کیا سپریم کورٹ کے چار جج جمہوریت کی حفاظت کرسکیں گے؟۔

مشرف عالم ذوقی
چار جج آزادی کے ستر برس بعد ایک ایسی دردناک کہانی کے گواہ بن گئے، کہ اس کہانی کو قلمبند کرتے ہوئے ذہن و دماغ میں دور تک سناٹا طاری ہے .کوئی بم نہیں پھٹا –. یہ کوئی فلمی کہانی بھی نہیں تھی .عدالت میں فیصلے سنائے جا رہے تھے . .عدالت کو درمیان میں روک کر تین جج اپنے مقام سے اٹھے.اس درمیان صرف اتنا ہوا کہ ایک فون آیا .ضمیر کی آواز کو لبیک کہا گیا . اوریہ چار جج، چار برسوں کی خوفناک دہشت کے گواہ بن گئے -ہندوستان کی سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین ججوں نے پریس کانفرنس کر کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اتھارٹی کو چیلنج کیا.جب جب انصاف کی تاریخ لکھی جائے گی، جسٹس جے چلاسپیشمر، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کرین جوزف کا نام روشن حروف میں لکھا جائے گا .اس موقع پر ان چار ججوں نے جو بیان جاری کیا، وہ تاریخ کی کتاب اور انصاف کے باب میں ایک ایسا اضافہ ہے، جسے مہذب دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکے گی .چلاسپیشمر نے کہا ’ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر سپرم کورٹ کا وقار مجروح ہوا تو اس ملک میں جمہوریت نہیں بچ سکے گی اور نہ ہی کسی اور ملک میں ۔ اس بیان کا سب سےاہم حصّہ وہ ہے، جس میں کہا گیا کہ ہم نہیں چاہتے کہ 20 سال بعد اس ملک کی تاریخ لکھی جائے تو یہ کہا جائے، چلا سپیشمر، رانجن گوگوئی، مدن لوکر اور کرین جوزف نے اپنا ضمیر بیچ دیا تھا … ضمیر کی آواز پر حق گوبے وباکی کی الکھ جگانے والوں کو بےشرم میڈیا نے کانگریس کا ایجنٹ کہنے میں گستاخی اور غداری کی تمام حدوں کو پیچھے چھوڑ دیا ..سوال بہت سے ہیں .ہندوستان کے چوراہوں اوردیواروں پر صرف یہ عبارت لکھی جانی باقی ہے کہ ہندو راشٹر میں آپ کا سواگت ہے .مسلمانوں اور دلتوں کا قتل، ہر روز نئے مظالم، صرف میڈیا کی آنکھ بند ہے .اس لیے کہ مکمل میڈیا خریدا جا چکا ہے .حکومت ہر شعبہ کو خرید چکی ہے .انصاف کی عمارت پر بھی زعفرانی پرچم چند دہشت گرد لہرا چکے ہیں ..ادب ادیب صحافیوں کی بولی لگ رہی ہے .زعفرانی ادیبوں کی نئی جماعت سامنے آ چکی ہے ..یہ تماشا سارے ہندوستان کے ساتھ چار جج بھی دیکھ رہے تھے .چار برسوں میں جس طرح انصاف شک کے دائرے میں آیا، پہلے کبھی نہیں آیا تھا .جسٹس لوہیا کے قتل، سہراب الدین مرڈر کیس، فرضی انکاونٹر، ہم بھول گئے کہ ان واردات کو سپریم کورٹ کے جج بھی خاموشی سے دیکھ رہے ہیں .کیا گجرات میں بنجا رہ کے ذریعہ ہونے والے انکاؤنٹرز فرضی نہیں تھے؟ یہ مت بھولیے کہ جب سہراب اور اس کی بیوی پر میڈیا دہشت گردی کے الزام طے کرتے ہوئے ۲۴۔ ۲۴ گھنٹے ہر ایک ہندوستانی کے دل میں مسلمانوں کی مسخ شدہ شبیہ پیش کر رہی تھی، ان واردات سے ملک کا ایک ایک مسلمان اپنے دامن پر ان داغوں کو لگا ہوا محسوس کر رہا تھا — لیکن کیا ہوا؟ سچائی سامنے آئی اور بنجا رہ سلاخوں کے پیچھے ہوا پھر آزاد ہو گیا .گجرات فساد کے سارے ملزم آزاد ہو گئے.گنہگار تو مسلمان تھے ..