ایم ایم اے مخالف نئے انتخابی اتحاد کے امکانات

پشاور میں دفاعِ پاکستان کونسل کے زیراہتمام منعقد ہونے والی تحفظ القدس شریف ریلی میں وزیراعلیٰ پرویزخٹک کی شرکت نے جہاں پی ٹی آئی کی اندرونی صفوں میں ہلچل مچادی ہے، وہیں وزیراعلیٰ کے اس اقدام پر اپوزیشن جماعتیں بالخصوص اے این پی اور پیپلز پارٹی جیسی سیکولر جماعتیں بھی خوب گھن گرج کے ساتھ برس رہی ہیں۔ واضح رہے کہ دفاع پاکستان کونسل جس میں چالیس کے قریب دائیں بازو کی چھوٹی بڑی مذہبی جماعتیں شامل ہیں اور جس کی سربراہی اس تنظیم کے قیام کے وقت سے جمعیت (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے پاس ہے، نہ صرف ایک غیر انتخابی ڈھیلا ڈھالا اتحاد ہے بلکہ اس میں زیادہ تر وہ جماعتیں شامل ہیں جو یا تو انتخابی جدوجہد پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتیں، یا جن کا نہ تو کوئی مضبوط اور معلوم انتخابی ووٹ بینک ہے اور نہ ہی سوائے جماعت اسلامی اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کے، اس اتحاد میں شامل کسی دوسری جماعت اور تنظیم کی کسی منتخب فورم میں کوئی نمائندگی ہے۔ حتیٰ کہ دفاعِ پاکستان کونسل کے سدابہار چیئرمین مولانا سمیع الحق جو خود تو انتخابی جمہوریت کے قائل ہیں لیکن انہیں نہ تو بغیر کسی سہارے اور انتخابی اتحاد کے آج تک کسی انتخابی میدان میں کبھی کوئی پذیرائی ملی ہے اور نہ ہی دفاع پاکستان کونسل کے دوسرے فعال راہنما حافظ محمد سعید انتخابی خاص کر جمہوری جدوجہد اور جمہوری طرزِ سیاست و حکومت پر یقین رکھتے ہیں، لیکن چونکہ اِن دنوں ان کی تنظیم جماعت الدعوہ اور اس کی ذیلی فلاحی تنظیم فلاحِ انسانیت فائونڈیشن پر بین الاقوامی دبائو کے تحت نہ صرف پابندی عائد ہے بلکہ امریکہ اور بالخصوص بھارت کی جانب سے حافظ سعید کی گرفتاری اور اُن کی بھارت کو حوالگی کے حوالے سے بھی پاکستان پر امریکہ اور بھارت کی جانب سے مسلسل دبائو ڈالا جاتا رہا ہے جس کا پاکستان نے اب تک تو استقامت سے مقابلہ کیا ہے، لیکن حالیہ دنوں میں ان مجوزہ پابندیوں کے حوالے سے بڑھنے والے دبائو کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس حوالے سے آنے والے دن پاکستان کی مشکلات میں یقینا مزید اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ دفاع پاکستان کونسل نے بنیادی طور پر دفاع افغانستان کونسل کے بطن سے اُس وقت جنم لیا تھا جب امریکہ نے نائن الیون(9/11) کے واقعے کے خلاف بطور ردعمل افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کیا تھا، اور اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے میں پاکستان سے عملی تعاون طلب کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب طالبان حکومت اور افغان عوام کی حمایت میں پوری پاکستانی قوم دفاعِ افغانستان کونسل کے پلیٹ سے ہونے والے احتجاج میں شامل ہوگئی تھی۔ یہ دراصل وہی وقت تھا جب افغانستان پر امریکی افواج قابض ہوگئی تھیں اور وہاں سے طالبان حکومت کا خاتمہ کرکے امریکہ بون کانفرنس کے توسط سے کابل میں اپنی منظورِ نظر حامد کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا، تب جب دفاع افغانستان کونسل کے راہنمائوں نے دیکھا کہ زمینی حقائق نہ صرف تبدیل ہوچکے ہیں بلکہ یہ ان کے ہاتھوں سے نکل بھی چکے ہیں تو ایسے میں مذہبی قیادت نے دفاع افغانستان کونسل کو پہلے دفاعِ افغانستان و پاکستان کونسل میں تبدیل کردیا تھا، جبکہ بعد میں حالات اور ہوا کا رخ دیکھ کر اسے دفاعِ پاکستان کونسل بنا کر قومی اور علاقائی مسائل بالخصوص پاکستان کو بھارت اور امریکہ کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کے خلاف احتجاج تک محدود کردیا تھا۔ دفاع پاکستان کونسل جس کا کوئی باقاعدہ تنظیمی ڈھانچہ تو نہیں ہے البتہ پاکستان پر جب بھی کسی بیرونی طاقت کی جانب سے دبائو ڈالا جاتا ہے تو دفاعِ پاکستان کونسل میدان میں نکل کر ایسے کسی دبائو کے خلاف نہ صرف عوامی سطح پر اپنے احتجاج کے ذریعے اس دبائو کو زائل کرنے کی کوشش کرتی ہے یہاں اس امر کی نشاندہی بھی قرین مصلحت ہوگی کہ 2007ء میں ایم ایم اے کے غیر فعال ہونے کے بعد بعض مواقع پر دفاعِ پاکستان کونسل کو انتخابی اتحاد میں تبدیل کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ لہٰذا اب جب ایک جانب ایم ایم اے دوبارہ بحال ہوچکی ہے لیکن دوسری جانب چونکہ بحال ہونے والی ایم ایم اے مولانا سمیع الحق کے بغیر بحال ہوئی ہے اور مولانا سمیع الحق نہ صرف یہ کہ نئی بحال ہونے والی ایم ایم اے کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ وہ اگر ایک طرف دوٹو ک الفا ظ میں بحال ہونے والی ایم ایم اے میں واپسی سے انکاری ہیں تو دوسری طرف انھوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا عندیہ دے کر ایم ایم اے کی قیادت کو اپنی راہیں جدا کرنے کا واضح پیغام بھی دے دیا ہے۔ یہاں اس بات کی نشاندہی بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مولانا سمیع الحق کو منانے اور انہیں ایم ایم اے میں واپس لانے کے لیے جید علمائے کرام کا جرگہ جن میں مفتی غلام الرحمن، مولانا محمد ادریس، مولانا مغفور اللہ، مولانا عبدالحلیم دیر بابا جی، مولانا عزیزالرحمن ہزاروی اور مولانا حسین احمد ناظم وفاق المدارس العربیہ شامل تھے، مو لانا سمیع الحق سے پانچ گھنٹے تک طویل مذاکرات کرنے کے باوجود نہ صرف ناکام لوٹا ہے بلکہ اس جرگے پر مولانا سمیع الحق نے واضح کیا ہے کہ ان کا ایم ایم اے میں شامل نہ ہونے اور پی ٹی آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ حتمی اور اٹل ہے، لہٰذا جمعیت (س) دوبارہ کسی بھی قیمت پر ایم ایم اے میں شامل نہیں ہوگی۔ اس صورتِ حال میں مولانا سمیع الحق کی پی ٹی آئی کی قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں اور خاص کر گزشتہ اتوار کو دفاعِ پاکستان کونسل کے جلسہ عام اور بعد ازاں وزیراعلیٰ ہائوس میں دفاعِ پاکستان کونسل کے راہنمائوں کے مولانا سمیع الحق کی قیادت میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے تناظر میں دفاع پاکستان کونسل کو انتخابی اتحاد بنانے کی افواہیں ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہیں۔ اس سلسلے میں کہا جارہا ہے کہ یہ حالیہ پیش رفت شیخ رشید احمد کی جانب سے دیکھنے میں آرہی ہے جو اگر ایک جا نب پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں تو دوسری طرف دفاعِ پاکستان کونسل میں بھی نہ صرف شامل ہیں بلکہ اس اتحاد کو ایم ایم اے بالخصوص جمعیت (ف) اور مسلم لیگ (ن) کی مخالفت میں مذہبی جماعتوں کے ایک ایسے متبادل اتحاد کی شکل میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں جو پی ٹی آئی کا حلیف ہو۔ بعض سیاسی تجزیہ کار دفاعِ پاکستان کونسل کے جلسۂ عام میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی شرکت اور بعد ازاں شیخ رشید اور مولانا سمیع الحق سمیت دیگر راہنمائوں کی وزیراعلیٰ ہائوس میں ہونے والی آئوبھگت کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ آیا دفاعِ پاکستان کونسل واقعتا انتخا بی اتحاد کا روپ دھارتی ہے، یا اس اتحاد میں شامل جماعتیں آئندہ انتخابات میں مولانا سمیع الحق اور پی ٹی آئی کے مجوزہ اتحاد کی غیر مشروط طور پر حمایت کرتی ہیں۔ یہی وہ ون ملین ڈالر کا سوال ہے جس پر دفاعِ پاکستان کونسل کو کسی ممکنہ انتخابی اتحاد میں بدلنے کے جواب کا انحصار ہے۔