سمیع اللہ بٹ
اس تحریر کے ذریعے جن خیالات کا اظہار مطلوب ہے، عنوانِ بالا اس کے مفہوم و مدعا کی بخوبی ترجمانی کرتا ہے۔ اس موضوع پر لکھنا کوئی خوشگوار عمل نہیں تھا، پھر اس داستاں پر نصف صدی کا عرصہ بیت رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے کئی اہم کردار اس دوران اپنی مہلتِ عمر پوری کرکے اپنے ربّ کے حضور پہنچ چکے ہیں۔ ویسے بھی اب تک اس مسئلے پرہم نے لب کشائی پر خاموشی کو ترجیح دی، جب کہ فریقِ ثانی ابتدا ہی سے اب تک موقع بہ موقع کچھ نہ کچھ کہتا اور لکھتا چلا آرہاہے، جس میں حقائق کو مسخ کرنے کی بار بار کوشش کی گئی ہے۔ یوں قارئین و سامعین کے سامنے حالات و واقعات کی یک رخی تصویر پیش ہوتی رہی ہے۔
اِدھر کچھ عرصہ قبل میرے ایک عزیز دوست کے ذریعے انٹرنیٹ پر لوڈ ایک تحریر مطالعے میں آئی۔ پھر اس موضوع سے متعلقہ کچھ چیزیں جناب جاوید احمد غامدی کی تحریروں میں پڑھنے کو ملیں، تو یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگی کہ اس حوالے سے تصویر کا دوسرا رُخ بھی پیش کرکے فیصلہ قارئین کی صواب دید پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس پس منظر میں ایک عینی شاہد کی حیثیت سے درج ذیل سطور سپردِ قلم کی جا رہی ہیں۔
’’ہم سب‘‘ ویب سائٹ پر ’’جاوید احمد غامدی یاد یار مہرباں‘‘ کے عنوان سے یادداشتوں پہ مشتمل ایک تحریر آپ کو ملے گی جسے جاوید احمد غامدی صاحب کے ایک رفیق کار پروفیسر ساجد علی صاحب نے لکھا ہے۔ غامدی صاحب کی شخصیت سے ہمارا تعارف اُس وقت سے ہے، جب اس نام سے وہ خود سے بھی متعارف نہ تھے۔ دوسرے لفظوں میں اُن سمیت اُن کا حلقۂ تعارف اُنھیں شفیق احمد کے نام سے جانتا اور پہچانتا تھا۔ یہی شفیق احمد صاحب پہلے جاوید احمد، بعد ازاں جاوید احمد غامدی کے نام سے مشہور ہوئے۔ علمی شہرت اور دانش وری کے حوالے سے اُن کے ارادت مندوں کے نزدیک یہ نام اب بھی ناکافی تھا، لہٰذا اُن کے جامع تعارف کے لیے اُن کے نام کے ساتھ ’علامہ‘ کے خطاب کا مزید اضافہ کیا گیا۔ اس طرح ’شفیق احمد صاحب‘ رفتہ رفتہ ’علامہ جاوید احمد غامدی‘ کے نام اور لقب سے متعارف ہوئے۔ اس سفر کی تفصیلات ساجد علی صاحب کی یادداشتوں میں موجود ہیں۔
جاوید احمد غامدی صاحب نے جب عملی زندگی میں قدم رکھا، تب وہ کوئی بیس بائیس برس کے پیٹے میں ہوں گے۔ جواں جذبوں نے انگڑائی لی تو اسلامی انقلاب کا سودا اُن کے سر میں سمانے لگا۔ اُن کے مریدوں کے بقول جس کے لیے وہ ہر پل بے چین و مضطرب رہنے لگے۔ اسی کشمکش میں اُنھوں نے اپنے کالج اور گرد و پیش کے ماحول میں نوجوانوں سے میل جول اور ربط ضبط بڑھانا شروع کیا، یوں اُنھیں نوجوان مداحوں کا ایک حلقہ میسر آگیا۔ ایک روز اُن متاثرین کو اکٹھا کرکے موصوف نے ایک تنظیم یا حلقے کی بنیاد رکھی اور خود بحیثیت قائد تنظیم و حلقہ ان سے تاسیسی خطاب کیا۔
مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے اگست 1941ء میں جماعت اسلامی کی تشکیل کے موقعے پر جو خطاب کیا، وہ جماعت کی روداد حصہ اوّل میں محفوظ ہے، اگر آپ ان تقاریر سے جاوید صاحب کے خطاب کا موازنہ کریں گے، تو جاوید صاحب کے تاسیسی خطاب کو آپ مولانا مودودی کے خطاب کا چربہ پائیں گے۔ اسی دوران میں جاوید احمد صاحب ایک اکیڈمی یا جامعہ کا نقشہ اور نصاب بھی تجویز کرتے ہیں۔
جاوید صاحب نے اس وقت نصاب میں تمام علوم و فنون کی عربی، فارسی، انگریزی اور اُردو کتب کی ایک لمبی فہرست شامل کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ ذخیرۂ علم میری نگاہوں سے گزر چکا ہے، اور اب یہ لائبریری اور علمی ورثہ بطور اُستاد اور صاحب ِفن، نئی نسل کو منتقل کروں گا۔ اس دلچسپ خطبے کے لیے ملاحظہ کیجیے جاوید صاحب کا اُس وقت جاری کردہ مجلّہ الحمراء۔ یہ ساری باتیں اُس دور کی ہیں جب بقول ساجد علی صاحب: ’’جاوید صاحب کی ابھی بھرواں داڑھی بھی نہ آئی تھی۔‘‘
جاوید صاحب کی شخصیت کو اگر آپ اُن کی تحریروں بالخصوص ان تحریروں کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کریں جو اوائل عمر میں اُنھوں نے لکھیں،تو اُن کی شخصیت کا ایساہیولا ذہن میں ابھرتا ہے، جسے مجموعۂ اضداد کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ وہ اپنے عہد کی چند عبقری شخصیات سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں۔ پھر اُن جیسا بننے بلکہ ویسا ہی اپنے آپ کو سمجھنے اور باور کروانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
