جاپان کے علاقے اوکایاما کے ماہرین نے کیلے کی ایک خاص قسم کی افزائش کی ہے جس کا چھلکا بھی کھایا جاسکتا ہے۔
اس خاص کیلے کو ’مونگی بنانا‘ کا نام دیا گیا ہے۔ مونگی اوکایاما زبان کا لفظ ہے جس کے معنی حیرت انگیز کے ہوتے ہیں۔ اس علاقے میں ڈی اینڈ ٹی فارم کے ماہرین نے ان کیلوں کے لیے ایک نیا اور اچھوتا طریقہ متعارف کرایا ہے جس میں اس درجہ حرارت میں کیلا اگایا جاتا ہے جب وہ 20 ہزار سال قبل سخت سردی میں نموپذیر ہونا شروع ہوا تھا۔ یہ پھل مکمل طور پر پکنے کے بعد ہی کھایا جاسکتا ہے اور اس کا چھلکا بہت پتلا ہے جسے چبانا اور کھانا بہت آسان ہے۔ اگر صرف چھلکا ہی کھایا جائے تو یہ تلخ محسوس ہوتا ہے، اسی لیے چھلکے کو گودے کے ساتھ ملا کر کھایا جائے تو یہ بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا۔ ماہرین کے مطابق اس کا چھلکا صحت کا خزانہ ہے۔ اس میں وٹامن بی 6، میگنیشیم اور دیگر اجزا موجود ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹھنڈے ماحول میں افزائش کی وجہ سے کیلے پر کیڑے مکوڑے نہیں آتے اور اس پر کوئی دوا استعمال نہیں کی جاتی۔
سوچ کے عکس کو اسکرین پر دکھانے والی حیرت انگیز جاپانی ٹیکنالوجی
جاپانی ماہرین نے ایک حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہے جو آپ کی سوچ کو پڑھ کر اُس کا عکس اسکرین پر دکھا سکتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا دل و دماغ مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹیلی جنس) سے استفادہ کرنے والا ایک خصوصی سافٹ ویئر ہے جو کسی منظر کو دیکھتے یا سوچتے وقت اس کی تفصیلات جان کر انہیں ایک ٹی وی ڈسپلے پر دکھاتا ہے۔ اسے بلاشبہ دماغی آنکھ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس عمل کو سائنسی کہانیوں یا فلموں کی طرح قرار دیا جاسکتا ہے جس میں لوگ اپنی یادوں کو اسکرین پر دوبارہ دیکھتے اور ریکارڈ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسی ایک فلم ’بلیک مِرر‘ بھی مقبول ہوئی جس میں انسانی یادداشت کو فارورڈ اور ریوائنڈ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ مزید بہتری کرکے اس ٹیکنالوجی کو خیالات، یادوں اور دیگر دماغی تصاویر اور سوچ کو اسکرین پر دکھانے کا راستہ ہموار ہوگا۔ تاہم اس کی درستی ہر شخص میں مختلف ہوسکتی ہے۔ ان تحقیقات پر مبنی ایک تحقیقی مقالہ ’’بایو آرکائیو‘‘ (Bio Arixv) نامی ویب سائٹ پر شائع ہوچکا ہے۔ ماہرین نے اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ ہم نے دماغی سوچ کی تصاویر کو ظاہر کرنے کا ایک نیا طریقہ پیش کیا ہے۔ اس میں انسان ایک منظر دیکھتا ہے اور اس کی دماغی سرگرمی کو پکسل میں دیکھا جاتا ہے جس میں گہرے نیورل نیٹ ورک کے فیچرز استعمال کیے گئے ہیں۔ اس طرح دماغی عکس نگاری کو پرت در پرت کئی سطحوں میں ظاہر کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ نیورل نیٹ ورک عین اسی طرح سیکھتا ہے جس طرح ہم کوئی شے پڑھ کر یا دیکھ کر اسے سیکھنے یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان مصنوعی نیٹ ورکس کو کسی بھی معلومات کو پہچاننے کے قابل بنایا جاسکتا ہے خواہ وہ تقریرہو، متن (ٹیکسٹ) ہو یا کوئی تصویر۔ اسی بنیاد پر چہرے پہچاننے والے نیٹ ورک بھی بنائے گئے ہیں۔
وائٹس ایپ میں بڑی سیکورٹی خامی کا انکشاف
واٹس ایپ نے اپنی اپلی کیشن کو 2016ء میں اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کے ذریعے محفوظ بنانے کا دعویٰ کیا تھا، تاہم اب بھی اس کا
استعمال اتنا خطرے سے خالی نہیں، جتنا بظاہر محسوس ہوتا ہے۔
روہر یونیورسٹی کی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ اگرچہ کمپنی کا تو دعویٰ ہے کہ ٹیکسٹ، تصاویر یا ویڈیوز وغیرہ پر مبنی پیغامات صرف بھیجنے یا موصول کرنے والا ہی دیکھ سکتا ہے، مگر اس نظام میں بہت بڑا خلاء موجود ہے اور واٹس ایپ کے کسی سرور پر کنٹرول رکھنے والا ہر فرد معمولی کوشش سے پرائیویٹ گروپ چیٹ کو پڑھ سکتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ’’سرور کا کنٹرولر بآسانی کسی بھی اجنبی کو گروپ کا رکن بناکر نئے پیغامات
حاصل کرکے انہیں پڑھ سکتا ہے، اینڈ ٹو اینڈ سیکورٹی تحفظ اتنا بھی زیادہ نہیں جتنا کمپنی بیان کرتی ہے‘‘۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ واٹس ایپ گروپس میں ایڈمن ہی بظاہر کسی نئے فرد کو پرائیویٹ چیٹ کے لیے مدعو کرسکتا ہے اور اس حوالے سے ابھی کوئی باقاعدہ میکنزم موجود نہیں۔ایک بار جب کسی شخص کو مدعو کرلیا جائے تو پرانے پیغامات تو اس کی پہنچ سے دور رہتے ہیں مگر نئے پیغامات وہ پڑھ سکتا ہے۔
محققین کے مطابق اس سیکورٹی خامی سے بظاہر تو اس ایپ کے سرور کنٹرول کرنے والے افراد ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں، تاہم اگر کسی سرور کو ہیک کرلیا جائے تو یہ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوگا۔ واٹس ایپ کے مطابق جب بھی کسی رکن کو گروپ میں شامل کیا جاتا ہے تو تمام اراکین کے پاس نوٹیفکیشن جاتا ہے، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ سیکورٹی کے لحاظ سے کچھ زیادہ بہتر انتظام نہیں بلکہ اس سے فائدہ اٹھانا آسان ہے۔