سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کچھ برس قبل پاکستان امریکہ تعلقات کے بارے میں یہ کہا تھا کہ اس کو ساس اور بہو کے درمیان تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے۔اُن کے بقول دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری اور بگاڑ کا پیدا ہونا فطری امر ہے اور تعلقات کے اس بگاڑ کو بنیاد بناکر ایک دوسرے سے آسانی کے ساتھ دامن نہیں چھڑایا جاسکتا۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی ریاست، حکومت اور دہشت گردی سے نمٹنے کے تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر جو شدید ردعمل پاکستان میں دیکھنے کو ملا، وہ فطری امر تھا۔ کیونکہ پہلے ہی پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات شدت سے پائے جاتے ہیں اور ان حالیہ بیانات نے اس شدت کو اور زیادہ طاقت فراہم کی ہے۔ یہ عمل کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوا، اور یقینی طور پر اس میں امریکی پالیسی اور بالخصوص ٹرمپ کی جانب سے پاکستان اور مسلم دشمنی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ مسئلہ محض پاکستان تک محدود نہیں بلکہ اسلامی دنیا میں بھی امریکہ مخالف جذبات کو نمایاں طور پر دیکھا اور محسوس کیا جارہا ہے۔ خود امریکہ میں بھی سنجیدہ اہلِ دانش ٹرمپ کے حالیہ بیانات پر سخت تنقید کررہے ہیں اور ان کے بقول ٹرمپ کا یہ طرزعمل خود امریکہ کے حق میں بھی نہیں ہوگا۔ امریکی صدر کے بیانات کو انتہا پسند تنظیمیں بھی نمایاں طور پر اپنے حق میں استعمال کررہی ہیں جو خود امریکہ سمیت عالمی برادری کے حق میں نہیں، کیونکہ یہ عمل دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو طاقت فراہم کرے گا۔
پاکستان بطور ریاست اس وقت انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس جنگ کے حوالے سے ماضی کے جو تضادات اور فکری مغالطے تھے اُن پر بھی حقیقی معنوں میں پاکستان نے مکمل نہیں تو بہت حد تک قابو پاکر خود سے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے۔ بالخصوص انتظامی اور سیکورٹی کے تناظر میں ہم نے دہشت گردی پر نہ صرف بہت حد تک قابو پایا ہے بلکہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو تباہ اور اُن کے گروپوں کو بھی کمزور کیا ہے۔ اسی طرح اس جنگ کے تناظر میں داخلی محاذ پر جو فکری مسائل تھے مثلاً یہ جنگ پاکستان کی ہے یا امریکہ کی، اس پر بھی قابو پایا، اور اب یہ جنگ خالصتاً پاکستان کے مفاد کو سامنے رکھ کر لڑی جارہی ہے۔
پاکستان کی، دہشت گردی سے نمٹنے کی کوششوں کو جہاں داخلی سطح پر پذیرائی حاصل ہے وہیںعالمی سطح پر اور بالخصوص وہاں کے مختلف تھنک ٹینکس کی رپورٹوں میں بھی پاکستان کے کردار کو سراہا جارہا ہے۔ اگرچہ داخلی اور خارجی محاذ پر بہت سے ایسے ممالک، تھنک ٹینک اور دیگر فریقین ہیں جو ہمارے کردار کو اس جنگ میں شک کی نگاہ سے دیکھ کر اپنے تحفظات پر مبنی سوالات اٹھاتے ہیں۔ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کے مجموعی کردار میں یہ تحفظات دیکھنے کو نظر آتے ہیں۔ امریکہ کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ سمجھتا ہے پاکستان سے بہت کچھ حاصل کرنے کے لیے دبائو کی پالیسی برقرار رکھنی چاہیے۔ کیونکہ اس خطے میں امریکہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو بھی سمجھتا ہے اور افغانستان میں پاکستان کے مفادات کے تحت اس کے کردار کو شامل کیے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی صدر اور امریکی سینیٹ میں ایسے بہت سے لوگ اور ادارے ہیں جو پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے زیادہ اثر میں ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ تو بھارت کو اپنا ایک بڑا حلیف بھی سمجھتے ہیں۔ بھارت خود بھی سفارتی محاذ پر پاکستان پر دبائو بڑھانے کی پالیسی میں امریکی کارڈ کھیلتا بھی ہے اور اس پر دبائو بھی بڑھاتا ہے کہ وہ پاکستان کو ٹف ٹائم دے۔ امریکہ کی یہ کوشش نئی نہیں، وہ پہلے بھی خطے میں بھارت کی بالادستی کو تسلیم کرنے کا ہمیں پیغام دیتا رہا ہے۔ بعض دفعہ پاکستان پر اختیار کیا گیا سخت مؤقف بھارت کو سیاسی طور پر خوش کرنے کی کوشش بھی ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ یقینی طور پر بھارت اٹھاتا ہے اور امریکہ کی مدد سے وہ خود بھی پاکستان پر دبائو بڑھا کر ہمارے داخلی استحکام کو کمزور کرنے کے کھیل میں حصہ دار ہے۔
بنیادی طور پر اس وقت امریکہ میں پاکستان کے تناظر میں چار اہم نکات زیر بحث ہیں:
اول: خطے میں بدلتی ہوئی سیاسی اور سیکورٹی صورتِ حال میں مختلف ممالک میں نئی گروپ بندیاں۔
دوئم: چین کا خطے میں بڑھتا ہوا اثرو نفوذ اور سی پیک کا معاہدہ۔
سوئم: افغانستان میں امریکی مفادات اور پاکستان کا کردار۔
چہارم: دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کا مجموعی کردار اور اس کا خطے میں معاونت کا کردار۔
یہ وہ نکات ہیں جن کو بنیاد بناکر امریکہ ہمارے لیے بھی اور خطے کے لیے بھی اپنی پالیسی مرتب کرتا ہے۔ عمومی طور پر امریکہ کی پالیسی میں ابہام موجود ہے اور اس کا نقصان امریکہ سمیت خود خطے کی سیاست کو بھی ہورہا ہے۔
جبکہ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اسے قربانی کا بکرا بنا کر اور اس کے خلاف الزام تراشی کی سیاست کرکے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے جس میں اس کی افغان معاملات اور جنگ میں ناکامی اور شکست بھی شامل ہے۔ دوسری جانب امریکہ کا یہ الزام کہ اس نے پاکستان کی اربوں ڈالر کی مالی امداد کی ہے اور اس میں شفافیت نہیں، یا پاکستان نے ہمیں بے وقوف بنایا اور جھوٹ بولا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں ہم نے خود زیادہ مالی، جانی اور انتظامی قربانی دی ہے، جس کا عالمی سطح پر ادراک نہیں کیا جارہا۔ اسی طرح ان امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں پورا خطہ بشمول بھارت، افغانستان، ایران اور پاکستان دہشت گردی کا مرکز بنے اور سرحد پار دہشت گردی کی بھاری قیمت پاکستان کو ادا کرنا پڑرہی ہے، جس میں بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں ’را‘ اور ’این ڈی ایس‘ کا کردار نمایاں ہے جن کا ایجنڈا پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ جبکہ اس خطے میں داعش کا ابھرنا بھی امریکہ اور افغان حکومت کی ناکام پالیسیوںکا نتیجہ ہے اور اس کا اثر ہم پر بھی منفی پڑرہا ہے جو ہمیں متبادل پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کررہا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں پاک امریکہ تعلقات کو کس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یہ عمل کسی بھی صورت میں جذباتی اور کم عقلی پر مبنی نعروں کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔ جو مولا جٹ اسٹائل امریکی صدر نے اختیار کیا ہے ہماری ریاست، حکومت، اہلِ دانش کو اس سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ یہ محض امریکی صدر ٹرمپ کا بیان ہے، جبکہ ہمیں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے مجموعی کردار کو سمجھنا ہوگا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ پاکستان کی اہمیت کیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا کردار نہ صرف اہم ہے بلکہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہ کچھ نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے آج بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ میں ہماری اہمیت ہے اور ہمیں اس کو اپنی طاقت کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ دوسرا، امریکہ کی مجبوری ہے کہ وہ بھارت کو خوش کرنے کے لیے یا اپنے مزید مفادات حاصل کرنے کے لیے ہمیں دبائو میں لاتا ہے۔ ہمیں اس وقت جوش سے نہیں، ہوش سے معاملات کو سمجھنا ہوگا۔