موصوف نے طالب علمی کے زمانے سے شعر و سخن کا ذوق پایا، اس لیے شعر بھی کہتے ہیں۔ شاعری میں علامہ محمد اقبال سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اُنھی کے رنگ میں شاعری کرنے کی کوشش فرمائی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو پڑھا تو اُن پر ایسے فدا ہوئے کہ اپنے عہدِ شباب کی تحریروں میں آزاد کے اسلوب و انشاء کی نقالی کرنے لگے۔ اس دور میں اُن کی نثر پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ’’مقامات‘‘ نہیں لکھ رہے بلکہ ’’تذکرہ‘‘ اور’’غبارِ خاطر‘‘ کو کاپی کرنے کی کاوش کررہے ہیں۔ بات یہیں تک نہیں رہتی بلکہ اپنے آپ کو سرتاپا ابوالکلام آزاد سمجھنے اور باور کرانے کی بھی سعی کرتے نظر آتے ہیں۔ اِس سلسلے میں نمونے کے طور پر ان کی چند تحریروں کے عنوانات پیشِ خدمت ہیں: قمارِ عشق، رفیق صبوحی، دبستانِ شبلی، ہم نفس وغیرہ وغیرہ۔ تفصیلی مطالعے کے لیے ملاحظہ فرمائیے اُن کی کتاب ’مقامات‘۔
پھر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی چھاپ بھی ایک حد تک اُن کی شخصیت پر موجود رہی ہے۔ اُن کے اسلامی انقلاب کے تصور نے بھی اُنھیں اپنی جانب متوجہ کیا، لیکن چند برسوں میں اسے ایک رومانوی تصور سمجھ کر نئی راہیں تلاش کرنے لگے، جس پر اب تک گام زن ہیں۔ مولانا مودودی کے اسلوبِ نگارش کی پیروی اُن کے بس کی بات نہ تھی۔ مولانا مودودی کے تصور و طریقِ تنظیم سے بھی اس قدر متاثر تھے کہ انھی کی تقلید و پیروی میں وہ موقع بہ موقع اپنے کاموں کی تنظیم اور حلقہ سازی کرتے رہے۔ جاوید صاحب اپنی ایسی بہت سی چیزوں کو حسن ِاتفاق یا حسنِ توارد سے تعبیر کرتے ہیں۔
اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ جاوید صاحب کسی گہرے اعتراف و احساس کے تحت یا اپنے بعض عزائم کی تکمیل کے لیے مولانا مودودی کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے(اس گمان کی بنیاد ساجد علی صاحب نے خود فراہم کی ہے)۔ مولانا مودودی نے مرکز جماعت اچھرہ کی ایک عمارت کے ایک حصے میں جاوید صاحب اور ان کے رفقا کو رہنے اور کام کرنے کی دعوت دے دی۔ اُس زمانے میں مولانا مودودی کی شخصیت اُن کے ذہن پر اس قدر حاوی تھی کہ ’ابوالکلام ثانی‘ کی طرح اب اُنھوں نے ’مودودی ثانی‘ کی حیثیت سے سامنے آنے میں کچھ توقف نہ کیا۔ چنانچہ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ وہ اندازِ گفتگو، نشست و برخاست، لباس کی تراش خراش، غرض ہر پہلو اور ہر زاویے سے ’مودودی ثانی‘ کا عکس پیش کرنے میں کوشاں دکھائی دینے لگے۔
مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی سے متاثر ایک دنیا ہے، لیکن ایسی متاثر کہ شخصیت کا چربہ کرنے کا اچھوتا خیال صرف جاوید صاحب کو ہی سوجھا۔ اقبال، ابوالکلام اور مولانا مودودی کے بعد جس عبقری شخصیت نے جاوید صاحب کے دل و دماغ کو مسخر کیا، وہ ہیں مولانا امین احسن اصلاحی اور ان کے وسیلے سے مولانا حمید الدین فراہی۔ چنانچہ کسی قابلِ ذکر علمی کارِ نمایاں کے بغیر محض پروپیگنڈا اور اشتہار و ابلاغ کے بل بوتے پر اُنھوں نے اقبال، ابوالکلام اور مودودی کی طرح فراہی اور اصلاحی بننے کی بھی کوشش کی اور اس مرحلے میں انھوں نے کھل کرمولانا اصلاحی کو اُستاذِ امام کہنا اور لکھنا شروع کردیا۔
برصغیر پاک و ہند میں ندوۃ العلما اور مدرستہ الاصلاح کو عربی زبان و ادب کے حوالے سے جو ذوق، معیار اور نمایاں مقام حاصل ہے، یہاں پاکستان میں اپنے آپ کو اس کا مصداق باور کرانے کے لیے جاوید صاحب نے کسی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا۔ اپنی عربی دانی کا ایک زعم ہے جو ہر وقت ان کے دل، دماغ اور زبان پر سوار رہتا ہے اور دیگر تمام اہلِ علم کو اس معاملے میں کج فہم سمجھتے ہیں بلکہ ان کا خاکہ اڑا کر گہری تسکین پاتے ہیں۔
مولانا اصلاحی صاحب کی شاگردی کا قصّہ
کیا جاوید احمد غامدی صاحب، مولانا امین احسن اصلاحی کے شاگرد تھے اور مولانا اُن کے اُستاذ؟ یہ بھی ایک عجیب الخلقت موضوع ہے۔ غامدی صاحب نے اس چیز کو بھی مسلسل پروپیگنڈا کے ذریعے اس اصول کے مطابق مشتہر کیا کہ: ’’اتنا جھوٹ بولو، کہ لوگ سچ باور کرنے لگیں۔‘‘ یوں اس ایک بے حقیقت اور خلافِ واقعہ ؎بات کا جس تسلسل اور تواتر کے ساتھ اُنھوں نے اشتہار دیا اور ’استاذ امام‘، ’استاذامام‘ کی رٹ لگائے رکھی، کہ آج لوگ اس خانہ ساز افسانے کو سچ سمجھنے لگے ہیں۔ چنانچہ عام طور پر بات یہی سمجھی جاتی ہے کہ جاوید غامدی صاحب، مولانا اصلاحی کے شاگرد اور مولانا اصلاحی اُن کے استاذ ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اُستاد و شاگرد کے رشتے کی معنویت سے واقف ہو، تو اس کو غامدی صاحب کے شاگردی کے دعوے میں کوئی حقیقت نظر نہیں آئے گی۔
