بظاہر تو سب کچھ معمول کے مطابق لگ رہا ہے، سینیٹ کے انتخابات بھی ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں، سینیٹ کی ہول کمیٹی کو آرمی چیف کی جانب سے دی گئی بریفنگ نے بھی بہت کچھ کھول کر رکھ دیا ہے اور اب سمجھا جانے لگا ہے کہ ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ اگر ان حقائق اور حالات کا سطحی جائزہ لیا جائے تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے، لیکن ملکی حالات سنجیدہ غور و فکر کے متقاضی ہیں۔ ہمارے لیے خطرات ملک کے اندر اور باہر سر اٹھائے کھڑے ہیں، لائن آف کنٹرول پر وقفے وقفے سے مسلسل جارحیت اور پاک افغان سرحد پر افغانستان کے اندر سے ہماری فوجی چوکیوں پر بار بار حملوں پر اقوام عالم کی خاموشی نے جہاں ہمیں ایک نئے امتحان میں ڈال رکھا ہے وہیں ہمارے لیے بے شمار نئے سوالات بھی کھڑے کردیے ہیں۔ ان حقائق، چیلنجوں اور حالات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہم نئے عام انتخابات کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ سرحد پار ہمارا دشمن انتہائی چوکس ہے اور ملک میں سیاسی جماعتیں صف بندی کررہی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اپنی سیاسی زندگی کے ایک بہت بڑے امتحان سے گزر رہی ہے، عدلیہ کے ساتھ نوازشریف کا ’’کھٹراگ‘‘ ملک کے لیے کسی قیمت پر مفید اور سودمند نہیں، لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ’’جج نہیں بولتے، ان کے فیصلے بولتے ہیں‘‘۔ یہ اصول شاید پاکستان میں اب تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ تبدیل ہوتا ہوا یہ منظرنامہ ملکی سیاست کے لیے بھی خطرناک ہے۔
سینیٹ کی ہول کمیٹی میں آرمی چیف نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ ہی سب کچھ ہے، وہ پائیدار جمہوریت کے حامی ہیں، سیاست دان فوج کو مداخلت کا موقع ہی کیوں دیتے ہیں! انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض اہم ممالک کے دورے فوجی سفارت کاری کا حصہ ہیں، اگر چار سال تک ملک وزیر خارجہ کے بغیر ہوگا تو کسی نہ کسی کو تو اس خلا کو پُر کرنا ہوگا۔ یہ ایک جملہ ساری بریفنگ پر بھاری ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے سیاست دان ہیں جو اس جملے کی روح کو سمجھ پائے ہیں اور اصلاحِ احوال کے لیے تیار نظر آتے ہیں؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پاک فوج اور حکومت کے مابین بہترین انڈر اسٹینڈنگ کی بات کی، اور ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت اور فوج مل بیٹھ کر متعلقہ سیکورٹی معاملات پر پالیسی بناتے ہیں، دونوں قومی اہمیت کے معاملات پر ایک صفحے پر ہیں۔ اسی بریفنگ کے بعد نوازشریف نے دست برداری کا اعلان کیا اور یہ بیان دیا کہ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کے اگلے امیدوار نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ(ن) اب عام انتخابات میں نوازشریف کی مقبولیت اور شہبازشریف کی کارکردگی کی بنیاد پر حصہ لے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی حد تک تو فیصلہ ہوچکا ہے، اب اس فیصلے پر مکمل عمل درآمد کے لیے چودھری نثار علی خان متحرک ہونے والے ہیں، وہ مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مشاورتی فورم سے ہر اُس شخص کو نکال باہر کریں گے جس کی وجہ سے مسلم لیگ(ن) اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں، سینیٹر پرویز رشید کا نام ان میں سرفہرست ہے۔ پارٹی معاملات میں کلی طور پر متحرک ہونے سے قبل مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما چودھری نثار علی خان نے آئندہ انتخابات کے لیے سیاسی حکمت عملی اور انتخابی نعرے کے لیے مسلم لیگ(ن) کو ٹوئٹ اور ٹکرز کی دنیا سے باہر نکل کر غیر سیاسی مزاج کے حامل لوگوں کی مشاورت اور اُن کے فیصلے مسلط کرنے کا عمل ختم کرکے ساکھ بہتر بنانے اور سیاسی مخالفین کو بے نقاب کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وہ اُس شخص کو سیاست دان نہیں سمجھتے جس نے کونسلر تک کا الیکشن نہ لڑا ہو۔ وہ ایسے غیر سیاسی لوگوں کا رائے اور مشورہ دینے کا حق تو تسلیم کرتے ہیں لیکن انہیں پارٹی پر فیصلہ مسلط کرنے کا حق دینے کو تیار نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ شہبازشریف کو مکمل اختیار کے ساتھ پارٹی کا صدر بھی بنایا جائے، انہیں ان کی سوچ اور صلاحیت کے مطابق کام کرنے دیا جائے تاکہ وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر ان کی نامزدگی کا فائدہ اٹھایا جائے، اور مسلم لیگ (ن) کو عدلیہ مخالف تحریک سے متعلق سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اختلافات کے باوجود پارٹی میں اظہارِ رائے کی جتنی آزادی ہے وہ کسی اور پارٹی میں نہیں ہے۔ آئندہ انتخابات کے تناظر میں مسلم لیگ (ن) مؤثر اور متفقہ ’’بیانیہ‘‘ تیار کرے، یہ ایک ایسا بیانیہ ہونا چاہیے جس میں سیاست، معیشت، قومی مسائل کے حل کا ایک خاکہ ہو، اور چار سالہ کارکردگی عوام کے سامنے اجاگر کی جائے، یہی بیانیہ آئندہ الیکشن میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ کسی بھی قومی ادارے کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی ترک کرنا ہوگی۔ نوازشریف نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا اور شہبازشریف کو آگے بڑھنے کا راستہ دے کر اب وہ ریاستی اداروں سے تصادم کے بجائے ’’مفاہمت‘‘ کی پالیسی اختیار کرچکے ہیں، اور مفاہمتی سیاسی بیانیہ اپنانے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ سینئر مسلم لیگی رہنمائوں کا ایک گروپ نوازشریف کے ساتھ صرف اسی موضوع پر ملاقات کرنے والا ہے تاکہ نوازشریف خود اس کا اعلان کریں۔ نوازشریف کو انتہا پسندانہ اور تصادم کی پالیسی اختیار کرنے کی راہ دکھانے والے غیر سیاسی مزاج کے حامل عناصر کے چنگل سے باہر نکالنے کے لیے یہی سینئر رہنما سرگرم ہوچکے ہیں۔ یہ رہنما سیاسی اور عدالتی دو محاذوں کے لیے حکمت عملی مرتب کریں گے۔ عدالتی حکمت عملی یہ ہوگی کہ مقدمات کی سماعت کو طول دیا جائے اور تمام قانونی راستے اختیار کیے جائیں۔ سیاسی حکمت عملی یہ ہوگی کہ نوازشریف اور شہبازشریف کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی کوشش کی ہر لحاظ سے حوصلہ شکنی کی جائے، اور نوازشریف کو ان عناصر کے گھیرے سے نکالا جائے اور انہیں آزادانہ ماحول میں فیصلے کرنے کا موقع دیا جائے۔ یہ اہم ترین مشاورت جنوری میں ہوگی، اس مشاورت کے بعد نوازشریف سیاسی بیانیہ تبدیل کریں گے۔
اس فیصلے کے باوجود مسلم لیگ(ن) کو جنوری میں یا اس کے بعد انتخابات کے قریب سیاسی حریفوں کے اتحادوں اور ختمِ نبوت کے حلف کے عنوان میں تبدیلی کرنے پر سخت سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، لیکن اس کی لیڈرشپ نے شہبازشریف کو اگلی بینچوں پر بٹھاکر کچھ بہتری لانے کی کوشش شروع کردی ہے۔ اس کے متوقع نتائج پر فی الحال کوئی بات نہیں کی جاسکتی البتہ یہ نکتہ نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔
سیاسی منظرنامے میں ایک ایشو فاٹا کے سیاسی مستقبل کا بھی ہے۔ پارلیمنٹ کی مدت کی تکمیل تک مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن فاٹا کے معاملے پر ریفرنڈم چاہتے ہیں کہ فاٹا کے عوام سے پوچھا جائے کہ وہ الگ صوبہ چاہتے ہیں یا خیبر پختون خوا کے ساتھ انضمام؟ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ فاٹا کے انضمام کا فیصلہ مسلط نہیں ہونے دیں گے۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کو چھوڑ کر حکومت اور اپوزیشن کی دوسری تمام جماعتیں فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام پر متفق ہیں۔ خیبر پختون خوا اسمبلی گزشتہ ہفتے انضمام کے حق میں قرارداد منظور کرچکی ہے، اب مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو دیکھنا ہوگا کہ کیا اس سب کے بعد بھی ریفرنڈم کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ ایک پیش رفت یہ ہوئی کہ مولانا فضل الرحمن کسی حد تک اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرچکے ہیں، تاہم حتمی رائے دینے سے فی الحال گریز کررہے ہیں، کیونکہ انضمام کی صورت میں وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں ووٹ بینک متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
