ٹرمپ کا اشتعال

اِس سال کے آغاز سے صدر ٹرمپ سخت اشتعال میں ہیں۔ حالانکہ نیا سال اُن کے لیے اچھی خبروں کی نوید لے کر آیا ہے۔ سال ختم ہونے سے چند دن پہلے امریکی کانگریس نے ٹیکسوں میں کٹوتی اور ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات کا بل منظور کرلیا جس کے لیے وہ پچھلے نو ماہ سے کوشش کررہے تھے۔ بل کی ایک ضمنی شق میں لازمی صحت بیمہ المعروف اوباما کیئر کی منسوخی کی پیش بندی بھی کردی گئی ہے۔ امریکی معیشت بہت بہتر حالت میں ہے۔ بے روزگاری کی شرح 4.1 فیصد سے کم ہوچکی ہے۔ بازارِ حصص کی تیزی تاریخی نوعیت کی ہے اور ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے انڈیکس 4500 پوائٹس اوپر چلا گیا۔ مزدوروں کی اجرتوں میں ڈھائی فیصد اضافہ ہوا اور ٹیکس میں کٹوتی کی خبر پر تمام بڑی کارپوریشنوں نے اپنے ملازمین کے لیے نقد بونس کا اعلان کیا ہے۔
اس کامیابی پر خدا کا شکر ادا کرنے کے بجائے صدر ٹرمپ نے یکم جنوری کو علی الصبح پاکستان کے خلاف ایک آتشیں ٹوئٹ داغ دی جس کی زبان کسی بھی اعتبار سے سربراہِ مملکت کے شایانِِ شان نہ تھی، کہ اعداد و شمار غلط اور مؤقف دلیل سے عاری تھا۔ دوسری ٹوئٹ میں انھوں نے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان (Kim Jong-un) کی خبر لی۔ کم جونگ نے سالِ نو کے پیغام میں جہاں جنوبی کوریا کو امن و محبت کا سندیسہ بھیجا، وہیں ممکنہ مہم جوئی پر متنبہ کرتے ہوئے دھمکی دی کہ ضرورت پڑنے پر وہ جوہری ہتھیاروں سے لیس میزائلوں کو امریکہ کی طرف روانہ کرنے میں بالکل نہیں ہچکچائیں گے، اور یہ کہ میزائل داغنے والا بٹن ہر وقت ان کی میز پر رہتا ہے۔ جواب میں صدر ٹرمپ نے فرمایا کہ ایسا ہی بٹن میرے پاس بھی ہے، بس فرق اتنا ہے کہ میرا بٹن زیادہ بڑا ہے اور یہ ناکارہ بھی نہیں۔ کم جونگ تو ہیں ہی بڑھک باز، اور وہ غیر محتاط بیانات دیتے رہتے ہیں، لیکن ایک ذمہ دار جوہری طاقت کی طرف سے اس قسم کے سطحی بیان نے ساری دنیا کو حیران کردیا۔ معلوم نہیں یہ قدرت کی طرف سے ناشکری کا کوڑا ہے یا کچھ اور کہ ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کی مداحِِ اوّل نکی ہیلی، ترجمان سارہ سینڈرز، کابل کے ڈاکٹر صاحبان اور دوسرے مقربین و مصاحبین پاکستان کے خلاف اُن کے ’’جرأت مندانہ‘‘ بیان پر مبارک سلامت کے ڈونگرے برسا ہی رہے تھے کہ 3 جنوری کے ایک سیاسی ڈرون نے انکشافات کے میزائل داغ کر سارا مزا کرکرا کردیا۔
اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ مشہور صحافی اور اشاعت کے اعتبار سے امریکہ کے سب سے بڑے اخبار USA Today کے کالم نگار جناب مائیکل وولف (Michael Woolf) کی ایک زیر اشاعت کتابFire and Fury Inside the Trump Whitehouse کے کچھ اقتباسات ایک اخبار روزنامہ نیویارک میں شائع ہوگئے۔ مائیکل وولف نے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران ہفت روزہ ہالی ووڈ رپورٹر (Hollywood Reporter) میں کچھ سیاسی مضامین لکھے جن میں جناب ٹرمپ کی تعریف کی گئی تھی۔ تعریف کے خوگر ٹرمپ اس پر پھولے نہ سمائے اور مسٹر وولف کو اپنا جگری دوست بنالیا۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد مسٹر وولف کو وہائٹ ہائوس تک رسائی دے دی گئی جہاں انھوں نے صدرکے اہلِ خانہ اور قریبی مشیروں سمیت 200 افراد سے ملاقاتیں کیں اور پھر اپنے تجربے اور گفتگو کا نچوڑ اس کتاب کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ جناب وولف کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے صدر ٹرمپ سے بھی گھنٹوں باتیں کیں، لیکن صدر نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ’’اس ناکارہ کو کبھی منہ نہیں لگایا‘‘۔
بظاہر اس کتاب میں کوئی چشم کشا انکشافات نہیں، بلکہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ کہانیاں پہلے ہی زبان زدِ عام ہیں، تاہم کچھ نکات خاصے دلچسپ ہیں، مثلاً:
٭ٹرمپ مہم کے کسی بھی کارکن کو ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی امید نہیں تھی، حتیٰ کہ انتخاب والے دن دوپہر تک انتخابی مہم کی سربراہ کیلی این کونوے بالکل مایوس تھیں۔
٭مصنف کے مطابق صدر ٹرمپ نے خود کہا کہ انھیں الیکشن جیتنے سے زیادہ دلچسپی اس بات سے ہے کہ وہ دنیا کے مشہور ترین فرد بن جائیں۔
٭صدر ٹرمپ کے قریبی مشیر جن میں وزیر خزانہ منوچن، قومی سلامتی کے لیے اُن کے مشیر جنرل مک ماسٹر اور وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن شامل ہیں، صدر کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے، اور کچھ نے نجی محفل میں صدر کو کم عقل، بیوقوف اور احمق کہا۔
٭مسٹر وولف کے مطابق انہوں نے صدر ٹرمپ کے جن مشیروں اور مقربین سے بات کی اُن سب نے یہی کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بالکل ’’بچے کی طرح’’ ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کی ہر شرارت پر تالیاں بجیں اور ہر کام پر Good boyکی طرح اُن کی تعریف کی جائے۔
٭ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا نے اپنے والد کے ’گھنے بالوں‘ کا مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا کہ ان کے ڈیڈی اپنے گنج کو چھپانے کے لیے آرائشِِ گیسو بہت اہتمام سے کرتے ہیں اور بالوں کو اپنی جگہ رکھنے کے لیے خاص قسم کا اسپرے استعمال کیا جاتا ہے۔
اسلامی دنیا کے حوالے سے اس کتاب میں صدر ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے بارے میں تفصیلی مواد موجود ہے، جس کے مطابق:
٭ریاض میں قیام کے دوران صدر ٹرمپ اور اُن کے اہلِ خانہ کو سونے کی گولف گاڑیوں (Golf Carts) میں گھمایا گیا۔
٭ان کے اعزاز میں جو دعوت دی گئی اس پر ساڑھے سات کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔
٭سب سے دلچسپ یہ کہ اس دعوت میں صدر ٹرمپ کے بیٹھنے کے لیے شاہی تخت کی مانند ایک کرسی رکھی گئی تھی۔
٭اس آئو بھگت پر صدر ٹرمپ اس قدر خوش تھے کہ انھوں نے وہیں سے فون کرکے اپنے امریکی دوستوں کو بتایا کہ میری حکمت عملی بہت کامیاب ہے اور اوباما نے اپنی حماقت سے سارے معاملات الجھا دیئے تھے۔