مولانا اصلاحی نے جماعتِ اسلامی سے علیحدگی کے بعد رحمان پورہ، اچھرہ لاہور میں اپنے مکان پر تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع کیا۔ جہاں اُنھیں چند ذہین اور صالح فطرت افراد میسر آگئے، جن میں خالد مسعود صاحب کے ساتھ ساتھ ماجد خاور، محبوب سبحانی، محمود لودھی، عبداللہ غلام احمد، محمد سلیم کیانی، ڈاکٹر انوار بگوی اور صمدانی صاحب نمایاں تھے۔ مولانا اصلاحی نے اُن کو پہلے عربی زبان پڑھائی اور سکھائی، بعد ازاں قرآن و حدیث کا درس دیا اور یہ سلسلہ برس ہا برس جاری رہا۔ اس کلاس کے آخری سال میں مجھے بھی درس میں شامل ہونے کی سعادت ملی۔ مولانا اصلاحی تین دن قرآن مجید کا درس دیتے تھے اور تین دن صحیح مسلم پڑھاتے تھے۔ حتیٰ کہ مولانا اصلاحی صاحب لاہور کی سکونت ترک کرکے اپنے رقبے پر رحمن آباد [خانقاہ ڈوگراں] منتقل ہو گئے۔
ہمارے علم اور مشاہدے کی حد تک جاوید صاحب اس کلاس کے کبھی طالب علم نہیں رہے۔ اس کے علاوہ مولانا کے قیامِ لاہور کے دوران مختلف گھروں اور مقامات پر افادۂ عام کے لیے دروس قرآن و حدیث کی محفلوں کا انعقاد ہوتا رہا اور اُن کی زندگی کے آخری برسوں میں یہ نشستیں ان کے اپنے گھر پر ڈیفنس لاہور میں منعقد ہوتی رہیں۔ جاوید صاحب اِن میں بھی خال خال یا اتفاقیہ نظر آتے تھے۔ کچھ ایسا بھی نہیں کہ جاوید صاحب کی تعلیم و تربیت کے لیے مولانا کے ہاں بطور اتالیق کوئی الگ سے انتظام کیا گیا ہو اور کسی کو اُس درس و تدریس کی کیفیت و ماہیت کا علم نہ ہو۔
سوال یہ ہے کہ پھر وہ کب، کہاں اور کیسے مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی شاگردی کا شرف حاصل کرتے رہے؟ مولانا کے ہاں علم کے قدردانوں میں ان کے محبین و معتقدین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد آتے جاتے رہتے تھے۔ خاص طور پر مولانا کے اپنے شاگرد اور جماعتِ اسلامی کے وابستگان اکثر حاضر ہوتے اور مولانا سے گھنٹوں استفادہ کرتے۔ جاوید صاحب بھی اسی طرح بطور شاگرد نہیں بلکہ عام ملاقاتی کی حیثیت سے گاہے گاہے مولانا اصلاحی کے پاس حاضر ہوتے تھے۔ ایسے ہی میل ملاپ میں بقدرِ ظرف و استعداد استفادہ کرتے تھے۔
علاوہ ازیں ایک بہت بڑی تعداد اُن لوگوں کی بھی ہے، جو زندگی میں نہ مولانا اصلاحی سے کبھی ملے، نہ براہ راست استفادے کا اُنھیں موقع ملا، البتہ مولانا کے لٹریچر، افکار اور اُن کی تصنیفات سے اُنھوں نے بالواسطہ بھرپور استفادہ کیا۔ اگر جاوید غامدی صاحب اپنے میل ملاپ کی نشستوں کے حوالے سے اور مذکورہ بالا، بالواسطہ استفادے کو اپنا شرف ِشاگردی قرار دیتے ہیں، تو یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ شاگردی کے لیے بالواسطہ استفادے کو اہلِ علم اور محققین تسلیم نہیں کرتے تاآنکہ براہِ راست استفادے کی کوئی شہادت موجود ہو، جب کہ غامدی صاحب کے بارے میں تعلیم و تعلم کے طریقے کے مطابق براہِ راست استفادہ کی ایسی کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔ لہٰذا، غامدی صاحب کا شاگردی کا دعویٰ محض اپنی ذات کو علمی اعتبار سے وقیع بنانے کا ایک حربہ ہے، جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ تمام لوگ جنھوں نے مولانا کے افکار و تصنیفات کے ذریعے بالواسطہ استفادہ کیا، پھر اُن کے اور جاوید صاحب کے درمیان وجۂ امتیاز کیا ہو گی۔
سعادت مند اور ہونہار شاگرد اپنی ذہانت اور محنت کے بل بوتے پر اپنے اُستاد کے کام کو وسعت دیتے اور آگے بڑھاتے ہیں۔ اُن کی توجہ، محنت اور اخلاص کے نتیجے میں فکر کا یہ سفر اور ارتقا جاری رہتا ہے۔ جیسے مولانا فراہی کے فکری سفر کو اُن کے ہونہار شاگرد امین احسن نے جاری رکھا ،اور امین احسن کے افکار کو خالد مسعود نے تابندگی اور نکھار بخشا، مگر جاوید صاحب کے ہاں ایسا کچھ بھی نہیں۔ حالانکہ وہ شروع ہی سے مختلف ادارے اور مراکز قائم کیے چلے آرہے ہیں۔ لیکن ’اُستاذ امام‘ پر کچھ بھی کام یا فکرِ فراہی کی ترویج کے لیے کسی منصوبے یا ٹھوس پیش رفت سے اس ’تلمیذ رشید‘ کا دامن خالی ہے۔ کام کرنے اور لیبل لگانے میں بڑا فرق ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اصلاحی صاحب کی شاگردی کا جامہ اگر کسی قد و قامت پر ٹھیک سے راست آتا ہے اور جس نے تلمذ کا حق ادا کیا ہے، تو وہ صرف ایک ہی شخصیت ہے جس کو علمی دنیا خالد مسعود کے نام سے جانتی ہے۔ جس طرح امین احسن اپنے استاد مولانا فراہی کی اس پکار پر کہ: ’’آپ اخبار نویسی کرتے پھریں گے یا ہم سے قرآن پڑھیں گے؟‘‘ صحافت سمیت اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فراہی کے آستانے پر بیٹھ گئے، بالکل اسی طرح خالد مسعود بھی اپنا سب کچھ، اپنے اُستاد مولانا اصلاحی کے قدموں پر نچھاور کرتے ہوئے، عمر بھر کے لیے اُن کے ہو کر رہ گئے۔ آج فکر ِفراہی کی اشاعت و ترویج اور مدرستہ الاصلاح کے فیضان کو عام کرنے میں اپنے استاد مولانا اصلاحی کے ساتھ ساتھ خالد مسعود مرحوم کا بھی بڑا حصہ ہے۔
