یہ بات کوئی سربستہ راز نہیں ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے سے پائی جانے والی سردمہری اور تلخی کے کئی دیگر اسباب اور عوامل کے ساتھ ایک بڑا سبب اور عامل پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کی اپنے ملک کو رضاکارانہ واپسی میں افغان حکومت اور خاص کر امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی عدم دلچسپی اور عدم تعاون پر مبنی رویہ رہا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے جب سے افغانستان میں نیا حکومتی اور انتظامی سیٹ اپ قائم اور کافی حد تک مستحکم ہوا ہے تب سے پاکستان افغان حکومت اور امریکہ سے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے نہ صرف ضروری انتظامات کا مطالبہ کرتا رہا ہے بلکہ پاکستان اس ضمن میں افغان حکومت اور امریکہ کے سامنے شواہد اور ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ یہ بات بھی باور کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ افغان مہاجرین کی پاکستان میں مزید موجودگی دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ خود امریکہ کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کا سرکاری سطح پر ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان میں مقیم لاکھوں قانونی اور غیر قانونی افغان مہاجرین کی بستیاں نہ صرف دونوں جانب دہشت گردی کے واقعات کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں بلکہ پاکستان میں رونما ہونے والی جرائم کی اکثر وارداتوں میں بھی یہاں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین بڑے پیمانے پر ملوث پائے جاتے رہے ہیں جن کی ایک بڑی تعداد اِس وقت بھی پاکستانی جیلوں میں موجود ہے۔
افغان مہاجرین کی پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں موجودگی اور ان کی پاک افغان سرحد کے آر پار آزادانہ نقل و حرکت کی وجہ سے ہی پاکستان کو نہ صرف بارڈر مینجمنٹ کا کڑوا گھونٹ پیتے ہوئے چمن اور طورخم پھاٹکوں کو ریگولیٹ کرکے دونوں جانب کی آمد و رفت کے لیے ویزے اور پاسپورٹ کی سخت شرائط عائد کرنی پڑی ہیں بلکہ دونوں جانب کی غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے پاک افغان بارڈر کی ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر سخت نامساعد حالات کے باوجود حفاظتی باڑ بھی لگانی پڑرہی ہے جس کا اصولاً افغان حکومت اور امریکہ کو خیرمقدم کرنا چاہیے، لیکن دونوں کی جانب سے نہ صرف اس منصوبے کی مخالفت کی جارہی ہے بلکہ پاکستان کو اس منصوبے سے دست بردار کرانے کے لیے بھی مختلف حیلے بہانوں اور ہتھکنڈوں سے کام لیا جارہا ہے۔
ہمیں یہ طویل تمہید دراصل افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے ضمن میں امریکہ کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلزکے حالیہ دورۂ اسلام آباد کے موقع پر پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور دیگر متعلقہ حکام کا امریکہ سے دوٹوک انداز میں افغان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کرنے کے علاوہ پاکستان میں تعینات افغان سفیر ڈاکٹر عمر زخیوال کا پہلی دفعہ اعلیٰ سرکاری سطح پر خود افغان مہاجرین کی واپسی میں دلچسپی لینا ہے، اور اس سلسلے میں افغان حکومت کو اُس کے سابقہ وعدے یاد دلاتے ہوئے واپس جانے والے مہاجرین کی آباد کاری اور انہیں روزگار اور کام کاج کے مناسب مواقع فراہم کرنے میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا احساس دلاناہے۔