سارے قاتل آزاد کر دیے گئے مسلمانوں سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے قتل کا حلف نامہ تیار کریں – کیا پرگیہ،، سہراب الدین معاملہ میں سارے ہندو آ کر یہ جواب دیں گے کہ اس کارروائی کے پیچھے وہ نہیں ہیں — یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کسی بھی دہشت گردی کی حمایت میں ملک کا کوئی بھی مسلم لیڈر کبھی سامنے نہیں آیا۔ چاہے وہ بخاری ہوں یا اویسی۔ لیکن ہندو دہشت گردوں کے معاملے میں بھاجپا اور سنگھ پریوار کھل سامنے آ جاتا ہے .۔ انتظامیہ، فوج وغیرہ سبھی جگہوں پر سنگھ کے بڑے افسر خاموشی سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں تو کیا عام میڈیا اس خبر سے آشنا نہیں — ؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ اس طرح کی زیادہ تر دہشت گرد کارروائیوں کے پیچھے صرف سنگھ ماسٹر مائنڈ رہا ہے، جو اپنی اس گھناؤنی سازش میں کامیاب ہے کہ اتنے شکار کرو، کہ ہر ایک مسلمان پر دہشت گرد ہونے کا شبہ ہو۔….یہ چار جج، مجھے یقین ہے، .ان معاملات کے بھی خاموش گواہ ہیں . ابھی اس مکالمہ کی چنداں ضرورت نہیں کہ جنگ، بربریت اور خوف کے سایہ میں اپنی زندگی کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا مذہب تک کی قربانی دینی پڑتی ہےتاریخ گواہ ہے کہ خوف و دہشت نے انسانی زندگی کی حفاظت کے لیے یہ قدم بھی اٹھائے اور زیادہ دن نہیں گزرے، کیا باقی بیس جج خاموش رہیں گے ؟ اس حقیقت سے پردہ پوشی کی ضرورت نہیں کہ مودی کی آمد کے بعد کٹر پنتھی ہندوؤں میں شدت سے یہ احساس جاگ گیا ہے کہ مودی ہندستان میں ہندوؤں کی اپنی حکومت کا راستہ صاف کرسکتے ہیں ۔ مودی کی آمد کے بعد سنگین ہوتی صورتحال کا جائزہ لیں تو احساس ہوتا ہے، وہ کٹر پنتھی ہندو جاگ گیا ہے جس کے سامنے ایوان سیاست میں مودی کا ابھرنا کسی طلسم سے زیادہ کسی بھگوان کے اوتار لینے جیسا ہے۔ ۱۹۹۲ اور ۲۰۰۲ تک ہندستانی سماج اس مقام تک نہیں پہنچا تھا، جہاں وہ مودی کی آمد کے بعد پہنچتا نظر آرہا ہے۔ اس کا جائزہ یوں لیا جاسکتا ہے کہ اڈوانی کی رتھ یاتراؤں کے بعد ہندستان میں نفرت کے تخم تو بوئے گئے لیکن پھر بھی خطرہ بہت زیادہ نہیں تھا۔ بابری مسجد شہید ہوگئی تو ایک طبقہ خوش ہوگیا کہ چلو، ہماری جیت ہوگئی اور وہ بس اتنے میں خوش ہوکر بیٹھ گیا ۱۹۹۲ء کے بعد کم وبیش ۲۰۰۰ تک صورتحال نارمل رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان سے عراق اور افغانستان تک یہ مسلمان ہی تھا، جسے دہشت گرد کے طورپر نئی شناخت مل چکی تھی۔اور ہندستانی حکومتیں بھی مسلمانوں کی شناخت اسی دہشت پسند چہرے سے کررہی تھیں ۔ مدرسوں کو دہشت کی فیکٹری اور معصوم مسلمان بچوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھا گیا۔ یہ کارنامہ بھاجپا نے بھی انجام دیا۔ اور کانگریس نے بھی۔ ۲۰۰۳ کے گجرات فسادات کے بعد مودی ہندوؤں کے نئے رہنما بن کر ابھرے۔ اور تو گڑیا جیسے بڑبڑانے والے ہندو نیتاؤں سے الگ مودی کے وزن کو کٹر پنتھی ہندوؤں کے درمیان اس لیے بھی تسلیم کیا گیا کہ مودی بولتے نہیں ، کرکے دکھاتے ہیں ۔ گجرات فساد کے بعد مودی کی جان آفت میں تھی۔ ایک طرف قانون کا شکنجہ، عشرت جہاں کا فرضی معاملہ، گجرات بیکری حادثہ، اور اس کے طرح کے کئی معاملات میں جب بھی حکومت کی طرف سے مودی کی طرف شکنجہ کستا، وہ آر ایس ایس اور کٹر پنتھی جماعتوں کے درمیان پہلے سے کہیں زیادہ مقبول جاتے۔ رہی سہی کسر کانگریس کی بیان بازیوں نے پوری کی۔ اور ان بیان بازیوں سے عام ہندوؤں تک جو پیغام گیا، اس میں مودی کا چہرہ ایک ایسے سخت گیر ہندو کا چہرہ تھا جو جادو کی چھڑی گھماتے ہوئے کچھ بھی کر سکتا تھا۔ اڈوانی جیسے ہندو لیڈران نے وقت وقت پر سیکولرزم کا لبادہ بھی پہنا اور یہی بات آر ایس ایس اور کٹرپنتھی ہندوؤں کو قبول نہیں ہوئی۔ اڈوانی کے جناح والے بیان کے بعد ان کی بھاجپا میں اتنی مذمت ہوئی کہ اڈوانی جیسے سرگرم لیڈر حاشیے پر ڈال دیئے گئے۔ لیکن مودی ہندوؤں پر حکومت کرنے کی یہ کلید جانتے تھے کہ ہندوؤں کا بھروسہ جیتنا ہے تو مسلمانوں کو برا بھلا کہہ کر انہیں حاشیے پر ہی رکھنا ہوگا۔ اور یہ سیاسی پینترا کام کرگیا۔ مودی نے نہ کبھی مسلمانوں کے ہاتھ سے ٹوپی قبول کی نہ کبھی ایک لفظ ان کی حمایت میں کہا۔ اور اس لیے جب سیاسی حکمت عملی اپناتے ہوئے ایک وقت میں مودی کو ناپسند کرنے والے راج ناتھ نے جب ان کے نام کا اعلان کیا تو کٹر پنتھی ہندو’ مسلمان مکت ہندستان‘ کے خواب کو قریب سے دیکھتے نظر آئے۔ کیونکہ ۶۷ برسوں کی سیاست میں یہ پہلا سیاسی ہندو لیڈر تھا جس کی زبان پر کبھی بھی مسلمانوں کے لیے ہمدردی یا محبت کا لفظ نہیں آیا۔ بھاجپا اس حقیقت کو تسلیم کررہی ہے کہ مودی جس قدر مسلمانوں کے خلاف جائیں گے، اکثریتی طبقے کا ووٹ ایک جٹ ہونے میں مدد ملے گی۔ یعنی بھاجپا صاف طور پر عام ہندو سماج سے یہ مکالمہ کررہی ہے کہ اگر ہندستانی مسلمانوں کا ووٹ ایک جٹ ہوسکتا ہے تو بھاجپا کے لیے عام ہندو متحد کیوں نہیں ہوسکتا؟ ۱۹۹۲ سے آج کی سیاسی فضا پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک، زہریلی اور مسلم مخالف ہوچکی ہے۔۔ اور ایسے وقت میں مودی کا اس ملک کو ہندو راشٹر بتانا بھی ان کی حکمت عملی کا ہی ایک حصہ ہے کہ مسلم راشٹروادی نہیں ہوتے۔ راشٹروادی صرف ہندو ہوتا ہے۔ مودی کی سیاسی حکمت عملی پر غور کریں تو وہ یکے بعد دیگرے بہت سوچ سمجھ کر مسلمانوں کے خلاف کمان سے نکال کر ایک ایک تیر کا استعمال کررہے ہیں ۔ اور دلچسپ یہ کہ ہر تیر نہ صرف نشانے پر لگ رہا ہے بلکہ ہندوؤں میں مودی کا نام ایسے بھگوان کانام ہوگیا ہے، وہ جس کی برائی سن ہی نہیں سکتے وقت کے صحیح استعمال کا ہنر مودی کو آتا ہے اور مودی نے وہ کرشن بان، بھی چھوڑ دیا، جس کے لیے عام کٹر پنتھی ہندو ان سے امید کررہا تھا۔ گجرات حادثہ کا خود کو ہیرو ٹھہرانے، راشٹروادی بننے اور مظلوم مسلمانوں کو کتے کا بچہ کہنے کی گونج اب تک اس قدر شدید ہے کہ شاید آپ اندازہ نہ کرسکیں ۔ سوال ہے، کیا ملک کے حالات، دلت اور مسلمانوں کے حالات سے ہمارے جج آگاہ نہیں ؟ کیا صرف چارجج ہی ضمیر کی عدالت میں پیش ہوئے ہیں ؟ جیسا میڈیا ہنگامہ کر رہی ہے …یہ حقیقت ہے کہ انصاف بھی تقسیم ہوا لیکن مکمل انصاف کبھی تقسیم نہیں ہو سکتا ..مسلمانوں اور دلتوں کے لئے اب انصاف ہی واحد سہارا ہے .ممکن ہے .لوہیا کیس سے امیت شاہ کو کوئی فرق نہیں پڑے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انصاف کی چیخ سننے کے لئے ہمارے کان ترس گئے تھے۔