سیاسی حلقے بلوچستان میں آنے والے اس سیاسی جھٹکے پر حیران ہوگئے ہیں کہ یہ کیا کھیل شروع ہوگیا ہے اور اس کھیل کے پس منظر میں کون ہے؟ یا کس کا ہاتھ ہے اور وہ کیا چاہتا ہے؟ ان چہ میگوئیوں میں نئے وزیراعلیٰ نے حلف اٹھا لیا ہے۔ اس صوبے میں سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے فروری 1973ء میں ہاتھ مارا تھا اور وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا تھا۔ اس کے بعد نیپ کے قائدین جیل پہنچادیے گئے جن پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا، اور پھر مسلح تصادم کا آغاز ہوگیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ 1973ء سے جاری بلوچستان میں سیاسی کھیل کا ایک پہلو بڑا دلچسپ اور حیران کن ہے کہ مرکز میں جس کی بھی حکومت رہی ہو، اُس نے بلوچستان میں قوم پرستوں کو حکومت کی مدت پوری نہیں کرنے دی۔ اس کا آغاز سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو توڑنے سے ہوا۔ اس کے بعد نواب بگٹی کو حکومت دی گئی، وہ بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔ اُن کے بعد سردار اختر مینگل کو حکومت سونپی گئی، انہیں بھی مدت پوری کیے بغیر چلتا کردیا گیا۔ اب 2013ء کے انتخابات کے بعد ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو حکومت دی گئی اور ان کے ساتھ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کو شامل کیا گیا۔ یہ حکومت بلوچستان کی تاریخ میں اس لحاظ سے سابقہ حکومتوں سے مختلف تھی کہ اس میں دو متحارب پارٹیوں کو یکجا کیا گیا۔
اس مرحلے تک آتے آتے ایک اور تبدیلی کی گئی۔ سرداروں اور نوابوں کے بجائے ایک عام سیاسی کارکن کو اقتدار دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ طالب علم رہنما تھے۔ نہ وہ نواب تھے، نہ سردار۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی۔ مگر انہیں بھی نصف حکومت دی گئی اور دوبارہ ایک نواب کو حکومت سونپی گئی۔ یہ کھیل مسلم لیگ (ن) نے کھیلا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ بلوچستان میں کسی بھی قوم پرست لیڈر اور اس کی پارٹی کو حکومت کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ اس کھیل کو ہم 1973ء سے لے کر 2015ء تک دیکھ سکتے ہیں۔ ایک پہلو اس کھیل کا ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا کہ بلوچ قوم پرست پارٹیوں کو کیوں پورا وقت نہیں دیا گیا؟ اب جو کھیل مسلم لیگ(ن) کے ساتھ کھیلا گیا وہ ادھورا رہ جاتا اگر ڈاکٹر عبدالمالک کو پوری مدت حکومت دی جاتی۔ مسلم لیگ(ن) نے اپنے پائوں پر کلہاڑی خود ماری ہے اور اس کے نتائج بھی بھگتے گی۔
اب جبکہ انتخابات میں صرف چند مہینے رہ گئے ہیں، بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ کو حکومت سے ایسے نکال دیا گیا جیسے دودھ میں سے مکھی کو نکالا جاتا ہے۔ ثناء اللہ زہری نے پورے دورِ حکومت میں اپنی کابینہ کے سوا پارٹی کو گھاس بھی نہیں ڈالی، بلکہ گزشتہ سینیٹ کے انتخابات میں انہوں نے مسلم لیگ(ن) کی اہم شخصیت سردار یعقوب ناصر کو شکست دی اور اپنے عزیز و اقارب کو جتوا دیا۔ یہ ایک بڑا جھٹکا تھا لیکن نوازشریف نے اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ بعد میں نوازشریف نے سردار یعقوب ناصر کو سینیٹر بنادیا، مگر زخم کاری تھا، اس کو یعقوب ناصر فراموش نہیں کرسکے، اور اس مرحلے پر وہ خاموش تماشائی بن کر دور سے اس کھیل کو دیکھتے رہے۔
نواب ثناء اللہ زہری صحیح معنوں میں سیاست دان نہیں ہیں، ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو یہ تبدیلی ہرگز نہ آتی۔ نوازشریف خود کھیل کی زد میں آگئے ہیں اس لیے بلوچستان میں جو کھیل کھیلا گیا اُس سے وہ دور ہی رہے۔ 1973ء کے اثرات اب تک بلوچستان پر موجود ہیں اور اب جو سیاسی نقشہ ترتیب دیا گیا ہے اس کی وجہ سے تشویش کی ایک لہر موجود ہے اور غیر یقینی صورتِ حال نظر آرہی ہے۔ یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ مرکز میں مسلم لیگ(ن) اپنی حکومت کی مدت پوری کرسکے گی یا نہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) نے 2018ء تک اپنی مدتِ حکومت پوری کرلی تو وہ ایک بڑی قوت کے ساتھ سیاسی نقشے میں موجود ہوگی۔
