اس وقت چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے جس طرح سے حکومت کے امورِ حکمرانی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور جس انداز سے عدلیہ اس پر اقدامات کررہی ہے، اس سے عدالتی فعالیت کے حوالے سے نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے عدالتی اصلاحات پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کو عدالتی نظام میں اصلاحات کے عمل پر توجہ دینی ہوگی۔ اسی طرح اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی چیف جسٹس کو مشورہ دیا ہے کہ وہ حکومت کے معاملات میں مداخلت کرنے کے بجائے عدالتی نظام میں انصاف کے عمل میں جو رکاوٹیں ہیں ان کو دور کریں۔ بظاہر لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو عدالتی مداخلت پر تشویش پائی جاتی ہے اور ان کے خیال میں عدالت جس انداز سے حکومتی معاملات میں مداخلت کررہی ہے اس سے عدالتی فعالیت کم اور عدالتی سیاسی ایجنڈے کا عمل زیادہ مضبوط نظر آتا ہے جو جمہوری حکمرانی کے لیے خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔
پاکستان میں انصاف اور سہولتوں کی فراہمی ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ کوئی احسان نہیں جو ریاست، حکومت اور اس کے ادارے عوام پر کرتے ہیں۔ اس کی ضمانت ہمارا آئین دیتا ہے۔ اچھی حکمرانی انسانی ترقی، خوشحالی اور خاص طور پر محروم طبقات کے تحفظ کے طور پر دیکھی اور پرکھی جاتی ہے۔ ہماری حکمرانی کا المیہ یہ ہے کہ اس میں عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی کو پس پشت ڈال کر طبقاتی یا ایک مخصوص گروہ کی ترقی کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔
یہاں جو لوگ اس کے براہِ راست ذمہ دار یا جوابدہ ہیں وہ اپنی ذمہ داری کو قبول کرنے کے بجائے دوسروں پر اپنی ناکامیوں کا بوجھ ڈال کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عمل حکمرانی کے نظام میں بہتری پیدا کرنے کے بجائے مزید انتشار اور تضادات کی سیاست کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔ اِس وقت بھی ہمارے ریاستی اور حکومتی اداروں کے درمیان حکمرانی کے نظام پر ٹکرائو کی پالیسی بالادست نظر آتی ہے۔ اس کی ایک واضح شکل ہم اس وقت عدلیہ اور حکومت کے درمیان دیکھ رہے ہیں جو ایک دوسرے پر لعن طعن کرکے حکمرانی کے نظام پر سنگین سوالات اٹھارہے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان اور عدلیہ کے دیگر جج حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرکے حکومتوں کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ صاف پانی، تعلیم، صحت، اور اچھی حکمرانی سمیت عام آدمی کے مفادات کا تحفظ حکومتوں کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس کے بقول اگر حکمرانوں نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ ان معاملات میں آخری حد تک جاکر سخت فیصلے کرسکتے ہیں۔ عدالتوں اور ججوں کے بیانات میں کچھ ایسے الفاظ بھی استعمال ہورہے ہیں جو یقینی طور پر حکمران طبقات کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ حکمرانوں نے چیف جسٹس کی جانب سے ہسپتالوں کے دورے اور صاف پانی کے معاملات پر نوٹس کو ناگواری سے دیکھا ہے۔ ان کے بقول عدالت اور ججوں کا یہ طریقہ کار آئین کے بھی خلاف ہے اور حکمرانی کے نظام میں مداخلت بھی ہے۔
حکومت کا جو مؤقف ہے اور جو تنقید عدالتی فعالیت پر کی جارہی ہے اُس میں بھی وزن ہے۔ لیکن یہ سوال بھی توجہ طلب ہے کہ اگر حکمران طبقہ بہتری پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں تو اس کا حل کیا ہونا چاہیے؟ اگر حکومتیں اپنی بنیادی ذمہ داریاں قانونی طور پر پوری نہ کریں تو ان کی جوابدہی کا نظام کیا ہو؟ یہ دلیل کہ اگر حکومتیں کام نہیں کریں گی تو اگلے انتخابات میں لوگ ان کو ووٹوں کے ذریعے مسترد کرسکتے ہیں، سیاسی نوعیت کی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا نظامِ حکمرانی استحصال پر مبنی ہے۔ تعلیم، صحت اور انصاف کی فراہمی کے حوالے سے جو پالیسیاں ہیں انھوں نے معاشرے کے کمزور طبقات میں محرومی کو جنم دیا ہے۔ صاف پانی جیسے اہم اور حساس معاملے پر حکومتی کارکردگی واقعی بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں دو تہائی سے زائد گھرانے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں اور ہر برس 53 ہزار بچے ہلاک ہوجاتے ہیں، جبکہ 30 سے40 فیصد اموات کا سبب بھی مضر صحت پانی ہے، اور لوگوں کو آرسینک و آلودہ پانی پلایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے مضر صحت دودھ کی فروخت پر بھی سخت نوٹس لیا ہے۔ ان کے بقول پانی پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود لوگ صاف پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں، 2018ء میں پانی اور صحت جیسے مسائل پر عدلیہ خاموش بیٹھنے کے بجائے فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا مؤثر کردار ادا کرے گی۔
