وطنِ عزیز کے سب سے بڑے شہر، ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی، روشنیوں کے سفیر، محبتوں کے نقیب، ملک بھر کے بے روزگاروں کے لیے روزگار کی امید، عرفِ عام میں پاکستان صغیر، کراچی کو طویل عرصے تک پے درپے نفرتوں، کدورتوں اور تعصبات کی آگ میں جھلسانے کے بعد اب یہ بات نوشتۂ دیوار محسوس ہورہی ہے کہ ان منفی مقاصد کی حامل قوتوں کا آئندہ ہدف ملک کا دوسرا بڑا شہر لاہور ہے۔ اب یہاں بھی کراچی کا کھیل دہرانا مقصود ہے، جس کا آغاز بھی نہایت چابک دستی سے کردیا گیا، اور یہاں بھی پرانے پرویزی حیلوں کی آزمائش کی جارہی ہے جس طرح کم و بیش چالیس پینتالیس برس قبل جامعہ کراچی میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کو اسلامی جمعیت طلبہ کے مقابل لایا اور باہم ٹکرایا گیا تھا، جس کے بعد تعصبات کی اس چنگاری کو ایسی ہوا دی گئی کہ کراچی میں بسنے والے شہری مسلمان اور پاکستانی بھائی نہیں بلکہ مہاجر، سندھی، پنجابی، پٹھان اور بلوچ بن کر سالہا سال سے باہم ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہے۔ اس اسکیم کے عین مطابق لاہور میں بھی پختون بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نام سے ایک نومولود تنظیم کو حیلوں بہانوں سے جمعیت کے سامنے کھڑا کیا جارہا ہے کہ جمعیت ہی ہر طرح کی علاقائی، نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ نفرتوں کے مدمقابل محبت و اخوت، قومی یک جہتی، علاقائی و لسانی ہم آہنگی اور اتحادِ امت کی نمایاں علامت ہے، اگر اسلامی جمعیت طلبہ نامی اس مضبوط دیوار کو کسی طرح کمزور کردیا جائے تو باقی سب دیواروں کو گرانا نہایت آسان ہوجائے گا۔ چنانچہ سب سے پہلا وار اس مضبوط دیوار اور اس کے مستحکم قلعے جامعہ پنجاب پر کیا جا رہا ہے۔
اپنی گوناگوں مثبت غیر نصابی سرگرمیوں کے ضمن میں اسلامی جمعیت طلبہ نے ماضی کی تابندہ روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے جامعہ پنجاب کے شعبہ الیکٹرک انجینئرنگ کے گرائونڈ میں 22 جنوری کی صبح ساڑھے نو بجے سے ساڑھے دس بجے رات تک ’’پائینئر فیسٹول‘‘ کے ہمہ نوع پروگرام کا اہتمام کیا تھا۰ ذرائع ابلاغ کو جاری کیے گئے دعوت نامے کے مطابق اس میلے میں ٹیلنٹ گالا، نیلام گھر، ٹاک شو اور محفلِ مشاعرہ شامل تھے، جس کے مہمانوں میں پیپلز پارٹی کے میاں منظور وٹو، جماعت اسلامی کے امیرالعظیم اور حافظ سلمان بٹ، تحریک انصاف کے اعجاز چودھری، دنیا گروپ کے سلمان غنی، نیو ٹی وی کے نصراللہ ملک، مختلف کھیلوں کے نمایاں کھلاڑی اور ممتاز شعرائے کرام کے نام درج تھے۔ جمعیت کے کارکنان 21 جنوری کی رات گئے تک پروگرام کی تیاریاں کرتے رہے، اور جب اس سلسلے میں کچھ اطمینان ہوگیا تو اکثر صبح سویرے دوبارہ آنے کے وعدے پر گھروں کو روانہ ہوگئے اور کچھ وہیں شب بسری کے لیے ٹینٹوں میں لیٹ گئے۔ علی الصبح منہ اندھیرے چار ساڑھے چار بجے اچانک ایک شور بپا ہوا اور قناتیں اکھاڑی جانے لگیں، ان میں محنت سے سجایا گیا فرنیچر اٹھا کر پھینکا اور توڑا جانے لگا۔ معلوم ہوا کہ نامعلوم افراد نے حملہ کردیا ہے۔ موقع پر موجود جمعیت کے کارکنان جان بچانے کے لیے شعبہ انجینئرنگ کی عمارت کی جانب بھاگے اور ایک کمرے میں پناہ لی تو اسے بھی آگ لگا دی گئی۔ وہاں پناہ گزین طلبہ بمشکل جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ حملہ آوروں نے وہاں کھڑی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے شیشے توڑ دیئے اور انہیں شدید نقصان پہنچایا۔ افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ ماضی کے تجربات اور بعض خدشات کے پیش نظر فیسٹول کی اطلاع پولیس کو بھی دی گئی تھی اور حفظِ ماتقدم کے طور پر پولیس وہاں موجود بھی تھی، مگر جب یہ ساری توڑ پھوڑ اور آتشزنی کی واردات ہورہی تھی، پولیس نے وہاں اپنا وجود ثابت نہیں کیا، کسی کا ہاتھ پکڑا اور نہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت محسوس کی۔ ہاں جب اس غنڈہ گردی اور لاقانونیت کے خلاف اسلامی جمعیت طلبہ نے احتجاج کرنا چاہا تو لاٹھی چارج بھی یاد آگیا، آنسو گیس بھی پھینکی جانے لگی اور گرفتاریاں بھی شروع ہوگئیں… حالانکہ پولیس اگر رات کے اندھیرے میں حملہ آور ہونے والوں کے خلاف بروقت کارروائی کرلیتی، انہیں گرفتار کرکے پسِ دیوارِ زنداں ڈال دیا جاتا تو احتجاج کی نوبت آتی اور نہ ہی جامعہ کے حالات اس قدر خرابی سے دوچار ہوتے۔
سب جانتے ہیں کہ جامعہ پنجاب میں تقریباً ایک سال قبل بھی 21 مارچ 2017ء کو جب جمعیت نے فیصل آڈیٹوریم میں یوم پاکستان کے حوالے سے ہفتۂ تقریبات کے سلسلے میں جدوجہدِ آزادی سے متعلق تصاویر کا اہتمام کررکھا تھا تو اس وقت بھی انہی نام نہاد پختون اور بلوچ نوجوانوں نے ’’پختون کلچرل ڈے‘‘ کا بہانہ بناکر تصویری نمائش کو آگ لگا دی تھی اور شعبہ فلسفہ میں اسلامی جمعیت طالبات کے زیراہتمام جاری تقریری مقابلے پر بھی ہلہ بول دیا تھا اور اسٹیج اور سائونڈ سسٹم کو لمحوں میں تباہ و برباد کر ؎کے موقع سے بھاگ گئے تھے۔ اگر اسی وقت ان غنڈہ عناصر کو لگام ڈال دی جاتی اور قانون کے مطابق ان کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی تو انہیں 22 جنوری 2018ء کو ماضی کو دہرانے کی ہمت نہ ہوتی۔ مگر تب بھی یہی ہوا اور اب بھی یہی ہورہا ہے کہ وزیراعلیٰ نے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی ہے… رئیس جامعہ کا ارشاد ہے کہ حملہ کرنے والے کچھ لوگوں کی شناخت ہوگئی ہے، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ کارروائی کب کی جائے گی؟ ایک سال قبل کے واقعے میں ملوث عناصر کو اب تک کیفر کردار تک پہنچانے میں کون سے عوامل حائل رہے؟ اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اب غنڈہ گردی کرنے والوں کو پھر چھوڑ نہیں دیا جائے گا؟ کیونکہ اب تک تین دنوں میں تو یہی ہوا ہے کہ اگر چند حملہ آور غنڈہ عناصر کو حراست میں لیا گیا ہے تو ان سے کہیں بڑی تعداد میں اس غنڈہ گردی کے خلاف احتجاج کا حق استعمال کرنے والے اسلامی جمعیت طلبہ کے کم و بیش دو سو طلبہ کو جامعہ پنجاب اور شہر کے دوسرے کالجوں سے گرفتار کرکے مختلف تھانوں میں بند کردیا گیا اور مجرموں کو پکڑ کر سزا دلوانے کے بجائے پولیس کا دو طرفہ کارروائی کا روایتی ہتھکنڈہ استعمال کیا جا رہا ہے، کیا انصاف اسی کا نام ہے؟
