فوجی قیادت کا انتباہ اور جمہوریت کا مستقبل

پاکستان میں جمہوریت ابھی تک ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں جمہوری عمل کی مضبوطی میں جو رکاوٹیں ہیں ان میں داخلی اور خارجی دونوں طرز کے مسائل ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور اہل دانش کا ایک بڑا طبقہ جمہوری عمل کی ناکامی کو اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلت کے ساتھ جوڑ کر دیکھتا ہے، دوسرا طبقہ سیاست دانوں کو جمہوری عمل کی ناکامی کااہم حصہ قرار دیتا ہے۔ کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ جمہوری عمل کی ناکامی کسی میں سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں، فوج، عدلیہ، بیوروکریسی،اہل دانش اور خود میڈیا کا ایک بڑا حصہ بھی اس کا ذمہ دار ہے۔جب تک ہمارے سارے سیاسی، انتظامی،قانونی کردار ماضی اور حال کی اپنی اپنی غلطیوں کو تسلیم نہیں کریں گے، جمہوری عمل مضبوط نہیں ہوسکے گا۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ جمہوریت ایک فرد سے وابستہ نہیں یہ عمل پورے معاشرے کی فکر سے جڑا ہوا عمل ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہیے۔
پاکستان کا جو حالیہ بحران ہے اس میں بھی آج کی حکمران جماعت اور ان کی حامی دانشور فوج اور عدلیہ کو مسلسل ٹارگٹ کرکے ہر سطح پر اپنے اس بیانیہ کوتقویت دے رہے ہیں کہ یہ دونوں قوتیں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے خلاف ہیں۔سابق وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے بعض سیاسی ساتھی عدالتی فیصلوں کے پیچھے اصل طاقت فوج کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول عدلیہ تو محض ایک ہتھیار ہے اصل میں ان کے خلاف فیصلے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہورہے ہیں۔یہ تاثر بھی عام کیا گیا کہ فوج ہر صورت میں موجودہ جمہوری نظام کی سیاسی بساط کو لپیٹ کر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق نظام اور افراد کو سامنے لانا چاہتی ہے۔نوازشریف عمومی طور پر یہ نقطہ اٹھاتے ہیں کہ فوجی قیادت اپنے آپ کو عوام کی منتخب قیادت کے سامنے جوابدہ ہونے کے لیے تیار نہیں اور وہ ایک خاص ایجنڈے کے تحت ملک کے سیاسی نظام اور اس کے فیصلوں میں اپنی بالادستی چاہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان عدم اعتماد کابحران کافی حد تک ملک کے سیاسی دنگل میں پھنسا ہوا ہے ۔یہ جو بالادستی کی لڑائی ہے اس میں کوئی ایک فریق تو حصہ دار نہیں بلکہ سب ہی فریق اس کھیل میں حصہ دار بنے ہوئے ہیں اورسب کے سامنے بالادستی کی جنگ کی اہمیت ہے، یہی ہمارے سیاسی نظام کی بگاڑ کی وجہ بھی ہے۔
