مفتی منیب الرحمن مدظلہٗ بڑے عالم ہیں اور تعلیم و تعلم میں مصروف رہتے ہیں۔ بھلا انہوں نے کب شطرنج کھیلی ہوگی جو وقت ضائع کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے جسارت میں 20 جنوری کو شائع ہونے والے اپنے بہت دلچسپ مضمون ’’میڈیا کے محبوب‘‘ میں علامہ اقبالؒ کے شعر:
شاطر کی عنایت ہے تُو فرزیں میں پیادہ
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
میں لکھا ہے کہ ’’فرزیں بساطِ شطرنج کے مہروں میں شاہ کو کہتے ہیں‘‘۔ شطرنج کی اصطلاحات سے اُن کی لاعلمی قابلِ فہم ہے، لیکن اچھا تھا کہ شطرنج کھیلنے والے کسی شخص سے پوچھ لیا ہوتا کہ ’فرزیں‘ کیا ہوتا ہے۔ فرزیں بادشاہ نہیں بلکہ وزیر ہوتا ہے اور جو انگریزی میں شطرنج کھیلتے ہیں وہ اسے کوئین (ملکہ) کہتے ہیں۔ بادشاہ تو شطرنج کا سب سے بے بس مہرہ ہوتا ہے جیسے پارلیمانی نظام حکومت میں صدر ہوتا ہے۔ البتہ کوئی فوجی صدر ہو تو معاملہ الٹ جاتا ہے۔ شطرنج کے کھیل میں فرزیں یا وزیر سب سے زیادہ طاقتور اور بااختیار ہوتا ہے اور ہر طرف مار کرسکتا ہے۔ جب کہ بادشاہ ایک گھر سے زیادہ حرکت ہی نہیں کرسکتا۔ علامہ کو بھی شطرنج کے بادشاہ کی حیثیت کا علم تھا اسی لیے انہوں نے فرزیں کا ذکر کیا ہے اور اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اسے بھی شاطر کے ارادوں کا علم نہیں۔ لیکن اب تو شاطر خود فرزیں کے ارادوں سے بے خبر ہے۔
فرزیں فارسی کا لفظ ہے اور بطور صفت اس کا مطلب دانا، عاقل بھی ہے۔ شطرنج کے کھیل میں اگر پیدل آخری خانے تک پہنچ جائے تو خود وزیر بن بیٹھتا ہے۔ دیکھیے آخری خانے میں کون پہنچتا ہے۔ مفتی صاحب نے مذکورہ شعر کی تشریح میں لکھا ہے کہ شاطر شطرنج کی بساط بچھانے والے کو کہتے ہیں۔ اردو میں ’بساط‘ حیثیت کے معنوں میں بھی آتا ہے جیسے ’’فلاں کی کیا بساط کہ ہمارے منہ آئے‘‘۔ یا یہ مصرع
سچ ہے کہ کیا بساط بھلا کوہکن کی ہے
بساط عربی میں فرش اور بچھونا کو کہتے ہیں۔ ہندی میں بِسات کا مطلب ہے پھیلا ہوا، بچھا ہوا، قابلیت، استعداد، حیثیت، قوت۔ بساط سے بساطی ہے، خوردہ فروش اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچنے والے کو کہتے ہیں۔ وہ مقام جہاں بساطی بیٹھتے ہیں اسے بساط خانہ کہتے ہیں، اور جس کپڑے یا بورڈ پر شطرنج کھیلتے ہیں اسے بساط کہتے ہیں۔ اب تو ایسی میزیں آگئی ہیں جن پر بساط سجی ہوئی ہوتی ہے۔
چلیے، شاطر کی مزید تفہیم کرتے ہیں۔ اقبالؒ کا مصرع ہے
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات
اردو میں یہ لفظ دو معنوں میں مستعمل ہے: عیار اور شطرنج کھیلنے والا۔ فارسی میں بھی انہی معنوں میں بولا جاتا ہے۔ قدیم عربی میں اس کا اطلاق ایسے شخص پر ہوتا تھا جو اپنے اہلِ خانہ کو پریشان کرے۔ ذرا غور فرمایئے، شطرنج کھیلنے والے سے آج بھی اُس کے اہلِ خانہ پریشان رہتے ہیں کیونکہ وہ کھیل میں محو ہوکر سب کو بھلا بیٹھتا ہے۔ آج کل کی عربی میں اس کے معنی ہیں ’’ذہین، زودفہم‘‘ اور عام طور پر یہ لفظ بچوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان کے محققین اس کو ’’شطر‘‘ سے مشتق بتاتے ہیں جس کے معنی ہیں ’’دور چلے جانا‘‘۔ شاطر کا تعلق شطر سے جوڑتے ہوئے ابن فارس کہتے ہیں جب کوئی شخص اپنے اہلِ خانہ کو پریشان کرے گا تو لامحالہ وہ اُن سے دور ہوجائے گا۔ لیکن یہ توجیہ کچھ زیادہ معقول نہیں لگتی۔ (ڈاکٹر ف۔ عبدالرحیم۔ پردہ اٹھادوں اگر چہرہ الفاظ سے) یہ لفظ (شاطر) فارسی زبان میں شطرنج سے اسم فاعل کے وزن پر وضع کیا گیا ہے اور اس کے معنی ہیں شطرنج کھیلنے والا۔ شطرنج کی وضاحت پہلے کسی مضمون میں کی جاچکی ہے۔ ’’نثرمکرر‘‘ کے طور پر، قدیم ہندوستانی فوج چار عناصر پر مشتمل ہوتی تھی: پیادہ، گھڑ سوار، ہاتھی اور رتھ۔ چنانچہ سنسکرت میں فوج کو ’’چترنگ‘‘ کہتے تھے، یعنی جس کے چار انگ یا چار اعضا ہوں۔ چتر کے معنی چار کے ہیں۔ جب لڑائی بھڑائی اور فوجی طرز کا یہ کھیل ایجاد ہوا تو اس کو ’’چترنگ‘‘ کا نام دیا گیا اور یہ فارسی سے عربی میں ہوتا ہوا شطرنج بن گیا۔
