کوئٹہ میں طویل عرصے کے بعد بارش اور برف باری ہوئی جس سے موسم سرد ہوگیا۔ یخ بستہ ہوائوں کے درمیان لیاقت بلوچ کا دورہ طے تھا۔ وہ 22 جنوری کو کوئٹہ پہنچے اور اسی دن جمعیت طلبہ عربیہ کے سیمینار سے خطاب کیا۔ 23 جنوری کو ان کی مصروفیات کا آغاز بلوچستان کے ان امیدواروں کے تعارف سے ہوا جو جماعت اسلامی کی طرف سے مختلف علاقوں سے انتخابات میں کھڑے ہوں گے، اور اس کیتفصیلی رپورٹ پیش ہوئی۔ کوئٹہ سے 3 نشستوں پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گوادر، خضدار، قلعہ سیف اللہ، نصیر آباد، جعفر آباد اور نوشکی سے امیدوار انتخابی میدان میں اتریں گے۔ لیاقت بلوچ ان سے مختلف پہلوئوں پر سوالات بھی کرتے رہے اور انہیں ہدایات بھی دیتے رہے۔ ایم ایم اے کی بحالی کے مختلف پہلوئوں پر بھی گفتگو ہوئی۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ ہمیں ان حلقوں میں منظم ہوکر کام کرنا ہے اور ہمیں انتخابات کے بعد کے مرحلے کو پیش نظررکھنا ہوگا، اس لیے کہ اس کے بعد بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔ ہمیں ابھی سے اپنے کام اور یوتھ کی قوت کو منظم کرنا ہوگا اور نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ اس ساری گفتگو کے نتیجے میں کچھ کچھ اطمینان بھی ہوتا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایم ایم اے کے ساتھ کن کن نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ کا راستہ نکلے گا۔ ان تمام حلقوں میں مختلف پارٹیوں کا تجزیہ بھی ساتھ ساتھ ہوتا رہا۔ جن امیدواروں کا تعین کیا گیا ان میں اکثریت نئے ساتھیوں کی ہے۔ نشست جاری تھی کہ امیر صوبہ عبدالحق ہاشمی نے اطلاع دی کہ ایم ایم اے کی بعض جماعتوں کے قائدین بھی آگئے ہیں۔ یہ سن کر اس نشست کو برخواست کردیا گیا۔
آنے والوں میں جمعیت علمائے اسلام کے قائدین مفتی غلام حیدر، جانان آغا، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے مولانا سالم، مولانا نجیب اللہ اور پاکستان اسلامی تحریک کے اکبر حسین زاہدی شامل تھے۔ لیاقت بلوچ نے تفصیل سے ایم ایم اے کے غیر متحرک ہونے کی وجوہات پر روشنی ڈالی، اور ان وجوہات کا بھی تفصیل سے ذکر کیا جن کی وجہ سے مذہبی پارٹیوں کا متحد ہونا ضروری ہوگیا ہے۔ تمام قائدین نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ایم ایم اے دوبارہ متحرک ہورہی ہے اور اب مرکزی اور صوبائی سطح پر اس کی تنظیم سازی کی جائے گی اور پھر ایک نشان پر انتخابات میں حصہ لیا جائے گا۔
اس نشست کے بعد لیاقت بلوچ کو ڈاکٹر نعمت اللہ نے پُرتکلف ظہرانہ دیا جس میں صوبائی امیر کے علاوہ دیگر مہمان بھی شریک ہوئے۔ اس کے بعد لیاقت بلوچ نے صوبائی دفترمیں پریس کانفرنس کی جس میں صوبائی امیر کے علاوہ صوبائی جنرل سیکرٹری ہدایت الرحمن، ڈپٹی سیکرٹری حمید مقبول، ڈپٹی سیکرٹری عارف دمڑ اور عاصم سنجرانی شریک تھے۔ لیاقت بلوچ نے تفصیل سے ایم ایم کی بحالی اور انتخابی لائحہ عمل کا تجزیہ پیش کیا اور پنجاب یونیورسٹی کے واقعہ پر بھی روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے نوجوان تعلیم حاصل کریں اور ہنگاموں سے دور رہیں، جو کچھ ہوا وہ درست نہ تھا، لیکن اس میں اسلامی جمعیت طلبہ نے پہل نہیں کی، انہوں نے کہا کہ قائدین کی ذمہ داری ہے کہ ماحول کو خوشگوار بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، طلبہ میں بعض عناصر ایسے ہوسکتے ہیں جو تعلیمی ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہوں، اور اس واقعے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، اس کا نقصان ہم سب کو ہوگا، بلوچستان میں تبدیلی مسلم لیگ(ن) کے اندر سے تبدیلی کے سبب آئی ہے، ہماری خواہش ہے کہ جمہوریت ڈی ریل نہ ہو، اور میری پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سے گزارش ہے کہ کسی ایسے اقدام کی حمایت نہ کریں جس سے جمہوریت کو نقصان ہو۔ 2018ء کے انتخابات کے لیے ماحول کو سازگار بنانا چاہیے۔ پاناما میں جس جس کے نام آئے ہیں ان سب پر مقدمات چلنے چاہئیں۔
ایم ایم اے کی بحالی سے متعلق ایک سوال پر لیاقت بلوچ نے امید ظاہر کی کہ مذہبی پارٹیوں کے ووٹ تقسیم نہیں ہوں گے اور وقت کے ساتھ ایم ایم اے میں مذہبی پارٹیاں شامل ہوجائیں گی اور وہ ایک قوت بن جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اب امریکہ کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ وہ افغانستان میں شکست کھا چکا ہے اور اسے افغانستان سے نکلنا چاہیے اور برطانیہ اور سوویت یونین کے انجام سے سبق سیکھنا چاہیے۔ امریکہ اور نیٹو افغانستان کے حالات پر قابو نہیں پاسکے۔ بھارت اسرائیل اور امریکہ مل کر پاکستان کے خلاف سازشیں کررہے ہیں لیکن وہ ناکام ہوں گے، کیونکہ قوم متحد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عالمی پس منظر میں پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو وقت کی نزاکت کا احساس ہونا چاہیے اور جمہوری اقدار کو طاقتور بنانا چاہیے۔
اس پریس کانفرنس کے بعد لیاقت بلوچ نے نامزد صوبائی نائب امیر عاصم سنجرانی سے حلف لیا جن کا تعلق سنجرانی قبیلے سے ہے، ان کے والد ایک سماجی کارکن اور بلوچی اور اردو کے شاعر بھی تھے۔ عاصم سنجرانی اپنے علاقے کی ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ اب جماعت اسلامی ان کی صلاحیتوں سے کس طرح فائدہ اٹھاتی ہے اس کا انحصار صوبائی قیادت پر ہے۔