سنجیدگی، متانت اور محنت میں جاوید غامدی صاحب کو مرحوم خالد مسعود صاحب سے کوئی نسبت نہیں۔ شاگردی کی حقیقت کو مزید سمجھنے کے لیے قارئین اگر اُس پر محققانہ بحث کو بھی ایک نظر دیکھ لیں جو تذکرہ سید مودودی جلد دوم میں ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی نے ’مولانا حمیدالدین فراہی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی‘ کے عنوان سے رقم کی ہے، تو اس بات کو سمجھنے میں مزید سہولت رہے گی۔
جاوید صاحب اور جماعتِ اسلامی
جاوید صاحب کچھ عرصہ جماعت اسلامی میں بھی شامل رہے اور بقول جاوید صاحب اُنھوں نے: ’’مولانا مودودی کی خواہش اور ایما پر جماعت کی رکنیت بھی اختیار کرلی۔‘‘ جاوید صاحب کے ساتھی ساجد علی صاحب، ان کی جماعت میں شمولیت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’پہلا حادثہ یہ تھا کہ جاوید صاحب نے مولانا مودودی کی خواہش پر جماعت اسلامی میں شمولیت کا فیصلہ کرلیا… میں نے مقدور بھر اس فیصلے کی مخالفت کی۔ میری مخالفت کی دو وجوہ تھیں: اوّلین یہ کہ پرانے لوگ آپ کو قبول نہیں کریں گے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جماعت اسلامی ایک فرد کے گرد قائم ہونے والی جماعت ہے، اس لیے اس کا رُخ کسی اور طرف موڑنا ممکن نہیں۔‘‘
اس بیان میں چند باتیں محلِ نظر ہیں: پہلی بات یہ کہ جاوید صاحب کی جماعت میں شمولیت مولانا مودودی ؒ کی خواہش پر ہوئی۔ یہ سراسر ایک خانہ ساز روایت ہے۔ دوسرا یہ کہ اُن کی جماعت میں شمولیت ایک حادثہ تھا۔ تیسرے یہ کہ جاوید صاحب اور اُن کے رفقاء کی جماعت میں شمولیت اُس کے اغراض و مقاصد سے اتفاق اور اُس کے کاز کی خدمت کے لیے نہ تھی، بلکہ اُس کا رخ کسی اور طرف موڑنے کا مشن اور پروگرام تھا۔ لیکن جب ایسا ممکن نہ ہوسکا تو پھر ساجد علی صاحب کے بقول جماعت میں ان کی شمولیت فی الواقع کسی حادثے سے کم نہ تھی۔
اس کے ساتھ ایک حادثہ اور بھی ہوا کہ ساجد علی صاحب اپنے تمام تر خدشات اور اختلافات کے باوجود، اپنے اُستاد کی تقلید میں جماعت کی رکنیت کے حصول کے لیے درخواست گزار ہوئے اور اِن کے حلقے کے دیگر رفقا بھی۔ اس طرح تذبذب کے شکار ایک پورے طائفے کے لیے جماعت میں شرکت کا راستہ ہموار ہوگیا۔ اس موقعے پر ساجد علی صاحب سے یہ سوال کہ: جماعت اسلامی پر اگر ایک شخص کی فکر کی چھاپ تھی اور وہ اسے اچھا یا درست نہیں سمجھتے تھے، تو پھر فکرِ اقبال اور فکرِ فراہی اور فکرِ اصلاحی کی چھاپ جہاں جہاں ہے، اُس کے بارے اُن کا فتویٰ کیا ہے؟
جماعت میں شمولیت کے کچھ عرصے بعد اچھرہ لاہور میں مرکزِ جماعت کی عمارت کا ایک حصہ اُن کے حوالے کردیا گیا اور مولانا مودودی نے ذاتی طور پر ماہانہ وظیفہ بھی جاری کردیا۔ مقصد پیشِ نظر یہ تھا کہ کراچی کےبعد لاہور میں بھی ادارہ معارفِ اسلامی کی شاخ قائم کرکے تحقیق و تالیف کا کام شروع کیا جائے، اور بقول ساجد صاحب ’’مولانا مودودی نے جاوید صاحب کو اس کا سربراہ نامزد کیا۔‘‘
ساجد صاحب کے بقول پہلے حادثے پر گزشتہ سطور میں تذکرہ آگیا ہے، اور دوسرے حادثے کا ذکر ساجد علی صاحب نے اپنی یادداشتوں میں ان الفاظ میں کیا ہے: ’’دوسرا حادثہ جاوید صاحب کی مولانا امین احسن اصلاحی صاحب سے ملاقات تھی۔ جس وقت یہ لوگ اچھرہ منتقل ہونے کی تیاریاں کررہے تھے، مولانا اصلاحی صاحب ہمارے پاس تشریف لائے تھے۔ مسجد شہداء میں مولانا اصلاحی کا خطاب تھا۔ الیاس وہاں گئے تھے اور خطاب کے بعد مولانا کو اپنے ساتھ گارڈن ٹائون لے آئے تھے۔ میری مولانا سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ اس ملاقات کے بعد جاوید صاحب نے مولانا کی تصانیف، بالخصوص اُن کی تفسیر تدبر قرآن کا مطالعہ شروع کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جاوید صاحب کو مولانا مودودی صاحب کے ترجمہ و تفسیر میں بہت غلطیاں دکھائی دینے لگیں۔ اچھرہ منتقلی کے بعد وہ ہر چند روز بعد مولانا سے کسی نہ کسی آیت کے ترجمے یا تفسیر پر اپنا اختلاف بیان کرنے پہنچ جاتے۔ اس پر الیاس اور میرا کہنا تھا کہ آپ چونکہ جماعت میں شامل ہوچکے ہیں اور رکن بھی بن چکے ہیں، اس لیے ذرا دھیرج سے کام کیجیے۔ اس قدر تیزی مناسب نہیں، اس کا آپ کو نقصان ہوگا۔ اُس زمانے میں جاوید صاحب اِن باتوں کو، جن میں کسی مصلحت شناسی کا شائبہ ہو در خورِ اعتنا نہیں رکھتے تھے۔ اُن کا جواب ہوتا تھا، میں ایک عمارت میں قیام کی خاطر کتمانِ حق کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔‘‘