ایک بہت اچھی کتاب کے پیش لفظ میں مصنف نے اپنی کتاب کو ’’باذوق قارئین کی نظر‘‘ کردیا۔ کتاب کا تعلق چونکہ پڑھنے سے ہے اور پڑھنے کے لیے نظر ضروری ہے، اس لیے کئی جگہ یہ نظر، نظر سے گزری۔ تاہم قارئین کتنے ہی باذوق ہوں، بہتر ہے کہ نظر کے بجائے ان کی نذر کردیا جائے۔ نذر اور نظر میں یہ الٹ پھیر کئی جگہ دیکھنے میں آیا۔ نذر عربی کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں تحفہ، منت، صدقہ، قربانی، نیاز، فاتحہ وغیرہ۔ نذر کرنا کا مطلب ہے پیش کرنا، حوالے کرنا، بھینٹ چڑھانا، رشوت دینا وغیرہ۔
ایک عجیب لفظ ہے ’’روزگار‘‘۔ عام طور پر تو اس کا مطلب نوکری، پیشہ، شغل، کمائی، گزارہ وغیرہ لیا جاتا ہے لیکن ’’عجوبہ روزگار‘‘ سنا ہوگا۔ کچھ قارئین نے اس کا مطلب پوچھا ہے کہ یہ کون سا روزگار ہے جو عجوبہ ہے؟ روزگار (فارسی میں را پر پیش ہے، اردو میں زبانوں پر را عموماً زبر کے ساتھ ہے) اس کا ایک مطلب زمانہ ہے، اور موقع، محل، قسمت کو بھی کہتے ہیں۔ علامہ اقبال کے بارے میں فقیر سید وحید الدین کی مشہور کتاب ’’روزگار فقیر‘‘ ہے۔ چنانچہ عجوبۂ روزگار کا مطلب ہوا زمانے کا عجوبہ۔ روزگار کے حوالے سے اردو میں کئی محاورے بھی ہیں مثلاً ’’روزگار اور دشمن بار بار نہیں ملتا‘‘۔ یعنی موقع ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔ ’’روزگار حمام کی لنگی ہے‘‘۔ یعنی نوکری ایک کی نہیں ہوتی، کبھی کوئی اس جگہ پر ہوتا ہے، کبھی کوئی۔ ایک شعر ہے:
کس روش پھولے نہ اپنے پیرہن میں اے نسیم
ان دنوں چمکا ہوا کچھ روزگارِ لالہ ہے
لیجیے، لالہ کے روزگار کا بھی بندوبست ہوگیا۔ یہاں قسمت کے معنوں میں آیا ہے۔
ایک لفظ ’’فردِ بشر‘‘ ہے جس کو ہم عرصے تک فردوبشر کہتے اور لکھتے رہے، بلکہ کسی کے مضمون میں اصلاح بھی فرمادی۔ لیکن اس میں اسی طرح وائو نہیں جس طرح خط کتابت میں۔ اردو کا ایک محاورہ ہے ’’اڑے وقت‘‘ یعنی جب وقت اَڑجائے، برا وقت آجائے۔ یہ جانے کیسے ’آڑے وقت‘ ہوگیا۔ مولانا حالی کا ایک مصرع ہے
اڑے وقت میں کہیں باہر نہ جھانکو
لوگوں نے وقت ہی کو آڑا ترچھا کرلیا۔ ایک مثل ہے ’’اڑے وقت کا گہنا‘‘ یعنی جو چیز سخت ضرورت کے وقت کام آنے کے قابل ہو۔
یمین الاسلام زبیری نے دبئی کے عبدالمتین منیری کے ذریعے طرف اور اطراف کی بحث میں حصہ لیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’طرف اور اطراف پر میں صرف یہ جملہ لکھوں گا جو میری سمجھ کے مطابق ہے، ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں۔
سڑک کے اس طرف جہاں میں تھا اطراف میں بہت سی لڑکیاں کھڑی تھیں جبکہ وہ اکیلا سڑک کے دوسری طرف کھڑا تھا۔ اسی کالم کے آخر میں ایک مصرع درج ہے
اہل عشاق تو خوش ہیں کہ مری جان ہے تُو
ہوسکتا ہے کہ کاتب سے زیر کی غلطی سرزد ہوئی ہو۔ اور یہ اہلے کی بجائے صرف اہل ہی ہو۔ یعنی
اہل عشاق تو خوش ہیں کہ مری جان ہے تُو
میری باتوں کو اہمیت مت دیجیے گا، یہ سب مذاق میں کہتا ہوں۔‘‘
اچھا کیا کہ زبیری صاحب نے وضاحت فرمادی، اور نہ بھی فرماتے تو ہم اسے مذاق ہی سمجھتے۔