بلوچستان میں جو نقشہ اب بنا ہے اُس میں ایک پہلو اہم ہے، اور وہ یہ کہ بادشاہ گروں نے نوابوں، سرداروں اور جاگیرداروں کے ہاتھ میں وزارتِ اعلیٰ کا منصب نہیں دیا بلکہ ایک عام سیاسی گھرانے کے شخص کو تھمادیا ہے۔ تھوڑا بہت تجربہ عبدالقدوس بزنجو کو ہے اور گزشتہ انتخابات کے موقع پر ان کی جان کو خطرہ تھا۔ ان کا علاقہ مسلح گروہوں کے کنٹرول میں ہے، اس لیے وہ 600 ووٹ بھی نہیں لے سکے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اور ہمارے ساتھیوں نے سر ہتھیلی پر رکھ کر انتخابات میں حصہ لیا اور ہر گھر سے ایک ووٹ کا فیصلہ کیا، اس لیے میرے 500 ووٹ ایک لحاظ سے 5 ہزار کے برابر ہیں۔
ان کا انتخاب ایک لحاظ سے ڈاکٹر عبدالمالک کا تسلسل ہے۔ یہ تبدیلی ایک لحاظ سے خوش آئند ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نے بھی عبدالقدوس بزنجو کو ووٹ دیا۔ وہ مسلم لیگ (ن) کی زخم خوردہ تھی، اس لیے مسلم لیگ (ق) کو ووٹ دیا۔ اور سب سے زیادہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس کھیل کا سردار اختر مینگل بھی حصہ بنے، حالانکہ وہ مسلسل اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولتے رہے۔ سیاست دان کس طرح اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ نفرت اور حسد میںآ کر بعض دفعہ لیلائے اقتدارکی چمک کا شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کے بازار میں ہر ایک کی قیمت موجود ہے، کسی کی اسلام کے نام پر، پاکستان کے نام پر، قوم پرستی کے نام پر سیاست دان بکنے کے لیے موجود رہتے ہیں۔ اس انتخاب میں سردار اختر مینگل، نیشنل پارٹی کے خالد لانگو، پشتون خوا کے منظور کاکڑ اور نیشنل پارٹی کے 3 ارکان نے عبدالقدوس بزنجو کو ووٹ دیا۔
پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی مسلم لیگ (ن) کے 11 ارکان نے کی تو وزارتیں دی گئیں۔ دستگیر بادینی نے جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے، وزارت کا حلف اٹھالیا ہے۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے رہنما نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پارٹی نے منظور کاکڑ کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور انہیں نوٹس جاری کردیا ہے۔ منظور کاکڑ پہلے پی پی پی میں تھے، بعد میں 2013ء کے انتخابات میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی میں شامل ہوئے۔ اب موجودہ حکومت میں 14 وزراء نے حلف اٹھایا ہے اور 4 مشیر بنائے گئے ہیں۔
عبدالقدوس بزنجو نے حلف اٹھانے کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کے کسی بھی دبائو کو قبول نہیں کریں گے، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے اور بیرونِ ملک بیٹھے ہوئے ناراض بلوچوں سے بات چیت ہوسکتی ہے۔
عبدالقدوس بزنجو کو ایوان میں 41 ووٹ ملے، جبکہ پشتون خوا کے لیاقت آغا نے 13 ووٹ حاصل کیے۔ اس طرح عبدالقدوس بزنجو بھاری اکثریت سے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے، اور وہ اب اپنی اس مدت کو پورا کریں گے جو دستور نے دی ہے۔
اس نئے سیاسی نقشے میں اگر کوئی تبدیلی نہیں آئی تو 2018ء میں سینیٹ کے انتخابات کا مرحلہ بھی گزر جائے گا۔ ایوان میں مسلم لیگ (ن) نے نواب جنگیز مری کو پارٹی لیڈر منتخب کرلیا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے جو نقشہ بادشاہ گروں کے ذہنوں میں موجود ہے اس میں مسلم لیگ (ن) کی گنجائش بلوچستان میں کم نظر آرہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے تمام ارکان نوازشریف اور مسلم لیگ(ن) کی گرفت سے آزاد ہوگئے ہیں۔ یہ جماعت ایک لحاظ سے مختلف الخیال اور مختلف مفادات کے حامل لوگوں کا مجموعہ ہے۔ مسلم لیگ ’ن‘ اور ’ق‘ کے ارکان اسمبلی اس تبدیلی سے بہت زیادہ خوش ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں ہر رکن اسمبلی جس کا تعلق مسلم لیگ ’ق‘ یا ’ن‘ سے ہے وہ اپنی قیمت بھاری معاوضے کی صورت میں وصول کرے گا۔ اور اب یہ نقشہ بنے گا کہ سینیٹ میں وہ پہنچے گا جس کے بیگ میں سینیٹ کی نشست کے لیے بھاری رقم کے تھیلے ہوں گے۔
جس طرح بلوچستان میں حکومت بنائی گئی ہے اس کا سب سے بڑا مقصد نوازشریف کو یہ پیغام دینا تھا کہ سیاسی کھیل میں اُن کے علاوہ بھی طاقتور کھلاڑی موجود ہیں۔