ملکی سیاست کا منظرنامہ یہ ہے کہ گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ ملکی اسٹیبلشمنٹ کی اپنی ترجیحات ہیں۔ ایمپائر بھی متحرک ہوچکے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں اپوزیشن جماعتوں کے لیے سبز اور مسلم لیگ (ن) کے لیے پیلا کارڈ ہے۔ یہ کہانی ریڈ کارڈ تک بھی جاسکتی ہے۔ اس کہانی کی ابتدا بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی سے ہوئی ہے جہاں آصف علی زرداری نے پس پردہ “ہارس ٹریڈنگ” کا کھیل کھیلا ہے۔مقصد یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) سینیٹ کے انتخابات میں ایوان میں اکثریت حاصل نہ کرسکے۔ ایک جانب یہ صورتِ حال ہے اور دوسری جانب اس خطہ میں امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی ٹرائیکا پاکستان کو گھیرے میں لینے کی نئی منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے ٹوئٹ کے تین ہفتے بعد اس خطہ میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کے کھیل اور مفادات کے تحفظ کی منصوبہ بندی کے لیے اسرائیل کے وزیراعظم دہلی پہنچے ہیں۔ سعودی عرب کے بعد چین اس خطہ کا واحد ملک ہے جسے اس ٹرائیکا کی مکروہ منصوبہ بندی اور پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پر تشویش ہے۔ دفتر خارجہ کے تھنک ٹینک نے بھی اپنی فائلوں سے مٹی جھاڑ کر امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی ٹرائیکا کی منصوبہ بندی کے سامنے بند باندھنے کی فکر شروع کردی ہے، تاہم ملک میں سیاسی عدم استحکام ایک بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آرہا ہے۔ اس پورے منظرنامے میں ایوانِ صدر میں ریاست کے تحفظ کے لیے علماء کی مشاورت اور تین اہم اقدامات ہر لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں اور اسی پس منظر میں چین کے سفیر کی نوازشریف سمیت ملکی سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں اور رابطے معاملے کی سنجیدگی کا کھلا اظہار ہیں۔ گزشتہ ہفتے کی ایک اہم ترین خبر پاکستان میں مقیم چینی سفیر کی رائے ونڈ جاکر سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار پانے والے نوازشریف سے ملاقات تھی۔ چینی سفیر تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے بھے ملے ہیں، لیکن صرف تحریک انصاف نے ہی سوال اٹھایا کہ آیا چین جیسے اہم ملک کے سفیر کی ایک ایسے سیاست دان سے ملاقات اخلاقی اعتبار سے درست تھی جسے سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے کر احتساب عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے؟ نوازشریف کی چینی سفیر سے ملاقات کو محض اخلاق کے دائرے اور فریم میں رکھ کر دیکھتے ہوئے تحریک انصاف یہ بھول گئی کہ مقامی یا عالمی سیاست میں اخلاقیات اور اصول نہیں بلکہ مفادات کو بنیادی اہمیت حاصل رہتی ہے، باہمی مفادات ہی سب کچھ طے کرتے ہیں۔ پاکستان اور چین اس خطے کے دو اہم ترین ملک ہیں۔2000ء کا آغاز ہوتے ہی چین نے خود کو عالمی اقتصادی میدان کا اہم ترین کردار بنانے کا تہیہ کرلیا۔ اس ضمن میں سمندروں کے ذریعے افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کی منڈیوں تک رسائی کو آسان اور تیز تر بنانا بہت ضروری تھا۔ اسی باعث چینی قیادت ون بیلٹ ون روڈ اقتصادی راہداری پر زور دے رہی ہے، اسی لیے چین اس وقت ہماری معیشت کو توانائی بخشنے کے لیے کثیر سرمایہ کاری پر آمادہ ہے۔ امکان ہے کہ چینی سفیر نے نوازشریف کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران اپنا پورا فوکس پاکستان میں سیاسی استحکام کو یقینی بنانے پر مرکوز رکھا ہوگا۔ سعودی عرب کے بعد چین دوسرا ملک ہے جسے پاکستان کے داخلی سیاسی بحران پر تشویش ہے، اسی لیے پاکستان کو سیاسی عدم استحکام سے بچانا بھی اب چین کی ترجیحات میں شامل ہوچکا ہے۔ وہ انتہائی خاموشی اور سفارت کارانہ مہارت کے ساتھ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