انتخابات کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہوئی کہ حلقہ بندیوں کا بل پارلیمنٹ سے منظور ہوچکا ہے اور اب مردم شماری کا نوٹیفکیشن بھی ہوجائے گا۔ الیکشن کمیشن نے بھی اپنا کام شروع کردیا ہے۔ صوبوں اور محکمہ مردم شماری سے متعلقہ ڈیٹا مانگا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے صوبوں اور محکمہ مردم شماری سے اضلاع اور تحصیلوں کے نقشوں، شماریاتی چارجز، سرکلز اور بلاکس کے نوٹیفکیشن کا حصول شروع کردیا ہے۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشنز، ٹائون کمیٹیوں، میونسپل کمیٹیوں کے شماریاتی چارجز، سرکلز اور بلاکس کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں۔ تمام اضلاع اور تحصیلوں کے سرکلز اور بلاکس کی سطح کا ڈیٹا سافٹ کاپی میں بھی مانگا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے محکمہ مردم شماری کو شماریات بلاکس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ڈیٹا 5 جنوری تک فراہم کرنے کی ڈیڈلائن دی ہے۔ 10 جنوری تک حلقہ بندیوں سے متعلق دستاویزات کے حصول کا کام مکمل کرلیا جائے گا۔ 15جنوری سے 28فروری تک حلقہ بندیوں کی ٹرافٹ پرپوزل تیار کرکے الیکشن کمیشن کو دی جائے گی، 5 مارچ سے 3 اپریل تک ٹرافٹ پرپوزل پر اعتراضات وصول کیے جائیں گے، جبکہ 4 اپریل سے 3مئی تک اعتراضات کو نمٹایا جائے گا۔
اب آخر میں امریکی عہدیدار کے دورے کی بات ہوجائے۔ امریکی نائب صدر مائک پنس نے پاکستان کو ایک نئی دھمکی دی ہے۔ اس دھمکی پر پاکستان نے شدید ردعمل دیا اور امریکہ پر واضح کردیا کہ اتحادی ایک دوسرے کے لیے تنبیہ جاری نہیں کرتے، امریکہ کو تنبیہ اُن لوگوں کو جاری کرنی چاہیے جو افغانستان میں منشیات کی پیداوار، غیر سرکاری اور انتظامی مقامات کی توسیع، صنعتی پیمانے پر بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ ناکامی کے الزامات دوسروں پر ڈالنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ امریکی نائب صدر نے کہا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دینے پر بہت کچھ کھونا پڑے گا لیکن امریکہ کے ساتھ شراکت داری پر پاکستان بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ افغان جنگ کے آغاز کے بعد 16 برس میں امریکہ کی جانب سے یہ سب سے خطرناک انتباہ ہے۔ اس دھمکی کے جواب میں پاکستان نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں۔ امریکی در اصل چاہتے ہیں کہ حافظ سعید کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، پاکستان کا مؤقف ہے کہ محض اطلاعات کی بنیاد پر یک طرفہ کارروائی کیسے کی جاسکتی ہے؟ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کہتی ہیں کہ امریکی نائب صدر مائک پنس اور پینٹاگون کے الزامات تشویش کا باعث ہیں، پاکستان نے جیمز میٹس کے سامنے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا معاملہ اٹھایا تھا کہ پاکستان میں دو ماہ کے دوران 9 دہشت گرد حملوں میں سے 8 افغانستان سے ہوئے۔ امریکی وزیر دفاع میٹس نے افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا معاملہ حل کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ لیکن امریکہ کی نئی سیکورٹی پالیسی اور پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی مسترد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت، اور خاص طور پر پارلیمنٹ کو ادراک ہونا چاہیے کہ ہمیں سرحدوں پر کس نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔ اگر یہ ادراک ہوتا تو سینیٹ میں بریفنگ کے وقت سینیٹرز آرمی چیف سے آپریشنل، پیشہ ورانہ امور، تیاریوں اور ترجیحات پر بات کرتے۔ لیکن سینیٹ میں یہ سارا سیشن سیاسی امور کے گرد گھومتا رہا۔ ساڑھے چار گھنٹے کی بریفنگ میں کوئی ایک سوال بھی پیشہ ورانہ امور سے متعلق نہیں پوچھا گیا۔ پارلیمنٹ اور حکومت کو سیاسی، سفارتی امور کے لیے اپنا کردار مؤثر بنانا ہوگا۔ آرمی چیف نے یہ درست کہا کہ ’’حکومت فیصلہ کرے اور فوج اس پر عمل کرے‘‘۔ پارلیمنٹ کو اب فیصلہ کرنا چاہیے کہ پاک بھارت اور پاک افغان سرحد پر پیش آنے والے واقعات کا جواب کس طرح دینا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ پہلے خود یکسو ہو۔