اسی تناظر میں فو ج کے سربراہ جنرل قمر جاویدباجوہ کی سینیٹ کے تمام ارکان کے ساتھ بند کمرہ خصوصی اجلاس جو پانچ گھنٹے تک جاری رہاکافی اہمیت کا حامل ہے۔جنرل باجوہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلے فوجی سربراہ ہیں جو اس انداز میں سینیٹ کے سامنے بند کمرہ اجلاس میں شریک ہوئے اور کھل کر ان تمام سوالوں کے جوابات دیے جو ارکان کی جانب سے اٹھائے گئے تھے۔عمومی طور پر یہ اجلاس اور بریفنگ قومی سیکورٹی معاملات کے تناظر میں تھی، لیکن عملی طو رپر اس میں داخلی تناظر کے پہلو بھی اجاگر ہوئے۔فوجی سربراہ نے سینیٹ میںبلا جھجھک پیش ہوکر اس تاثر کی نفی کی ہے کہ فوج سیاسی اداروں کے سامنے جوابدہ ہی کے لیے تیار نہیں۔ فوجی سربراہ کا پیش ہونے کا وقت بھی بہت اہم ہے۔ ایسے موقع پر جب نوازشریف یہ تاثر دے رہے ہیں کہ فوج کا جمہوریت کے خلاف سیاسی ایجنڈا ہے، فوجی سربراہ کی گفتگو کا حاصل یہ تھا کہ وہ کسی بھی صورت جمہوریت مخالف ایجنڈے کا حصہ نہیں۔
یہ جو تاثر دیا جارہا تھا کہ فوج کسی نہ کسی شکل میں فیض آباد دھرنے کی منصوبہ بندی کا حصہ تھی، اس کی فوجی سربراہ نے پرزور نہ صرف تردید کی بلکہ چیلنج کیا کہ اگر کوئی یہ ثابت کردے کہ اس کھیل میں فوج شامل تھی تووہ اس فوجی سربراہی سے مستعفی ہوجائیں گے۔ان کے بقول اگر فوجی افسر دھرنے کے تناظر میں معاہدہ پر دستخط نہ کرتا تو نہ دھرنا ختم ہوتا اور نتیجتاً مزید بحران پیدا کرتا۔ان کے بقول فوج کے کردار کو ماضی کے تناظر میںدیکھنے کے بجائے نئے حالات اور تقاضوں کے مطابق دیکھا جائے اوراس تاثر کی بھی نفی کہ سابق فوجی ماہرین فوج کے ترجمان ہیں اوران کے خیالات کو فوج کا نقطہ نظر نہ سمجھا جائے۔اصولی طور پر فوجی سربراہ کو یہی کہنا چاہیے تھا جو انہوں نے کہا ہے کیونکہ واقعی سابق فوجی افسران فوج کے ترجمان نہیں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خود فوجی قیادت نے بھی فوج کے ان ترجمانوں کے بارے میں پہلے کبھی یہ تردید جاری نہیں کہ ان کے بیانات اور تبصروں کو فوج کا نقطہ نظر نہ سمجھا جائے۔لیکن اب فوجی قیادت کو بھی احساس ہوا ہے کہ موجودہ میڈیا میں سابق فوجی جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ ان کو فوج کی حمایت حاصل ہے، اس لیے ان کو اس فکر کی تردید کرنی پڑی کہ یہ ان کے ترجمان ہیں۔
فوجی سربراہ نے اہم بات یہ حکومت اور پارلیمنٹ کو واضح پیغام دیا کہ وہ اس ملک کی دفاعی اور خارجہ پالیسی بنائے ہم اس پر مکمل عملدرآمد کریں گے۔انھوں نیاس تاثر کی بھی نفی کی گئی کہ فوج پارلیمانی نظام کے مقابلے میں صدارتی نظام لانا چاہتی ہے۔ ان کے بقول اس نظام کی کوئی تجویز زیر غور نہیں اوریہ عمل ملک کو کمزور کرے گا۔ان کے بقول پارلیمنٹ بالادست اور آئین سے ماوراکردار کی کوئی خواہش نہیں۔خطے کی اسٹرے ٹیجک صورت حال پرہماری گہری نظر ہے اورافغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، فوجی سربراہ نے اپنی گفتگو میں یہ پیغام بھی دیا کہ سیاسی جماعتیں اور قیادتیں آئینی حدود میں رہتے ہوئے بلاوجہ فوج کو سیاسی معاملات میں مت گھسیٹیں اورنہ ہی فوج کو موقع یا دعوت دیں کے وہ سیاسی عمل میں مداخلت کرے۔کیونکہ ہمیشہ سے ہی فوج کی آمد کی ایک وجہ جہاں ان کی خواہش ہوسکتی ہے وہیں سیاست دانوں کی بھی غلطیاں ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ کے تمام ارکان نے مجموعی طور پر فوجی سربراہ کی گفتگو کی حمایت کی اور اعتراف کیا کہ اگر ان کو کچھ تحفظات تھے تو وہ اس گفتگو کے بعدوہ دور ہوگئے ہیں۔ سیاسی قیادت، پارلیمنٹ اور فوجی قیادت کا باہمی اشتراک اوربات چیت کا عمل بہت اچھی بات ہے اوراس کی ہر سطح پر حمایت ہونی چاہیے۔ یہ دروازہ جو کھلاہے اسے بند نہیں ہونا چاہیے بلکہ مستقبل میں بھی اس طرح کا مکالمہ جاری رہنا چاہیے تاکہ سول ملٹری تعلقات زیادہ منظم اور موثر ہوں۔ پچھلے چند برسوں میں کئی ایسے مواقع سامنے آئے کہ فوج سیاسی طور پر مداخلت کرسکتی تھی، کچھ لوگوں کی یہ خواہش بھی تھی مگر فوج نے جمہوری نظام کے تسلسل کو جاری رکھا۔ ویسے بھی اب عالمی سطح پر بھی وہ حالات نہیں کہ ملک میں فوجی مداخلتیں ماضی کی طرح ممکن ہوں۔
یہ جو تاثر ہے کہ فوج نے موجودہ جمہوری حکومت کو کمزور کیا ہے لیکن اس رائے کے ساتھ اس کا تجزیہ بھی کرنا ہوگا کہ خود اس حکومت کا اپنا سیاسی اور جمہوری طرز عمل کیا تھا۔کیونکہ جب سیاسی قیادتیں سیاسی خلا پیدا کرتی ہیں، پارلیمنٹ کو خود غیر موثر بناتی ہیں، کابینہ کو نظرانداز کرتی ہیں، حکومت مخالف نقطہ نظر کو طاقت سے دبایا جاتا ہو،اداروں کو اپنا مخالف سمجھا جائے، عوامی مفادات کی سیاست کو پیچھے دکھیلا جائے تو یقینی طور پر نہ صرف سیاسی خلا پیدا ہوتا ہے بلکہ بداعتمادی کے ساتھ ساتھ سول ملٹری تعلقات میں بھی ایک بڑی اور واضح خلیج پیدا ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں فوج نے بے شمار غلطیاں کی ہیں اوران کی سیاسی مداخلتوں نے مسائل پیدا کیے، لیکن اگر اب فوج اس سے باہر نکلنا چاہتی ہے تو اس کو نئے تناظر میں سمجھنا ہوگا۔
اصل میں مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے قومی سطح پر سیاست اور فوج دونوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کردیا ہے۔ جبکہ ضرورت اس امر کی تھی اور ہے کہ ہم دونوں اداروں کو قبول کرتے ہوئے ان میں باہمی تعلقات اور مسائل کو سمجھنے و جانچنے کا فہم پیدا کرنے میں اپنی فکر کو آگے بڑھائیں۔فوجی سربراہ نے درست کہا کہ ہماری سیاسی قیادتوں کو بھی اپنی بات پیش کرتے وقت ایسے نقطہ نظر سے گریزکرنا چاہیے جو عالمی سطح پر ہمارے مفادات کو نقصان پہنچائے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ان کی بات درست ہے یا غلط، بلکہ حساس اور سنگین معاملات خاص طور پر جن کا تعلق سیکورٹی معاملات سے ہو اس پر دونوں اطراف سے غیر ذمہ داری نہیں ہونی چاہیے۔کیونکہ ہمارا دشمن عمومی طور پر ہماری داخلی کمزوریوں اور تضادات کو بنیاد بنا کر ہمارے خلاف مہم چلاتا ہے۔
ہماری سیاسی قیادت کو خود بھی اپنی توجہ داخلی اور خارجی محاذ پر دینی چاہیے حکمرانی میں جو رکاوٹیں یا مسائل ہیں جن کا براہ راست تعلق ہماری سیاسی رویوں اور طرز عمل سے ہے، اس پر غو ر کرناچاہیے۔ اس وقت ہم عملا داخلی اور خارجی مسائل میں جن بڑے چیلنجز سے دوچار ہیں اس کا حل ایک مضبوط حکمرانی اور اداروں کے باہمی تعاون اور عدم ٹکراو کی پالیسی سے جڑا ہوا ہے۔ فوجی سربراہ نے جو گفتگو سینیٹ میں کی ہے اس بحث کو ہر سطح پر آگے بڑھایا جائے اور زیادہ سے زیادہ اس تاثر کی نفی ہونی چاہیے کہ فوج اور سیاسی قوتیں ایک دوسرے کی مخالف ہیں۔کیونکہ ٹکراو کی پالیسی منفی نتائج پیدا کرے گی، ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا اوراگر ایسا ہوتا ہے تو یہی ملکی مفاد میں بھی ہے اور جمہوریت کے حق میں بھی۔