٭مائیکل وولف کے مطابق جب مارچ میں سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے فون پر یقین دلایا کہ ان کے پاس صدر ٹرمپ کے لیے بڑی اچھی خبر ہے تو انہیں وہائٹ ہائوس آنے کی دعوت دی گئی۔ ملاقات میں شہزادہ محمد بن سلمان نے جس غیرمعمولی گرم جوشی سے ڈونلڈ ٹرمپ کو گلے لگایا اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ شہزادے صاحب اپنے اقتدار کے چکر میں ہیں۔ اس دوران شہزادہ محمد بن سلمان نے (اسلحہ کے) سودوں سے بھرا ٹوکرا ٹرمپ کی نذر کیا اور طے پایا کہ اعلان امریکی صدر کے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر ہوگا۔
٭ریاض کے دورے کے چند ہفتوں ہی بعد ٹرمپ کے داماد جیررڈ کشنر نے ’بڑی ترکیب‘ سے شہزادہ محمد بن سلمان کو جو اُس وقت نائب ولی عہد تھے، ولی عہد بنوادیا۔
٭سابق ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف بھی امریکہ اور مغرب کے وفادار تھے لیکن جیررڈ کشنر کا خیال تھا کہ محمد بن سلمان امریکہ کے لیے ’زیادہ کام‘ کے ہیں۔
٭مصنف کے مطابق صدرٹرمپ نے اپنی ٹیم کے تجربہ کار لوگوں کو چھوڑ کر اپنے داماد جیررڈ کشنر کو مشرق وسطیٰ کی ذمے داری اس لیے سونپی ہے کہ جیررڈ راسخ العقیدہ یہودی ہیں اور صدر ٹرمپ کے خیال میں یہودیوں کو بات چیت کرنی خوب آتی ہے، اور امریکی صدر کو توقع ہے کہ ان کے داماد اپنی ذہانت سے خود کو ہنری کسنجر ثابت کردیں گے۔
کتاب میں بڑا دلچسپ انکشاف اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر محترمہ نکی ہیلی کے بارے میں ہے، یعنی:
٭مصنف کے مطابق امریکی وزارتِ خارجہ میں نکی ہیلی انتہائی غیر مقبول بلکہ بدنام ہیں، اور ان کے ساتھی انھیں جاہ پرست چڑیل (Lucifer) کہتے ہیں۔ تاہم نکی صدر کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ کی بہت قریبی سہیلی ہیں اور ایوانکا ہی نے اُن کے لیے اقوام متحدہ کا راستہ ہموار کیا۔
٭ایوانکا کی مہر و عنایت کے جواب میں نکی ہیلی کی بدنیتی کا یہ عالم ہے کہ موصوفہ کا خیال ہے کہ (اپنی کم عقلی کی بنا پر) صدر ٹرمپ صدارت کی ایک ہی مدت نکال پائیں گے جس کے بعد نکی صاحبہ امریکی صدر بننے کے خواب دیکھ رہی ہیں۔
٭ایوانکا ٹرمپ اپنی سہیلی کو امریکی وزیرخارجہ بنانا چاہتی ہیں۔ موجودہ وزیرخارجہ کے استعفے کی افواہ ایک عرصے سے گرم ہے اور اگر ریکس ٹلرسن مستعفی ہوئے تو ایوانکا اپنے’ابو‘ سے کہہ کر نکی ہیلی کو امریکہ کا وزیرخارجہ بنوا دیں گی، اور ایک اور سہیلی دینا پاول (Dina Powel) اقوام متحدہ میں نکی ہیلی کی نشست سنبھال لیں گی۔
٭صدرٹرمپ کے سابق مشیر اور Chief Strategist اسٹیو بینن (Steve Bannon) نکی ہیلی کی عیاری سے اچھی طرح واقف تھے اس لیے وہ ریکس ٹلرسن کے مستعفی ہونے کی صورت میں سی آئی اے کے سربراہ مائک پومپیو (Mike Pompeo) کو وزیر خارجہ کے لیے تیار کررہے تھے۔
جس بات پر صدر ٹرمپ شدید مشتعل ہیں اس کا تعلق مسٹر اسٹیو بینن کے مبینہ ارشادات سے ہے۔ جناب بینن مسلم مخالف نسل پرست صحافی اور ایک قدامت پسند میڈیا گروپ Breitbart News کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے اگست 2016ء یعنی انتخاب سے تین ماہ قبل ٹرمپ کی انتخابی مہم کے انتظامی سربراہ کی ذمے داری سنبھالی تھی اور جب مسٹر ٹرمپ امریکہ کے صدر بنے تو اسٹیو بیین کو وائٹ ہائوس کا Chief Strategist مقرر کیا گیا۔ گزشتہ سال اگست میں صدر ٹرمپ نے اسٹیو بینن کو برطرف کردیا۔
