ایوانِ بالا میں عسکری قیادت کی آمد

مسلم لیگ(ن) حکومت اور قومی اسمبلی کا آخری بیس اوور کاکھیل باقی رہ گیا ہے اور آخری جوڑی کھیل رہی ہے۔ کھیل بیس اوور مکمل ہونے تک جاری رہے گا یا پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے یہ فیصلہ بھی رواں ماہ دسمبر میں ہی ہوجائے گا۔ پارلیمنٹ کی بڑی جماعتیں حلقہ بندیوں کے بل کی منظوری کے لیے ایک متفقہ لائحہ عمل بنا چکی ہیں سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے اس بل کی منظوری کے بعد ملک کی سیاسی صورت حال تیزی سے تبدیل ہوجائے گی، مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں مدت مکمل ہونے کے بعد یا قبل از وقت انتخابات دونوں کے لیے تیار ہیں وہ ایسی حکمت عملی اپنانے کی کوشش کریں گی کہ تحریک انصاف سیاسی فائدہ نہ اٹھاسکے۔ اس حکمت عملی کے تحت حکومت کسی بھی وقت سینیٹ انتخابات وقت سے پہلے کرانے اور اس کے بعد اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے وزیر اعظم نے سی پی این ای رہنمائوں کے ساتھ ملاقات میں یہ عندیہ دیا ہے کہ مارچ میں الیکشن کمشن مکمل ہوگا اور اس کے بعد نگران حکومت بنے گی اور انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کوشش ہوگی کہ پارلیمنٹ مدت مکمل کرے وزیر اعظم کی گفتگو بھی اس بات کا پتہ دے رہی ہے کہ حکومت ہر آپشن پر غور کر رہی ہے۔ اس ہفتے کی سب سے بڑی پیش رفت یہ تھی کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی ٹیم کے ہمراہ سینیٹ کی ہول کمیٹی کو قومی سلامتی کے امور پر بریفنگ دینے کے لیے پارلیمنٹ ہائوس تشریف لائے سینیٹ کی ہول کمیٹی تمام پالیمانی لیڈرز پر مشتمل ہے اس بریفنگ میں بہت کھل کر گفتگو ہوئی‘ پاک بھارت‘ پاک افغان‘ پاک امریکا تعلقات کے علاوہ اندرونی سلامتی‘ سرحدوں کی صورت حال‘ اسلامی اتحاد کی فوج اور حتی کہ فیض آباد دھرنے اور لبیک تحریک‘ جماعت دعوہ‘ فلاح انسانیت نتظیم سمیت بہت سے ایشوز پر گفتگو ہوئی، عسکری قیادت نے ان تمام امور پر سینیٹرز کے ذہنوں میں خدشات سوالات کا جواب دیا اور تحفظات دور کیے ساڑھے چار گھنٹے کی بریفنگ میں عسکری قیادت نے اپنی بات بھی کی اور سینیٹرز کی بات بھی سنی، آرمی چیف کی بریفنگ کے بعد ان ایشوز پر سینیٹرز کے تحفظات دور ہوئے ہیں ہر دو جانب سے اس بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے لیکن کچھ نئے ایسے سوالات بھی پیدا ہوئے ہیں جن پر اس بریفنگ میں کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ موضوعات اس بریفنگ کا حصہ تھے۔ یہ سوالات عدالت کے حالیہ فیصلے کے بعد سیاسی اور قانونی حلقوں میں اس وقت زیر بحث ہیں مسلم لیگ(ن) کا موقف ہے کہ عمران خان‘ جہانگیر ترین اور نواز شریف کے مقدمات ایک جیسے ہونے کے باوجود مختلف فیصلے کیوں دیے گئے مسلم لیگ (ن) یہ بیانیہ بنائے گی۔ مسلم لیگ اور تحریک انصاف آنے والے دنوں میں ایک دوسرے کے خلاف نئے مقدمات لے کر ایک بار پھر عدالت میں درخواستیں دائر کرنے والے ہیں۔ عمران خان کے خلاف تین نئی درخواستیں دائر کرنے کے لیے باالکل تیار ہیں‘ اسی طرح حدیبیہ کیس میں تحریک انصاف اب احتساب کے ادارے نیب کے خلاف سر گرم ہے لیکن پیپلزپارٹی اب مسلم لیگ (ن) کے خلاف قدرے نرم رویہ اپنانے کا فیصلہ کرچکی ہے، وہ بیک ڈور چینل سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) دونوں کے ساتھ روابط بڑھائے گی۔ دونوں جماعتوں کے ساتھ بیک وقت بیک ڈور چینل سے رابطے بڑھانے کا ایک خاص پس منظر ہے، تحریک انصاف کے ساتھ رابطے بڑھا کر وہ اسے کراچی میں متحدہ اور متحدہ کے اندر سے نکلنے والے گروپس پی ایس پی سے دور رکھنا چاہتی ہے تاکہ شہری سندھ سارے کا سارا ہی اس کے ہاتھ نہ نکل جائے مسلم لیگ( ن) کے ساتھ روابط بڑھانے کا مقصد سینیٹ انتخابات میں پنجاب میں کچھ ریلیف حاصل کرنا ہے اسے اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ پنجاب‘ کے پی کے میں اپنا سیاسی اثر رسوخ کھو چکی ہے رابطوں کی صورت میں ہونے والی پیش رفت کے باوجود ملک میں جمہوری نظام غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ ملکی معیشت بھی متاثر ہورہی ہے پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ سے ملکی قرضوں میں تین فی صد اضافہ ہوگیا ہے اور ادائیگی کا توازن بھی بری طرح متاثر ہوا ہے اگلے سال کے پہلے ماہ جنوری میں پاکستان کو قرض کی واپسی کی قسط ادا کرنی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں حکومت کا وجود نظر نہیں آرہا اور پارلیمنٹ میں ایسی اہلیت موجود نہیں کہ وہ جمہوریت اور سسٹم کو لاحق خطرات کا کوئی مداوا کر سکے یہی وہ پس منظر ہے جس کی بنیاد پر قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے جمہوری نظام کے حوالے سے بیان دے کر سیاست اور پارلیمانی حلقوں میں بھونچال پیدا کردیا ہے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے سسٹم کو لاحق خطرات، جمہوریت کا مستقبل اور موجودہ اسمبلیوں کے ختم ہونے کی طرف اشارہ کر کے ملک کے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے ان کے تحفظات ظاہر کر رہے ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے اس کا جواب جاننے کیلئے گذشتہ ایک سال میں پیش آنے والے حالات اور واقعات پر نظر ڈالنا پڑے گی۔ پاناما لیکس کے انکشاف نے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی بنیاد رکھی اور عدلیہ کا فیصلہ ایک طوفان ثابت ہوا ہے پاناما لیکس کے بعد اگرچہ پارلیمنٹ میں کمیٹی بنائی گئی لیکن یہ کمیٹی ٹی او آرز ہی نہ طے کرسکی اس کے بعد ایک بڑی طویل عدالتی سیاسی اور میڈیا جنگ کا اختتام نوازشریف کی نا اہلی کے فیصلے پر ہوا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے سینئر رہنمائوں سے آج کے سیاسی حالات اور مسائل پر کھل کر گفتگو ہوئی ہے یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگرچہ بیشتر سیاسی جماعتیں موروثی سیاست کے گڑھے میں گری ہوئی ہیں لیکن یہ عمل اب مقبولیت اور کامیابی کا میزان نہیں رہا‘ پیپلزپارٹی کی ہائی کمان میں یہ بات متعدد بار زیر بحث رہی کہ نواز شریف اگر حکومت میں رہتے ہوئے پیپلزپارٹی سے سیاسی روابط قائم رکھتے تو دونوں کے درمیان کبھی خلیج حائل نہ ہوتی۔ نواز شریف کی ناہلی کے بعد بھی معاملات سنبھل سکتے تھے لیکن نواز شریف نے پارلیمنٹ اور اپوزیشن کو اہمیت نہ دے کر خود اپنے لیے یہ گنجائش بھی ختم کرلی۔ اب ملک کے حالات یہ ہیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) جمہوریت بچانے‘ نظام کے تحفظ کے لیے کوئی کردار ادا بھی کرنا چاہیں تو یہ کام اب ان کے بس میں نہیں رہا۔ رہی سہی کسر عدالتی فیصلے نے پوری کردی ہے۔ کے فیصلے کو بار بار پڑھنا بہت ضروری ہے تاکہ ایک ہی مقدمے میں تین مختلف فیصلوں پر مسلم لیگ کا موقف سمجھا جاسکے، عمران خان کے مقدمے میںعدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’’عمران خان نے بنی گالہ اراضی اپنی فیملی کیلئے خریدی جبکہ انہیں رقم ان کی سابق اہلیہ جمائما نے دی عمران خان نے جمائما کی دی گئی رقم کاغذات میں بھی ظاہر کی تھی عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ عمران خان نیازی سروسز کے شیئر ہولڈر تھے نہ ڈائریکٹر، کپتان پر نیازی سروسز کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر کرنا لازم نہیں تھا۔ لندن فلیٹس نیازی سروسز کا اثاثہ تھا لیکن عمران خان نیازی سروسز کے شیئر ہولڈر نہیں تھے عمران خان لندن فلیٹ کے مالک تھے مگر ایمنسٹی سکیم میں انہوں نے یہ فلیٹ ظاہر کر دیا تھا عمران خان نے آف شور کمپنی کے بارے میں تین مخلتف موقف اپنائے اور ابھی تک یہ قانونی لحاظ سے مکمل وضاحت طلب بات ہے کہ کمپنی کب بند ہوئی‘ بند بھی ہوئی ہے یا نہیں‘سپریم کورٹ نے عمران خان کیخلاف غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات مسترد کردیے کہ یہ الزام پانچ سال پرانے واقعات پر ہیں لہذا عدالت نہیں جائزہ لے سکتی اور غیر ملکی فنڈنگ پر درخواست گزار متاثرہ فریق بھی نہیں ہے اور اپنے فیصلے میں یہ بھی قرار دیا کہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی غیر ملکی فنڈنگ دیکھنے کا پابند ہے الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کی سکروٹنی کرے جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ترین نے اعتراف جرم کیا اور جرمانہ بھی ادا کیا، لہذا انہیں تاحیات نااہل کیا جاتا ہے عدالت مطمئن نہیں کہ جہانگیر ترین نے بینکوں سے قرضے معاف کرائے۔ جہانگیر ترین 29 دسمبر 2010ء سے 4 فروری 2013ء تک ایف پی ایم ایل کمپنی کے ڈائریکٹر و شیئرہولڈر رہے اس عرصے کے دوران قرض معاف نہیں کرائے گئے کمپنی ہائیڈ ہاؤس نامی 12 ایکٹر جائیداد شائینی ویو آف شور کمپنی کا اثاثہ تھی اس جائیداد کے اصل بینیفیشل مالک جہانگیر ترین تھے جائیداد کی خریداری و تعمیر کے لیے 50 کروڑ روپے بیرون ملک بھیجے گئے شائنی ویو یا ہائیڈ ہاؤس کسی ٹرسٹ کو منتقل نہیں کئے گئے اس اثاثے کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا ان کا شائینی ویو اور ہائیڈ ہاؤس میں بینیفیشل انٹرسٹ ہے۔ 5 مئی 2011ء کی ٹرسٹ ڈیڈ ظاہر کرتی ہے کہ جہانگیر ترین اور ان کی اہلیہ تاحیات بینیفیشری ہیں۔ جہانگیر ترین نے اعلیٰ ترین عدالت میں کھلا جھوٹ بولا۔ ملک کی اتنی بڑی عدالت میں اس طرح جھوٹ بولنا ایک ایماندار آدمی کا کام نہیں ہو سکتا، جہانگیر ترین آرٹیکل 62 ون ایف اور عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 99 کے تحت نااہل ہیں جہانگیر ترین رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے اپنی نشست فوری طور پر چھوڑ دیں‘‘ پاناما پیپرز لیکس پر عمران خان نے شریف فیملی کے احتساب کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ن لیگ کے حنیف عباسی نے دو نومبر 2016ء کو عمران خان کی آرٹیکل 62 ون ایف پر نا اہلی کیلئے انہیں عدالت میں کھینچ لیا تھا۔حنیف عباسی نے اپنی درخواست میں آف شور کمپنی چھپانے، تحریک انصاف کے لئے غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ جمع کرنے، کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کرنے، بنی گالہ اراضی اہلیہ کے نام بے نامی خریدنے، ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے غیرقانونی فائدہ اٹھانے کے الزامات عائد کیے تھے یہ اہم ترین مقدمہ بہت سے نشیب و فراز سے گزرا سپریم کورٹ نے 7 نومبر کو پہلی سماعت پرعمران خان سے جواب طلب کیا۔ کپتان نے 23 نومبر کو پیش کردہ تحریری جواب میں بنی گالہ اراضی خود خریدنے کا مؤقف اپنایا۔ 23 نومبر 2016 کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے باعث بنچ ٹوٹ گیا اور کیس پانچ ماہ تک زیرالتوا رہا،چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تین مئی 2017ء سے مقدمے کی سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔ 18 مئی کو عمران خان نے دوسرا بیان حلفی جمع کرایا جس میں جمائما سے قرضہ لینے کا بتایا اور اپنے نمائندہ راشد خان کا بیان بھی پیش کیا۔ ن لیگ نے راشد خان کے بیان کو عمران خان کا قطری خط قراردیا۔ عدالت نے لندن فلیٹ خریداری کی منی ٹریل پر سوالات کئے تو عمران خان نے 22 جولائی کو منی ٹریل کے نامکمل ہونے کا اعتراف کر لیا۔ چیف جسٹس نے ممنوعہ فنڈنگ کے معاملہ پر ریمارکس دیئے کہ دوسروں کی دیانت داری پر بات کرنے والے کے احتساب میں کوئی حرج نہیں۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ 2003ء میں لندن فلیٹ کی فروخت کے بعد آف شور کمپنی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ عدالت نے جمائما خان کو قرض کی واپسی کا ریکارڈ طلب کیا تو انکشاف ہوا کہ لندن فلیٹ کی فروخت کے بعد بھی کمپنی اکاؤنٹ میں لاکھوں پاؤنڈ اور یورو کی ٹرانزیکشن ہوتی رہیں۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ کمپنی کی قانونی حیثت نہیں تھی تو اتنی بڑی رقمیں کیسے آتی جاتی رہیں عمران خان نے بنی گالہ اراضی کی خریداری پر مؤقف 3 بار بدلا، انہیں پاناما فیصلے میں طے معیار کی رو سے، جھوٹ بولنے اور کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی پر نا اہل قرار دیا جائے اختتامی دلائل میں موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل سے گوشواروں میں غلطی ہو سکتی ہے غلط بیانی نہیں۔ عدالت نے سوال اٹھایا کیا پانامہ کیس میں تنخواہ کا نہ بتانا غلطی تھی یا غلط بیانی؟ چیف جسٹس ثاقب نثار نے 14 نومبر کو آخری سماعت میں کہا عدالت کو سچ کی تلاش ہے، دستیاب مواد سے فیصلہ کریں گے کہ عمران خان یا حنیف عباسی میں سے کس نے سچ بولا‘ عدالت کے فیصلے نے سب کچھ بتادیا بہر حال اب اس کیس کا فیصلہ ہوچکا اور عدالت کے فیصلے پر قانونی حلقوں‘ وکلاء اور سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں نے اپنا اپنا رد عمل دیا ہے اور اس فیصلے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار کی بار کونسل کی تقریب میں ہونے والی گفتگو نے تو ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، سیاسی جماعتوں کے رد عمل میں تلخی اس لیے بھی ہے کہ ان کے نزدیک عمران خان سے متعلق حالیہ عدالتی فیصلے نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ قومی اسمبلی کی سیاسی جماعتوں میں صرف تحریک انصاف ایک ایسی جماعت ہے جو ایک خاص دیوار کے سائے میں بیٹھ کر فیصلے کر رہی ہے اور انتخابی مہم بھی چلارہی ہے جب کہ دیگر تمام جماعتیں غیر یقینی کے صحرا میں بھٹک رہی ہیں اور اپنی سیاسی قسمت کے فیصلے کی منتظر ہیں۔ پارلیمنٹ میں اس وقت انتخابات کے حوالے سے ایک بڑی قانون سازی حلقہ بندیوں کی صورت میں ہونے والی ہے۔ پارلیمنٹ میں یہ قانون سازی مستقبل کے سیاسی نقشے کو واضح کردے گی، اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اس حقیقت کو سمجھیں کہ ن لیگ کی حکومت کے بقیہ چھے ماہ کے بعد انتخابات کے ذریعے اقتدار کا منظر بدل سکتا ہے اور اپوزیشن جماعتیں کل کو اقتدار میں آ سکتی ہیں، اگر ان کی کوششوں سے ملک میں منتخب حکومت غیر آئینی طور پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی تو کل ان کی باری آنی بھی مشکل ہے آج معاملات کو آگے لے جانے اور انتخابات کیلئے کسی مثبت نتیجہ پر پہنچنے کا آخری موقع وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پارلیمانی لیڈرشپ کو مصالحت اور مشاورت کیلئے بلا کر دیا ہے اگر آج فاٹا اصلاحات اور حلقہ بندیوں پر ترمیم کے بل کو حتمی شکل نہیں ملتی تو پھر آئندہ انتخابات کیلئے معاملات پارلیمنٹ کے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور اس کی ذمہ دار حکومت کے ساتھ تمام اپوزیشن بھی ہو گی۔