ذرا دیکھیے، ایک طرف حق پرستی کا یہ خمار کہ کتمانِ حق کے ’جرم‘ سے بچنے کے لیے مولانا مودودی پر ہر وقت چڑھائی کیے رکھی، دوسری طرف پست ہمتی کا یہ عالم کہ اپنی ’روشن خیالی‘ پر ردِعمل کے موہوم خطرے سے خوف کھا کر بیرونِ ملک فرار کی راہ اختیار کی اور ملائشیا کی کسی مضافاتی بستی میں جا چھپنے میں عافیت سمجھی۔ واہ! کیسی عزیمت اور کیسی رخصت۔
جماعت اسلامی میں ان کی شمولیت، بعدازاں مرکز جماعت اچھرہ منتقلی، ادارہ معارف اسلامی کے کام کی سپردگی اور مولانا مودودی کی سرپرستی اور مالی اعانت کے بعد جاوید صاحب کی اس دور کی اپنی گفتگوئیں، تحریریں اور حرکات و سکنات ایسی تھیں، جن سے ان کے اندرونی اضطراب، ذہنی کیفیت اور باطنی عزائم کا بھی بخوبی اندازہ کیا جاسکتا تھا۔
مولانا امین احسن اصلاحی سے جاوید صاحب کی ملاقات ’’فی الواقع ایک بڑا حادثہ تھی‘‘، جس نے آگے چل کر کئی حوادث کو جنم دیا۔ سب سے بڑا حادثہ تو یہ ہوا کہ’فراہی و اصلاحی‘ بننے کے جنون میں وہ کچھ بھی نہ بن سکے، صرف غامدی ہی بن سکے۔ مولانا مودودیؒ اورمولانا اصلاحی دونوں بزرگوں نے جاوید صاحب کے ساتھ سرپرستی و شفقت کا سلوک روا رکھا، مگر موصوف دونوں کے ساتھ انصاف نہ کرپائے۔ تب ایسی ایسی افسوس ناک حرکتیں کیں اور چالیں چلیں کہ دونوں بزرگوں کو ایک دوسرے کے مدِمقابل لاکھڑا کرنے اور ایک دوسرے کا علمی حریف ثابت کرنے کی مذموم کوششیں کر ڈالیں۔
تدبر قرآن اور تفہیم القرآن کی موازنہ آرائی کی گئی۔ ماچھی گوٹھ کے قصے چھیڑے گئے۔ شورائی فیصلوں پر اقلیت و اکثریت کے حوالے سے پھبتیاں چست کی گئیں۔ جاوید صاحب، جماعت اسلامی کی جس عمارت میں ٹھیرائے گئے تھے، اس کے نچلے حصے میں اسلامی جمعیت طلبہ کا دفتر تھا۔ جہاں پر روز سینکڑوں طلبہ اور جمعیت کے کارکنان کی آمدورفت رہتی تھی۔ جاوید صاحب اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان نوجوانوں کے نوخیز و ناپختہ ذہنوں کو مسموم کرنے کا بھی ’کارِ خیر‘ سرانجام دیتے رہتے۔ واضح رہے کہ یہ سب کچھ جماعت کے مرکز میں بیٹھ کر ہورہا تھا۔ محاذ آرائی کا ایک پورا بازار تھا، جو انھوں نے گرم کیے رکھا۔ غامدی صاحب کی شخصیت کا ایک پہلو اور ایک رخ یہ بھی ہے۔
جماعت اور جمعیت کے سنجیدہ لوگ اس سارے منظر کو حیرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ ہم نے اس مسئلہ پر مولانا مودودی ؒ سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا۔ مولانا سے ملاقات کا وقت طے کرکے ایک روز بعد نماز مغرب ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس ملاقات میں سلیم منصور خالد (تب اسلامی جمعیت طلبہ صوبہ پنجاب کے سیکرٹری) میرے ہمراہ تھے۔ زندگی میں پہلی بار مولانا سے یہ براہ راست ملاقات ہورہی تھی۔ اس لیے ملاقات سے قبل ذہن میں یہ بات جاگزیں تھی کہ چونکہ مولانا، جاوید صاحب کے بارے کچھ حُسنِ ظن رکھتے ہیں، جبھی تو وہ انھیں اپنی قربت و سرپرستی میں لے کر آئے ہیں۔ ایسے میں ان کے بارے میں کوئی تنقیدی گفتگو کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑے گی۔ خیرخوف و تذبذب کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور بغیر کسی ذہنی تحفظ کے جاوید صاحب کے حوالے سے مولانا کے سامنے ہم نے تفصیل سے اپنا مافی الضمیر بیان کیا۔ مولانا مودودیؒ نے ہماری مفصل گفتگو کو جس تحمل اور صبر و سکون کے ساتھ سنا اور پذیرائی بخشی اس کا نہایت گہرا نقش آج بھی دل و دماغ پر قائم ہے۔ اس صورتِ حال پر ہم نے انھیں پہلے سے کافی حد تک باخبر پایا، لیکن ان کی طرف سے کسی جوابی اقدام کا کوئی شائبہ بھی محسوس نہ کیا۔ مولانا علم و فہم کے ساتھ ساتھ صبر اور وقار کا بھی کوہ ہمالیہ تھے۔