ملکی سیاست کے حوالے سے دوسری بڑی خبر فاٹا سے متعلق بل کی منظوری ہے۔ قومی اسمبلی نے فاٹا میں سیاسی اصلاحات کے لیے پہلا قدم اٹھا لیا ہے اور سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرۂ کار وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں تک بڑھانے کا بل قومی اسمبلی میں کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا ہے۔ اس بل پر رائے شماری کے وقت حکومت کی اتحادی جماعت، جمعیت علمائے اسلام (ف) نے واک آئوٹ کیا۔
مولانا فضل الرحمن نے برہمی کا اظہار کیا کہ بل پر رائے شماری کرانے میں عجلت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ مولانا کے تحفظات اپنی جگہ، بل کی منظوری کے وقت قومی اسمبلی میںاور جشن کا سماں تھا۔ قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ اب فاٹا کے انضمام کا تاریخی کام بھی کر گزرنا چاہیے۔ یہ معاملہ بہت دیر سے التوا میں چلا آرہا تھا، اسلام آباد میں فاٹا اصلاحات کے لیے دھرنا بھی ہوا، احتجاج بھی ہوچکا ہے۔ حکومت نے ایک مرحلے پر دبائو میں آکر مولانا فضل الرحمن سے وعدہ کرلیا تھا کہ فاٹا کے انضمام کا معاملہ وقتی طور پر نہیں چھیڑا جائے گا، لیکن حکومت کو عوامی دبائو کے تحت اس بارے میں قانون سازی کرنا پڑی۔ بل کی منظوری کے وقت وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے یقین دلایاکہ فاٹا کو قومی دھارے میں لایا جائے گا، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں متفقہ فیصلہ کریں۔ یہ مؤقف ظاہر کرتا ہے کہ حکومت بھی بہت محتاط ہے، اسی لیے کہا جارہا ہے کہ جب سیاسی جماعتیں متفقہ مطالبہ کریں گی تو صدر سے درخواست کی جائے گی، حکومت فاٹا کو 5 سال سے پہلے قومی دھارے میں لائے گی۔ یہ مؤقف اپناکر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت مفادات کی سیاست کے زیراثر انضمام کے مخالفین کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہے، اسی لیے اِس سال صوبائی سیٹوں پر الیکشن اور رواج ایکٹ کو روکا گیا ہے۔ فاٹا کے عوام نے ملک کی آزادی اور سالمیت کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ وہ گزشتہ ستّر سال سے دوسرے ہم وطنوں کے برعکس آئین اور سماجی انصاف کے لیے قانون کی سہولت سے محروم ہیں، اور آج بھی انگریز کے بنائے ہوئے قانون ’ایف سی آر‘ اور وائسرائے ٹائپ پولیٹکل ایجنٹ کے تحت زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو طویل ’’تاریخی‘‘ دورے پر نئی دہلی پہنچے ہیں۔ سینکڑوں یہودی تاجر بھی نیتن یاہو کے ہمراہ بھارت آئے ہیں۔ مودی اپنے سارے پروٹوکول توڑ کر ان کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پہنچے۔ یہ6 روزہ دورے کا پُرجوش آغاز ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم 102 کمپنیوں کے 130 کاروباری افراد کے بھاری وفد کے ہمراہ بھارت اترے ہیں۔ مفاہمت کی دس یادداشتوں (ایم او یوز) پردستخطوں کے علاوہ دفاع، تجارت، معیشت، توانائی، زراعت، سائیبر سیکورٹی، مشترکہ فلم سازی، ٹیکنالوجی، خلائی تعاون سمیت کئی شعبوں میں تعاون کا شور ہے۔ بھارتی نجی اداروں کی ٹیکنالوجی میں عالمی اداروں کے ساتھ شراکت داری بھی اس میں شامل ہے۔ لیکن جن اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اس میں پاکستان اور چین کا گھیرائو کرنے کی مشترکہ حکمت عملی بھی شامل ہے۔ مودی کو پاکستان کے آبی وسائل میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے 50 کروڑ روپے کے فنڈ ملے ہیں۔ بھارت روانگی سے قبل نیتن یاہو نے کہاکہ ’’میرے دورے سے سیکورٹی، معیشت، تجارت اور سیاحت سمیت دیگر مفادات کو فائدہ ملے گا، اس دورے سے اسرائیل کے اہم عالمی طاقت کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوں گے‘‘۔ یہ دورہ اسرائیل اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات کے پچیس سال بعد ہورہا ہے۔ حالیہ دورے کی اہمیت یہ بھی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے جو فساد برپا کیا ہے، 128ممالک نے اسے مسترد کردیا۔ اسرائیل کا دوست بھارت بھی امریکی اقدام مسترد کرنے والے ممالک میں شامل تھا۔ دونوں ملکوںکی دوستی کی بنیاد پاکستان دشمنی پر ہے۔ نیتین یاہو کے ساتھ 130رکنی کاروباری وفد کی آمد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اسرائیل میں بھارت سے کاروبار کے لیے بہت جوش پایا جاتا ہے۔ ممبئی میں نیتن یاہو یہودی برادری سے ملاقات کریں گے۔ اس جگہ کو ممبئی حملوں کے تناظر میں ایک علامت بناکر پیش کیا جارہا ہے کہ دہشت گردی کے حملے سے یہودی اقلیت بھی متاثر ہوئی۔ نیتن یاہو تین روزہ جیوپولیٹکل کانفرنس ’ریسینا ڈائیلاگ‘ میں بھی شریک ہوں گے۔ اس مذاکرے میں 90 ممالک کے ڈیڑھ سو مقررین اور 550 مندوبین کی شرکت کا اعلان کیاگیا ہے۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت اور بحریہ کے سربراہ ایڈمرل سنیل لانبا، امریکی کمانڈر پیسفک کمانڈ ایڈمرل ہیری ہیرس، جوائنٹ فورسز کمانڈر برطانیہ جنرل کرس ڈیویرل اور دیگر کا تمام دن جاری رہنے والی کانفرنس کے سیشن سے خطاب متوقع ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی، کینیڈا کے سابق وزیراعظم اسٹیفن ہارڈر اور سویڈن کے سابق وزیراعظم کارل بلڈٹ بھی مقررین میں شامل ہیں۔کانفرنس کا عنوان ’’منیجنگ ڈسرپٹیو ٹرانزیشنز:آئیڈیاز، انسٹی ٹیوشنز اینڈ ایڈیمز‘‘ رکھاگیا ہے۔ تعطل پیدا کرنے والے بحرانوں سے کیسے نمٹا جائے، ان حالات میں نظریات، ادارے اور تصورات شامل کیے گئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان 1992ء میں دوطرفہ تجارت 20کروڑ ڈالر تھی جو 2016ء میں بڑھ کر 4.16 ارب ڈالر ہوگئی ہے۔ یہ اسرائیل کی سالانہ تقریباً چالیس ارب ڈالر تجارت کے مقابلے میں اب بھی خاصی کم ہے۔ اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار امریکہ اور یورپی یونین ہیں، بھارت بھی اسرائیل کے ساتھ تجارت میں اضافے کے لیے پھڑپھڑا رہا ہے۔ دوطرفہ تجارت میں برآمدات 3.08 ارب ڈالر اور درآمدات 1.96 ارب ڈالر ہیں۔ خام صنعتی ہیرے درآمدات اور برآمدات میں ایک ارب ڈالر کی غیر معمولی حیثیت کے حامل ہیں۔ اسرائیل کی بھارت میں موجودہ سرمایہ کاری جن شعبہ جات میں ہے، ان میں راجستھان میں ڈرپ اری گیشن اور شمسی توانائی، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ میں فارمنگ، آگرہ میں ویسٹ مینجمنٹ کے منصوبے شامل ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ کا اجرا سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے 2007ء میں کیا تھا اور اس ضمن میں مذاکرات کے لیے حتمی تاریخ 2014ء مقرر کی گئی تھی۔ اب تک اس بارے میں مذاکرات کے 9 ادوار ہوچکے ہیں۔ نیتن یاہو کے دورے کے دوران فوجی تعاون میں بھی خاطرخواہ پیش رفت متوقع ہے۔ دفتر خارجہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 1990ء کے اواخر میں بھارت میں سفارت کاری کی ذمہ داریاں انجام دینے والے آرتھر لینک کا تجزیہ ہے کہ بھارت نے یہ سوچا ہے کہ فلسطین میں اس کے لیے کیا ہے؟ بہت سے ممالک کی طرح بھارت یہ واضح کررہا ہے کہ فلسطین کو ایک طرف رکھ کر وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرسکتا ہے۔ اگر یہی صورتِ حال ہے تو پھر یہ دورہ پاکستان کے لیے کسی بڑے خطرے اور چیلنج سے کم نہیں ہے۔