سینیٹرز کے سوالات پر آرمی چیف کا ردعمل

ملکی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ کو آرمی چیف کی طرف سے بریفنگ دی گئی۔ سینیٹ ہول کمیٹی کے اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ ملکی سلامتی اور استحکام کی خاطر سب کو مل کر چلنا ہو گا۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے ارکان سینیٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ جمہوری عمل کے ساتھ کھڑے ہیں، دھرنوں میں فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، فوج اپنی آئینی حدود میں کام کر رہی ہے، مسلم ممالک پر پاکستان کی پالیسی غیرجانبدار ہے۔ آرمی چیف نے دھرنوں میں فوج کا کردار ہونے کے تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ دھرنے کے متعلق مسلسل اپڈیٹ لیتا رہا کیونکہ کسی بڑے سانحے سے بچنے کی خواہش تھی، دھرنے میں کسی صورت عسکری اداروں کا کردار نہیں تھا، جمہوری عمل کے ساتھ کھڑے ہیں اور فوج اپنی آئینی حدود میں کام کر رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹی وی پر تجزیہ کرنے والے ریٹائر افسران پاک فوج کے ترجمان نہیں۔ ملک کو درپیش بیرونی خطرات اور خارجہ پالیسی کے متعلق سوالات پر جنرل باجوہ نے کہا کہ پاکستان کو دشمن خفیہ ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ کا سامنا ہے، بیرونی سازشوں کے متعلق جانتے ہیں، ایران اور سعودی عرب کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے مطابق چلتے ہیں، ملکی استحکام کے لئے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔
ایک گھنٹے کی بریفنگ کے بعد سوال و جواب کی 3 گھنٹے تک جاری رہنے والی طویل نشست ہوئی جس میں سینیٹرز کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سپہ سالار نے کہا:
1۔ صدارتی نظام پاکستان کی ضرورت نہیں۔
2۔ پارلیمانی نظام کو چلنا چاہئے۔
3۔ خارجی اور دفاعی پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے۔
4۔ فوج کا کام حکومتی پالیسیوں پر عمل کرنا ہے۔
5۔ اگر حکومت ڈرون گرانے کا کہے تو گرا دیں گے۔
6۔ حالیہ دھرنے میں فوج کا کوئی کردار نہیں تھا۔
7۔ دھرنا شروع میں ہی ختم ہو جاتا تو بہتر تھا۔
8۔ دھرنے کے معاہدے میں فوجی افسر کا نام نہ ہوتا تو بہتر تھا۔
9۔ فوجی افسر کا نام نیک نیتی سے لکھا گیا۔
10۔ فوجی افسر کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہو رہا تھا۔
11۔ دھرنے کے معاملے میں کسی بڑے سانحے سے بچنے کی خواہش تھی۔
12۔ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے پر تشویش تھی۔
13۔ دھرنے سے خوش اسلوبی سے نمٹنے کا مشورہ دیا۔

پہلا اور آخر سوال

سینیٹ میں بریفنگ کے بعدآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے پہلا سوال پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اورآخری سوال قائد ایوان راجا ظفر الحق نے کیا۔ذرائع کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ امید ہے ان کے جواب تحریک استحقاق کے زمرے میں نہیں آئیں گے،ان کی بات پر ایوان میں قہقہے گونج اٹھے اس پر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ امید ہے ہمارے سوالات سے آپ کو بھی پریشانی نہیں ہوگی،ایک بار پھر ایوان میں قہقہے گونجے آرمی چیف سے آخری سوال قائد ایوان راجاظفرالحق نے کیااور کہا کہ چیف صاحب کیایہ بریفنگ بہت پہلے نہیں ہوجانی چاہیے تھی۔ذرائع کے مطابق اس سوال پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جواب میں کہا کہ ہم تو کب سے انتظار کررہے تھے۔