہر میں نیا Sheriff یا تھانیدار آگیا ہے۔ نکی صاحبہ کا تعلق چونکہ ہندوستان کے سکھ خاندان سے ہے اس لیے لوگوں نے شریمتی کے اس بیان کو باس کی تحسین و تعریف المعروف چمچہ گیری کا دیسی ٹوٹکا سمجھ کر نظرانداز کردیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران بار بار یہ کہتے رہے کہ امریکہ کی بدحالی کی بنیادی وجہ دنیا میں چودھراہٹ کا خواب ہے، اور بقولِ ذوقؔ ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو‘‘۔ منتخب ہونے کے بعد انھوں نے اپنی تقریر میں بہت کھل کر کہا کہ میں امریکی عوام کا نمائندہ اور ان کا صدر ہوں، مجھے دنیا کی قیادت کا کوئی شوق نہیں اور امریکی عوام کی خوشی و خوشحالی میری اوّلین ترجیح ہے۔ اسی ضمن میں جناب ٹرمپ نے کئی مرتبہ کہا کہ دنیا میں جمہوریت کے قیام اور امریکی اقدار کے فروغ سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں، ہر ملک کا نظمِ حکومت اُس کے شہریوں کی امنگوں کا ترجمان ہونا چاہیے۔ کمیونزم اور آمرانہ کمیونسٹ معیشت کی ہجو ماضی میں ری پبلکن پارٹی کی انتخابی مہم کا طرۂ امتیار رہا ہے لیکن صدر ٹرمپ نے اپنی کسی بھی تقریر یا بیان میں روس پر تبرا نہیں پڑھا، بلکہ لوگوں کا خیال ہے کہ صدرٹرمپ کی کامیابی میں روسی حکومت کا ہاتھ ہے اور اس تنازعے کی تحقیق کے لیے ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر مائک موئلر کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا گیا ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی صدر ٹرمپ نے اُس معاہدے سے کنارہ کشی کا اعلان کردیا جس کے تحت ساری دنیا نے ماحولیاتی کثافت پر قابو پانے کے لیے مل جل کر کام کرنے کا عہد کیا ہے۔ معاہدۂ پیرس کے نام سے مشہور اس دستاویزکی تیاری میں صدر اوباما نے قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔ اسی کے ساتھ امریکہ نے اقوام متحدہ کی امداد بھی بہت کم کردی اور یہاں بھی وہی دلیل کہ ہمیں دنیا کا چودھری بننے کا کوئی شوق نہیں۔
لیکن گزشتہ ہفتے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے جس نئی ’’قومی دفاعی حکمت عملی‘‘ کا اعلان کیا ہے اس کے مطابق امریکہ کی توجہ اب انسدادِ دہشت گردی کے بجائے طاقت کے عظیم مقابلے پر ہوگی، اور ایسا لگ رہا ہے کہ روس اور چین کو نکیل ڈالنا آنے والے دنوں میں امریکہ کا ہدف ہے۔ یہ ضخیم دستاویز کئی سو صفحات پر مشتمل ہے جس کا 11ورقی خلاصہ جمعہ کو جیمز میٹس نے واشنگٹن کی جامعہ ہاپکنز(John Hopkins University)کے شعبہ بین الاقوامی امورکی ایک تقریب میں پیش کیا۔ یہ خلاصہ آنے والے دنوں میں امریکہ کی دفاعی حکمت عملی کے خدوخال پر مشتمل ہے۔ جامعہ کے اساتذہ، عسکری حکام، سیاسیات کے علما اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیردفاع نے کہا کہ پنٹاگون دہشت گردی سے توجہ ہٹا رہا ہے جو 17 سال سے امریکی منصوبہ سازوں کو مصروف رکھے ہوئے تھی۔ اب امریکہ کی ترجیحِِ اوّل اپنی آزادی اور نظامِ زندگی کا تحفظ ہوگا۔ جیمز میٹس نے کہا کہ امریکہ دنیا میں اپنے منفرد و مؤقر اور قائدانہ منصب و مقام کا ہر قیمت پر دفاع کرے گا۔ اپنے خطاب میں جنرل صاحب نے کہا کہ روس کے پڑوسی اس کی توسیع پسندانہ پالیسی کا شکار ہیں اور کریملن نہ صرف ان ریاستوں کی سلامتی و خودمختاری کو پامال کررہا ہے بلکہ روسی ویٹو نے اقوام متحدہ میں احتساب و مواخذے کی ہر کوشش غیر مؤثر بنادی ہے۔ وزیر موصوف نے اپنی تقریر میں چین کو رگیدتے ہوئے کہا کہ بیجنگ اپنی مضبوط معیشت اور تزویراتی یا اسٹرے ٹیجک مسابقت کے بل پر ہمسایوں کو خوفزدہ کررہا ہے۔ چین اپنی کرنسی کی قیمت میں مجرمانہ اتار چڑھائو (Currency Manipulation) کے ذریعے تجارتی شراکت داروں کو دبائو میں رکھے ہوئے ہے، جبکہ بحیرہ جنوبی چین میں اس کی آبی مہم جوئی بحرالکاہل و بحرہند میں آزاد جہازرانی اور اقتصادی سرگرمیوں کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے۔ نئی حکمت عملی میں روس اور چین کے ساتھ ایران اور شمالی کوریا کو بھی نشانے پر رکھا گیا ہے۔ اس جانب اشارہ کرتے ہوئے جنرل میٹس نے کہا کہ ایران مشرق وسطیٰ میں تشدد اور فرقہ وارانہ منافرت کے بیج بورہا ہے۔ تہران کا یہ منفی و قابلِ مذمت طرزِعمل علاقے کے استحکام کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ شمالی کوریا کو Rogueیا بدمعاش ریاست قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ پیانگ یانگ کے جوہری و میزائل پروگرام کے توڑ کے لیے علاقے میں میزائل شکن دفاعی نظام کی تنصیب جاری رہے گی۔ پہلی بار امریکہ کی دفاعی حکمت عملی سے موسمی تغیرات (Climate Change) کا باب نکال دیا گیا ہے، ورنہ اس سے پہلے قومی دفاع کی حکمت عملی سے متعلق ہر اعلامیے اور دستاویز میں ماحول کی حفاظت کا عزم ظاہر کیا جاتا تھا۔
اتفاق سے اس چشم کشا دفاعی حکمت عملی کا اعلان اُس وقت کیا گیا جب امریکہ کی وفاقی حکومت ’’ٹھپ‘‘ ہورہی تھی جسے سیاسی اصطلاح میں ’’شٹ ڈائون‘‘ (Shutdown)کہتے ہیں۔ امریکہ سمیت ساری دنیا کی نظریں اس وقت واشنگٹن پر تھیں جہاں امریکی قانون ساز شٹ ڈائون سے بچنے کے لیے ایک متفقہ تصرف بل یا Appropriation Legislationکی تدوین میں مصروف تھے۔ یہاں شٹ ڈائون پر چند سطور کہ پاکستانی اخبارات میں اس حوالے سے انتہائی سنسنی خیز لیکن خلافِ حقیقت خبریں اور تجزیے شائع ہورہے ہیں۔ امریکہ کی وفاقی حکومت اس لیے ٹھپ، کنگال و قلاش نہیں ہوگئی کہ اُن کا خزانہ خالی ہے یا امریکہ دیوالیہ ہوگیا ہے، بلکہ یہ بحران جماعتی گروہ بندی اور حکومت و حزبِ اختلاف کے درمیان اعتماد کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ امریکی آئین کے تحت قومی خزانے کی کنجی مقننہ (پارلیمنٹ) کے پاس ہے، اور پارلیمنٹ کا عمل دخل صرف بجٹ کی منظوری تک ہی محدود نہیں بلکہ کانگریس سے تمام اہم اخراجات کی فرداً فرداً منظوری لازم ہے جسے تصرف یا Appropriationکہتے ہیں۔ گزشتہ تصرف بل میں جو رقم منظور کی گئی تھی وہ 19 جنوری 2018ء تک کے لیے کافی تھی۔ سینیٹ سے تصرف بل کی منظوری کے لیے 60 ووٹ ضروری ہیں، جبکہ ایوان میں ری پبلکن پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد51 ہے، گویا ڈیموکریٹس کی مدد کے بغیر ٹرمپ انتظامیہ کو اخراجات کے لیے پیسے نہیں مل سکتے۔ اِس بار مقطع میں سخن گسترانہ بات یہ آن پڑی کہ صدر ٹرمپ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے 20 ارب ڈالر مختص کرانا چاہتے تھے جو ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ دوسری طرف اُن نوجوانوں کا معاملہ بھی ہے جو کمسنی میں غیر قانونی طور پر امریکہ آئے یا لائے گئے، جنھیں خواب کے متلاشی یا Dreamersکہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنی آنکھوں میں خوشی اور خوشحالی کے خواب سجائے امریکہ آئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد 8 لاکھ ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کئی سال سے ان لوگوں کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کررہی ہے، لیکن ری پبلکن پارٹی نے یہ بل منظور نہ ہونے دیا۔ صدر اوباما نے ان لوگوں کی بے دخلی روکنے کے لیے نومبر 2014ء میں Deferred Action for Childhood Arrival یا ڈاکا (DACA)کے عنوان سے ایک حکم منظور کیا، یا یوں سمجھیے کہ ان لوگوں کی بے دخلی کے خلاف ایک حکمِ امتناعی جاری کردیا گیا۔ گزشتہ سال ستمبر میں ٹرمپ انتظامیہ نے ’ڈاکا‘ کو منسوخ کردیا اور امریکی کانگریس سے کہا کہ وہ مارچ 2018ء تک یہ فیصلہ کرلے کہ ان لوگوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے یا بے دخلی کی راہ دکھانی ہے۔ اب ڈیموکریٹس اس بات پر مُصر ہیں کہ حکومت Dreamersکو قانونی تحفظ فراہم کرے اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے رقم کو مطالبہ زر سے نکالے ورنہ تصرف بل منظور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن صدر ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ وہ صرف اسی صورت میں Dreamersکو قبول کریں گے جب مستقبل میں غیر قانونی لوگوں کے آنے کا راستہ سرحد پر دیوار کھڑی کرکے روک دیا جائے۔ ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ جناب ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ دیوار کا خرچ میکسیکو کی حکومت ادا کرے گی تو اب اس کا بوجھ امریکی ٹیکس دہندگان پر کیوں ڈالا جارہا ہے؟ اسی بحثا بحثی میں 19 جنوری کا دن آگیا۔ سینیٹ میں رائے شماری کے دوران ڈیموکریٹس کے ساتھ صدر ٹرمپ کی پارٹی کے 4 ارکان نے بھی تصرف بل کے خلاف ووٹ دیا اور سرکار ٹھپ ہوگئی۔ بہت ممکن ہے کہ جب آپ ہمارا یہ مضمون پڑھ رہے ہوں اُس وقت تک عارضی مدت تک حکومت کا پہیہ چالو رکھنے کے لیے Continuing Resolution امریکی کانگریس سے منظور ہوچکی ہو۔
امریکی وزیردفاع نے شٹ ڈائون پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کی غیر مشروط پشتی بانی کے بغیر فوج کے لیے اپنے اہداف کا حصول ناممکن ہے اور شٹ ڈائون کے نتیجے میں مالی اعانت کی معطلی سے امریکہ کی عسکری صلاحیتیں متاثر ہوں گی۔ شٹ ڈائون کے شور میں جناب جیمز میٹس کے اس سنسنی خیز اعلان پر امریکہ میں بحث و مباحثہ شروع نہیں ہوسکا اور نہ ہی پنٹاگون نے یہ بتایا کہ نئی دفاعی حکمت عملی کو بحث کے لیے امریکی کانگریس میں کب پیش کیا جائے گا۔ تاہم روس نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’’تصادم‘‘ کی پالیسی قرار دیا۔ روسی وزیر خارجہ Sergey Lavrov نے کہا کہ نئی حکمت عملی امریکہ کی عسکری قیادت کی جانب سے دفاعی بجٹ میں غیر ضروری اضافے کے لیے جواز فراہم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ اختلافات کو پُرامن مذاکرات سے حل کرنے کے بجائے تصادم کو حکمت عملی ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ چین کی جانب سے نئی امریکی حکمت عملی پر کوئی ردعمل ہماری نظروں سے نہیں گزرا۔ امریکہ کی نئی دفاعی حکمت عملی دراصل گزشتہ صدی کی سرد جنگ کی طرف واپس لوٹنے کا اعلان ہے، یعنی اب ایک بار پھر کامیوں (کمیونسٹوں) پر نظر رکھی جائے گی۔ دفاعی حکمت عملی کے کچھ امریکی ماہرین اس نئی حکمت عملی پر تحفظات کا اظہار کررہے ہیں جن کے خیال میں امریکہ بہادر کے لیے چین سے پنگا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اس وقت امریکہ پر چین کے قرض کا حجم 1200 ارب ڈالر ہے۔ صدر ٹرمپ نے ٹیکس میں کٹوتی کا جو اعلان کیا ہے اُس کے نتیجے میں امریکہ کو اگلے دس برسوں کے دوران 1500 ارب ڈا لر کا اضافی خسارہ متوقع ہے، جسے پورا کرنے کے لیے چین سے مزید قرض لینا ہوگا۔ اس پس منظر میں بیجنگ سے کشیدگی چچاسام کے مفاد میں نہیں۔
سرد جنگ کی طرف واپسی اور روس و چین سے کشیدگی پاکستان سے متصل پانیوں میں ارتعاش پیدا کرسکتی ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جو دستاویز امریکی وزیرخارجہ نے 19 جنوری کو پیش کی ہے اس کی ایک جھلک صدر ٹرمپ کی نئی افغان حکمت عملی میں نظر آچکی ہے جس کی رونمائی امریکی صدر نے گزشتہ برس 21 اگست کو خود کی تھی۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ افغانستان کے تنازع کے نام پر جنوب ایشیا حکمت عملی (South Asia Strategy)کا اعلان تھا۔ امریکی صدر کے مطابق افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور وسط ایشیا کے ساتھ جنوب مشرقی ایشیا ایک جامع حکمت عملی کا حصہ ہوں گے۔ اگر امریکہ کے قومی دفاع کی نئی حکمت عملی کو صدر ٹرمپ کی جنوب ایشیا حکمت عملی کے تناظر میں دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب پاکستان کو مشرقی اور شمالی سرحدوں کے ساتھ اپنے ساحلوں پر بھی گہری نظر رکھنی ہوگی۔ اس نئی حکمت عملی کا سب سے اہم کردار بھارت ہے جسے بحر عرب، خیلج بنگال اور بحر ہند کی نگرانی سونپ دی گئی ہے۔ دہلی کو 2 ارب ڈالر کے جدید ترین ڈرون فراہم کیے گئے ہیں جو عام ڈرون کے مقابلے میں دیر تک اور دور تک پرواز کرسکتے ہیں۔ ہندوستان ان طیاروں کو خلیج بنگال، بحرہند، آبنائے ملاکا اور شمالی بحر چین کی نگرانی کے لیے استعمال کرے گا۔ اس کے علاوہ ہندوستان نے حال ہی میں بین البراعظمی منجنیقی (Ballistic) میزائل کا تجربہ کیا ہے جو 7000 کلومیٹر دور اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ آبنائے ملاکا بحر جنوبی چین سے بحرہند میں داخل ہونے کا سب سے سہل راستہ ہے اور یہی گزرگاہ بحرالکاہل سے آنے والے امریکی، چینی، جاپانی اور روسی جہاز بحرہند میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ خلیج بنگال اور بحر انڈمان میں منڈلاتی ہندوستانی بحریہ کی کشتیاں آبنائے ملاکا سے آنے جانے والے جہازوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف بحر عرب میں گوادر کی بندرگاہ بھی اہمیت اختیار کرچکی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ چین کے لیے نقل و حمل کا بڑا ذریعہ ہوگی۔ اپنے حالیہ دورۂ ہندوستان میں اسرائیلی وزیراعظم اور ان کے ہندی ہم منصب نے دونوں ملکوں کی بحریہ کے درمیان تزویراتی تعاون بڑھانے کے امکانات کا جائزہ لیا اور خیال ہے کہ سی پیک (CPEC) پر نظر رکھنے کے لیے گوادر اور بحرعرب کی مؤثر نگرانی پر اتفاقِ رائے ہوگیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے خبر آئی تھی کہ اس کام کے لیے اسرائیلی و ہندوستانی بحریہ کی مشترکہ کمان زیرغور ہے۔ چند برس پہلے سابق امریکی صدر اوباما نے بھی بحرالکاہل اور بحرہند کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا تھا، اور جب ایک صحافی نے اس نظرِ کرم کی وجہ دریافت کی تو صدر اوباما نے کہا کہ یہ ایک مصروف تجارتی شاہراہ ہے اور اس آبی راستے کی نگرانی ہماری سلامتی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ امریکہ بہادر کو سب سے زیادہ خوف چین کے دور مار میزائلوں سے ہے۔ یہ برق رفتار میزائل سمندر کی تہ پر سفر کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی حرکت پوشیدہ رہتی ہے، اور 1500کلومیٹر سے زیادہ پہنچ رکھنے والے یہ خوفناک میزائل دشمن کے بحری جہازوں کے پرخچے اڑا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف چین کے اپنے تیار کردہ طیارہ بردار جہاز کے بارے میں جو نئی خبریں آرہی ہیں وہ امریکیوں کے لیے خاصی تشویش ناک ہیں۔ پہلے تو اس کا مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ٹیکساس کے ماہی گیروں کی کشتیاں بھی اس طیارہ بردار جہاز سے زیادہ مضبوط ہیں اور ایک طاقتور سمندری طوفان ہی اس جہاز کی تباہی کے لیے کافی ہے۔ لیکن اب امریکیوں کا خیال ہے کہ چینی طیارہ بردار جہاز سادگی و پرکاری کا نمونہ ہے۔ بیڑے سے وابستہ جہاز نہ صرف اس کا عمدہ دفاع کرسکتے ہیں بلکہ خوفناک میزائلوں سے لیس جدید ترین ایٹمی آبدوزیں دشمن کے بحری بیڑوں کو تہس نہس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ امریکیوں نے ان آبدوزوں کو Carrier Killer یا بیڑہ شکن کا نام دیا ہے۔ بحر جنوبی چین کی نگرانی کے لیے چینی بحریہ نے جگہ جگہ تنصیبات قائم کر رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ بحرالکاہل میں روسی بحریہ بھی سرگرم ہے اور اس کے زیرآب جوہری ڈرونز سے امریکی خوفزدہ ہیں، چنانچہ امریکہ چین کو بحر جنوبی چین میں تنگ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے گا اور واشنگٹن کے عسکری ماہرین کے خیال میں چھیڑ چھاڑ اور مستی کے لیے آبنائے ملاکا کا دہانہ اور گوادر کا قرب و جوار زیادہ مناسب ہے۔کچھ حلقے کسی مصدقہ اعداد و شمار کے بغیر ہی گوادر کو دبئی کی سوکن قرار دے رہے ہیں جس کی وجہ سے دبئی کے حکمراں رقابت میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ حال ہی میں وفاقی وزیر جہازرانی میر حاصل بزنجو نے انکشاف کیا ہے کہ افغانستان کو رسد پہنچانے کے لیے پنٹاگون گوادرکی بندرگاہ استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی بحریہ کو بحر عرب، خاص طور سے گوادر سے متصل پانیوں میں ’’شرارتوں‘‘ کا سامنا ہوگا، جبکہ شمالی و مشرقی سرحدوں پر بھی دبائو بڑھ سکتا ہے۔