مولانا نے دورانِ گفتگو فرمایا: ’’میں جس نوجوان میں کوئی صلاحیت یا قابلیت پاتا ہوں تو میری عادت ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی کی کوشش کرتا ہوں، قطع نظر اس کے کہ وہ کیا کرتا ہے یا میرے بارے میں کیا سوچتا ہے۔‘‘ اس ضمن میں انھوں نے مثال کے طور بعض نام بھی لیے جیسے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب، مولانا کوثر نیازی وغیرہ وغیرہ۔ اور فرمایا: ’’اگر ان میں سے کوئی میری مخالفت پر اتر آیا تو میں نے ان کی ہر بات کو صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ اب یہ بھی جو کچھ کررہے ہیں سب کے سامنے ہے اور میرا معاملہ ان کے ساتھ بھی ویسا ہی ہے۔ آپ انھیں مل کر وہ باتیں سمجھانے کی کوشش کریں جو آپ نے بیان کی ہیں۔ کوشش کیجیے کہ ضائع نہ ہوں اور اپنی کوششیں تعمیر پر لگائیں‘‘۔
مولانا مودودی سے ملاقات کے چند روز بعد ہوا یوں کہ ایک دن میں نے جاوید صاحب سے ملاقات کا ارادہ کیا۔ مولانا کے ہاں باجماعت نماز مغرب سے فارغ ہو کر میں نے مڑ کر دیکھا تو جاوید صاحب میرے پیچھے تشریف فرما ہیں۔ علیک سلیک ہوئی تو جاوید صاحب فرمانے لگے کہ: ’’بٹ صاحب، کچھ حقِ نصیحت ادا کیجیے۔‘‘ جاوید صاحب نے جس بات کا ذکر کیا میں اس کے لیے پہلے ہی سے آمادہ تھا۔ اس کے بعد ہم وہیں پر بیٹھ گئے۔ میں نے تقریباً آدھ گھنٹہ جاوید صاحب سے ملاقات میں بڑی دردمندی کے ساتھ قابلِ اصلاح معاملات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے جاوید صاحب سے عرض کیا: ’’آپ جماعت کے رکن اور اس کے نظم میں ہیں، لہٰذا اس حصار میں شگاف ڈالنا کسی طرح مناسب بات نہیں۔ آپ کے اپنے ذاتی، تعلیمی و تحقیقاتی اداروں کے جملہ نظم کی ساخت سے جماعت کے اندر جماعت کا تصور پیدا ہوتا ہے، جو خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔ پھر آپ جمعیت کے نوجوانوں میں ذہنی یکسوئی پیدا کرنے کے بجائے انھیں ذہنی انتشار کی نذر کررہے ہیں، جس سے آپ کو اجتناب کرنا چاہیے۔ جماعت میں اختلافات کے حوالے سے گڑے مُردے اکھاڑنا مناسب نہیں ہے۔ اگر آپ مطمئن نہیں ہیں تو آپ کو اپنی راہیں جدا کرلینی چاہئیں تاکہ انتشار و فتنہ سے بچا جائے۔‘‘ یہ اور ایسی بہت سی باتیں اس ملاقات میں جاوید صاحب کے گوش گزار کیں۔
انھوں نے گفتگو کے دوران کسی بات سے نہ انکار کیا اور نہ تردید فرمائی۔ آخر میں شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’آپ نے نصیحت کا حق ادا کردیا۔‘‘ میں سمجھا کہ محنت رنگ لے آئی۔ لیکن ہماری اس ملاقات کا حال انھوں نے اپنے حلقۂ ارادت میں جس طرح سے بیان کیا، اس کا احوال مجھے اگلے روز ڈاکٹر منصور الحمید صاحب،(کہ جنھیں جاوید صاحب اپنا ’میاں طفیل محمد‘ کہتے تھے) کے ذریعے معلوم ہوا، تو اس پر مجھے بڑی حیرت، اور ان کے طرزِعمل پربڑا دکھ ہوا۔ میں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ استکبار اور خود پسندی کے مرض میں اس مقام تک پہنچ چکے ہیں، جو کسی حق کے اقرار و اعتراف کی راہ میں حجاب بن جاتا ہے۔ بہرحال، وہ اپنی سرگرمیوں میں برابر مشغول رہے۔
اسی دوران میں جاوید صاحب کے غیر محتاط تبصروں اور جمعیت کے افراد کو توڑ کر اپنے حلقے میں شامل کرنے جیسے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے جماعت نے ایک کمیٹی مقرر کی تاکہ شکایات کا ازالہ اور اصلاحِ احوال ممکن ہو۔
تقریباً آٹھ دس ماہ بعد ایک ایسا واقعہ رونما ہوا، جو جماعت میں جاوید صاحب کے لیے ڈراپ سین ثابت ہوا۔ جاوید صاحب نے تدبر قرآن سے کچھ جملے سرقہ کرکے انھیں سوالات کی صورت میں مرتب کرکے مولانا مودودی کو بھیج دیا۔ مولانا نے ان سوالات کے جوابات لکھ کر اپنے ماہ نامہ ترجمان القرآن میں ’رسائل و مسائل‘ کے عنوان سے شائع کردیے۔ جنھیں پڑھتے ہی تین باتیں میرے ذہن میں آئیں۔ پہلی یہ کہ سائل جاوید احمد صاحب ہی ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ تمام سوالات مولانا امین احسن صاحب کی تدبر قرآن سے ماخوذ اور مسروقہ ہیں، جس کا مقصد ایک طرف مولانا مودودی پر اپنی علمیت کی دھونس جمانا اور دوسری طرف دونوں بزرگوں کے درمیان غلط فہمی اور شکر رنجی پیدا کرنا ہے۔ سوم یہ کہ یہ لوگ اپنے اس کارنامے سے مولانا اصلاحی کو آگاہ کرنے کے لیے ان کے گائوں بھی جائیں گے اور انھیں مشتعل کرنے کی کوشش کریں گے۔ بعد میں یہ تینوں باتیں مکمل طور پر درست ثابت ہوئیں۔
اسی روز ترجمان القرآن کا متعلقہ پرچہ میرےدوست سلیم منصور خالد، 1-اے ذیلدار پارک کے گیٹ پر کھڑے پڑھ رہے تھے تو جاوید صاحب نے پاس سے گزرتے ہوئے پوچھا: ’’کیا پڑھ رہے ہیں؟‘‘ سلیم صاحب نے بتایا ’رسائل ومسائل‘۔ جاوید صاحب نے پوچھا: ’’ان میں کیا ہے؟‘‘ سلیم نے جواب دیا: ’’مولانا کے ترجمۂ قرآن پر کسی نے اعتراضات کیے ہیں۔‘‘ اس پر جاوید صاحب نے کھڑے کھڑے یہ تبصرہ فرمایا کہ: ’’یہ سوالات جس نے بھی کیے ہیں وہ کوئی بڑا ذہین اور فاضل آدمی ہے۔‘‘ ایک لحاظ سے وہ یہ داد خود کو دے رہے تھے۔ اگلے لمحے میں وہاں سے گزرا تو سلیم صاحب نے اس بات کا مجھ سے تذکرہ کیا تو میں انھیں ساتھ لے کر گھر آگیا۔ ہم نے تدبر قرآن سے متعلقہ مقامات کو جب نکال کر دیکھا تو واقعی وہ سوالات من و عن تدبر سے نقل کردیے گئے تھے اور اس نقل میں عقل سے بھی کام نہ لیا گیا تھا۔ اسی شام ہم دونوں نے مولانا مودودی صاحب سے ان سوالات و جوابات پر استفسار کیا اور تدبر قرآن کے متعلقہ حصے دکھائے تو انھوں نے تصدیق کردی کہ یہ سوالات جاوید صاحب کی طرف ہی سے آئے تھے۔