امریکی صدر کے سیکورٹی امور کے مشیر اور ماہر ایچ آر مک ماسٹر کے بقول ’’پاکستان سیاسی، سماجی، سیکورٹی اور معاشی بنیادوں پر آگے بڑھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمیں پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ ان کے بغیر ہم افغانستان میں بہتری کے تناظر میں کچھ حاصل نہیں کرسکیں گے‘‘۔ انہوں نے خود امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اس عمل میں ہمیں برابری کی بنیاد پر اعتماد سازی، عزت اور تعاون کو آگے بڑھانا ہوگا اور اس میں تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اسی طرح جارج میسن یونیورسٹی کے امریکی ماہر پروفیسر جیمزوٹ کا کہنا ہے کہ ’’ٹرمپ کے حالیہ بیان نے جنوبی ایشیا میں اہم پارٹنرشپ کو نقصان پہنچایا۔ ان کے بقول پاک امریکہ تعلقات میں بگاڑ کسی کے مفاد میں نہیں اور امریکہ پاکستان کے بغیر کچھ حاصل نہیں کرسکے گا۔‘‘
اس لیے ہمیں بہت زیادہ پریشان ہونے اور جذباتیت اختیار کرنے کے بجائے داخلی اور خارجی محاذ پر اپنی پالیسیاں مزید بہتر بناکر آگے بڑھنا ہوگا۔ ہماری حکومت اور وزیر خارجہ سمیت دیگر وزرا جو لب ولہجہ اختیار کررہے ہیں اس سے مزید تلخی پیدا ہوگی۔ امریکہ کو نظرانداز کرکے آگے بڑھنا ممکن نہیں، ہمیں متبادل راستہ ضرور اختیار کرنا چاہیے مگر امریکہ کے ساتھ لاتعلقی بھی ممکن نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہم جذباتی رنگ اور مقبولیت کے لیے عوامی سطح پر لوگوں کو استعمال کرتے ہیں جبکہ اندرونِ خانہ امریکہ کے اتحادی ہوتے ہیں، اس تضاد سے باہر نکلنا ہوگا۔ اسی طرح اگر سوال مالی امداد کی شفافیت پر اٹھائے گئے ہیں تو اس پر بھی جذباتی رنگ اختیار کرنے کے بجائے شواہد پر اس امداد کا آڈٹ پیش کرکے اپنی شفافیت دکھانی چاہیے۔
ہمیں اس وقت امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے چار بنیادی امور پر توجہ دینا ہوگی۔ اول ہمیں سفارتی محاذ پر ایک سرگرم کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمارے جو بھی تحفظات ہیں ان کو ثبوت اور شواہد کے ساتھ دنیا کے اہلِ دانش یا تھنک ٹینک میں پیش کرنا ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ساری حکمت عملی ردعمل کی سیاست سے جڑی ہے۔ ہمیں اس مسئلے پر ایک لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسی درکار ہے، اور اس میں علاقائی سیاست میں اپنے کردار میں بہتری پیدا کرکے اپنی اہمیت بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔ دوئم، ہمیں امریکہ سمیت عالمی برادری میں مقابلے کے لیے اپنی داخلی سیاست کے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ داخلی کمزوری کے باعث ہم عالمی یا علاقائی سطح پر کچھ نہیں کرسکیں گے۔ سوئم، سول ملٹری تعلقات میں جو بداعتمادی ہے، اس کو بھی ختم کرکے معاملات کو درست کرنا ہوگا اور مقابلہ بازی کے رجحان سے باہر نکلنا ہوگا۔ چہارم، ہماری قیادت کو ذاتی مفادات پر مبنی سیاست سے باہر نکل کر قومی مفاد میں بڑے سیاسی فریم ورک کو سمجھ کر حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی، اورجو تحفظات جنگ، مالی اور سیاسی معاملات پر دنیا کو ہیں اس کے مقابلے میں اپنے حق میں ایک متبادل بیانیہ پیش کرنا ہوگا جو دلیل، منطق اور شواہد پر مبنی ہو۔ یہ وقت نہیں کہ ہم اپنی جذباتی کیفیت کی بنیاد پر اپنے لیے بھی مسائل پیدا کریں اور دوسروں کو بھی ان مسائل میں الجھائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی کردار کے حوالے سے کئی سوالیہ نشان موجود ہیں اور ان کا حل خود پاکستان کی داخلی خودمختاری اور سلامتی کے لیے بھی اہم ہے، اور اس پر ہماری پوری توجہ ہونی چاہیے۔