رسولِ رحمتؐ… مکہ کی وادیوں میں

نام کتاب: رسولِ رحمتؐ… مکہ کی وادیوں میں
مصنف: حافظ محمد ادریس
صفحات: 408
قیمت: 375/-
ناشر: ادارہ معارفِ اسلامی کا منصورہ لاہور
ملنے کا پتا : مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ ملتان روڈ لاہورپوسٹ کوڈ نمبر 54790
فون: 042-54322419, 5419520-24
اگر اسلامی شرع اجازت دیتی اور ہماری معاشرتی اقدار رکاوٹ نہ بنتیں تو میں ذاتی طور پر جس شخص سے باقاعدہ حسد کرتا وہ حافظ محمد ادریس ہوتے۔ جماعت اسلامی کے رہنما، عالمِ دین، مصنف، مترجم، کالم نگار اور نہ جانے کیا کیا۔
اپنی اوائل عمری میں مَیں حافظ صاحب کی کامیابیاں، کارنامے اور جدوجہد دیکھتا تو اُن پر رشک آتا۔ مگر اب ان کے تمام کے تمام میدان دیکھتا ہوں اور ان کے منحنی سے جسم پر نگاہ ڈالتا ہوں تو حسد ہونے لگتا ہے کہ اس بندۂ خدا نے کوئی میدان چھوڑا ہی نہیں جہاں اپنا وجود ثابت نہ کیا ہو۔ ہر میدان میں موجود… ہر جدوجہد میں شریک… ہر شعبے پر حاوی اور ہر فیلڈ میں سرگرم عمل… یا اللہ یہ بندہ ہے یا…!
اُن سے میرے تازہ حسد کی وجہ اُن کی 51 ویں کتاب کی اشاعت بنی ہے۔ زندگی کے 72 برسوں میں 51 کتابیں، گویا پنگھوڑے میں انگوٹھا چوستے ہوئے ہی لکھنے کا عزم کرلیا تھا۔ کتابوں اور عمر کا تناسب بتاتا ہے کہ اگر ایک سال میں ایک کتاب مکمل کی ہو تو انہوں نے گائوں کی چاندنی راتوں میں کبڈی کھیلنے کی عمر سے کتب نویسی شروع کردی ہوگی۔
حافظ صاحب سے میرے رشک کے حسد میں تبدیل ہونے کا استعارہ خاصا طویل ہے۔ اُن سے اس حسد کی کوئی ایک وجہ ہو تو آدمی جبر کرلے۔ یہ تعداد اتنی ہے کہ شمار کرنا بھی محال ہے۔
چارہ گر پوچھتے ہیں درد کہاں ہوتا ہے
اک جگہ ہو تو بتائوں کہ یہاں ہوتا ہے
ذرا ملاحظہ فرمائیں، گیارہ سال کی عمر میں قرآنِ عظیم اپنے سینے میں محفوظ کرلیا، جس کے بارے میں اس کائنات کے مہربان رب کا فرمانا ہے کہ ’’اگر ہم اس قرآن کو پہاڑوں پر اتارتے تو وہ اللہ کی خشیت سے ریزہ ریزہ ہوکر روئی کے گالوں کی طرح اڑ جاتے‘‘۔ پھر اسے ایسا ازبر کیا کہ اب تک 45 بار نماز تراویح میں قرآنِ عظیم سنانے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ 40 بار تسلسل کے ساتھ سنایا، البتہ چند سال خرابیٔ صحت اور بیرونی دوروں کی وجہ سے مصلیٰ نہ سنا سکے۔ ابھی پرائمری اسکول میں ہی تھے کہ گائوں کی مسجد میں خطاب شروع کردیا۔ یہ خطاب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے بارے میں زبانی سنی ہوئی معلومات اور سیرتِ رسولؐ اور سیرتِ صحابہؓ پر پڑھی ہوئی چند کتابوں پر مشتمل تھا۔ پنجابی زبان میں پندرہ بیس منٹ کا یہ خطاب جس کی بعد میں اصلاح بھی ہوتی، ایسا پختہ ہوا کہ اب تک خطباتِ جمعہ، دروسِ قرآن اور دینی موضوعات پر لیکچرزکا سلسلہ جاری ہے۔ چک میانہ، تحصیل کھاریاں ضلع گجرات کی مسجد میں پرائمری اسکول کے طالب علم کی حیثیت سے جو خطابات شروع کیے تھے اُن سے تحریک پاکر قلم اٹھایا اور سب سے پہلے نبیٔ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار صحابہؓ پر لکھنا شروع کیا۔ پہلا مضمون حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ پر لکھا۔ ابھی یونیورسٹی کے طالب علم تھے کہ صحابہ کرامؓ کی زندگی کے بارے میں ان کی پہلی کتاب ’’روشنی کے مینار‘‘ شائع ہوگئی۔ یہ سلسلہ ایسا بھایا کہ اب تک قرآن، حدیث، سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرتِ صحابہؓ کے موضوعات پر متعدد کتب لکھنے کے علاوہ کئی افسانے، تراجم، سفرنامہ اور شخصی خاکے لکھ چکے ہیں جو کتابی شکل میں موجود ہیں۔ اپنے قیامِ کینیا کے دوران انگریزی زبان میں متعدد مضامین لکھے جو وہاں کے انگریزی جریدے ’’اور اسلام‘‘ میں شائع ہوئے، مگر یہ مضامین کتابی شکل میں نہیں آسکے۔