اس ضمن میں ڈاکٹر عمر زخیوال نے افغان مہاجرین کے ایک نمائندہ جرگے سے اپنے خطاب میں پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین پر زور دیا ہے کہ وہ وطن واپسی کی تیاری کریں، کیوں کہ بالآخر انہیں اپنے وطن واپس جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت افغانوں کی باعزت واپسی چاہتی ہے اس لیے افغان مہاجرین پر اس سلسلے میں بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ عمر زخیوال کا اپنے ہم وطنوں سے کہنا تھا کہ اگر وہ گزشتہ چالیس برسوں میں پاکستان کے بے آب وگیاہ بنجر علاقوں کو آباد کرسکتے ہیں تو اپنے وطن کو کیوں کر آباد نہیں کر سکتے! ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو افغان مہاجرین کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے، یہ ایک سرمایہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم میزبانی پر پاکستان اور خاص کر خیبر پختون خوا کے عوام کے شکر گزار ہیں لیکن پاکستان کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ افغان اچھے مہمان بھی ہیں۔
دوسری جانب حکومتِ پاکستان نے قومی سلامتی کمیٹی کے ایک حالیہ فیصلے کی روشنی میں 31 جنوری کے بعد افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام میں توسیع نہ کرنے کے فیصلے پر سختی سے عمل درآمد کا عندیہ ظاہر کیا ہے، حالانکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارتِ سیفران اور افغان کمشنریٹ مہاجرین کو مزید توسیع دینے کے حق میں ہیں جس کی وجہ بعض تکنیکی مسائل بتائے جاتے ہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ حکومت نے مزید توسیع نہ دینے کا حتمی فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں تمام متعلقہ محکموں اور اداروں کو ضروری ہدایات جاری کردی گئی ہیں اور اسی تناظر میں افغان سفیر کو مہاجرین کے جرگے کو واپسی کی تیاری کی ہدایت کرنی پڑی ہے۔ وزارتِ سیفران کے مطابق 31 جنوری کی ڈیڈلائن میں توسیع نہ ہونے کی صورت میں مہاجرین کے مکمل انخلاء کے لیے ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا۔
افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ اگر ایک طرف اس حوالے سے پاکستانی قیادت اور متعلقہ ادارے پہلی دفعہ ایک صفحے پر ہیں تو دوسری جانب افغان حکومت بھی بہت عرصے بعد اس مسئلے کی سنجیدگی اور نزاکت کو سمجھتے ہوئے افغان مہاجرین کی واپسی کو چاہے تلخ گھونٹ سمجھ کر ہی سہی، حلق سے اتارنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ دونوں جانب سے آمادگی کے بعد بحیثیت میزبان پاکستان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسے بقول ڈاکٹر عمر زخیوال افغان مہاجرین پر شک کرنے اور انہیں بددلی سے نکالنے کے بجائے اخوت اور بھائی چارے کی اسلامی اور پختون روایات کے مطابق مہمان سمجھ کر باعزت طریقے سے رخصت کرنا چاہیے جس سے یقینا ان لاکھوں مہاجرین کو افغان حکومت کے پاکستان مخالف رویّے کے باوجود افغانستان میں پاکستان کے سفیر بنانے میں بہت حد تک مدد مل سکتی ہے۔
ویسے بھی جب ایک جانب افغان سرزمین پر پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا جارہا، اور بالخصوص اس سلسلے میں اب تک بھارت کا جو مکروہ چہرہ سامنے آیا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے متعلقہ اداروں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انہیں افغان حکومت اور خاص کر شمالی اتحاد کی طرف سے حکومتی سطح پر جن مشکلات کا سامنا ہے اس کا ازالہ اگر ایک طرف بعض حکومتی اقدامات اٹھانے کی صورت میں کیا جا سکتا ہے تو دوسری جانب وہ افغان مہاجرین جو پاکستان میں پل کر جوان ہوئے ہیں اور جو پاکستان کی معاشرت اور ثقافت، نیز یہاں کے حالات کے زیراثر ہیں اُن کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے جہاں ان کی پاکستان آمد ورفت کو باسہولت بنانا ہوگا وہیں ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی واپسی کے عمل میں انہیں بعض خصوصی مراعات بھی دینا ہوں گی۔ ان اقدامات کے بغیر ان لاکھوں مہاجرین کو بے اعتنائی سے رخصت کرنے سے فائدے کے بجائے نقصان ہی ہوگا۔ لہٰذا توقع ہے کہ حکومت ان لاکھوں مہاجرین کو پاکستان کے حقیقی سفیر بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