مصنف کے مطابق اسٹیو بینن نے بتایا کہ صدر کے فرزند ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر، ان کے داماد جیررڈ کشنر اور انتخابی مہم کے سابق سربراہ پال مانافورٹ (Paul Manafort) نے ایک روسی وکیل محترمہVeselnitskaya Natalia سے ملاقات کی جنھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کے بارے میں ناقابلِ تردید منفی مواد فراہم کرنے کا یقین دلایا تھا۔ یہ ملاقات جون 2016ء میں نیویارک کے ٹرمپ ٹاور میں ہوئی جو انتخابی مہم کا صدر دفتر تھا۔ اسٹیوبینن کے مطابق ملاقات سے قبل ٹرمپ جونیئر نے کہا کہ ’’کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی ایسا ’مصالحہ‘ مل جائے جس سے مسزکلنٹن کو نقصان پہنچایا جاسکے‘‘ تاہم ملاقات کے بعد صدر کے صاحبزادے نے کہا کہ روسی خاتون کے پاس کوئی ڈھنگ کا مواد نہیں تھا۔کتاب کے مصنف نے تحریر کیا کہ اسٹیو بینن نے ملاقات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے رویّے کو جذبۂ حب الوطنی کے خلاف اور غداری قرار دیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ روسی مداخلت کے بارے میں تفتیش میں ٹرمپ جونیئر کو شہادت دینے کے لیے طلب کیا جاسکتا ہے۔
اسٹیو بینن نے مبینہ طور پر یہ بھی کہا کہ جب انھوں نے انتخابی مہم کی ذمے داری سنبھالی اُس وقت ٹیم مایوسی کا شکار تھی اور کسی کو بھی ٹرمپ کی کامیابی کی امید نہ تھی۔ خود ڈونلڈ ٹرمپ بھی مہم پر پیسہ خرچ نہیں کررہے تھے اور انھیں یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ ایک ارب پتی آدمی کی انتخابی مہم ایسی کسمپرسی کا شکار ہے۔
کتاب میں اسٹیوبینن سے منسوب بیانات دیکھ کر صدر ٹرمپ کو جلال آگیا اور ٹوئٹ داغنے کے بجائے ایک طویل تحریری بیان جاری کیا جس میں انھوں نے اور بہت ساری باتوں کے ساتھ کہا کہ نوکری سے نکالے جانے کے بعد اسٹیو کا دماغ جواب دے گیا ہے۔ اسٹیوبینن مہم کے آخری مرحلے میں ہمارے ساتھ آئے تھے اور میری کامیابی میں اُن کا کوئی ہاتھ نہیں۔ انھوں نے اپنے سابق دوست اور مشیر کو ’’میل‘‘، ’’جھوٹا‘‘، ’’احسان فراموش‘‘، ’’نامراد‘‘، اور ’’دھتکارا ہوا کتا‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اسٹیوبینن جب تک وہائٹ ہائوس میں رہے وہ جھوٹی خبریں میڈیا کو افشا کرتے رہے۔
صدر ٹرمپ اور قدامت پسند میڈیا نے اس جسارت پر مسٹر اسٹیوبینن کا ناطقہ بند کردیا۔ ان کے ادارے برائبرٹ نیوز (Breibert News) کو عطیات کی فراہمی روک دی گئی، اور سب سے زیادہ عطیہ دینے والی کروڑپتی خاتون ربیکا مرسر (Rebecca Mercer) نے صاف صاف کہا کہ اسٹیوبینن کی معافی یا برائبرٹ سے برطرفی تک وہ ادارے کو ایک کوڑی بھی نہیں دیں گی۔ ایسے ہی عزم کا اظہار محترمہ سوزی برائبرٹ نے کیا جن کے آنجہانی شوہر نے یہ اداراہ قائم کیا تھا۔ دبائو میں آکر اسٹیوبینن نے ٹرمپ خاندان سے معافی مانگ لی۔ اپنے تحریری معذرت نامے میں اسٹیوبینن نے وضاحت کی کہ ان کا روئے سخن ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کی طرف نہیں بلکہ انتخابی مہم کے سربراہ پال منافورٹ کی طرف تھا۔ وہ ٹرمپ خاندان کو انتہائی محب وطن اور امریکہ کا خیر خواہ سمجھتے ہیں اور ٹرمپ جونیئر پر غداری کے الزام کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ محترم قارئینِ کرام!! کم ہمت اور لوٹا صفت لکھاریوں سے صرف ہماری صحافت ہی داغ دار نہیں، آزادیٔ اظہار کا دعویٰ کرنے والوں کے ماتھے پر بھی کلنک کے ایسے ہی ٹیکے چمک رہے ہیں۔