محترم رئیس جامعہ نے جامعہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد اس فیصلے کا بھی اعلان فرمایا ہے کہ آئندہ بلوچ اور پختون طلبہ کے داخلے بھی میرٹ پر کیے جائیں گے اور ان طلبہ کو متعلقہ صوبے کی حکومتیں منتخب کرکے بھجیں گی۔ سوال یہ ہے کہ اب تک جو لاقانونیت روا رکھی گئی ہے اور میرٹ کا کھلے بندوں قتل کرتے ہوئے جن نااہل لوگوں کو بلوچ اور پختون طلبہ کے حقوق پر ڈاکا ڈال کر جامعہ پنجاب میں داخلے دیئے گئے ہیں، اس لاقانونیت کو جاری رکھنے کا آخر کیا جواز ہے۔ ان غیر قانونی داخلوں کو ختم کرنے میں رکاوٹ کیا ہے جن کی وجہ سے ملک کی پُرامن ترین جامعہ کا امن برباد اور سکون غارت ہوکر رہ گیا ہے؟ اور مختلف صوبوں اور علاقوں کے عوام اور بالخصوص نوجوان نسل کے مابین باہم محبت و یگانگت اور صوبائی ہم آہنگی کے فروغ اور قومی و ملکی سالمیت کے استحکام کے جس مقصد کی خاطر طلبہ کے یہ بین الصوبائی تبادلے کیے جاتے ہیں عملاً اس کے برعکس نتائج برآمد ہورہے ہیں، اور محبت و ہم آہنگی کے بجائے نفرت، علاقائی، لسانی اور صوبائی تعصبات کو فروغ دیا جا رہا ہے… اس کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے؟
جامعہ پنجاب کے اس واقعے میں بھی ذرائع ابلاغ کا کردار حسب ِ روایت نہایت گھنائونا اور منافقانہ رہا ہے، اور جمعیت کے ’’پائینئر فیسٹول‘‘ پر بلا جواز اور یک طرفہ حملے کی مذمت کے بجائے ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کو دو طرفہ تصادم کا نام دے کر اس کی کوریج اس انداز میں کی گویا دونوں فریق برابر کے مجرم ہیں، بلکہ بعض اخبارات اور چینلز نے تو اس حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کیا کہ جامعہ پنجاب میں کسی کو مذہبی و سیاسی اجارہ داری قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ یوں جمعیت کے خلاف اپنے اندرونی بغض کا اظہار کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ میں موجود یہ مذہب بیزار اس حقیقت کو قطعی فراموش کرگئے کہ ان کے اس طرزعمل سے قومی سلامتی اور ملکی سالمیت کو کس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کاش ہم اپنے ذاتی معمولی مقاصد کی خاطر وسیع تر قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کے طرزعمل پر نظرثانی کرسکیں۔
اگر کسی کو فکر ہو تو تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ پنجابی پختون جیسے صوبائی تعصبات کی یہ لہر صرف جامعہ پنجاب تک محدود نہیں بلکہ بڑی تیزی سے صوبائی دارالحکومت میں یہ وبا پھیل رہی ہے۔ ابھی چند روز پہلے بھاٹی کے علاقہ میں ٹھیلا لگانے پر ایک پٹھان ریڑھی بان کا مقامی شخص سے جھگڑا ہوگیا اور پھر یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ اس نے پنجابی پٹھان تنازع کا رنگ اختیار کرلیا جس میں دو افراد کی جانیں گئیں۔ علاقہ کئی روز تک نوگو ایریا بنارہا، میٹرو بس تک بند کرنا پڑی اور بڑی مشکل سے صورت حال کو سنبھالا جا سکا۔ عرض صرف اتنی ہے کہ ابھی وقت ہے، حالات کو اس نہج تک نہ پہنچنے دیا جائے جہاں سے واپسی ناممکن ہوجائے۔ لاہور شہر میں حالات تیزی سے اس جانب بڑھ رہے ہیں مگر کسی کو اس کی پروا نہیں۔ اللہ نہ کرے کہ لاہور میں بھی تعصبات کی آگ اس حد کو چھونے لگے کہ باہم شیر و شکر مسلمان اور پاکستانی بھائی کراچی کی طرح ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے انکار کردیں۔ خدا نہ کرے ایسا وقت آئے مگر بعض عناصر اس کے لیے کوشاں ضرور ہیں۔ کاش پانی کے سر سے گزرنے سے قبل بروقت اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