جہاں تک عدلیہ کے نوٹس کا سوال ہے، کیا اس کا یہ عمل غیر قانونی ہے؟ کیاحکومتی نظام میں مداخلت ہے؟ ریاستی طور پر عدلیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کو شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کا پابند بنائے۔ یہ 1973ء کے آئین کی شق 184/3 میں درج ہے۔ آئین کی شق 199کے احکام پر اثرانداز ہوئے بغیر عدالت کو حق ہے کہ وہ عوامی اہمیت کے کسی بھی مسئلے پر حکم صادر کرسکتی ہے۔ یاد رہے کہ عمومی طور پر جب حکومتیں سیاسی و انتظامی غفلت کا شکار ہوں اور عوامی مشکلات پر اپنی آنکھیں بند کرلیں تو عدلیہ کو سامنے آنا ہوتا ہے۔ جب حکومتیں سیاسی خلا چھوڑیں گی تو کسی کو تو سامنے آنا پڑتا ہے، یہ ایک فطری امر ہے۔
مثال کے طور پر نجی میڈیکل کالجوں کی بے تحاشا اور مہنگی فیسوں کا سوال تھا، یہ نجی میڈیکل کالج عملی طور پر پیسہ بنانے کی مشین بن گئے تھے۔ اس معاملے پر حکومت اور اس کے ادارے گہری نیند سوئے ہوئے تھے، یا یہ مسئلہ ان کی ترجیحات میں نہیں تھا۔ اس مسئلے پر چیف جسٹس نے نوٹس لے کر نجی کالجوں میں سالانہ فیسوں کی حد آٹھ سے نولاکھ کے مقابلے میں چھے لاکھ بیالیس ہزار مقرر کی ہے اور ان کے بقول جو بھی نجی ادارہ اس پر عمل نہیں کرے گا اس کو بند کردیا جائے گا۔ یہ جو ریلیف ملا ہے اس پر جن والدین کے بچے نجی میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم ہیں ان کو براہِ راست فائدہ پہنچا ہے۔ یہ سب لوگ چیف جسٹس کو اپنا ہیرو سمجھ رہے ہیں، جبکہ حکومتوں کی نااہلی اور خاموشی پر ماتم کناں ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے حقائق کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
حکمران طبقہ اور اہلِ دانش یہ دلیل دیتا ہے کہ عدالتیں یا جج مقبول یا پاپولر ایجنڈے کے تحت سیاسی کام میں مداخلت کرکے عوامی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ یہ نکتہ بجا، لیکن ہماری سیاسی حکومتیں کیوں عوامی مقبولیت کے اس ایجنڈے کو سمجھنے سے قاصر ہیں؟ اورکیوں ان کی ترجیحات میں عوامی حمایت کے حصول کے لیے وہ ایجنڈا سرفہرست نہیں جو عوامی مفاد کے زمرے میں آتا ہے؟ پچھلے دنوں چیف جسٹس نے بجا فرمایا کہ ہم قانون ساز ادارہ نہیں، یہ کام پارلیمنٹ کا ہے اور اُسے عدالتی نظام کی بہتری کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔ اُن کے بقول انصاف میں تاخیر کی واحد ذمہ دار عدلیہ نہیں بلکہ عدالتی نظام اور اس میں موجود قانونی سقم ہیں۔ قانونی سقم کو ٹھیک کرنے کی ذمہ دار حکومت اور پارلیمنٹ ہے۔ اگر حکومت کو عدالت کے ازخود نوٹس پر بھی اعتراض ہے تو اس پر بھی قانون سازی کی مدد سے آگے بڑھا جاسکتا ہے، لیکن جب تک قانون سازی نہیں ہوتی، عدالت کو یہ حق حاصل ہے۔
نیب کی جانب سے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کو طلب کرنا اور اُن کا پیشی کے بعد باہر نکل کر پریس کانفرنس کرنا اور نیب پر شدید تنقید کرنا اور الزام لگانا کہ نیب قادری اور عمران خان کے ایجنڈے پر کام کررہا ہے، ظاہر کرتا ہے کہ اس ملک میں اداروں اور قانون کی حکمرانی کا نظام کہاں کھڑا ہے۔ نیب کے کسی اقدام پر یہ الزام لگانا کہ وہ احتساب نہیں کررہا بلکہ انتقام لے رہا ہے، خود حکومت کے بدنیتی کی نشاندہی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت نوازشریف اور شہبازشریف کی حکومتیں ہیں، اگر ان کو نیب میں اصلاحات لانی ہیں تو ان کو کس نے روکا ہے؟ جب یہی نیب سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف اقدامات کررہا تھا تو حکومت کو سب اچھا لگتا تھا، لیکن اب جب معاملات پنجاب میں شروع ہوئے ہیں تو سب انتقام لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری کو کہنا پڑا کہ ابھی محض نیب کی جانب سے نوٹس ملا تو شریف خاندان کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ جب حکمرانوں کو ٹارگٹ کیا جائے تو وہ انھیں سیاسی انتقام لگتا ہے، اور جب ان کے مخالفین کو ٹارگٹ کیا جائے تو وہ عین تقاضائے انصاف ہے۔
اصل میں مسئلہ کسی ایک صوبے کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کی کہانی میں بری طرزِ حکمرانی اور عوام کے استحصال کا ہے۔ چیف جسٹس نے خود پنجاب میں جس انداز سے مسائل کی نشاندہی کی وہ بھی توجہ طلب ہے۔ کیونکہ یہاں پنجاب کی حکمرانی کے جو گیت گائے جاتے ہیں اس میں بھی جھوٹ کی کہانی نمایاں ہے۔ یہ دلیل کہ ہماری عدلیہ یا جج، جج سے زیادہ قوم کے مسیحا بننے کی کوشش کررہے ہیں، بے جا ہے۔کیونکہ یہ جو بیڑا عدلیہ نے اٹھایا ہے وہ اس کا کام کم اور حکومت کا کام زیادہ ہے۔ لیکن کیا کریں جب حکمرانی کا نظام عوامی مفادات سے ٹکرائو پیدا کرکے ایک مخصوص طبقے کے مفادات کے تابع ہوجائے تو بحران پیدا ہو گا۔