اسی دوران اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک رکن نے جاوید صاحب کے1-اے ذیلدار پارک اچھرہ میں درس قرآن کے دوران ان سوالات کے بارے میں سوال اٹھا دیا۔ جواب میں جاوید صاحب نے حواس باختگی کے عالم میں سوالات سے لاتعلقی کا صریح جھوٹ بول دیا۔ اس واقعے نے بھی جاوید صاحب کی اخلاقی پوزیشن خراب کردی۔ جمعیت کا وہ نوجوان کہ جس نے درس میں سوال کیا تھا، جاوید صاحب کے انکار پر مجھے ملا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ اس کی تشفی و اطمینان کے لیے میں اسے اسی وقت مولانا مودودی ؒ کے پاس لے گیا۔ اس نے درس والے واقعے کی روداد مولانا سے بیان کی۔ مولانا نے بات سننے کے بعد اس نوجوان کو کاغذ دیا اور کہا کہ آپ یہ ساری باتیں اس پر مجھے لکھ دیں۔ جو وہیں پر اس نے قلم بند کرکے مولانا کے حوالے کردیں۔ مولانا نے بھی اسی کاغذ کی پشت پر اپنا مختصر جواب رقم فرمایا، جس میں جاوید صاحب کے موقف کی تردید کرتے ہوئے اس پر اظہار افسوس کیا۔ ساجد علی صاحب نے اپنی تحریری یادداشتوں میں اس واقعے کا بھی تذکرہ کیا ہے مگر مکمل تحریف کے ساتھ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وقوع پذیر ہونے والے مذکورہ تمام واقعات سے وہ مکمل طور پر بے خبر رہے، یا نفسِ واقعہ کو قلم بند کرتے ہوئے ان پر اپنے استاد کی محبت، اعترافِ حق پر غالب رہی۔
واضح رہے کہ ابھی یہ بات زبان زد عام نہ ہوئی تھی کہ یہ حرکت جاوید صاحب کی اپنی ہی ہے۔ لیکن جب ان کی چوری پکڑی گئی اور زبان زد عام ہوئی تو انھیں شکایت پیدا ہوئی کہ یہ سوالات اشاعت کے لیے تو دیے نہ گئے تھے۔ ساجد علی صاحب نے یہاں تک لکھا ہے کہ جاوید صاحب نے مولانا مودودی ؒ کو یہ سوالات اس ضمانت پر دیے تھے کہ وہ انھیں شائع نہیں کریں گے۔ لیکن ساجد صاحب کی خامہ فرسائی نرم سے نرم الفاظ میں جھوٹ اور تحریف کا شاہ کار ہے۔ میں اُن سے معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان جیسے پڑھے لکھے شخص کو ایسی واہی اور کمزور باتیں زیب نہیں دیتیں۔ سوال یہ ہے کہ تحقیق و تصنیف کی دنیا میں کس نے یہ اتھارٹی دے رکھی ہے کہ آپ لوگوں سے یہ کہتے پھریں کہ فلاں فلاں چیزیں آپ لکھ سکتے ہیں اور شائع کرسکتے ہیں اور فلاں فلاں سے آپ کو اجتناب کرنا ہے۔ جب قلم ان کا، پرچہ ان کا، محنت ان کی، پھر کون سی چیز افادۂ عام کے لیے اشاعت میں مانع ہوسکتی ہے؟
جو سوالات جاوید غامدی صاحب نے سرقہ کرکے مولانا مودودی کو بھجوائے اور مولانا نے ان کے جو جوابات دیے، یہ سوالات و جوابات خالص علمی نوعیت کے تھے اور قرآن فہمی کے ساتھ ان کا تعلق تھا۔ اب آپ اچھے قرآنیات کے خادم ہیں کہ اس کے فہم و فکر پر قدغن لگاتے اور ضمانتیں طلب کرتے پھرتے ہیں اور وہ بھی مولانا مودودی ؒ سے۔ کیا آپ جیسے دانشوروں کی ’دانش سرائوں‘ میں علم و فکر پر اس طرح سے پہرے بٹھائے جاتے ہیں؟ اسے دانشوری نہیں دانش فروشی کہتے ہیں۔
مذکورہ بالا سوالات و جوابات کی اشاعت کے بعد شنید ہے کہ جاوید صاحب، مولانا مودودی ؒ کے پاس گئے اور کہا کہ میں اس کا جواب لکھوں گا۔ مولانا نے کہا کہ آپ لکھیں گے تو میں اسے بھی شائع کردوں گا۔ لیکن اس کی نوبت نہ آئی کیونکہ میری معلومات کے مطابق وہ مولانا اصلاحی کے تعاون سے ایسا کرنا چاہتے تھے اور اصلاحی صاحب نے اس بارے میں ان سے کوئی تعاون کرنے کے بجائے حوصلہ شکنی کی۔
بہرحال، جاوید صاحب حسبِ توقع ماہ نامہ ترجمان القرآن کا مذکورہ شمارہ لے کر مولانا اصلاحی صاحب کے پاس ان کے گائوں پہنچے اور مولانا کو خاصا مشتعل کیا۔ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد جب میں اور سلیم منصور، مولانا اصلاحی سے ان کے گائوں میں ملے، تو انھیں مذکورہ واقعہ پر بڑا برہم پایا۔ ہماری وضاحتوں کے باوجود حقیقت حال کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کا فرمانا تھا کہ: ’’بھلا جاوید میں اتنی قابلیت و لیاقت کہاں کہ وہ ایسے سوالات لکھ پائیں۔ مولانا مودودی کو اس کا بخوبی ادراک ہونا چاہیے تھا اور اس کی چال میں آنا نہیں چاہیے تھا۔‘‘ وقتی طور پر ’علامہ‘ کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا اور دونوں بزرگوں کے باہمی احترام کی فضا کو مکدر کر گیا۔