اسکول میں داخل ہوئے تو ہر امتحان میں پوزیشن لی اور ہر کلاس میں اوّل آئے۔ میرٹ اور تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر ایشیا کی عظیم درسگاہ گورنمنٹ کالج لاہور پہنچے تو بی اے کے امتحان میں عربی میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات میں ٹاپ کرکے دو گولڈ میڈل حاصل کیے۔ تھرڈ ایئر میں تھے کہ معاہدۂ تاشقند کے خلاف طلبہ تحریک کے دوران جیل جانا پڑگیا۔ یہ جگہ ایسی پسند آئی کہ اب تک 8 بار جیل یاترا کرچکے ہیں۔ دوبار اتنی طویل جیل کاٹی کہ کوٹ لکھپت جیل لاہور اور سینٹرل جیل ساہیوال میں نماز تراویح میں مکمل قرآن سنادیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ میں رفیق کی حیثیت سے شامل ہوئے اور لاہور جمعیت کے ناظم، مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن اور وسطی مغربی پاکستان (موجودہ پنجاب) کے ناظم رہے۔ لاہور جمعیت کے ناظم کے طور پر سعید منزل انارکلی کو ایسا آباد کیا کہ لوگ اب تک یاد کرتے ہیں۔ اُس وقت حافظ صاحب کی داڑھی نہیں تھی، لیکن سنجیدگی کا عالم آج جیسا ہی تھا۔ مزاح ان کے مزاج میں اُس وقت بھی تھا اورآج بھی شامل ہے۔
طلبہ نمائندگی کی ذمہ داری آئی تو پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخاب میں نہ صرف بائیں بازو اور ترقی پسند طلبہ و طالبات کے مشترکہ امیدوار جہانگیر بدر کو شکست سے دوچار کیا بلکہ اپنے پورے پینل کو بھی کامیاب کروا دیا۔ یہ وہ دور تھا جب پیپلزپارٹی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، اور مخالف پینل کو پیپلزپارٹی کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اِن انتخابات کے نتائج پر تنازع پیدا ہوا اور ایک ناخوشگوار واقعے کے بعد دونوں پینلز کے رہنمائوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ کچھ عرصے بعد ان میں سے کئی صلح نامہ یہ معافی نامہ لکھ کر رہا ہوئے، مگر حافظ صاحب نے یہ سہولت استعمال کرنے کے بجائے سال بھر کی جیل کاٹ لی۔ جیل اور ہاسٹل لائف میں لکھنے کی ایسی لت پڑی کہ اب تک نہیں چھُٹ رہی۔ جس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ بعض دوسرے ساتھیوں کے ساتھ دریائے نیلم میں نہا رہے تھے حافظ صاحب ایک درخت کے نیچے بیٹھے کوئی مضمون لکھ رہے تھے۔ حافظ صاحب لکھنے میں مشغول رہے اور تسنیم عالم منظر دریائے نیلم کی لہروں کی نذر ہوگئے۔ ایسے شخص نے اگر اپنی 51 ویں کتاب قارئین کے سامنے پیش کردی تو حیرت کی کون سی بات ہے! لیکن حسد کی جا ضرور ہے۔ یہی نہیں، ان کی اگلی کتاب بھی تیار ہوکر پرنٹنگ اور بائنڈنگ کے مرحلے میں ہے۔
