چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ دس بارہ روز کے دوران جو کچھ کہا ہے اُس پر مثبت اور منفی دونوں انداز میں گفتگو ہورہی ہے، اور یہ گفتگو نہ صرف ملک بھر میں ہورہی ہے بلکہ عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی اور دانشور حلقوں میں بھی اس پر تبادلہ خیال جاری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے حلقے اپنے وزیراعظم کی نااہلی کے بعد سے عدلیہ سے خاصے ناراض ہیں بلکہ ان کے نااہل سربراہ عدلیہ کے خلاف تحریک چلانے کے دعوے کررہے ہیں اور اس کے جواز کے طور پر وہ عدلیہ کے دہرے معیار کا بار بار ذکر بھی کررہے ہیں۔ نون لیگی حلقوں کا کہنا ہے کہ نوازشریف کے دبائو اور سیاسی تحریک کی وجہ سے چیف جسٹس صفائیاں دے رہے ہیں اور عدلیہ کے فیصلوں کا دفاع کررہے ہیں حالانکہ عدلیہ کو اپنے فیصلوں کے دفاع کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فیصلے اگر انصاف پر مبنی ہوں اور دورانِ سماعت انصاف ہوتا نظر آرہا ہو تو صفائی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ مگر اس مؤقف میں کوئی زیادہ صداقت نہیں ہے بلکہ یہ اُس اشتعال کا اظہار ہے جو وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے بعد سے خود نوازشریف اور اُن کی پارٹی میں بہت زیادہ نظر آرہا ہے، اور اس اشتعال کی وجہ سے حکمران پارٹی عدلیہ کے خلاف تحریک کی باتیں کررہی ہے، مگر عدلیہ کے حوصلے کی داد دینی چاہیے کہ وہ اس اشتعال انگیزی کو مسلسل نظرانداز کررہی ہے اور ان لوگوں کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں کررہی، جسے کچھ لوگ عدلیہ کی کمزوری پر بھی محمول کررہے ہیں۔ شاید اسی تاثر کو زائل کرنے کے لیے چیف جسٹس اپنی تقاریر اور ریمارکس میں بعض کھلی اور بعض اشارات پر مبنی باتیں کررہے ہیں۔ یہ نہ تو صفائیاں ہیں اور نہ دفاع، کہ عدالت نے اپنے فیصلے سنادیے ہیں، انہیں صفائی یا دفاع کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہ ضرورت کسی مدعی یا مدعا علیہ کی تو ہوسکتی ہے، عدلیہ کی نہیں۔ لیکن عدلیہ کے خلاف جس انداز میں پہلی بار ایک سیاسی جماعت محاذ آرائی اور درجہ بندی کررہی ہے اس میں عدلیہ کے لیے مکمل خاموش رہنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اگر آرمی چیف سینیٹ کے سامنے کھل کر وضاحت کررہے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کا فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر یہ تعلق ثابت ہوجائے تو وہ مستعفی ہونے کے لیے تیار ہیں تو پھر چیف جسٹس بھی اگر اپنے ادارے کے بارے میں قوم کے سامنے وضاحت رکھ کر صورت حال کو واضح کرتے ہیں اور ایک فریق کی اڑائی ہوئی گرد کو صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں کیا خرابی ہے! محض اس مفروضے پر کہ ججوں کو صرف اپنے فیصلوں میں بولنا چاہیے جبکہ ان کے خلاف جلسے جلوسوں میں نہیں میڈیا پر بھی ایک نفسیاتی جنگ کی جارہی ہو، ان کی ساکھ کو خراب کیا جارہا ہو تو وہ محض اپنے وقار اور روایات کی خاطر لب سیے بیٹھے رہیں، یہ کسی طرح درست نہیں ہے۔ یہ اطلاعات اور میڈیا کا دور ہے، اس میں سوالات اور الزامات کا جواب دینا ضروری ہوگیا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں نے سوالات اور اعتراضات کے سلسلے کو اداروں تک بڑھا دیا ہے۔ اب ایک طرف سینیٹ میں آرمی چیف اپنے ادارے کی صفائی دے رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان بار کونسل اور جوڈیشل اکیڈمی میں چیف جسٹس کو بھی کچھ کہنا پڑرہا ہے۔ چیف جسٹس نے واضح کردیا ہے کہ آئین کا بابا عدلیہ ہے اور لوگ اپنے خلاف فیصلے آنے پر شور نہ مچائیں۔ چیف جسٹس کی یہ بات درست ہے کہ اگر خلاف فیصلہ آنے پر مؤثر اور طاقت ور گروپ شور مچانا شروع کردیں تو عدالتوں کا ہر دوسرا تیسرا فیصلہ مؤثر گروپوں کی تنقید کی زد میں آجائے گا جس سے پورا نظامِ عدل ہی تماشا بن کر رہ جائے گا۔ اس نفسیاتی دبائو اور شور شرابہ میں نہ صرف ریاست کا ایک اہم ستون اور جمہوریت کا ایک اہم عضو کمزور ہوگا بلکہ خود جمہوریت ہی نڈھال ہوجائے گی۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں کی اس انداز میں تربیت نہیں ہے، وہ اپنے خلاف فیصلوں کو قبول کرنے کا حوصلہ اور تاریخ نہیں رکھتیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالتی فیصلوں کو پیپلزپارٹی نے کبھی قبول نہیں کیا، تو نوازشریف کی نااہلی کو مسلم لیگ (ن) قبول نہیں کررہی۔ حدیبیہ پیپر ملز کے بارے میں عدالتی فیصلے اور جہانگیر ترین کی نااہلی کو تحریک انصاف قبول نہیں کررہی۔ انتخابی دھاندلی کے فیصلے کو بھی تحریک انصاف نے اپنے اعلان کے باوجود قبول نہیں کیا تھا۔ عمران خان کی نااہلی کے مقدمے میں بریت کو مسلم لیگ (ن) قبول نہیں کررہی بلکہ اس میں دہرے معیار کے کیڑے تلاش کررہی ہے۔
یہ تمام صورتِ حال افسوسناک ہے اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ذمے دارانہ اور حوصلہ مندانہ رویوں کی متقاضی ہے۔ دوسری جانب عدلیہ کو بھی ماضی میں ’’عدالتی فعالیت‘‘ کی وجہ سے اسے بھی زیادہ صبر اور حوصلے کا ثبوت دینا ہوگا، اور فریق بنے بغیر اپنا کام زیادہ پیشہ ورانہ دیانت داری کے ساتھ کرنا ہوگا، اس ماحول میں جب کہ عدلیہ خود کہہ رہی ہو کہ ریاستی ادارے اپنے حصے کا کام بھی عدلیہ کے سر ڈالنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب چیف جسٹس اور عدلیہ کے تمام تر احترام کے باوجود عدلیہ میں سب کچھ درست نہیں ہے۔ عدالتی کارروائیوں کے دوران معمول کی خرابیاں اور پریشانیاں سائلین کے لیے سوہانِ روح ہیں جن کا اظہار مختلف فورمز پر ہوتا رہتا ہے اور یہ یقینا چیف جسٹس کے نوٹس میں بھی ہوں گی کہ چیف جسٹس صرف عدلیہ ہی کے کسٹوڈین نہیں، نظامِ عدل کے بھی کسٹوڈین ہیں اور نظامِ عدل میں ججوں سمیت عدالتی عملہ، وکلا اور سائلین تین فریق یا اسٹیک ہولڈر ہیں۔ ججوں، عدالتی عملہ اور وکلا کے حقوق کا تحفظ تو خود چیف جسٹس، وکلا کی تنظیمیں اور عملہ کی ایسوسی ایشن کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے اس نظام کے سب سے اہم اور بڑے فریق سائلین کے حقوق کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ اس بے نوا طبقے یعنی سائلین کے حقوق کے بھی اصل کسٹوڈین چیف جسٹس ہیں، وہی ان کے حقوق کے محافظ اور ان کی پریشانیوں کا مداوا ہیں، کہ پریشان اور مشکلات میں گھرے ہوئے لوگ، یہاں بے بسی میں آتے ہیں اور مزید خوار ہوتے ہیں۔ بیشتر تو اپنی نسلوں کو ہی عدالتوں اور کچہریوں سے دور رہنے کی وصیت کردیتے ہیں۔ زیادہ تر خرابیاں ماتحت عدالتوں میں ہیں، مگر اعلیٰ عدالتوں میں بھی شکایات کے انبار ہیں جس کی وجہ سائلین کی بے بسی اور بے نوائی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ماتحت عدالتوں میں نقل لینا رشوت دیے بغیر تقریباً ناممکن ہے۔ ریڈرز پیسے لیے بغیر تاریخ دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ بعض جگہوں پر تو ججوں کی موجودگی میں بھی ریڈرز پیسے پکڑ لیتے ہیں۔ صبح سے شام تک پیشی کے منتظر سائلین کے لیے نہ بیٹھنے کی کوئی جگہ ہے، نہ پینے کے لیے پانی۔ خواتین سائلین کا حال سب سے برا ہے۔ ان میں سے بعض تو عملے کے ہاتھوں اپنی عزت تک محفوظ نہیں رکھ پاتیں۔ وکلا اور ان کے منشی ان مجبور سائلین کی جیب کے سارے پیسے نکلوا لیتے ہیں۔ وکلا بھاری فیسیں لینے کے باوجود نہ تو سائلین کو کوئی عزت دیتے ہیں اور نہ سہولت، بلکہ احتجاج کرنے والے سائلین کو وکلا اور ان کے ساتھی مل کر تشدد کا نشانہ بھی بنا ڈالتے ہیں۔ وکلا کا حال یہ ہے کہ وہ نہ صرف پولیس اور میڈیا جیسے مؤثر اور طاقتور اداروں کے ارکان کی بھی پٹائی سے باز نہیں آتے بلکہ جب چاہتے ہیں عدالتوں میں توڑ پھوڑ کردیتے ہیں، ججوں کے گریبان اور کپڑے پھاڑ دیتے ہیں، ججوں کی میز کرسیاں توڑ دیتے ہیں۔ بہت سے وکلا فیسیں لے کر پیش نہیں ہوتے۔ ایسے بھی ہیں جو کسی تیاری کے بغیر پیش ہوتے ہیں جس کا نقصان سائلین کو پہنچتا ہے۔ یہ شکایات بھی عام ہیں کہ وکلا مخالف فریق سے مل جاتے ہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ بہت سے جج اپنے پسندیدہ وکلا کو پروموٹ کرتے ہیں۔ بعض وکلا کے بارے میں یہ بات کھلے عام کہی جاتی ہے کہ اُن کے فلاں جج کے ساتھ بے تکلفانہ تعلقات ہیں اور وہ ان سے فیور لے سکتے ہیں، چنانچہ مجبور سائلین ان کی طرف امڈتے ہیں اور منہ مانگی فیسیں دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض وکلا کا محض پراپیگنڈہ ہوتا ہے جس کا وہ فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن بعض کے بارے میں یہ اطلاعات درست بھی ہوتی ہیں۔ چنانچہ بہت سے سودے عدالت سے باہر ہی ہوجاتے ہیں۔ یعنی ججوں کے بارے میں یہ غلط یا درست رائے موجود ہوتی ہے کہ فلاں فلاں وکیل یا عدالتی اہلکار اُن کا قریبی ہے۔ چنانچہ مجبور سائلین ان وکلا کو اپنا وکیل کرلیتے ہیں۔ اس صورت حال میں عدلیہ کی بے توقیری ہوتی ہے، سائلین لٹتے ہیں اور انصاف کا خون ہوتا ہے۔ اگر یہ محض پراپیگنڈہ ہے تو اس کا تدارک ہونا چاہیے، اور اگر اس میں کوئی صداقت ہے تو اس کا توڑ مزید ضروری ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں وکیل اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ عام آدمی اپنے حق سے دست بردار ہونے ہی میں بہتری محسوس کرتا ہے۔ جہاں دوسرے شہروں اور دوردراز دیہاتوں سے آنے والے سائلین کو اسلام آباد، کراچی یا لاہور میں اپنے قیام کا بندوبست کرنا ہوتا ہے وہیں فیسیں ادا کرنے کے باوجود وہ اپنے وکیل کے ہوائی ٹکٹ اور ہوٹل میں قیام کے علاوہ ٹرانسپورٹ اور خوراک کا بھتہ بھی ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہاں بھی تاریخوں پر تاریخیں پڑتی رہتی ہیں اور سائلین خرچے پر خرچہ برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہاں بھی بہت سے وکلا حاضر نہ ہونے کے باعث سائلین کے نقصان کا باعث بنتے ہیں مگر ان وکلا کے خلاف کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ وکلا ہڑتال کے دنوں اور بار انتخابات کے موقع پر عدالتوں میں موجود ہونے کے باوجود پیش نہیں ہوتے۔ ان عدالتوں میں تاریخوں پر تاریخیں پڑنے سے انصاف میں تاخیر ہوتی ہے۔ میڈیا مالکان کے خلاف عامل صحافیوں کے ایک کیس میں سپریم کورٹ جیسی اعلیٰ عدالت نے 18 ماہ صرف اس کام میں لگائے کہ آیا یہ کیس اعلیٰ عدلیہ میں سماعت کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ بڑے وکلا اور ان کے چیمبرز نہ صرف وکلا سیاست میں اہمیت کے حامل ہیں بلکہ وکلا کو جج بنوانے میں بھی ان کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ بار کے عہدیداروں کا کسی کیس میں محض پیش ہوجانا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں نفاذِ اردو کے فیصلے کے باوجود پنجاب ہائی کورٹ میں نفاذِ اردو کی درخواستیں تاحال زیر سماعت ہیں۔ حبیب بینک پینشنرز کا کیس شاید 20 سال سے فیصلے کا منتظر ہے۔ لاپتا افراد کے ورثا اب بھی انصاف کی تلاش میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں افراد اور درجنوں اداروں کو انصاف فراہم کرنے، بہت سے طاقت وروں کا سرِ غرور نیچا کرنے، کرپشن اور ناانصافی کے درجنوں کیسز میں قومی خزانے کی دولت واپس لانے میں عدالتوں کا کلیدی کردار ہے۔ لیکن اب بھی بہت سے معاملات توجہ کے مستحق ہیں۔ سائلین کی دادرسی اور سستے اور آسان انصاف کی فراہمی کی منزل ابھی ہم سے کچھ فاصلے پر ہے۔