جیسا کہ عرض کیا ہے، جاوید صاحب کی منفی سرگرمیوں سے پیدا شدہ صورت حال پر جماعت اسلامی لاہور کی ایک کمیٹی بڑی احتیاط سے واقعات و معاملات کا جائزہ لے رہی تھی۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی خاطر اس نے وقت خاصا لیا، لیکن صحیح نتائج تک پہنچنے کے لیے عجلت سے کام نہ لیا۔ کمیٹی کئی افراد کے انٹرویو کرکے دلائل و شواہد کا جائزہ لیتی رہی۔ میں نے یہ صورت حال ایک خط میں لکھ کر کمیٹی کے سپرد کردی۔ اب کمیٹی کو کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے کوئی دقت نہ ہوئی۔ لہٰذا، امیر جماعت اسلامی صوبہ پنجاب مولانا فتح محمد نے جاوید صاحب کو جماعت کی رکنیت سے فارغ کردیا۔
یہ ہیں وہ حالات و واقعات جو بالآخر جاوید صاحب کے جماعت اسلامی سے اخراج کا باعث بنے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ جاوید صاحب تسلسل اور تواتر کے ساتھ یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ: ’’آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ مجھے جماعت سے کیوں نکالا؟‘‘
خدا لگتی بات یہ ہے کہ جب جاوید احمد صاحب کے نزدیک مولانا مودودی کا علم اور ان کا تصورِ انقلاب دونوں ہی خام تھے، توان کاجماعت میں شمولیت اختیارکرناویسے ہی ایک نامناسب فعل تھا۔ اس لیے جب جماعت نے ان کو تذبذب کی کیفیت سے نجات کا موقع فراہم کیاتو پھر ان کی طرف سے گلہ و شکوہ کس بات کا کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘
حلقہ تدبر قرآن و حدیث اور غامدی صاحب
جماعت اسلامی اور مولانا مودودی ؒ کے ساتھ جاوید احمد صاحب کی نبھ نہ سکی اور جلد یا بدیر راہیں جدا ہوگئیں۔ کچھ دنوں تک ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے ساتھ بھی جاوید صاحب کی یاد اللہ رہی، بالآخر وہ بھی تلخ معاملات پر منتج ہوئی۔
وقتاً فوقتاً انھوں نے اپنے کئی نظم تشکیل دیے، جو حوادثِ زمانہ کی نذر ہوتے رہے۔ ان کی آخری جائے پناہ غالباً حلقہ تدبر قرآن و حدیث تھی، جس کے بارے میں جاوید صاحب لکھتے ہیں: ’’ارادہ تھا کہ پیش نظر مقاصد کے لیے اب اسی میں کام کیا جائے، مگر بہت جلد واضح ہوگیا کہ حلقے کے بزرگ اسے پسند نہیں کریں گے، لہٰذا یہی مناسب تھا کہ کوئی کشمکش پیدا کیے بغیر ادارے سے الگ ہوکر اپنے طریقے پر کام کرتا رہوں۔‘‘ گویا اپنے استاد مولانا اصلاحی ؒ اور ان کے رفقا کے قائم کردہ ادارے سے بھی ان کا نباہ نہ ہوسکا اور انھیں اپنا راستہ الگ کرنا پڑا۔ بالفاظِ دگر وہ جہاں جہاں بھی گئے انھوں نے یہی تاثر دیا کہ وہ تو بہت کام کرنا چاہتے تھے، مگر وہاں کے رفقا اور بزرگ ان کے کام کو [یا انھیں] پسند نہیں فرماتے تھے، اس لیے الگ ہوکر وہ اپنے طریقے کے مطابق کام کرنے پر مجبور ہوئے۔ حلقہ تدبر قرآن و حدیث میں بھی انھیں یہی حادثہ پیش آیا۔
لیکن امرِ واقع یہ ہے کہ نہ پہلے انھوں نے مختلف اداروں، تنظیموں اور حلقوں میں رہتے ہوئے کبھی کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سرانجام دیا، اور نہ ان سب سے الگ ہوکر اپنے طریقے پر کوئی بامعنی کام کیا۔ جاوید صاحب عجب شانِ تمکنت کے ساتھ کلام کرتے ہیں۔ لگتا ہے آسمان سے کوئی ندا آرہی ہے کہ جس میں کوئی زمین والوں سے مخاطب ہے۔
مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کا جس دبستان علم و فکر سے تعلق تھا، وہ پیغمبر اور رسول کی ذات کے سوا کسی کو معصوم نہیں سمجھتا تھا اور اندھی تقلید کا تو ہرگز قائل نہ تھا، ہر ایک کی بات قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھ کر قبول یا رد کرتا تھا۔ اس کے باوجود وہ اکابرو اسلاف کے ہنر اور کارناموں کے معترف و قدرداں تھے۔ اس ضمن میں امام ابوحنیفہؒ، ابن تیمیہؒ، شاہ ولی اللہ ؒ وغیرہ پر ان کے رشحات ِقلم ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ استخفاف کے بجائے احترام و اعتراف کے پہلو کو ہمیشہ ملحوظ رکھا،مگر ان کے برعکس جاوید صاحب کا معاملہ بہت کچھ مختلف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بحث و تحقیق میں اصل چیز دلیل ہوتی ہے، لیکن کسی کا اپنے فکر و فہم پر اس حد تک بے جا اعتماد و انحصار کہ صرف اپنی ہی بیان کردہ دلیل و منطق کو اور اس سے اخذ کردہ نتائج کو حرف ِ آخر سمجھنا بے جا غلو اور فسطائیت ہے۔
(یہ تحریر پمفلٹ کی صورت میں منشورات سے دستیاب ہے)