منصۂ شہود پر آنے والی ان کی تازہ کتاب ’’رسولِؐ رحمت… مکہ کی وادیوں میں‘‘ ہے جو اپنے نام کی مناسبت سے نبیٔ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے متعلق ہے۔ حافظ صاحب اس سے قبل نبیٔ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی خصوصاً جہادی زندگی پر تفصیلاً لکھ چکے ہیں جو ’’نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم تلواروں کے سائے میں‘‘ کے عنوان سے 6 جلدوں میں شائع ہوچکی ہے۔ ان کی تازہ تصنیف تین حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب پر حافظ صاحب کے بقول انہوں نے وسط 2016 ء میں کام شروع کیا جو اکتوبر 2017 ء میں مکمل ہوکر شائع ہوگئی۔ گویا یہ مشکل کام حافظ صاحب کی بے پناہ مصروفیات، جسمانی و ذہنی کمزوری او رملکی و غیرملکی دوروں کے باوجود تقریباً سوا سال میں مکمل ہوگیا۔ اس کتاب کی تیاری کے لیے مصنف نے سیرت ابن ہشام، طبقات ابن سعد، البدایۃ و النھایۃ، طبری، اُسد الغابہ، الاصابۃ، زاد المعاد، سیرت الحلبیہ، سیرت النبی (شبلی نعمانی و سید سلمان ندوی+ رحمت للعالمین) اور دوسری کئی کتب سے استفادہ کیا ہے۔ جبکہ نعیم صدیقی کی ’’محسنِ انسانیت‘‘ رہنمائی کا ذریعہ بنی ہے۔ کتاب کے پہلے باب میں دیارِ عرب کے محلِ وقوع، اقوام و قبائل، قدیم عرب حکومتوں کے علاوہ قبل از اسلام کے عرب پر پونے دو سو صفحات شامل ہیں، جن میں حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جدامجد حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کے خاندان کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ دوسرے باب میں نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے گرامی، حضرت آمنہ، حضرت حلیمہ سعدیہ، آپؐ کے بچپن اورجوانی، حضرت خدیجہؓ سے نکاح، آپؐ کی اولادِ طیبہ اور وحی سے قبل کے اشاراتِ نبوت کا تذکرہ ہے۔ تیسرے باب میں غارِ حرا، سلسلۂ وحی، دعوتِ حق کے ابتدائی دور، قریش کی مخالفت، ابتلا اور معجزاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تین ابواب میں وہ تمام معلومات فراہم کردی گئی ہیں جو ایک عام انسان کو سیرت کے موضوع پر درکار ہوتی ہیں۔ ان معلومات کی فراہمی اور مختلف موضوعات پر اندازِ تحریر ایسا ہے کہ پڑھنے والے کی بار بار آنکھیں تر ہوہوجاتی ہیں۔ کتاب معلومات کا ایک خزینہ ہے اور ان معلومات کو سینکڑوں عنوانات کے تحت منضبط کیا گیا ہے، لیکن تحریر اتنی آسان اور سہل ہے کہ عام آدمی کو بھی آسانی سے ہر بات سمجھ میں آجاتی ہے، البتہ عالموں اور تحقیق کرنے والوں کے لیے اس میں غور و فکر کا وسیع سامان موجود ہے۔ کتاب کے آغاز میں مولانا عبدالمالک جیسے عالمِ باعمل اور استادِ حدیث کا لکھا ہوا دیباچہ کتاب کو سندِ قبولیت دیتا ہے، اور سینیٹر پروفیسر ابراہیم کی تحریر کردہ تقدیم سندِ اعزاز ہے۔ پروفیسر ابراہیم کے یہ جملے بڑے اہم ہیں:
’’سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حافظ ادریس کا کام ایک ایسے دور میں ہورہا ہے جب انسانیت کی امامت کا منصب امتِ محمدیہ سے چھن چکا ہے اور انسانیت رہنمائوں کی تلاش میں ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ حافظ ادریس نے اس کتاب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے ایسے ایسے پہلوئوں کو یکجا کردیا ہے جن کا کسی ایک کتاب میں یکجا ہونا ضروری تھا کہ ایک عام قاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر پڑھنا چاہے تو اسے ممکنہ حد تک آفتابِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر ہر پہلو پر مستند اور درست معلومات مل جائیں۔
اس خوبصورت اور شاندار کاوش پر جو یقینا حافظ صاحب کی اُخروی نجات کا باعث بنے گی اور اِس عارضی دنیا میں بھی ان کے لیے اعزاز قرار پائے گی، میں گجرات کے اس سپوت اور منصورہ کے مکین کو مبارکباد دیتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ایسے شخص سے میرا ’’حسد‘‘ کچھ اتنا غلط بھی نہیں ہے۔