سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی قبائلی علاقوں تک توسیع

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی قبائلی علاقوں تک توسیع سے متعلق بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ سے بھی اس کی منظوری کا واضح امکان ہے، جس کے بعد صدرِ مملکت کے دستخط کے ساتھ ہی قبائل کی زندگی کا وہ کٹھن ترین مرحلہ عبور ہوجائے گا جس کے لیے قبائل گزشتہ سات دہائیوں سے جدوجہد کررہے تھے۔ گو کہ قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے بل کے خیرمقدم کے باوجود خیرمقدم کرنے والوں کی جانب سے اس بل کی منظوری کو ادھوری پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔ اگر ایک طرف زیربحث بل کی منظوری پر مٹھائیاں بانٹی جارہی ہیں اور ایک دوسرے کو مبارک بادیں دی جارہی ہیں تو دوسری جانب ان عناصر کی جانب سے حکومت پر انضمام میں تاخیر اور خاص کر 2018ء کے عام انتخابات میں قبائل کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کا اعلان نہ کرنے پر مسلسل دبائو بھی ڈالا جارہا ہے۔ حکومت نے چونکہ یہ قدم عجلت اور بغیر کسی مناسب منصوبہ بندی، اور خاص کر انضمام کے فیصلے کے بغیر اٹھایا ہے لہٰذا اس وجہ سے نہ صرف عمومی طور پر قبائل میں اس تاریخی اقدام کے حوالے سے نہ تو وہ جوش و خروش دیکھنے میں آرہا ہے جس کی بہت بڑے پیمانے پر توقع کی جارہی تھی، اور نہ ہی اس پیش رفت کے بارے میں تمام قبائل میں کوئی خاص شعور پایا جاتا ہے زیادہ تر لوگ یا تو گومگو کی کیفیت سے دوچار ہیں، اس کیفیت کی پہلی وجہ تو حکومت کی جانب سے انضمام کے عمل کو یکمشت کرنے کے بجائے اس عمل کو ٹکڑوں اور قسطوں میں بانٹنا ہے، جبکہ اس کی دوسری بڑی وجہ بعض ایسے اقدامات کا نہ اٹھایا جانا ہے جن کی مدد سے لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جا سکتا تھا۔ اب تک فاٹا اصلاحات کے حوالے سے جتنا شور سننے میں آیا ہے اس میں زیادہ تر زور انضمام پر دیا جاتا رہا ہے اور اس حوالے سے عام تاثر یہ تھا کہ انضمام کا فیصلہ ہوتے ہی جہاں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت ملک میں رائج عدالتی نظام کو ازخود ہی قبائلی علاقوں تک توسیع مل جائے گی وہیں قبائلی علاقے خیبر پختون خوا میں ضم ہونے کے بعد یہ علاقے انتظامی اور سیاسی طور پر اسی طرح صوبے کا حصہ بن جائیں گے جس طرح ماضی میں سوات، دیر اور چترال کی شاہی ریاستیں صوبے میں مدغم ہوگئی تھیں، یا پھر جس طرح ملاکنڈ ایجنسی کے قبائلی علاقے کو خیبر پختون خوا میں ضم کیا گیا تھا۔ لیکن حالیہ قانون سازی کے ذریعے ایسا نہ کرکے جو ادھورا قدم اٹھایا گیا ہے اس سے انضمام کا مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ اور گمبھیر صورت اختیار کرنے کے خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا، بلکہ انضمام مخالف قوتوں کو نیم دلی کے ساتھ بغیر کسی مناسب تیاری کے اٹھائے گئے اس قدم کے خلاف ایک نیا محاذ گرم کرنے کا موقع بھی ہاتھ آسکتا ہے جس سے اصلاحات کے اس دیرینہ منصوبے کے خدانخواستہ کسی بڑے سانحے سے دوچار ہونے کے امکانات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔
قومی اسمبلی سے اعلیٰ عدالتوں کی قبائلی علاقوں تک توسیع پر مبنی بل کی منظوری کے متعلق ویسے تو کئی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن اس سلسلے میں عملی طور پر چند سوالات بڑی شدومد سے اٹھائے جارہے ہیں، جن میں پہلا سوال ایف سی آر کے حال اور مستقبل سے متعلق ہے کہ آیا اس سیاہ قانون کے تحت پولیٹکل انتظامیہ کو جو عدالتی اور انتظامی اختیارات حاصل ہیں ان کا نعمل البدل کیا ہوگا، اور اس نظام کے تحت جو سینکڑوں اور شاید ہزاروں مقدمات زیر سماعت ہیں ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ جس عدالتی نظام کو قبائلی علاقوں تک توسیع دینے کا بل منظور کیا گیا ہے اس نظام کو لاگو کرنے کے لیے جس انتظامی ڈھانچے کی ضرورت ہوگی یعنی پولیس یا قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے، عدلیہ اور اس کا ماتحت عملہ، درکار جیلیں اور اس کا عملہ… یہ وہ عملی ضروریات اور تقاضے ہیں جن کے مناسب بندوبست کے بغیر منظور شدہ بل پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر سیفران اور سرتاج عزیز کمیٹی کے رکن عبدالقادر بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ تمام سوالات اور اس سلسلے میں ممکنہ خدشات اور مشکلات پہلے ہی سے ہماری نظر میں تھے لیکن ہم کو مجوزہ اصلاحات کا آغاز کہیں سے تو کرنا تھا، لہٰذا ہمارے پاس انضمام کی حتمی منزل تک پہنچنے کے لیے بتدریج پیش رفت کے سوا اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ انضمام کی راہ میں چونکہ سب سے بڑی آئینی اور قانونی رکاوٹ ایف سی آر کا نظام تھا اس لیے پہلے مرحلے میں اس کا خاتمہ اور اس کے متبادل کے طور پر ملک کے مروجہ عدالتی نظام کی قبائلی علاقوں تک توسیع ایک قانونی ضرورت تھی، اور اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قومی اسمبلی سے حالیہ بل منظور کیا گیا ہے جو جلد ہی سینیٹ سے بھی واضح اکثریت کے ساتھ پاس کروا لیا جائے گا۔
دوسری جانب سیاسی قائدین کی طرح قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ قانون نے بھی اعلیٰ عدالتوں کی قبائلی علاقوں تک توسیع پر تنقید کرتے ہوئے اعتراض اٹھایا ہے کہ حالیہ بل قبائلی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس ضمن میں اے این پی کے راہنما اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سابق رکن قومی اسمبلی عبداللطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کی قبائلی علاقوں تک توسیع کے حالیہ بل میں کئی قانونی اور آئینی سقم موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ بل کو تمام قبائلی علاقوں تک توسیع دینے کے بجائے اسے جہاں حکو متی نوٹیفکیشن سے مشروط کیا گیا ہے وہیں اس کے نفاذ میں حکومت کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ یہ اس کی صوابدید پر ہے کہ وہ منظور شدہ بل کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے اس کے نفاذ کے دائرۂ کار کو مخصوص علاقوں تک محدود کرسکتی ہے، یعنی اگر حکومت چاہے تو منظور شدہ بل کو تمام قبائلی علاقہ جات میں یکمشت نافذ کرنے کے بجائے قسطوں میں باری باری مختلف علاقوں میں نافذ کرسکتی ہے۔ اسی طرح قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے فاٹا لائرز فورم کے صدر اور معروف ماہرِ قانون اعجاز مہمند ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ نئے قانون کی منظوری کے وقت اس میں ایف سی آر کے یکمشت خاتمے کی شق بھی شامل ہونی چاہیے تھی، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اس قانون کا اُس وقت تک کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا جب تک اس کے لیے درکار انفرا اسٹرکچر قائم نہیں کردیا جاتا۔ موجودہ انتظامی ڈھانچے کی موجودگی میں حالیہ قانون کی مثال محض پیوندکاری کی ہوگی جس سے قبائل کو درپیش مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