اقتباسات کی اشاعت کے ساتھ ہی جمعرات 4 جنوری کی صبح صدر ٹرمپ کے وکیل نے کتاب کے ناشر، طابع اور مصنف کو قانونی نوٹس جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ اس کتاب کی تقسیم فوری طور پر روک دی جائے ورنہ ذمے داروں کے خلاف ازالہ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ دائر کیا جائے گا۔ لیکن ناشر Henry Holt and Company نے قانونی نوٹس کو مسترد کرتے ہوئے کتاب کو 4 دن پہلے یعنی جمعہ کو ہی اشاعتِ عام کے لیے جاری کردیا۔
یہ انکشافات دلچسپ تو ہیں لیکن ان کے زیادہ تر نکات اُن کہانیوں پر مشتمل ہیں جو زبان زدِ عام ہیں۔ مثلاً روسی وکیل سے ملاقات کے ضمن میں اسٹیوبینن کے تبصرے کو انکشاف کہا جاسکتا ہے، لیکن یہ خبر بہت پہلے سے عام ہے۔ نکی ہیلی کے بارے میں جو باتیں افشا ہوئیں وہ واقعی حیرت ناک ہیں کہ جنوبی کیرولائنا (South Carolina) کی سابق گورنر کو ایک باکردار سیاست دان سمجھا جاتا ہے جنھوں نے ری پبلکن پارٹی کے پرائمری انتخابات میں صدر ٹرمپ کی مخالفت کی تھی۔ جہاں تک صدر کے ساتھیوں کے تضحیک آمیز تبصروں کا تعلق ہے تو وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کے حوالے سے یہ خبر پہلے بھی شائع ہوچکی ہے کہ انھوں نے نجی محفل میں صدر ٹرمپ کو Moron یا نادان کہا تھا جس کی ٹلرسن کی جانب سے واضح تردید آچکی ہے۔ صدر کی تلون مزاجی اور غیر متوازن شخصیت کا مشاہدہ ان کی انتخابی مہم کے وقت سے ہورہا ہے۔ وہ بہت جلد مشتعل ہوجانے والے مغلوب الغضب آدمی ہیں اور غصے میں آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ بدنصیبی سے صدر ٹرمپ ذخیرۂ الفاظ کے باب میں تہی دامنی کا شکار ہیں اس لیے وہ مافی الضمیر عمدہ طریقے پر بیان نہیں کرپاتے، اور ان کے بیانات اور تقریروں میں الفاظ کی تکرار قارئین و سامعین کو سخت ناگوار محسوس ہوتی ہے۔ صدر ٹرمپ کا بچکانہ طرزعمل کوئی نئی بات نہیں۔ سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کی قیادت کو بھی اس سلسلے میں شکایات ہیں۔ اس کتاب پر ان کے غیر ضروری، جذباتی اور شدید ردعمل نے تصنیف کو اس سال کی سب سے مقبول کتاب بنادیا ہے۔ Amazon کا کہنا ہے کہ بدھ کی رات سے آن لائن آرڈر کا تانتا بندھا ہوا ہے اور سیاسی نوعیت کی کسی بھی کتاب کا ایسا استقبال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ شدید سردی کے باوجود امریکی دارالحکومت میں دکانوں پر خریداروں کی بھیڑ نظر آرہی ہے۔ اتوار کی صبح تک کتاب کے سارے نسخے فروخت ہوچکے تھے اورغیر معمولی طلب کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر لاکھوں نئے نسخے چھاپے جارہے ہیں۔ اس تاریخی مقبولیت پر مصنف نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا ہے کہ جن کے ردعمل نے اس کتاب کو مقبولیت کے بام عروج پر پہنچادیا۔ اپنے ایک ٹوئٹ میں مائیکل وولف نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس احسانِ عظیم پر وہ صدر ٹرمپ کے لیے چاکلیٹ کا ایک ٹوکرا تحفتاً بھیجنا چاہتے ہیں۔ گر قبولِ افتد زہے عزوشرف۔